﷽
نقل 1
ایک ساہوکار پوتڑوں کا رجّا زمانے کے پیچ پاچ میں آ اپنی دولت سب کھو بیٹھا اور لگا نپٹ دکھ پانے اور فاقے کڑاکے کھینچنے۔ نِدان اس کے جی میں یہ خیال گذرا کہ جو میں کسی مہا پُرس یا سِدھ کے پاس جاؤں تو یہ دکھ مٹے۔ کیونکہ سنا ہے سادھ کے درشن سے بیادھ جاتی ہے۔ اتنا بچار چلا چلا ایک جوگی کے پاس گیا۔ یہ اُسے کچھ نہ کہنے پایا کہ اُس نے اپنے جوگ سے اِس کا مطلب دریافت کر کے کہا۔ دوہا ؎
سکھ دکھ پَرَتِ دن سنگ ہیں میٹ سکے نہیں کوے
جیسے چھایا دیہ کی تیاری نیک نہوے
یہ معقول جواب پا وہ بچارا صبر کر اپنے گھر آیا۔
نقل 2
ایک اندھا بیراگی کاشی کے بیچ منکرنِکا گھاٹ پر بیٹھا گہن میں دہی پیڑے کھا رہا تھا کہ دیکھ کر کسی پنڈت نے پوچھا: سورداس جی! یہ کیا کرتے ہو؟ بولا: مہاراج! دہی پیڑے کھاتا ہوں۔ کہا: گہن میں؟ جواب دیا: بابا! میرے گرو کی دیا سے سدا ہی گہن ہے۔ یہ سن پنڈت ہنس کر چپ ہو رہا۔
نقل 3
کوئی راجپوت بہت افیم کھاتا تھا۔ اتفاقاً اسے سفر درپیش ہوا اور کسی منزل میں جا کر اترا۔ وہاں کے لوگوں نے آکر اِس سے کہا کہ ٹھاکر صاحب! یہاں چوری بہت ہوتی ہے۔ آپ چوکسی سے رہیے گا۔ یہ بات سن کر رات تو اس نے جاگ کر کاٹی، پر یہ بات جی میں رکھی کہ چوری بہت ہوتی ہے۔
فجر ہوتے ہی گھوڑے کی پیٹھ لگا، ایک شہر کے بیچ چلا جاتا تھا کہ ایکا ایکی پینک سے چونک کر پکارا: ارے رمچیرا ارے رمچیرا! گھوڑا کہاں؟ وہ بولا: مہاراج! گھوڑے پے تو بیٹھے ہی جاتے ہو اور گھوڑا کیسا؟ کہا: بیٹا! اس بات کا کچھ مضایقہ نہیں، لیکن ہُشیار رہنا خوب ہے۔
نقل 4
ایک بنیاں کہیں گیا تھا۔ دو تین دن بعد وہاں سے آیا تو اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند پایا۔ پکارا: کواڑا کھولیو۔ بھیتر سے اُس کی جورو نے جواب دیا کہ کھولوں ہوں بابا۔ اس نے سن کر کہا: اے رانڈ! کیا بکتی ہے؟ وہ بولی: میری آنکھ دُکھے ہے۔ کہا: آنکھ کی تو سچ ہے میّا۔
نقل 5
پٹھانوں کی کسی بستی میں ایک ملا تھا۔ جو کچھ فاتحہ درود کا ان کے کام ہوتا، اس کو بلا لیتے اور اپنا کام کروا لیتے۔ اِس میں شب برات جو آئی تو ہر ایک کے گھر سے اُسے بلاہٹ ہوئی۔ تب اس کے کسی آشنا نے پوچھا کہ کہو دوست! آج تم اکیلے کیا کروگے اور کس طرح گھر گھر فاتحہ پڑھوگے؟ بولا: بھائی! مجھے فاتحہ پڑھنے سے کیا کام۔ مردہ دوزخ جائے یا بہشت، مجھے اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔
نقل 6
کسی نے ایک گیانی سے پوچھا کہ مہاراج! آدمی جگ میں پیدا ہو کر دکھ سے کیوں کر چھوٹے۔ سو دَیا کر مجھ سے کہو۔ تب اس نے اِس کو جواب تو نہ دیا، پر یہ دوہا پڑھا ؎
بھگت مان بھگتے بنے گیانی مورکھ دوئے
گیانی بھگتے گیان سوں مورکھ بھگتے روئے
نقل 7
دو کلاونت دکھن سے کمائی کیے دلّی کو چلے آتے تھے کہ راہ میں دوڑوں نے آئے لیا اور لگے برچھیاں بھالے اٹھائے اٹھائے مار مار ڈال ڈال پکارنے۔ اُس وقت یے دونوں بھی جھٹ گاڑی سے اتر چٹ پرتل کے ٹٹو پر جا بیٹھے اور لگے ان سے پوچھنے کہ بلیّا لوں! مار مار ڈار ڈار ہی کر ہی کر جانیو ہے، کی کبھو چوپڑ ہو کھیلے ہو؟ اُن میں سے ایک بولا کہ کیوں؟ اِنھوں نے کہا کہ کہوں جُگ ہو ماریو جاتُ ہے۔ اس لطیفے سے وے بہت خوش ہوئے اور انھیں نہ لوٹ ہنس کر چلے گئے۔
نقل 8
کسی ٹھاکر دوارے میں کئی ایک عطائی چین سے بیٹھے گائے رہے تھے اور بہت سے لوگ کھڑے سنتے تھے۔ اِس میں ایک ڈھیٹھ بیراگی آیا اور اُن کے ہاتھ سے تنبورا لے سب کے بیچ میں بیٹھ لگا بے سُرا ہو گانے۔ اُس کا کھٹراگ سن سب اداس ہوئے پر کوئی کچھ نہ بولا۔ ندان ایک چوبے کھڑا سنتا تھا۔ اس نے کہا: بابا جو! بس کرو بس کرو، بہت گائے۔ بیراگی نے کھجلا کے جواب دیا: مہاراج! میں تو اپنے ٹھاکر کو رِجھاتا ہوں۔ اور کوئی ریجھا تو کیا اور نہ ریجھا تو کیا۔ چوبے بولا: سارے مو کوں تو رجھائے ہی نہ سکیو۔ کہا: ٹھاکر مو ہو سوں کوڑھ ہے جو تو رجھائے لیگو۔ یہ سن وہ شرمندہ ہو چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔
نقل 9
کئی ایک امیر زادے کسی جگہ ایک میخ گاڑ اس پر رُپیا رکھ تیر اندازی کرتے تھے اور شرط یہ تھی کہ جو اس رپے کو اُڑاوے سو لے۔ اتفاقاً کسی آزاد نے جا وہیں اُن سے سوال کیا کہ بابا! کچھ مولا نام کا سودا کرو۔ ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا: شاہ صاحب! نشانہ مارو اور رُپیا لو۔ فقیر نے جھٹ اس کے ہاتھ سے تیر کمان لے یا معبود کرکے ایک اٹکل پچو مارا کہ وہ رُپیا اُڑ گیا۔ وے بولے: واہ وا۔ اِن نے دوڑ کر رُپیا تو اٹھا لیا اور کہا: کیوں بابا! فقیر کو کچھ جواب نہ ملا۔ اُن میں سے ایک نے کہا: سائیں! روپیا تو لیا، اب کیا کہتے ہو۔ بولا: بابا! یہ تو میخ مار کے لیا ہے۔ ابھی فقیر کا سوال باقی ہے۔
نقل 10
ایک واعظ کسی گانو میں کتنے ایک آدمیوں کو وعظ کرتا تھا۔ اِس میں کوئی گنوار بھی وہاں آ بیٹھا اور لگا اُس کا منہ دیکھ دیکھ بے قرار ہو رونے۔ اِس کو روتا دیکھ سب نے جانا کہ یہ کوئی بڑا موم دل ہے جو اتنا روتا ہے۔ ایک نے اس سے پوچھا کہ بھائی! سچ کہہ، تو جو اتنا روتا ہے تیرے دل میں کیا آیا ہے۔ واعظ کو انگلی سے بتا۔ بولا کہ ان میاں کی ڈاڑھی ہلتی دیکھ مجھے اپنا مُوا ہوا پیارا بکرا یاد آیا کہ جب نہ تب اس کی بھی اسی طرح ڈاڑھی ہلتی تھی، اس لیے میں روتا ہوں۔ یہ سن سب کھل کھلا اٹھے اور واعظ شرمندہ ہو دم کھا رہا۔
نقل 11
کوئی بڑا دولت مند تھا، پر اُس کے فرزند نہ تھا۔ اُس نے لڑکے کی خاطر بہتیرے تردد کیے اور رُپے خرچ لیکن نہ ہوا۔ تب اس نے ہار مان ایک غریب لڑکے کو گود لیا اور اپنے مال اموال کا مالک کیا۔ کتنے ایک دن بعد وہ مر گیا۔ یہ اُس مال کو پاتے ہی لگا اندھا دھند لٹانے اور کُچال چلنے۔ اس کی یہ چال دیکھ کسی نے ایک سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب جو یہ دولت پاتے ہی بُکلایا۔ اُس نے اُس کے جواب میں یہ دوہا پڑھ سنایا ؎
کنک کنک تیں سوگُنی ما دِکتا ادِھکائے
دُہ کھائے بَو رات ہے یہ پاے بورائے
نقل 12
متھرا کے چوبے بڑے ٹھٹھے باز ہوتے ہیں۔ ایک دن کوئی چوبے بازار سے مارو بینگن خرید لایا۔ دیکھ کر اُس کی جورو نے پوچھا: کہا بھرتا کروں؟ یہ بولا: موتیں کہا چوک پری۔ اُس نے جواب دیا: لوگ تمھیں جویسی کہت ہیں۔ یہ سن چوبے لاجواب ہوا۔
نقل 13
لاڑ کپور نام دو کلاونت اکبر کے یہاں تھے۔ اکثر بادشاہ ان سے چہل کرتے۔ اس سے وے بھی گستاخ ہو رہے تھے۔ ایک دن بادشاہ نے اُن میں سے کسی کو کہا: گاؤ۔ وہ بولا: نہیں جہاں پناہ! بیل۔ پھر حضرت نے فرمایا: ابے کچھ بول۔ جواب دیا: مول بیس رُپے۔ پھر شاہ نے کہا: کیا حرام زادہ ہے۔ اس نے کہا: حرام زادہ ہو تو کوڑی نہ لوں۔ اتنی بات کے سنتے ہی بادشاہ نے خفا ہو کر انھیں کہا کہ میرے ملک میں رہے تو بے طرح پیش آؤں گا؛ اور قلعے سے نکلوا دیا۔ یے مارے ڈر کے دن کو تو دو کوسی چو کوسی شہر کے باہر گانو میں نکل جاتے اور رات کو آتے۔ اسی بھانت نت شام کو آؤتے اور دو گھڑی کے تڑکے چلے جاتے۔
اتفاقاً ایک روز یے ادھر سے جاتے تھے اور اُدھر سے شکار کیے بادشاہ گھوڑے پر سوار چلے آتے تھے۔ یے دور سے دیکھتے ہی ایک اونچے بڑ کے درخت پر جا چڑھے اور انھوں نے بھی گھوڑا مار اسی پیڑ کے نیچے لا کھڑا کیا اور انھیں پہچان کر کہا: کیوں بے! میں نے جو تم سے کہا تھا کہ میرے ملک میں نرہنا۔ جواب دیا: بلیّا لیوں! ہم سب ملکن میں پھر آئے، جہاں دیکھیو تہاں آپ ہی کو ملک دیکھیو۔ یا تیں ہار مان اب آسمان کی راہ لئی ہے۔ اِس لطیفے سے خوش ہو بادشاہ نے ان کی تقصیر معاف کی اور نوکری بحال۔
نقل 14
کسی کنجڑن کے چالیس برس کی عمر میں بڑی آرزو کرتے کرتے ایک بیٹی ہوئی۔ اُن نے نپٹ لاڑ پیار سے اس کا نام فضیحتی رکھا۔ قضاکار وہ دو تین برس کی ہو کر مر گئی۔ اُس کے غم سے وہ نت شام صبح نام لے لے رویا کرے۔ ایک دن سو “ہاے میری فضیحتی ہاے میری فضیحتی” کر کے رو رہی تھی کہ اِس میں اُس کا خاوند آیا اور سمجھانے لگا کہ سن نیک بخت! ہماری تمھاری حیات باقی اور خدا کا فضل چاہیے تو ایک فضیحتی کو کیا روتی ہے، بہتیری فضیحتی ہو رہیں گی۔
نقل 15
ایک کایتھ کم سوار گھوڑے پر بیٹھا بازار میں چلا جاتا تھا۔ کسی شاہ سوار نے اسے مینڈکی سے بھی پیچھے ہٹا بیٹھا دیکھ کے کہا کہ بھیا جی! ذرا آگے ہٹ بیٹھو۔ بولا: کیوں؟ کہا: آسن خالی ہے۔ پھر اس نے جواب دیا: کیا تمھارے کہے سے ہٹ بیٹھیں گے۔ جیسے سائیس نے بیٹھا دیا ہے تیسے بیٹھے چلے جاتے ہیں۔
نقل 16
ایک بنیاں جو بٹ لاتا سو نِت کا نت غریب بھوکھے پیاسوں کو بانٹ دیتا اور آپ نہنگ لاڑلا ہو رہتا۔ ایک دن اس کے بڑے بھائی نے پانچ چار پڑوسیوں کو بٹھائے اس سے کہا کہ بھائی جی! ہم مہاجن ہیں۔ ہمیں پونجی رکھ بیوہار کیا چاہیے۔ اس طرح بے ٹھور ٹھکانے دیا کریں تو ہماری مہاجنی کیوں کر رہے۔ جواب دیا: بھائی صاحب! کیا تم نے یہ دوہا بھی نہیں سنا جو ایسی بات کہتے ہو ؎
سب سے دیا انوپ ہی دیا کرو سب کوئے
گھر میں دھرا نپائے جو کر دیا ہوئے
نقل 17
کوئی غصے ور اندھا کہیں کو چلا جاتا تھا کہ ایک اندھے کوے میں گر پڑا اور لگا پکارنے کہ چلیو دوڑیو لوگو! میں کوے میں گر پڑا۔ لوگ رحم کھا دوڑ کے وہاں گئے اور کوے کے من گھٹے پر کھڑے ہو اس کے نکالنے کا تردد کرنے لگے۔ کچھ دیر جو ہوئی تو بھیتر سے خفا ہو بولا کہ جلدی نکالتے ہو تو نکالو، نہیں تو میں کدھر ہی کو چلا جاتا ہوں مجھے پھر نپاؤ گے۔
نقل 18
کسی بڑے آدمی کے پاس ایک خوش مسخرا آ بیٹھا تھا اور ان کے یہاں کہیں سے گڑ آیا۔ اس نے ظرافت سے کہا کہ خداوند! میں نے عمر بھر میں تین دفعہ گڑ کھایا ہے۔ بولا: بیان کر۔ کہا: ایک تو چھٹھی کے دن جنم گھونٹی میں کھایا تھا اور ایک کان چھدایا تھا تب اور ایک آج کھاؤں گا۔ اُن نے کہا: جو میں ندوں۔ بولا: دو ہی دفعہ کھایا سہی۔
نقل 19
پانچ چار پوستی کسی مکان پر بیٹھے زٹل مارتے تھے کہ ان میں سے ایک کا پیالہ جوں مَل کر تیار ہوا، بولا: پوستی نے پیا پوست نو دن چلا اڑھائی کوس۔ یہ سن کوئی دوسرا بول اٹھا کہ وہ پوستی نہوگا، کوئی قاصد ہوگا۔ پوستی نے پیا پوست تو کونڈے کے اِس پار یا اُس پار اور جو بیچ میں جگہ پاوے تو وہیں مقام کرے۔
نقل 20
دو آشنا مل کر سیر کو نکلے اور چلے چلے دریا کنارے پر پہنچے۔ تب ایک نے دوسرے سے کہا کہ بھائی! تم یہاں کھڑے رہو تو میں جلدی سے ایک غوطہ لگا لوں۔ اُس نے کہا: بہت بہتر۔ یہ سن وہ بیس روپے اِسے سپرد کر کپڑے کنارے پر رکھ جوں پانی میں بیٹھا توں اس نے چالاکی سے وے روپے کسی کے ہاتھ اپنے گھر بھیج دیے۔ اس نے نکل کپڑے پہن رُپے مانگے۔ یہ بولا: حساب سن لو۔ اس نے کہا: ابھی دیتے دیر بھی نہیں ہوئی، حساب کیسا۔ غرض دونوں سے تکرار ہونے لگی اور سو پچاس آدمی گھر آئے۔ اُن میں سے ایک نے رُپے والے سے کہا کہ میاں! کیوں جھگڑتا ہے، حساب کس لیے نہیں سن لیتا۔ ہار مان اس نے کہا: اچھا کہہ۔ وہ بولا: جس وقت آپ نے غوطہ مارا، میں نے جانا ڈوب گئے۔ پانچ رُپے دے تمھارے گھر خبر بھیجی۔ اور نکلے تب بھی اور پانچ رُپے خوشی کی خیرات میں دیے۔ رہے پانچ سو میں نے اپنے گھر بھیجے ہیں۔ وِن کا کچھ اندیشہ ہو تو مجھ سے تمسک لکھوا لو۔ یہ دھاندھل پنے کی بات سن وہ بِچارا بولا: بھلا صاحب بھر پائے۔
نقل 21
دو کایتھ عقل مند لکھے پڑھے کسی مکان پر بیٹھے بحثتے تھے۔ ایک کہتا تھا کہ آدمی اُتّم برن میں پیدا ہونے سے پنڈت چتُر ہوتا ہے، اور دوسرا کہتا تھا کہ اچھی سنگت سے۔ ان کا بحثنا دیکھ کسی مردے آدمی نے کہا کہ اس بحثنے سے تو تمھارا قضیہ نہ مٹے گا۔ بہتر ہے کہ اس معاملے میں کسی کو منصف مانو۔ یہ بات اُن دونوں کو پسند آئی اور سورداس جی کے پاس جا کر ہر ایک نے اپنا دعویٰ اظہار کیا۔ سنتے ہی سورداس نے ان کے جواب میں یہ دوہا پڑھا ؎
سوات بوند سیپی مکت کدلی بھیو کپور
کارے کے مکھ بِش بھیو سنگت سوبھا سور
نقل 22
کوئی پوستی جنگل میں بیٹھا پیالے میں پوست گھول رہا تھا۔ اتفاقاً کسی جھاڑ جھوڑ سے ایک خرگوش جو نکل دوڑا تو اس کے دھکے سے اِس کا پیالا لڑھک پڑا۔ یہ خفا ہو بولا کہ تجھ سے کیا کہیں بھلا، تیرے مربّی ہی سے جا کر کہیں گے۔ اتنا کہہ کونڈی سونٹا بغل میں دبا شہر میں جا ہر ایک چوپاے کو دیکھتا چلا۔ ندان ایک گدھے کو جو اس کے رنگت سے مشابہ پایا تو گدھے والے سے جا کر کہا کہ تیرے اس جانور کے بیٹے نے میرا پوست کا پیالا بھرا ہوا لڑھا دیا۔ اس نے کہا کہ جس کے بیٹے نے لڑھایا ہے وِسی سے جا کے کہو۔ یہ سن وہ گدھے کے پاس جا اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ چاہے کہ کچھ کہے، ووہیں اس نے پھر کر ایک ایسی دُلتّی ماری کہ یہ بچارا آہ کر بیٹھ گیا اور ہنس کر بولا کہ کیوں نہو، جس کا مربّی ایسا ہو وِس کا لڑکا ویسا ہوا ہی چاہے۔ اتنا کہہ چلا آیا۔
نقل 23
ایک بادشاہ نے کسی سے کہیں یہ بات سنی تھی کہ پورب کے لوگ بڑے بد لحاظ و بے تمیز ہوتے ہیں۔ اس بات کے امتحان کرنے کو بادشاہ نے چار طرف سے چار رنڈیاں منگوا تربیت کروا اپنی خدمت میں رکھیں۔ کئی برس کے بعد ایک دن بادشاہ محل سرا میں سرِ شام سے بیٹھے ناچ دیکھتے تھے اور چار گھڑی رات پچھلی باقی رہ گئی تھی۔ اُس وقت شاہ نے وہ بات یاد کر کے پہلے پچھم والی رنڈی سے پوچھا کہ رات کتنی ہوگی؟ وہ بولی: جہاں پناہ! رات تھوڑی ہے۔ کہا: تو نے کس طرح جانا؟ عرض کی کہ نتھ کے موتی ٹھنڈے لگتے ہیں۔ پھر دکھن والی سے پوچھا کہ شب کتنی ہوگی؟ جواب دیا کہ عنقریب ہے کہ فجر ہو۔ فرمایا: تو نے کیوں کر دریافت کیا؟ بولی: پان سیٹھا لگتا ہے۔ بعد اتّر والی سے پوچھا: جو رین کس قدر ہوگی؟ کہا: نپٹ تھوڑی ہے۔ ارشاد فرمایا: تیں نے کس ڈھب سے معلوم کیا؟ بولی: حضرت سلامت! چراغ کی جوت مند ہوئی۔ پیچھے پوربنی سے پوچھا کہ نِس کتنی رہی ہوگی؟ اتّر دیا: نہایت تھوڑی ہے۔ بولے: تو نے کیسے جانا؟ عرض کی کہ جہاں پناہ! مجھے پاخانے کی حاجت ہوئی ہے۔ اس بات کے سنتے ہی سب بیگمات اور سہیلیاں کھل کھلا اٹھیں۔ تب شاہ نے خفا ہو یہ کہہ اُسے اُٹھوا دیا کہ اُس شخص نے سچ کہا تھا۔ اُس ملک کے لوگ لائق بادشاہوں کی مجلس کے نہیں۔
نقل 24
ایک دن اکبر بادشاہ نے بیربل سے کوئی بات کہہ کے اس کا جواب پوچھا۔ بیربل نے وہ جواب دیا کہ جو بادشاہ کے دل میں ٹھہرا تھا۔ سن کر شاہ نے کہا کہ یہی بات میرے بھی جی میں آئی ہے۔ بیربل بولا کہ پیر و مرشد! یہ وہی بات ہے جو سو سیانے ایک مت۔ شاہ نے کہا کہ یہ مثل بھی تو مشہور ہے جو سر سر عقل گُر گُر بدیا۔ پھر بیربل نے عرض کی کہ جہاں پناہ! مزاج میں آوے تو اس بات کو آزما لیجیے۔ فرمایا: بہت اچھا۔ اتنی بات کے سنتے ہی بیربل نے شہر میں سے سو عقل مند بلا بھیجے اور دو پہر رات کے وقت بادشاہ کے حضور انھیں ایک خالی حوض بتا کر کہا: حضور کا حکم ہے کہ اسی وقت ہر ایک آدمی ایک ایک گھڑا دودھ کا بھر کر اس حوض میں لا ڈالے۔ حکمِ بادشاہی کو سنتے ہی ہر ایک نے اپنے جی میں یہ بات سمجھ کے کہ جہاں ننانویں گھڑے دودھ کے ہوں گے تہاں میرا ایک گھڑا پانی کا کیا معلوم ہوگا، پانی ہی لا ڈالا۔ بیربل نے شاہ کو دکھایا۔ شاہ نے ان سب سے کہا: تم نے کیا سمجھ کے میرے حکم کو نمانا؟ سچ کہو، نہیں تو بے طرح پیش آؤں گا۔ وِن میں سے ہر کسی نے ہاتھ باندھ باندھ کر کہا کہ جہاں پناہ! خواہ ماریے خواہ چھوڑیے، غلام کے جی میں یہ بات آئی کہ جہاں ننانویں گھڑے دودھ کے ہوں گے وہاں ایک گھڑا پانی کا کیا معلوم ہوگا۔ یہ بات سب کی زبانی سن کر بادشاہ نے بیربل سے کہا: جو کانوں سنتے تھے سو آنکھوں دیکھا کہ سو سیانے ایک مَت۔
نقل 25
ایک شخص بڑا افیمی تھا۔ اُس کے یہاں کوئی خدمت گار نیا نوکر ہوا۔ اُن نے اس سے پوچھا کہ میاں! تو کچھ نشہ تو نہیں پیتا؟ بولا: پیر مرشد! غلام سواے افیم اور کسی نشے سے آشنا نہیں۔ یہ بات سن بہت خوش ہو افیم کی ڈبیا نکال اُن نے آپ کھا اُسے دے کر کہا کہ میاں! آج ہمارا جی چاہتا ہے میٹھے چانول جلدی سے پکا دو تو کھائیں۔ “بہت خوب” کر کے پکانے لگا۔ اس میں پینک جو لگی تو دوپہر گذر گئی۔ آقا نے پکار کر کہا کہ ارے بھائی! چانول پکے یا نہیں؟ بولا کہ خداوند! پک چکے ہیں پر دم دینا باقی ہے۔ کہا: جلدی لاؤ۔ قصہ کوتہ، بہزار خرابی فجر سے پکاتے پکاتے شام کو تیار کر لے گیا۔ دیکھ کر آقا نے کہا: شاباش! کیا جلدی پکا لایا ہے۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ ہاتھ جوڑ کر بولا کہ قبلہ! فدوی سے آپ کی نوکری نہو سکے گی۔ کہا: کیوں؟ جواب دیا: ایسی شتابی میں ایک روز میری جان جاتی رہے گی۔ اور چلا گیا۔
نقل 26
شاہ جہاں بادشاہ دارا شکوہ شاہزادے کو بہت چاہتے تھے۔ ایک روز انباری دار ہاتھی پر سوار اور دارا شکوہ خواصی میں چلے جاتے تھے۔ اس میں شاہزادے نے ایک طرف دیکھا جو کوئی ساہوکار بچی سولہ سترہ برس کی جس کا چاند سا مکھڑا کاجل مسّی لگائے پان کھائے نکھ سکھ سے سنگار کیے جوانی کا مد پیے دونوں ہاتھ کواڑ کے دونوں بازؤں پر دیے بے حجاب کھلے بندوں کھڑی دیکھتی ہے۔ وِس کی بے باکی دیکھ شاہزادے نے ریجھ کر باپ سے کہا: جہاں پناہ! دیکھیے یہ عورت کس بے حجابی سے ادھر دیکھتی ہے۔ شاہ نے شہزادے کی بد طینتی دیکھ فرمایا: بابا جان! باپ بھائی کے روبرو حجاب کیا چاہیے۔ یہ سن شہزادہ شرما کر چپ ہو رہا۔
نقل 27
کسی تیرتھ کے نزدیک ایک مٹھ میں کتنے ایک فقیر راماوت نیماوت نانک پنتھی دادو پنتھی سنیاسی بیٹھے آپس میں مت کا بِباد کر رہے تھے۔ کوئی کسی کی بات نمانتا تھا۔ اپنے اپنے پنتھ کی چوڑائی بڑائی کرتے تھے۔ نِدان جھگڑتے جھگڑتے تونبے کھپّر پھوٹنے کی نوبت پہنچی۔ اس میں ایک ابدھوت بولا: سادھو کیوں لڑ مرتے ہو، اس دوہے کے ارتھ کو تو سمجھو ؎
گھٹ گھٹ میں مورت وہی لال جو نہیں وِویک
جیسے پھوٹی آرسی کھنڈ کھنڈ مکھ ایک
نقل 28
ایک امرا بڑا بخیل تھا کہ کبھی جھوٹھے ہاتھ سے کتا بھی اُس نے نہ مارا تھا اور کھانے کھلانے کا تو کیا ذکر۔ ایک روز کوئی کلاونت بھولا بھٹکا اس کے یہاں جا پہنچا اور اسے بڑا آدمی جان تنبورا ملا خوب گایا اور اُن نے بھی ریجھ کر داد دی۔ بارے اتنے میں بکاول نے آ عرض کی کہ خداوند! خاصا تیار ہے۔ بولا کہ میرے سر میں درد ہے، ابھی رہے ایک نیند لے کر کھاؤں گا۔ یہ بہانہ کر منہ ڈھک سو رہا اور کلاونت بھی اس کے مکر کرنے کے مقصد کو دریافت کر پلنگ کے تلے پاینتی لوٹ رہا۔ پہر ایک کے بعد امرا نے کسی اپنے چاکر سے پوچھا کہ ابے! وہ بلا گئی؟ اس میں کلاونت نے جواب دیا کہ بلیّا لوں، یہ بلا تو قد من لگی ہے۔ بن کھانا کھائے کب جات ہے۔ اِس لطیفے کو سمجھ خوش ہو اُس نے اِسے اپنے ساتھ کھانا کھلا کچھ دے رخصت کیا۔
نقل 29
کسی گانو میں ایک لڑکا چھ دام کی کوڑی لے بھڑ بھونجے کی دوکان پر چبینا لینے گیا۔ اس نے چبینا کوڑی لے تول دیا۔ اِس نے کھنبھے کو کھپچی میں کر دونوں ہاتھ بڑھا لیتے تو لیا پر ہاتھ نہ نکال سکا۔ تب رونے لگا۔ اس کا رونا سن بہت سے لوگ وہاں جمع ہوئے اور ہاتھوں میں کھنبھا دیکھ حیران۔ کسی کی عقل کچھ کام نکرتی تھی۔ نِدان ایک نے ان میں سے کہا کہ بھائی لال بجھکڑ آوے تو یہ لڑکا بچے۔ نہیں تو اس کا بچنا دشوار۔ یہ سن کوئی اس کا مالک لال بجھکڑ کو بلا ہی لایا اور آتے ہی وِنھوں نے دیکھ کر فرمایا کہ ؎
بوجھے لال بجھکڑا اور جو بوجھے کو
چھان بلینڈا دور کرو اسے اوپر کر کے لو
نقل 30
لاڑ کپور ایک دن اکبر بادشاہ کے رو برو خوب گائے۔ شاہ نے ریجھ کر ہاتھی دیا، یے لے آئے۔ برس ایک کے بعد اُن دونوں بھائیوں کے جی میں آیا کہ آج ہاتھی کی خوراک چل کر دیکھیں کہ کتنا کھاتا ہے اور کس طرح کھاتا ہے۔ غرض راتب کے وقت موڑھا بچھا بچھا ہاتھی کے پاس جا بیٹھے اور اُس کا کھانا دیکھ نہایت حیران و فکر مند ہو آپس میں کہنے لگے کہ بھائی صاحب! بادشاہ نے یہ ہمارے پیچھے کوئی بڑی بلا لگا دی۔ نہ اسے بیچ سکیں، نہ کسی کو دے سکیں۔ جو یہ چند روز یہاں رہا تو اس کے کھانے کے آگے ہمارا گانا بجانا سب خاک میں مل جائے گا۔ اتنا کہہ کچھ دل میں سمجھ ڈھولک تنبورا اس کے گلے میں ڈال چھوڑ دیا۔ اُن نے شہر میں جا دھوم کی اور شہریوں نے جا بادشاہ کے یہاں فریاد۔ شاہ نے فرمایا: دیکھو کس کا ہاتھی ہے۔ کسی نے آ عرض کی کہ جہاں پناہ! لاڑ کپور کا۔ حکم کیا کہ انھیں بلواؤ۔ کہنے کے ساتھ ہی وے آن حاضر ہوئے۔ دیکھتے ہی خفا ہو حضرت نے کہا: کیوں بے، تم نے ہاتھی کیوں چھوڑ دیا؟ انھوں نے ہاتھ باندھ عرض کی: قبلۂ عالم! غلام کو جو ہنر آتا تھا سو برس روز میں سب سکھلا ڈھولک تنبورا اُس کے ہاتھ دیا۔ اس لیے کہ شہر بادشاہی ہے۔ اس میں جا کر کماوے اور کچھ وِس میں سے آپ کھا ہمیں کھلاوے۔ اس لطیفے کے سنتے ہی خوش ہو بادشاہ نے ان کا قصور معاف کیا اور ہاتھی کے عوض ایک گانو دیا۔
نقل 31
کوئی بنیاں بٹوہی باٹ بھول کے ایک بن میں جا نکلا۔ وِسے وہاں اور تو کوئی نہ نظر آیا، پر ایک جوگی دکھائی دیا۔ اُس نے اِسے ڈنڈوت کر کے پوچھا: ناتھ جی! آتے ہو کہاں سے اور جاؤ گے کہاں؟ جواب دیا: بابا! ہنگلاج جوالا مکھی ہردوار کُرچھیتر کر کے تو آتا ہوں اور کاشی ہو گنگا گوداوری کا میلا کر سیت بندھ رامیشور کو جاؤں گا۔ بنیے نے کہا: مہاراج! ایک بات پوچھوں جو خفا نہو۔ بولا: بابا! ایک نہیں دو۔ کہا: مہاراج! ہم گرھستی ہیں جو دیس دیس پھریں تو کچھ دوش نہیں۔ آپ فقیر ہو، بھٹک بھٹک کیوں بھرم گنواتے ہو۔ ایک ٹھور بیٹھ کر کس لیے اپنے بھگوان کا دھیان نہیں کرتے؟ کہا: بابا! تو نے یہ کہاوت نہیں سنی ؎
بہتا پانی نرملا بندھا گندھیلا ہوئے
سادھو جن رمتا بھلا داگ نہ لاگے کوئے
نقل 32
کسی تاجر کا لڑکا بڑا خانہ جنگ ہوا۔ جب وہ خانہ جنگی کر کے پکڑا جائے تب اس کا باپ رپے دے کر چھڑا لائے۔ ایک روز وِس کے باپ سے کسی اُس کے بھائی نے سمجھا کر کہا کہ جو تم اسی طرح بیٹے کی مامی پی کے نت ڈانڈ بھرو گے تو ایک دن سب دولت کھو بھوکھے مرو گے۔ اُس نے پوچھا: میں کیا کروں؟ جواب دیا: اب خانہ جنگی کر کے قید پڑے تو نہ چھڑاؤ، پھر آپ ہی سیدھا ہو جائے گا۔ کہا: بہت اچھا۔ غرض وہ خانہ جنگی کر قید میں پڑا اور اِس نے نہ چھڑایا۔ پانچ چار برس وہیں رہنے دیا۔ اِس میں کسی بھلے آدمی نے آ کر اُن سے کہا کہ اب تمھارے بیٹے نے خانہ جنگی سے ہاتھ اٹھایا اور توبہ کی۔ اِنھوں نے اِس کی بات مان اُسے چھڑا منگایا۔ ایک دن وہ باتوں ہیں باتوں میں کسی پر خفا ہوا، تد اُس کے باپ نے کہا: میاں! یہ وہی مثل ہے “رسی جل گئی پر بل نہ گیا”۔
نقل 33
سنتے ہیں ابراہیم ادھم کی سیج سوا من پھولوں سے سنواری جاتی تھی۔ ایک روز باندی نے سیج تیار کر کے اپنے جی میں بچارا کہ اِس بچھونے پر سونے سے کیا آرام جی کو ہوتا ہوگا، یہ سوچ ادھر اُدھر دیکھ وہ جوں اُس پر لیٹی توں آرام پا کے بے ہوش سو گئی اور پھولوں کے اندر پیٹھ بے معلوم ہو گئی۔ پہر ایک پیچھے بادشاہ نے بھی آ اُسی پر آرام فرمایا۔ گھڑی دو ایک بعد اُس نے جو کروٹ لی، شاہ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے کہ دیکھو اس پلنگ میں کیا بلا ہے؟ ایک کے کہتے دس دوڑ آئے اور انھوں نے باندی کو نکال باہر کیا۔ دیکھ کر حضرت نے فرمایا کہ اِس مُردار کے میرے رو برو سو تازیانے مارو۔ بات کے کہتے ہی لوگوں نے سو کوڑے گن کر بے دریغ لگائے۔ اُس نے پچاس ہنس ہنس کر اور پچاس رو رو کر کھائے۔ تماشا دیکھ بادشاہ نے اُسے پاس بلا کے پوچھا کہ سن تو! مار کھانے سے آدمی روتا ہے۔ تو جو ہنسی اور روئی، اِس کا کیا سبب؟ عرض کی: جہاں پناہ! پھولوں کی سیج پر پہر بھر سونے کی سزا خدا کے یہاں نہو یہاں ہیں ہوئی۔ اس بات کو تو سوچ کے میں ہنسی اور آپ کو خدا کے یہاں اس سیج پر نت سونے کی نہ جانوں کیا سزا ہوگی، یہ اندیشہ کر کے روئی۔
کہتے ہیں کہ ابراہیم ادھم اس بات کے سنتے ہی بادشاہت چھوڑ فقیری لے جنگل کو چلا گیا۔
نقل 34
شاہ جہاں بادشاہ کے شہزادہ دارا شکوہ کو چڑیاؤں سے بہت شوق تھا۔ ایک روز فرمایا: شہر میں منادی پھیر دو کہ جس کے یہاں جو جانور شکاری اڑنے لڑنے بولنے والا ہے، لے کر کل فجر حضور میں حاضر ہوئے۔ اس خوش خبری کے سنتے ہی جتنے شہر میں شوقین تھے، اپنے اپنے پرندوں کو اڑائے لڑائے بلائے دوڑائے تیار کر بڑے تکلف سے لے گئے اور کوئی تماش بین تماشا دیکھنے کے لالچ سے ایک کوے کو پنجرے میں بند کر کئی ایک عمدہ غلاف اس پر ڈال ان کے پیچھے لیے چلا گیا۔ وہاں سب کے جانور کھلے اور دکھلائے گئے۔ ہر کسی نے اپنے جانور کی تعریف کی اور انعام پایا۔ جب اس کی نوبت آئی تو یہ اپنے دل میں گھبرایا۔ غرض لوگوں نے اس کے ہاتھ سے پنجرا لے غلاف اتار کوا شہزادے کو دکھایا۔ دیکھتے ہی ہنس کر شہزادے نے اس سے پوچھا کہ میاں! ان سب کے جانوروں کا تو وصف دیکھا اور سنا۔ اب تم اپنے جانور کا بیان کرو کہ یہ کیا وصف رکھتا ہے۔ ہاتھ باندھ کھڑا ہو بولا: پیر مرشد! کسی کا اڑنا لیا ہے، کسی کا لڑنا، کسی کا بولنا، کسی کا دوڑنا۔ پر اس کا غرّا ہی لیا ہے۔ اس حاضر جوابی سے خوش ہو دارا شکوہ نے انعام سب کے ساتھ اس کو بھی دیا۔
نقل 35
کسی روز اکبر بادشاہ اور بیربل ایک باغ کے برج پر بیٹھے کھیتوں کا سبزا دیکھ رہے تھے۔ اس میں بادشاہ نے ایک مور کو ارہر کے کھیت میں جاتے دیکھ پوربی زبان میں از راہ ظرافت بیربل کو کہا: بیربل! دیکھ تور میں مور جات ہے۔ سمجھ کے ووں ہیں وِسی بولی میں بیربل نے بھی جواب دیا: جہاں پناہ! تور پھاٹت جات ہے مور پیٹھت جات ہے۔ سن کر بادشاہ چپ ہی ہو رہے۔
نقل 36
ایک کبیشور اپنے شاگرد کو ساتھ لے کسی شہر میں روزگار کے لیے گیا اور وہاں کے عمدہ لوگوں سے ملاقات کر کے کئی برس وِس جگہ رہا۔ پر کچھ اسے فائدہ نہ ہوا، کیوں کہ وہاں کے لوگ اپنی جہالت سے اس کے گن کو نہ سمجھے۔ تب اس کے شاگرد نے یہ دوہا اس کے سوں ہیں پڑھا ؎
جہاں نہ جاکو گن لہے تہاں نہ تاکو ٹھاؤں
دھوبی بیٹھ کہا کرے دیگنبر کے گاؤں
اِس کے جواب میں استاد نے بھی یہ دوہا کہہ سنا ؎
جہاں نہ جاکو گن لہے تہاں نہ دکھ سکھ بات
بن میں تج مکتان کوں پہرت گُنج کِرات
نقل 37
کوئی مَردے آدمی کسی طالب العلم کی زبانی ایک عالم کے علم کی تعریف سن کر مشتاق ہو اُس کے گھر ملاقات کو گیا۔ وہ اپنے دروازے پر بیٹھا کتاب مطالعہ کرتا تھا۔ یہ سلام کر اس کے سوں ہیں مُاَدّب بیٹھ بولا: حضرت سلامت! یہ کون سی کتاب ہے۔ جواب دیا: تو کون ہے جو مجھ سے پوچھتا ہے؟ کہا: آپ کا خادم ہوں۔ بولا: جا تجھے اس کے سمجھنے کی لیاقت نہیں۔ اس نے کہا: بس معلوم ہوا کہ آپ علم غیب کی کتاب دیکھتے ہیں کہ جس سے بے ملاقات آپ نے میری لیاقت دریافت کی۔ اس بات کو سن وہ شرمندہ ہو بولا: اخلاق کی کتاب ہے۔ تب اس نے ہنس کر یہ کہا کہ آپ اسی سے ایسے صاحب اخلاق ہیں۔ اور اپنی راہ لی۔
نقل 38
ایک بہرا گڈریا جنگل میں اپنی بھیڑیں چراتا تھا۔ قضا کار اُس کی ایک بھلی بھیڑ کھوئی گئی۔ تب اس نے ایک لنگڑی بھیڑ کی طرف دیکھ کر کہا کہ جو وہ بھیڑ ملے تو اسے میں کسی کو خدا کی راہ پر دوں گا۔ اتنا کہتے ہی بھیڑ ملی، تد وہ لنگڑی بھیڑ کا کان پکڑ کسی کو دینے لے چلا۔ اس میں سوں ہیں سے ایک اور بہرا آیا۔ اس نے وِس سے کہا کہ یہ بھیڑ تو لے۔ وہ بولا: خدا کی قسم! میں نے اِس کی ٹانگ نہیں توڑی۔ غرض یہی کہتے کہتے دونوں قاضی کے یہاں گئے۔ قاضی بھی بہرا تھا اور اپنے گھر میں کسی سے خفا ہو بیٹھا تھا۔ انھیں دور سے آتے دیکھ اُن نے اپنے جی میں جانا کہ شاید یے اُسی کا پیغام لیے آتے ہیں۔ یہ سمجھ اتنا کہہ اپنے گھر بھیتر بھاگ گیا کہ اس بد ذات کی بات مَیں کبھی نہ سنوں گا۔
نقل 39
کسی امرا کے دو بیٹے تھے۔ ایک سخی دوسرا بخیل۔ سخی تو اچھے اچھے جوانوں کو بڑے بڑے درماہے کر کے نوکر رکھتا اور بخیل چھوٹے چھوٹے لوگوں کو کم مہینے پر چاکر رکھتا۔ ایک روز ان کے باپ نے وِن دونوں کو کسی غنیم سے لڑنے کو بھیجا۔ جنگ میں سخی کی جیت ہوئی اور بخیل کی ہار۔ اِس بات کے سنتے ہی ان کے باپ نے کسی اپنے مصاحب سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب جو ایک ہارا اور ایک جیتا۔ اس نے جواب دیا کہ پیر مرشد! آپ نے یہ مثل نہیں سنی ؎
جو مارے ٹٹو سنگرام
تو کیوں خرچیں تازی کو دام
نقل 40
ایک کچھوے اور کوّے سے بڑی دوستی تھی۔ کام پڑنے سے ایک ایک کی مدد کرتا۔ ایک روز کسی چڑی مار نے کوے کو پکڑا تب کچھوے نے چڑی مار سے کہا کہ تجھے اس کے لے جانے سے بازار میں کیا ملے گا؟ بولا: دو پیسے۔ کہا: جو تو اسے چھوڑ دے تو میں تجھے ایک موتی دوں۔ کہا: اچھا۔ اُس نے غوطہ مار کے موتی لا دیا، پر اِس نے کوے کو نہ چھوڑا۔ تد کچھوے نے کہا کہ میں نے موتی تو تجھے لا دیا۔ اب اسے کیوں نہیں چھوڑتا؟ بولا: ایک موتی اور لا دے تو چھوڑ دوں، نہیں تو نہیں چھوڑوں گا۔ اس نے کہا: اچھا، تو اسے چھوڑ دے میں لا دیتا ہوں۔ وہ بولا: میں تیری بات کا کیسے اعتبار کروں؟ کہا اس نے: میں جھوٹھ نہیں بولتا۔ اس بات کے سنتے ہی اس نے کوے کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا موتی لا دیا۔ پھر چڑی مار دوسرے موتی کو چھوٹا دیکھ بولا کہ یہ میں نہ لوں گا۔ اسی کے برابر کا لا دے۔ اس نے کہا: یوں تو نہیں، پر جو تو یہ موتی مجھے دے تو میں اس کے برابر کا وہیں سے دیکھ لاؤں۔ مارے لالچ کے اس نے موتی دیا۔ وہ لے غوطہ مار بیٹھ رہا۔ ایک پہر کے پیچھے اس نے گھبرا کے وِسے پکارا، تب اس نے آ کر خفا ہو کہا کہ تو بڑا بے وقوف ہے جو مجھے پکارتا ہے۔ کیا تیں نے یہ کہاوت نہیں: جو کچھ خدا کرے سو ہو، لینا ایک نہ دینا دو۔ یہ سن چڑی مار نراس ہو اپنے گھر گیا۔
نقل 41
بنارس میں ایک چوبے نے کسی مکان پر کتنے ایک بدیارتھیوں کو ہل ہل کر پڑھتے دیکھ کِسو پنڈت سے سوال کیا ؎
جھکت جھکت بدیارتھی کہا بوڑھے کہا بار
میں تُہِ پوچھوں ہے سکھے یا کو کون بچار
جواب دیا ؎
آگے سمد اگمیہ ہے اپنے بیٹھ کرار
رتن لین کوں جھکت ہیں جھجھکت دیکھ اپار
نقل 42
کسی دن سوائی جے سنگھ ایک مکان میں بیٹھے براہمن کھلاتے تھے اور دربانوں کو یہ حکم تھا کہ سواے براہمن کے اندر اور کوئی نہ آنے پاوے۔ اس میں ایک بھاٹ دروازے پر گیا اور اس نے چاہا کہ بھیتر جاؤں پر ڈیوڑھی داروں نے نجانے دیا۔ اس نے سبب پوچھا۔ انھوں نے جو راجا کا حکم تھا، سو کہہ سنایا۔ تب اس نے اتنا راجا کو لکھ بھیجا ؎
درد مند دروازے ٹھاڑھے بھیتر ہیں بے دُوا
اس کی بتیاں ہم جانت ہیں وے باندھت ہیں ہوا
اس بات کے پڑھتے ہی ہنس کر راجا نے سو رُپے دلوا بھیجے۔ وہ لے اسیس دے خوشی سے اپنے گھر گیا۔
نقل 43
ایک بنیاں ہمیشہ بھنڈ سال بھرا کرتا۔ کسی دن اس کے بڑے بھائی نے آ کے اس سے کہا کہ بھیا! تجھے اس میں کیا نفع ہوتا ہوگا؟ کچھ اور روزگار کیوں نہیں کرتا جو زیادہ فائدہ ہو۔ بولا: بھائی صاحب! اس میں بھی آم کے آم گٹھلی کے دام ہوتے ہیں اور کتنا نفع ہوگا۔ اُس کے بھائی نے کہا: میں کچھ نہیں سمجھا، بُجھا کے کہو۔ جواب دیا: مع نفع دام اٹھاتا ہوں اور بچتا ہے سُو برس بھر اچھی طرح کھاتا ہوں۔ یہ سن وہ چپکا ہی چلا گیا۔
نقل 44
عید کے دن دو ڈھاڑی بچے، ایک ہتھیار بند اور دوسرا نہتھا، مل کر کسی امرا کے یہاں ڈھولک تنبورا ساتھ لواے مجرے کو گئے اور جب وہاں سے گائے بجائے رجھائے انعام لے پھر آئے تب آپس میں بخرا بانٹا کرنے کے وقت جھگڑنے لگے۔ کئی ایک راہ گیر تماشا دیکھنے کو آن کھڑے ہوئے اور اُن میں سے ایک ٹھٹھول نے نہتھے سے کہا کہ میاں! تو اس سے ڈرتا نہیں، اُس کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ بولا کہ حضرت سلامت! یہ اپنے جی میں کچھ اور نہ سمجھے، میرے گھر بٹوے میں دو رپے دھرے ہیں۔ گھر سے رپے لے چوک میں جا ڈیڑھ رُپے کی تلوار خرید آٹھ آنے باڑیے کو دے مسوری باڑ چِروا لا ابھی سر کاٹ ڈالتا ہوں۔ اس بات کو سن سب تماش بین ہنس پڑے اور اُن دونوں کو ملا چلے گئے۔
نقل 45
راجا سوائی جے سنگھ نے متھرا میں عبد النبی خاں کی مسجد کے مینار کی بلندی دیکھ کر کہا کہ اس پر سے کوئی کودے تو ہزار رُپے دوں۔ یہ سن ایک چوبے نے پوچھا کہ مہاراج! جو یا پے تیں کودے گو وا ہِ ہزار رُپیّا دیوگے؟ کہا: ہاں۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ چوبے اپنے گھر جا ایک بڑھیا سو برس کی جاں بلب ہو رہی تھی اسے لے آیا۔ اُسے دیکھ کر راجا نے کہا: اسے کیوں لائے ہو؟ بولا: یہی گمٹی پر سوں کودے گی، ہزار رُپیّا دیو۔ راجا نے کہا: بڑھیا کی شرط نہیں۔ جواب دیا: مہاراج! آپ کوں بوڑھی باری تیں کہا کام۔ تمھیں ایک ہتیا لینی ہے سو لیو اور موں کوں ہزار رُپیّا دیو۔ اس ظرافت و حاضر جوابی سے خوش ہو راجا نے اُسے رُپے دلوا دیے۔ وہ لے اپنے گھر گیا۔
نقل 46
ایک بنیاں اپنے گھر میں رات کو نیند میں غافل پڑا سوتا تھا کہ ایک چوہا اُس کے پیٹ پر ہو کر ادھر سے اُدھر چلا گیا۔ وہ نیند سے چونک پڑا اور لگا چیخ مار مار رونے اور یہ کہنے کہ ہاے جان گئی، ہاے جان گئی! اُس کے رونے کی آواز سن کے سب گھر کے لوگ گھبرائے اور لگے پوچھنے کہ تجھے کیا دکھ ہے جو اتنا روتا ہے؟ بولا: اِس گھر میں رہ نہیں سکتا۔ کہا: کیوں؟ جواب دیا: ایک چوہا میری چھاتی پر ہو کر اس طرف سے اُس طرف چلا گیا۔ لوگوں نے کہا: چلا گیا چلا گیا۔ اِس کے واسطے اتنا رونا کیا تھا۔ بولا: کسی نے سچ کہا ہے کہ جا تن لگے سوئی تن جانے، دوجا کیا جانے رے بھائی۔ میں اس کے جانے پر نہیں روتا۔ روتا اس واسطے ہوں کہ یہ راہ بری نکلی۔ آج چوہا گیا ہے، گل کو سانپ جائے گا تو میں کاہے کو جیتا رہوں گا۔
نقل 47
ایک کھترانی نوجوان خوب صورت چست و چالاک بسنت رُت میں اپنی بہنیلی کے یہاں گئی اور کچھ اِدھر اُدھر کی من لگن باتیں کر رہی تھی کہ پیاسی ہوئی اور پانی مانگا۔ اُس کی اُس منہ بولی بہن نے کورے کلھڑے میں بھر کر لا دیا۔ جوں اس نے منہ لگا کر پیا توں کلھڑا ہونٹھوں سے لگ رہا۔ یہ کھل کھلا کر ہنسی اور اِس دوہے کو پڑھنے لگی ؎
رے ماٹی کے کولھرا تو ہِ ڈاروں پٹکائے
ہوٹھ رکھے ہیں پیو کوں تو کیوں چوسے جائے؟
یہ دوہا سن اُس کی بہنیلی نے کلھڑے کی طرف سے جواب دیا ؎
لات سہی مونکی سہی الٹے سہے کُدار
ان ہوٹھن کے کار نے سر پر دھرے انگار
نقل 48
ایک سوداگر کا گماشتہ کہیں سے روکڑ لِوائے چلا آتا تھا۔ راہ میں کسی سراے کے بیچ اترا کہ وہاں ڈاکا آیا۔ تب اِس نے وہاں کے رہنے والوں سے کہا کہ بھائیو! جو تم لڑ بھڑ کے اِن رُپیوں کو ڈکیتوں کے ہاتھ سے بچاؤ تو آدھے پاؤ۔ غرض اُن لوگوں نے جوں توں کر رُپے بچائے اور آدھے پائے۔ باقی رہے سو لے وہ اپنے خاوند کے پاس پہنچا۔ اُس وقت اُس کے منیب نے راہ کا احوال سن خوش ہو اُسے ایک دو شالا انعام دے کر کہا کہ شاباش! تم نے خوب دانائی کی۔ اُس وقت وہی مناسب تھا۔ یہ مثل ہم بھی ہمیشہ بزرگوں کی زبانی سنتے آئے ہیں کہ جو دھن جاتا جانیے تو آدھا دیجے بانٹ۔
نقل 49
کسی امرا کے یہاں کوئی بھلا آدمی کئی ایک مہینے سے آمد و رفت کرتا تھا۔ ایک روز اُس نے اس کے حال پر مہربان ہو کر پانچ سو رُپے اپنے دیوان سے دلوائے۔ اُس نے نٹ کھٹی اور اپنی بد ذاتی سے ٹال مٹال کر کے کئی ایک دن لگائے۔ تب دکھ پا اِس بچارے نے سرِ مجلس کہا کہ دیوان جی صاحب! بھلا مانیے یا برا۔ حق بات کہنے میں کچھ عیب نہیں۔ آپ کی وہی مثل ہے کہ داتا دے بھنڈاری کا پیٹ پھولے۔ اس مثل کے سنتے ہی شرمندہ ہو اُس نے اِسے اُسی وقت رُپے گن دیے۔
نقل 50
کسی مکان پر کئی ایک تجارت پیشہ بیٹھے آپس میں اپنی اپنی کمائی کا احوال بیان کر رہے تھے کہ ایک عاشق تن بھولا بھٹکا وہاں جا نکلا اور اُن کی باتیں سن آہ کر یہ شعر پڑھا ؎
جو آئے اس جہاں میں سو کچھ کچھ کما چلے
اک بے سلیقہ ہم ہیں کہ دل بھی گنوا چلے
نقل 51
ایک گونگیرہ کسی حکیم کے یہاں حکمت کی کتاب پڑھنے نت آتا اور یہ بات کہتا کہ پیر مرشد! جو غلام کو آپ کے تصدّق سے اس فن میں کچھ مناسبت ہو جائے گی تو یہ بن مول کا غلام آپ کے قدم مبارک چھوڑ کر کہیں نجائے گا اور ہمیشہ خدمت میں رہے گا۔ غرض اسی دم بازی سے کئی ایک برس کے عرصے میں تمام کتاب پڑھ سن کے وہاں سے ایسا گیا کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ گئے، پھر نظر بھی نہ آیا۔
ایک روز حکیم جی نے اُس کے کسی دوست سے کہا کہ تمھارے آشنا نے ہم سے کیا قول کیا تھا اور اب دکھائی بھی نہیں دیتا۔ وہ بولا: حکیم صاحب! کیا آپ نے یہ مثل نہیں سنی جو ایسی بات زبان پر لاتے ہو “کام سرا دکھ بیٖسرا چھاچھ نہ دیت اہیر”۔
نقل 52
کوئی شخص کسی پر عاشق تھا، پر مارے حجاب کے اپنا عشق اس کے آگے اظہار نہ کرتا اور جس پے عاشق تھا وہ بھی جان بوجھ کر شرم سے کچھ نہ کہتا۔ ایک روز وے دونوں کسی مکان پر رات کو بیٹھے تھے کہ ایک پروانہ شمع پر آ چلا۔ اس کو جلتا دیکھ عاشق نے کنایے سے یہ دوہا پڑھا ؎
آہ دئی کیسی بنی انچاہت کو سنگ
دیپک کے بھانویں نہیں جل جل مرے پتنگ
اس کے جواب میں معشوق نے بھی یہ دوہا کہہ سنایا ؎
آؤ پتنگ نسنک جل جلت نہ موڑو انگ
پہلے تو دیپک جلے پاچھے جلے پتنگ
نقل 53
اکبر بادشاہ کا یہ معمول تھا کہ ہمیشہ فقیر کا بھیگھ لے رات کو شہر کی گلی گلی کوچے کوچے میں پھرتے اور جس غریب کنگال دُکھی کو دیکھتے اس کا دکھ دور کرتے۔ ایک دن جوں نکلے توں دیکھتے کیا ہیں کہ کوئی سوداگر بچی دروازے کے اوپر گوکھ میں کھڑی رو رو بسور رہی ہے۔ یے بولے: مائی! ٹکڑا بھیجیو۔ وہ روٹی دینے آئی۔ اِنھوں نے اُس سے پوچھا: تو کیوں روتی ہے؟ جواب دیا: میرا خاوند بارہ برس سے جہاز لے سودا گری کو نکلا ہے، اُس کی کچھ خبر نہیں پائی۔ اِس دکھ سے روتی ہوں۔ اتنا سن روٹی لے دعا دے آگے بڑھے تو دیکھا کہ کوئی رنڈی رو رو چکی پیس رہی ہے۔ اُسی طرح اس سے بھی پوچھا۔ اُن نے کہا: میرا خصم چوری کو گیا ہے، اُسے تین دن ہوئے نجانوں جیتا ہے یا مارا گیا۔ اِس دکھ سے روتی ہوں۔ یہ سن وہاں سے بھی چل نکلے۔ پھر دیکھا کہ ایک عورت نوجوان کھڑکی میں بیٹھی ڈاڑھیں مار مار روتی ہے۔ اُس سے پوچھا: تو کیوں روتی ہے؟ ان نے کہا: میرا شوہر کم سن ہے۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ اداس ہو گھر آئے اور دوسرے دن دیوان خاص میں بیٹھ بیربل کی طرف مخاطب ہو بولے: وے تینوں بِلّائیں۔ بیربل نے کچھ جواب ندیا۔ پھر شاہ نے کہا: بیربل! وے تینوں بِلّائیں۔ بولا: ہاں جہاں پناہ سلامت! اتنی بات کے سنتے ہی شاہ نے لیلی پیلی آنکھیں کر کہا: یا تو اِس کا بیان کر، نہیں تو ابھی مار ڈالتا ہوں۔ تو نے کیا سمجھ کے میری بات کا جواب دیا۔ بولا ؎
ایک سمندر بنج کرے اور نت اٹھ چوری جائیں
بالک ہی سے نیہ لگاوے وے تینوں بِلّائیں
اس بات کے سنتے ہی خوش ہو بادشاہ نے بیربل کو نہال کر دیا۔
نقل 54
کسی دن اکبر بادشاہ نے لاڑ کپور کا گانا سن ریجھ کے ایک گھوڑا دلوایا۔ اسطبل کے داروغہ نے نٹ کھٹی کر کے بھلا گھوڑا ندے ایک بہت بوڑھا ترکی دیا، ایسا کہ جس کے خائے مانند گھڑے کے تھے۔ یہ لے نا خوش ہو اپنے گھر آئے۔ کتنے دنوں کے بعد ایک روز بادشاہ نے ان سے کہا کہ کل تم بھی میرے ساتھ فجر شکار کو چلیو۔ یے “بہت خوب” کہہ کر رخصت ہو اپنے مکان پر آئے۔ اور دوسرے دن چار گھڑی رات رہے سوار ہو دونوں بادشاہ کی ڈیوڑھی پر جا حاضر ہوئے۔ ایک بھائی اُسی ترکی کے گلے میں بالو کا بھرا گھڑا باندھ سوار ہو گیا تھا۔ جوں حضرت بر آمد ہوئے، توں ہی انھوں نے بڑھ کے سلام کیا۔ شاہ نے دیکھتے ہی ہنس دیا اور فرمایا کہ ابے فجر ہی فجر یہ کیا سوانگ بنا لائے ہو۔ بولے: بلیّا لیوں، اُلل پڑنے کے ڈر سے دوؤ اور بوجھ برابر کر لیو ہے اور حضور کے داروغہ نے تو گرانے کو فکرِ معقول ہی کیو ہو۔
اس لطیفے کے سنتے ہی شاہ نے داروغہ کو تنبیہ کی اور اِنھیں اس کے عوض دو گھوڑے دیے۔
نقل 55
سورج مل کے وقت میں کسی مسلمان نے از راہِ تمسخر ایک جاٹ سے کہا: ابے جاٹ بے جاٹ، تیرے سر پر کھاٹ۔ اس نے کہا: ابے میاں بے میاں، تیرے سر پر کولھو۔ یہ بولا: تک نہ ملی۔ اُس نے جواب دیا کہ تُک نہ ملی تو کہا بھیو ارے بوجھن تو مریگو۔
نقل 56
دو زمیندار اپنے گانو سے کہیں کو چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک پچاس ساٹھ بیگھے اچھی زمین کا قطعہ دیکھ کر اُن میں سے ایک نے کہا کہ بھائی! یہ جگہ اگر ہمارے تمھارے ہاتھ لگے تو کیا کرو؟ بولا: میں تو اپنے حصے کی زمین میں پھلواری لگاؤں۔ کہو تم اپنی جگہ میں کیا کرو گے؟ کہا: میں اپنی گائیں بھینسیں چراؤں گا۔ اِس نے کہا: بھلا مانو یا برا، میں تو اپنے باغیچے کے پاس نہ چرانے دوں گا۔ وہ بولا: تمھارا کچھ اِجارا نہیں ہے۔ میں اپنی زمین میں جو چاہوں گا سو کروں گا۔ غرض اسی طرح ہُدّا تُدّی کر کے لگے ہاتھا پائی کرنے۔ اِس میں کئی ایک راہ گیر جو ان کو جھگڑتے دیکھ جمع ہو گئے تھے، اُنھوں نے بیچ بچاؤ کر کے اِن سے پوچھا کہ تم کیوں آپس میں لڑتے ہو؟ اس کا سبب کہو۔ اُنھوں نے سب ماجرا کہہ سنایا۔ سنتے ہی اُن میں سے ایک شخص بولا کہ تمھاری وہی مثل ہے کہ “سوت نہ کپاس، کولی سے لٹھا لٹھی”۔
نقل 57
کسی مکان میں پنڈت ساہوکار اور سپاہی یے تینوں بیٹھے بحث رہے تھے۔ ایک کہتا تھا کہ منُش گُن سے بڑا کہلاتا ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ نہیں، دھن سے اور تیسرا کہتا تھا کہ نہ، مددگاروں سے آدمی بڑا کہلاتا ہے۔ اِس میں کوئی کبیشور وہاں جو جا نکلا، اُنھوں نے اِسے ثالث مان کے کہا کہ مہاراج! اِس مقدمے میں جو تمھارے نزدیک سچ ہو سو اپنے دھرم سے کہو۔ تب اِس نے اُن کے جواب میں یہ سورٹھا کہہ سنایا ؎
گن تیں گروو ہوت نہیں سنپت نہ سہاے تیں
پونوں چند اُدوت دُتیا کی سر بر نہیں
یہ سن وے تینوں چپکے ہو رہے۔
نقل 58
ایک روز اکبر بادشاہ نے بیربل سے کہا کہ تو مجھے چار شخص لا دے: سوربیر، کایر، صاحبِ شرم اور بے شرم۔ بیربل دوسرے دن بھور ہی ایک رنڈی کو ساتھ اپنے حضور میں لے گیا۔ شاہ نے پوچھا: لایا؟ بولا: خداوند! حاضر ہے۔ یہ کہہ بیربل نے اُس رنڈی کو بادشاہ کے سوں ہیں لے جا کھڑا کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ابے! میں نے چار شخص بلوائے تھے، تو ایک کو لایا۔ اور تین کہاں ہیں؟ عرض کی: جہاں پناہ! اِس میں چاروں کی صفات ہیں۔ ارشاد کیا: بیان کر۔ بولا کہ جس وقت یہ اپنی سسرال میں رہتی ہے مارے شرم کے اچھی طرح گلا کھول کر بولتی بھی نہیں۔ اور جس بریاں کہیں شادی میں گالیاں گاتی ہے تو باپ بھائی شوہر سسر اور برادری کے لوگ بیٹھے سنا کرتے ہیں، پر یہ کسی کی شرم نہیں کرتی۔ اور جب اپنے شوہر کے پاس بیٹھتی ہے تو رات کو اکیلی گھر کے کوٹھے میں بھی نہیں جاتی اور کہتی ہے مجھے ڈر لگتا ہے۔ پھر جس وقت کسی سے اِس کی آنکھ لگتی ہے تو آدھی رات کی اندھیری میں اکیلی بے ہتھیار یار کے پاس نِدھڑک چلی جاتی ہے اور چور چکار بھوت پلیت سے نہیں ڈرتی۔ یہ بات سن شاہ نے خوش ہو بیربل کو انعام دیا اور فرمایا: تو سچ کہتا ہے۔
نقل 59
کوئی جوگی کسی جنگل میں سرِ راہ ایک پیڑ کے نیچے بھبھوت لگائے دھونی جلائے سیلی سینگی مدرا پہنے باگھنبر بچھائے ننگ دھڑنگا آسن مارے اپنے بھگوان کی یاد میں مگن بیٹھا بھجن کرتا تھا کہ چار مسافر وِس راہ سے آئے اور اُسی درخت کے نیچے جا بیٹھے۔ اُن میں سے پہلے ایک نے اُس جوگی سے کہا کہ آج کیا ہے جو تم جوا کھیلنے نہیں گئے۔ کچھ ہار آئے ہو جو اِس بن میں یہ سوانگ بنا کر آن بیٹھے ہو؟ بولا: ہاں بابا۔ سچ کہتا ہے۔ پھر دوسرے نے کہا: تو تو کل شراب پیے شہر کی گلیوں میں گرتا پڑتا پھرتا تھا۔ آج کس لیے یہاں مکر کر آن بیٹھا ہے؟ جواب دیا: ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ تیسرے نے کہا: تم نے اِس راہ میں بہت قافلے غارت کیے ہیں، کہو اب کس کی تاک پر بیٹھے ہو؟ بولا: ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ بعد چوتھے نے کہا: ناتھ جی! آپ بھگوان کے خاص بندوں سے ہو، کچھ میرے حال پر رحم کرو۔ اسے بھی یہی جواب دیا: ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ غرض یہ کہہ سن کر وے چاروں چلے گئے۔ تب ایک اور مسافر جو الگ وہیں بیٹھا سنتا تھا، اُس کے پاس آیا اور آدیس کر بولا کہ ناتھ جی! آپ نے چار آدمیوں کے چار سوالوں کا ایک ہی جواب دیا۔ اِس کا کیا سبب؟ اُس نے اِس سے بھی کہا کہ ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ یہ بولا کہ مہاراج! میں وِن جیسا نہیں ہوں کہ مجھے بھی بہکا دوگے۔ بدون سمجھائے آپ کا پیچھا نہ چھوڑوں گا۔ اِس بات کے سنتے ہی اُس جوگی نے کہا کہ بابا! جو کوئی جیسا ہوتا ہے وہ دوسرے کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ اُن کے کہنے سے میرا کیا بگڑا۔ فقیر تو جیسے کا تیسا بیٹھا ہے۔
نقل 60
ایک روز راجا بکرماجیت کے یہاں چار شخص ایک ساتھ چوری کے معاملے میں پکڑے گئے۔ راجا نے اُن میں سے ایک کو پاس بلا اتنا کہہ چھوڑ دیا کہ تمھارے لائق یہ کام نہ تھا اور دوسرے کو پانچ چار گالیاں دے نکال دیا۔ تیسرے کو دس بیس دھول جوتیاں لگوا دھکے دلوا نکلوا دیا اور چوتھے کی ناک اور کان کٹوا کالا منہ کروا گدھے پر چڑھوا شہر بدر کروایا۔
یہ عدالت دیکھ ہر ایک درباری ایک ایک کا منہ دیکھنے لگا۔ اُس وقت راجا نے اُن سے پوچھا کہ تمھارے دل میں کیا ہے سو کہو۔ اُنھوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ دھرماوتار! آپ نے نیاؤ تو سمجھ ہی کے کیا ہوگا، پر اس کا بھید کچھ ہم پر نہ کھلا۔ راجا نے ہنس کے کہا کہ تم ان چاروں کے پیچھے ہرکارے لگا دو کہ یے جا کے کیا کرتے ہیں، اس کی خبر لاویں۔ اُنھوں نے سوئی کیا۔ تیسرے دن جب ہرکارے خبر لے حضور میں آ حاضر ہوئے تب راجا نے دیکھ کر فرمایا کہ اُن کے سماچار لائے؟ جواب دیا: ہاں، پرتھی ناتھ لائے۔ ارشاد کیا: کہو۔ وے دنڈوت کر ہات جوڑ بولے کہ دھرماوتار! جسے آپ نے یہ کہہ چھوڑ دیا کہ تمھارے لائق یہ کام نہیں تھا، وہ تو جاتے ہی زہر کھا مر گیا۔ اور جسے گالیاں دے چھڑوایا تھا وہ شہر چھوڑ کر چلا گیا۔ اور جو مار کھا کے چھوٹا ہے سو وِس دن سے گھر کے باہر نہیں نکلا۔ اور مہاراج! جس کی ناک اور کان کاٹے گئے، تس کا احوال سنیے کہ راہ میں گدھے پر سوار چلا جاتا تھا اور تماش گیر بھی دو چار سَو چاروں طرف سے لعنت ملامت کرتے جاتے تھے اور سوں ہیں سے اُس کی جورو آئی۔ اُن نے اُسے پاس بلا کر سب کے دیکھتے کہا کہ تو گھر جا کر نہانے کا پانی جلد گرم کر رکھ، تھوڑا شہر پھرنا باقی ہے۔ ابھی پھر کر اِن موذیوں کے ہاتھ سے چھوٹ چلا آتا ہوں۔
اتنی بات کے سنتے ہی راجا نے اُن لوگوں سے کہا جنھوں نے کہا تھا کہ دھرماوتار! ہم نے اس نیاؤ کا بھید نجانا: کہو اب تو سمجھے؟ انھوں نے عرض کی کہ پرتھی ناتھ، آپ کا نیاؤ آپ ہی سے بنے۔ دوسرے کی کیا سامرتھ جو اس میں دم مارے۔ یہ وہی ہے جو کسی نے کہا ہے ؎
راگی باگی پارکھی ناری اور نیاؤ
اِن پانچوں کے گرو ہے پر اپجے انگ سُبھاؤ
نقل 61
ایک طالب العلم بڑا بخیل تھا۔ اُس نے کسی دن ایک آشنا کی دعوت کی۔ کھانا تو جو اس کے یہاں نت پکتا تھا سوئی پکا، پر دو انڈے کھانے کے وقت بڑے تکلف سے اس نے دسترخوان پے لا رکھے اور کہا کہ سنو صاحب! ان انڈوں سے ایک جوڑا مرغ کا ہوتا اور جوڑے سے ہزاروں بچے پیدا ہوتے۔ یہ آپ کی خاطر ہے جو میں نے اپنا اتنا نقصان کیا۔ اُس کا آشنا بھی ایک ہی شخص تھا۔ بولا کہ یہ تو آپ نے کیا، پر بھلا گھی بن میں کس طرح کھاؤں گا؟ کہا: میں ابھی لے آتا ہوں، ذرا صبر کرو۔ اتنا کہہ دو پیسے اور پیالا لے وہ مودی کی دکان پر گیا اور اُن نے پیالا اور دو پیسے اُس کے آگے رکھ کے کہا کہ اچھے سے اچھا گھی مجھے دے۔ وہ بولا: ایسا گھی دوں کہ جیسا سفید چرب۔ اس بات کے سنتے ہی یہ پیالا اور پیسے لے چرب والے کی دوکان پر گیا اور اس نے پیالا اور پیسے دے اس سے کہا کہ بھلے سے بھلا چرب مجھے دے۔ وہ بولا کہ ایسا صاف دوں کہ جیسا برف۔ یہ سن وہ وہاں سے پیالا اور پیسے لے برف والے کے پاس گیا اور بولا کہ بہتر سے بہتر برف میرے تئیں دے۔ اُس نے کہا کہ ایسا دوں کہ جیسا آبِ زلال۔ یہ وہاں سے بھی پیالا اور پیسے ہی لے اپنے گھر آیا اور ایک پیالا میٹھے پانی کا بھر کر آشنا کے آگے لے گیا۔ وہ دیکھ کر بولا کہ تم تو گھی لینے گئے تھے۔ یہ کیا لے آئے؟ جواب دیا کہ تین نچوڑ میں یہ ٹھہرا ہے۔ اس سے یہی بہتر ہے کیوں کہ شاعر لوگ بھی مشبہ سے مشبہ بہ کو اعلیٰ جانتے ہیں۔
نقل 62
ایک بنیاں اپنے بیٹے کو بیاہنے برات لیے شہر سے پر شہر کو جاتا تھا۔ راہ میں ایک جنگل ملا۔ اُس میں کہیں دائیں بائیں اس کا بھائی جھاڑے پھرنے گیا۔ اتفاقاً اسے وہاں شیر کھا گیا۔ اس میں دیری جو ہوئی تو بنیاں اپنے من میں یہ سمجھا کہ کسی دین لین والے نے شاید میرے بھائی کو بیٹھا رکھا ہے۔ لگا روزنامہ کھاتے کی بہی دیکھنے۔ جب دیکھتے دیکھتے اُس میں کسی کا دینا پانا نہ ٹھہرا تب گھبرا کے جنگل میں ڈھونڈھنے چلا۔ کتنی ایک دور جائے دیکھے تو ایک شیر لیٹا ہوا ہے اور اس کے بھائی کا ہاڑ چام آگے پڑا ہے۔ یہ دیکھتے ہی بولا: سن تو اوت کے اوت، نہ تیرا ہمارے کھاتے میں نام نہ روزنامے میں۔ تو نے میرے بھائی کو کس حساب سے مارکھایا؟ وہ ہوں کر کے گھرکا، تب بنیاں یہ کہہ روتا پیٹتا پھر آیا کہ ہاں اس حساب سے کھایا ہے تو ٹھیک ہے۔
نقل 63
چار شخص اپنے گانو سے نکلے براہمن، راجپوت، بنیاں اور نائی۔ اور کسی کسان کے کھیت پر جا لگے گنے اکھاڑ اکھاڑ پھاندیاں باندھنے اور چوسنے۔ اُس کھیت والے نے دیکھا اور اپنے جی میں بچارا کہ یے چار اور میں اکیلا۔ جو کچھ کہتا ہوں تو یے مجھے بن ٹھوکے نرہیں گے۔ اس سے کچھ حکمت کیا چاہیے۔ یہ بات دل میں ٹھان وہ ان کے پاس جا رام رام کر بولا کہ سنو صاحب! براہمن ہمارے گرو، راجپوت بھائی، بنیاں مہاجن۔ تینوں آدمی کے گانڈے کھانے کا کچھ مضائقہ نہیں۔ بھلا اس نائی نے کیا سمجھ کے میرے کھیت میں ہاتھ ڈالا۔ اس کا تمھیں نیاؤ کرو۔ یہ بات سن کر وے چپ ہو رہے۔ تب اس نے نائی سے گنے چھین لیے اور اسے جُتیا کر نکال دیا۔ پھر کسان کہنے لگا کہ سنو بھائی! براہمن گرو تم بھائی۔ ہمارا تمھارا مال ایک ہے۔ اس بنیے نے کیا بوجھ کے میرا کھیت اجاڑا۔ بھلا اس کا تمھیں انصاف کرو۔ جو تم ہم اس کے یہاں سے رُپے لیں گے تو کیا یہ اپنا سود چھوڑ دے گا؟ اس بات کو سن وے کچھ نہ بولے۔ تد تو اس نے اسے بھی دَھولیا کے گانڈے چھین نکال دیا۔ غرض اسی طرح سے اس نے ہر ایک کو نکالا اور اپنا مال بچایا۔
اس بات کو سن تعجب کر ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا: یہ کیا غضب ہے کہ چار آدمی پر ایک شخص غالب رہے۔ اس نے پوچھا: یہ کیا بات ہے مجھے سمجھا کے کہو۔ اس نے ان کا ماجرا کہہ سنایا۔ تب اس کا آشنا بولا: کیا تم نے یہ مثل نہیں سنی جو اتنا تعجب کرتے ہو کہ “جگ پھوٹا اور نرد ماری گئی”۔
نقل 64
کسی راجا کے یہاں بکٹ خاں نام کلاونت بہ سبب گانے بجانے کے بہت پیش ہوا۔ آٹھ پہر اس کی مصاحبت میں رہے۔ ایک دن اس راجا پر کوئی غنیم چڑھ آیا تو اس نے بھی لڑنے کی تیاری کی اور اپنے رفیقوں کو ہتھیار گھوڑے بانٹے۔ اس وقت بکٹ خاں سے راجا نے کہا کہ تم بھی سلح خانے سے ہتھیار اور اصطبل سے گھوڑا اپنی پسند موافق لے لو۔ کل تمھیں بھی ہمارے ساتھ لڑنے کو چلنا ہوگا۔ اس بات کے سنتے ہی اس کی جان تو سوکھ گئی، پر مارے شرم کے “بہت خوب” کہہ گھوڑا اور ہتھیار پسند کر کسی بہانے سے وہ اپنے گھر آیا اور جورو سے کہنے لگا کہ اس شہر سے ابھی بھاگ چلو۔ نہیں تو راجا کے ساتھ کل مرنے کو جانا ہوگا۔ اس کی جورو عقل مند تھی، بولی: جو لڑائی میں جاتا ہے سو بے اجل نہیں مرتا۔ یہ کہہ اس نے چکی میں چنے دل کر دکھائے اور کہا کہ دیکھ جس طرح اس میں دانے ثابت رہ گئے، ایسے لڑائی میں بھی لوگ بچ رہتے ہیں۔ بولا: جو پس گیا سو میں ہوں۔ اس کم ہمتی کو دیکھ اُس کی عورت جھنجھلا کر بولی کہ سن جو تو ایسے خاوند سے نمک حرامی کر اس کا ساتھ چھوڑے گا تو میں بھی تیرا ساتھ ندوں گی۔ یہ سن شرما لا جواب ہو راجا کے پاس بھور ہی جا حاضر ہوا اور ہتھیار لگا گھوڑے پر سوار ان کے ساتھ ہو لیا۔ جس وقت میدان میں دونوں دَل تُل کر لڑنے کو تیار ہوئے اور لگا مارو بجنے اور گولی گولا بان دونوں اور سے چلنے اور اس کا گھوڑا بھڑکنے، تس وقت بکٹ خاں نے تو مارے ڈر کے راجا سے عرض کی کہ مہاراج! ہوں گرتُ ہوں۔ پر راجا سمجھا کہ یہ کہتا ہے میں حریف کی فوج پے گروں۔ بولا ایسا کام بھی نکیجیو۔ تم میرے ہاتھی کے ساتھ اپنا گھوڑا رکھو۔ دو تین دفع راجا سے اس نے کہا اور راجا نے یہی جواب دیا۔ ندان گھوڑا اسے حریف کے غول میں لے ہی گیا، تب بکٹ خاں نے کمر سے دُپٹا کھول پھرایا۔ اس سے اُس راجا کے لوگ لڑنے سے باز رہے اور اِس کے پاس آئے۔ کہا: تو کیا پیغام لایا ہے؟ بولا: مجھے گھوڑے سے اتارو تو کچھ عرض کروں۔ انھوں نے اسے گھوڑے سے اتارا۔ تد یہ بولا کہ تم کس لیے لڑتے ہو، جس طرح کی معاملت چاہو گے سو ہمارا راجا قبول کرے گا۔ اُس نے کہا کہ دس لاکھ رُپے دے اور اپنی بیٹی ہمارے بیٹے کو بیاہ دے۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔ وہ بولا: یہ بات ہمارے راجا کو قبول ہے۔ میں اس کا جواب کل دے جاؤں گا، تم خاطر جمع رکھو۔ اس بات کے سنتے ہی خوش ہو اُس راجا نے اسے ایک بھاری خلعت اور بہت سے رُپے دے رخصت کیا اور لڑائی موقوف کی۔
دوسرے دن بھور ہی یہ راجا جب چڑھ کھڑا ہوا تب اُس راجا نے کہلا بھیجا کہ کل تو تمھارا وکیل تمھاری طرف سے دس لاکھ رُپے اور بیٹی دینی قبول کر گیا ہے، اب کیوں لڑنے کو تیار ہوئے ہو۔ سنتے ہی راجا نے فرمایا کہ دیکھو کون آدمی ہماری طرف سے وہاں جا کر یہ بات کہہ آیا ہے، وِسے میرے پاس لاؤ۔ غرض تحقیق کر کے لوگ بکٹ خاں کو ہاتھوں ہاتھ راجا کے سوں ہیں لے گئے۔ تب کسی مصاحب نے اُس سے پوچھا کہ تو کس کے حکم سے دس لاکھ رُپے اور لڑکی دینے کا اقرار کر آیا؟ بولا: اسے حکم کیا چاہیے، جو اس گھوڑے پر چڑھے گا سو اقرار ہی کر آوے گا۔ اس بات کے سنتے ہی راجا نے خفا ہو اُسے نکال دیا اور بڑا افسوس کیا۔ اس میں کوئی مصاحب بول اٹھا کہ مہاراج! آپ نے جو اتنا افسوس کیا سو کیا، یہ مثل نہیں سنی ؎
کہ جس کا کام تِسی کو چھاجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
نقل 65
ایک شخص کی بھینس مر گئی۔ وہ لگا رونے۔ اس میں اس کے ایک پڑوسی نے آ کر پوچھا کہ بھائی! تم کیوں روتے ہو؟ بولا: میری بھینس مر گئی جو سارے کنبے کو پرورش کرتی تھی۔ یہ بولا: بھائی! صبر کرو، ہمیں تمھیں کالے دھن سے لہنا نہیں۔ اُس نے پوچھا: تمھارا کیا نقصان ہوا؟ جواب دیا: میرے بھی پکانے کی ہانڈی پھوٹ گئی۔ اس بات کے سنتے ہی وہ غریب ہنس کر بولا کہ ہاں بھائی، سچ کہتے ہو۔
نقل 66
ایک روز تلسی داس گُسائیں بنارس میں کسی مکان پر بیٹھے تھے کہ ایک روکھڑ فقیر نے آ کے سوال کیا: الکھ۔ اس کے جواب میں تلسی داس نے یہ دوہا کہہ سنایا، دوہا ؎
ہمیں لکھ ہمار لکھ ہم ہمار کے بیچ
تلسی الکھے کہا لکھے رام نام بھج نیچ
اس دوہے کو سن وہ مارے شرم کے لا جواب ہو چپ چاپ چلا گیا۔
نقل 67
کسی شہر کے عامل کا باپ مر گیا۔ وہ اس کے غم میں بہت دلگیر بیٹھا تھا۔ شہر کے سب آدمی کیا دنیا دار کیا فقیر، ہندو مسلمان مل کر اس کے یہاں ماتم پرسی کو گئے اور بیٹھ کر چلے آئے۔ پر چار شخص اُس کی بے قراری دیکھ ان میں سے بیٹھے رہے: بے نوا، بیراگی، سنیاسی اور جوگی۔ اور ہر ایک اپنے اپنے طور کی مثل کہہ چلا آیا۔ بے نوا نے یہ مثل کہی دوست ؎
دید دنیا کا دم بدم کیجے
کس کی شادی و کس کا غم کیجے
بیراگی نے یہ ؎
سادھو یا سنسار میں سبھی بٹاؤ لوگ
کا کو کریں مناونو کا کو کیجے سوگ
سنیاسی نے یہ ؎
آئے ہیں سو جائیں گے راجا رنک فقیر
ایک سنگھاسن بیٹھ کر باندھے جات زنجیر
جوگی نے یہ ؎
جوگی تھا سو اٹھ گیا آسَن رہی بھبھوت
نقل 68
شاہ جہاں بادشاہ کے یہاں کئی ایک پوستیوں نے مل کر کسی کے کہے سنے سے عرضی دی کہ پیر مرشد! آپ کے عمل میں ہم بھوکھے مرتے ہیں اور سب چین کرتے ہیں۔ حضور سے کھانے رہنے کی جگہ ہو جائے تو ہماری جان بچے۔ عرضی کے پڑھتے ہی شاہ نے وزیر سے کہا کہ پوستیوں کے کھانے رہنے کا بند و بست ابھی کر دو تاکہ یے بچارے کسی بات کا دکھ نپاویں۔ حکم ہوتے ہی پوستی خانہ بنوا وزیر نے تمام شہر کے پوستیوں کو وہاں رہنے کو جگہ دے اُن کا درماہ کر دیا۔یہ خبر سن سارے شہر کے سست کم چور کاہل بے محنت کے رُپے لینے کے لالچ سے وہاں آئے آئے پوستیوں میں نام لکھائے لکھائے رہنے لگے۔ غرض ایک سال کے عرصے میں کئی ہزار پوستی شمار کیے گئے۔ تب پوستی خانے کے داروغہ نے وزیر سے جا کہا کہ خداوند! جو اسی طرح سے درماہا ملے جائے گا تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی برس میں سارا شہر پوستی ہو جائے گا۔ ایک ہی برس میں کئی ہزار جمع ہوئے ہیں۔ وزیر نے جا بادشاہ کو خبر پہنچائی۔ شاہ نے فرمایا کہ اسے تجویز کر کے دیکھو، جو اصل پوستی ہے وِسے رہنے دو اور جو تقلیدی ہے وِسے نکال دو۔ یہ حکم ہوتے ہی وزیر نے گھر آئے سب کی دعوت کی اور بہت سا پوست پلایا۔ جب خوب نشے میں ہوئے تب انھیں کھانے کو مٹھائی دی اور یہ کہا کہ جو کوئی کھانے کے وقت بدن میں ہاتھ نہ لگاوے گا سو ہزار رُپے پاوے گا اور اپنا بدن کھجلاوے سو نہیں۔
غرض مٹھائی کھاتے کھاتے اُن کے بدن میں کھجلاہٹ ہوئی؛ تب تقلیدیوں نے تو مارے لوبھ کے نہ کھجلایا، پر اصل پوستی یہ کہہ کھجلانے لگے کہ اس ایک ایک گھسّے پر ہزار ہزار رُپے صدقے ہیں۔ وزیر نے اُسی دن نہ کھجلانے والوں کو جواب دیا اور کھجلانے والوں کا درماہا دونا کیا۔
نقل 69
ایک کڑوڑ پتی بڑا بخیل تھا۔ اس کے گھر میں کچھ شادی آئی تو اُس نے اپنے باورچی و بکاولوں کو بلا کر کہا کہ ایک سیر کی سولہ روٹی پکاؤ اور دو کے آگے ایک رکھو۔ اس میں کھاوے سو کھاوے، بچے سو باندھ لے جاوے۔ ہر گاہ کسی کو منع نہ کرو۔ وے بولے: بہت خوب۔
یہ بات سن کر کوئی ان کا آشنا بولا کہ بھائی صاحب! یہ شادی یا لوٹا لوٹ؟ جواب دیا: بندۂ درگاہ جب کرتے ہیں تب لوٹا لوٹ ہی کرتے ہیں۔ تم نے یہ مثل نہیں سنی: “کیا لے گئے شیر شاہ کیا لے گئے سلیم شاہ، دنیا میں سخی اور شوم کا نام ہی رہ جاتا ہے”۔
نقل 70
مفت بِرانے مال کے کھانے والے دلی کے بانکے مشہور ہیں۔ ایک دن کوئی بانکا کسی حلوائی کی دوکان کے سوں ہیں جا کھڑا ہوا اور لگا اس کی مٹھائی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھنے۔ وہ بولا: دیکھتے کیا ہو صاحب؟ اس نے ایک مٹھائی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: کھاجا۔ اتنی بات کے سنتے ہی یہ جھٹ تھال اٹھا اُس کی سب مٹھائی کھا گیا اور لگا کچھ نقد مانگنے اور کہنے کہ میں نے تیرا حکم بجا دیا، اس کا محنتانہ مجھے دے۔ ندان دھمکا دھمکو کے اُس نے ایک رُپیا لے ہی کے چھوڑا۔ تب کئی ایک آدمیوں نے آ کے حلوائی سے پوچھا کہ میاں! یہ کیا معاملہ تھا، کہہ تو سہی۔ بولا: صاحب! کہوں کیا، اپنا سر؟ یہ وہی مثل ہے جو کانوں سنتے تھے سو آنکھوں دیکھی کہ “الٹا چور کتوالے ڈانڈے”۔
نقل 71
ایک گسائیں اپنے چیلے کو ساتھ لے کسی شہر سے تیرتھ کرنے کو نکلا اور چلا چلا ایک گانو میں پہنچا۔ تب اس نے چیلے کے ہاتھ بازار سے کچھ کھانے پینے کا سر انجام منگوایا۔ چیلا جو بازار میں جا کے دیکھے تو سب جنس ایک ہی بھاؤ ہے۔ وہ مارے خوشی کے گھی چینی اور میدا لے آیا اور ملیدا بنا جلدی سے گرو کے آگے لا رکھا۔ گرو نے پوچھا: بابا! آج کیا ہے جو تو نے چورما بنایا؟ بولا: مہاراج! یہاں سب چیز ایک ہی بھاؤ ہے، اس لیے میں نے ملیدا ہی کیا۔ یہ سن گسائیں نے چیلے سے پوچھا: اس گانو کا نام کیا ہے؟ بولا: ہرِ بھوم پور۔ کہا: یہاں سے ابھی چلو، نہیں تو کیا جانیے کس بلا میں پڑیں۔ چیلے نے جواب دیا: میں تو اس شہر سے نجاؤں گا، آپ کا جی چاہے تو تیرتھ جاترا کر آئیے۔ ندان گسائیں اکیلا گیا اور چیلا وہاں رہا۔
برس ایک میں وہ کھا پی کر ایسا موٹا ہوا کہ پہچانا نجاتا تھا۔ ایک روز کوئی چور چوری کرتے پکڑا گیا۔ راجا کے یہاں سے اسے سولی دینے کا حکم ہوا۔ کوتوال اُس چور کو سولی کے پاس لے جا کر کیا دیکھتا ہے کہ چور دبلا اور سولی موٹی ہے۔ یہ خبر راجا سے جا کہی۔ راجا نے فرمایا کہ کسی موٹے کو پکڑ کر سولی دو اور چور کو چھوڑ دو۔ راجا کا حکم ہوتے ہی کوتوال اُس گسائیں کے چیلے کو سب سے موٹا دیکھ پکڑ کر سولی کے پاس لے گیا اور چاہے کہ اُسے سولی پر چڑھاوے کہ اِس میں خدا کا چاہا وہ گسائیں بھی وہاں آ پہنچا اور اپنے چیلے کو سولی دیتے دیکھ بولا: او بابا کوتوال! تو اِسے سولی ندے۔ اس کے بدل مجھے دے۔ کوتوال نے پوچھا: کیوں؟ گسائیں نے کہا: اِس سولی پر جو چڑھے گا سو سوَرگ کا راجا ہوگا۔ اِسی دن کے لیے میں بارہ برس کی عمر سے جوگ کماتا تھا، سو دن بھگوان نے آج دکھایا اور میرا منورتھ پورا کیا۔ کوتوال بولا: تجھے کیوں سولی دوں گا، میں ہیں اس سولی پر چڑھوں گا۔ کوتوال کے سولی چڑھنے کی خبر پا کر صوبے نے کہا: تو نچڑھ، میں چڑھوں گا۔ صوبے کی خبر پا کر دیوان نے کہا: میں چڑھوں گا۔ آخر اسی طرح بحثا بحثی کرتے وہاں کا راجا ہی سولی پر چڑھ مرا۔ تب اُس گسائیں نے چیلے سے کہا: کیوں میں تجھے نہ کہتا تھا کہ یہاں نہ رہ۔ اب بھی رہے گا؟ بولا: مہاراج! میری وہی مثل ہے کہ “بھولے بنیے بھیڑ کھائی، پھیر کھائے تو رام دُہائی”۔
یہ کہہ کر وہ اُسی وقت گرو کے ساتھ وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔
نقل 72
ایک سپاہی لکھا پڑھا دنیا داری کے کاروبار سے خفا ہو کر فقیر ہو گیا اور لگا ملک بملک پھرنے۔ کسی شہر کے دروازے کی اوپرلی چوکھٹ میں کچھ لکھا تھا سو لگا بانچنے۔ اس میں اُس نے ایک کونے میں لکھا دیکھا کہ “ہمتِ مرداں مددِ خدا”۔ اس عبارت کے پڑھتے ہی خفا ہو بولا کہ جس شہر کے دروازے پر یہ جھوٹھ لکھا ہے اُس کے اندر نہ جانیے کیا کچھ ہوگا۔
یہ کہہ شہر میں نجا اُلٹا پھرا اور کتنی ایک دور جا کر آپ ہی آپ سوچا کہ میں نے بنا آزمائے کسی کے لکھے کو جھوٹھ کہا، یہ بڑی بے انصافی کی۔ اتنا سمجھ پھر پھرا اور یہ ارادہ کر بوریا بچھا اُسی دروازے میں جا بیٹھا کہ اس شہر کے بادشاہ کی بیٹی کو میں بیاہوں گا۔ اس میں اُسے وہاں تین دن بن دانا پانی کے گذرے۔ درمیان اس کے اُس نے نہ کسو سے بات کہی، نہ کچھ کھایا؛ بلکہ شہر کے لوگوں نے کھلانے پلانے کا بہت قصد کیا، پر اِس نے اُنھیں کچھ جواب ہی ندیا۔ یہ خبر وہاں کے بادشاہ کو پہنچی۔ شاہ نے وزیر کو بلا کر فرمایا کہ اِسی وقت تو جا کے فقیر کو جو مانگے سو دے کر کھلا پلا رخصت کر آ۔
شاہ کے فرماتے ہی وزیر نے فقیر سے جا کے کہا کہ شاہ صاحب! حضور کا حکم مجھے یوں ہے کہ جو فقیر کا سوال ہو سو پورا کر آ۔ جو آپ کو مطلوب ہے سو فرمائیے۔ بندہ لا حاضر کرے۔ فقیر نے کہا: میں بادشاہ کی بیٹی سے شادی کروں گا، تو مجھے لا دے۔ سواے اس کے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ اس بات کے سنتے ہی وزیر لا جواب ہو پھر کر بادشاہ کے پاس پہنچا۔ شاہ نے کہا: کیوں فقیر کو رخصت کر آیا؟ عرض کی: جہاں پناہ! جو فقیر نے بات کہی ہے، تقصیر معاف غلام زبان پر نہیں لا سکتا۔ حضرت نے فرمایا کہ لکھ کر دے۔ اس نے اُن کے فرمانے سے اُس کا سوال لکھ کر گذرانا۔ شاہ نے سوچ سمجھ کے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں۔ اُس سے کہو سوا سیر اَن بیندھے موتی لے آ۔ تیری شادی شاہزادی سے ہوگی۔ بادشاہوں کے یہاں یہ رسم ہے کہ سوا سیر ان بیندھے موتیوں سے شہر دلہن کی گود بھرے۔
وزیر نے پھر جا فقیر سے بادشاہ کی کہی بات کہی۔ وہ “بہت خوب” کہہ بوریا بدھنا باندھ موتی لینے سمندر کی طرف گیا اور وزیر شاہ کے پاس آیا۔ اُس وقت شاہ نے فرمایا کہ جو وہ فقیر صاحب کمال ہوگا تو موتی لاوے گا، نہیں آپ ہی چلا جاوے گا۔ اور جو صاحبِ کرامات ہے تو اسے بیٹی دینے میں ہمیں کچھ ننگ نہیں، کیونکہ وِسکا مرتبہ ہم سے اعلیٰ ہے۔ وہ جسے چاہے بات کی بات میں بادشاہت بخش دے۔
القصہ وہ فقیر سمندر کے کنارے پہنچ کمر باندھ بدھنا ہاتھ میں لے لگا پانی الیچنے۔ جب دن رات الیچتے الیچتے اُسے چوبیس پہر گذرے تب سمندر نے آدمی کی صورت بن آن کے پوچھا کہ فقیر! تو کیوں دریا کا پانی نکال نکال پھینکتا ہے؟ بولا: پانی الیچ کے سوا سیر موتی لوں گا۔ جواب دیا: تجھے سوا سیر موتی ملے، تب تو پانی نہ الیچے گا؟ کہا: نہیں۔ بولا: آنکھ موند، میں تجھے موتی دیتا ہوں۔ اِس نے آنکھ بند کی، اُس نے بہت ہی بڑے بڑے سوا سیر کورے موتی لا اِس کے ہاتھ دیے۔ یہ لے، دعا دے پھر اُسی دروازے میں آ بیٹھا۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ شاہ نے وزیر کو بھیج اُسے حضور میں بلوایا اور تعظیم تواضع کر مسند پر بٹھایا۔ غرض جب شاہ زادی کو اُس کے سوں ہیں کھڑا کیا، تب فقیر نے موتی کی پوٹلی جھولی سے نکال اتنا کہہ اس کے ہاتھ دی کہ بھینا لے۔ اِس بات کے سنتے ہی بادشاہ نے دانتوں میں انگلی دے کہا: شاہ صاحب! تم نے کیا کہا؟ بولا: بابا! سچ کہا۔ پھر بادشاہ نے پوچھا کہ تمھارا سوال کیا تھا؟ جواب دیا: بابا! سوال جواب کچھ نہ تھا۔ فقیر کو ایک بات کا امتحان کرنا منظور تھا، سو کیا۔ تیرے شہر کے دروازے پر لکھا ہے کہ ہمت مرداں مددِ خدا۔ سو فقیر کے گمان میں جھوٹھ آیا تھا۔ سو نہیں، کسی نے سچ لکھا ہے۔ اتنا کہہ فقیر وہاں سے روانہ ہوا۔
نقل 73
ایک کایتھ نے گانے بجانے کی صحبت میں کسی گویے سے یہ شعر سنا ؎
عشق کیا شے ہے، کسی کامل سے پوچھا چاہیے
تبھی سے وہ صاحب کمال کی تلاش میں تھا کہ ایک گسانئیں اِسے ملا۔ اِن نے ڈنڈوت کر اُس سے پوچھا کہ مہاراج! عشق کیا شے ہے، مجھے دَیا کر بتائیے۔ اس کی بات سن اُس نے کہا: بابا! میں نے تو اپنے گرو دیو کے مکھ سے یوں سنا ہے ؎
عشق اسی کی جھلک ہے جوں سورج کی دھوپ
جہاں عشق تہاں آپ ہے قادر نادر روپ
نقل 74
ایک دن عالمگیر بادشاہ کو کسی نے عرضی دی کہ جہاں پناہ! آپ کی بادشاہت میں دلال دن دَھولے بیچ بازار کے رعیت کو لوٹتے ہیں۔ مال کسی کا لے کوئی، وے درمیان دو آنے رپیہ لیتے ہیں۔ عرضی کے پڑھتے ہی بادشاہ نے سارے شہر کے دلالوں کو پکڑوا منگوایا۔ اور پوچھا کہ تم کس بات کی کوڑی کھاتے ہو؟ عرض کی: جہاں پناہ! بازار میں کوئی چیز آوے، پہلے ہم اس کا مول تول کر دیتے ہیں، تب خریدار لیتے ہیں۔ اسی بات کی کمائی کھاتے ہیں۔ شاہ نے فرمایا: ہمارا مول تول کر دو تو، تو خیر۔ نہیں تو سب کو شہر سے نکال دوں گا۔ اتنی بات کے سنتے ہی اُن میں جو چودھری تھا، سو بانٹ کانٹا لے آگے بڑھ بیٹھا اور لگا ادھر ادھر نکتی میں بانٹ ڈال تولنے۔ اس میں کچھ دیر ہوئی تو بادشاہ نے کہا: کہتا کیوں نہیں، گھڑی گھڑی تولتا کیا ہے۔ اُس نے ہاتھ باندھ کھڑے ہو جواب دیا کہ پیر مرشد! آپ تول میں تو جتنے سب آدمی ہیں وِتنے ہی ہو، پر مول میں نہیں کہہ سکتا۔ کیوں کہ ایک رتی مجھے نہیں ملتی۔ جو رتی ہاتھ لگتی تو وہ بھی کہہ دیتا۔
اس لطیفے کے سنتے ہی بادشاہ نے اُن سب کو پان دے یہ کہہ چھوڑ دیا کہ دلالی کھانا تمھارا حق ہے، شوق سے کھاؤ اور عرضی دینے والے کو نکال دیا۔
نقل 75
ایک متھرا کا چوبے کہیں بیل پر سوار پوریاں کھاتا چلا جاتا تھا۔ کسی کانھ کُبج پنڈت نے دیکھ کر طعن کی راہ سے پوچھا کہ چوبے جی! تم چوکے میں نہ بیٹھ بیل پر بیٹھے پوریاں کھاتے جاتے ہو، سو اس کا پرمان کیا ہے؟ جواب دیا کہ پرسدھ کو پرمان کچھو نا ہیں چاہیت۔ بولا سو کیا۔ اس نے کہا کہ چوکا یاہی کے مارگ سوں نکسیو ہے۔ اس بات کے سنتے ہی وہ پنڈت ہنس کر رہ گیا۔
نقل 76
ایک سپاہی بڑا جواری تھا۔ جب جیتتا تب مارے خوشی کے ایسا غافل ہو جاتا کہ کوئی اس کے پہرنے کے کپڑے بھی اتار لیتا تو بھی اسے معلوم نہ ہوتا۔ اسی امید سے دس پانچ شہدے ہر وقت اس کے ساتھ لگے رہتے اور جد قابو پاتے تد اُس کا مال اڑاتے۔ ایک روز وہ کسی غیر محفل میں جوا کھیلنے کو گیا اور لگا جیت جیت رُپے اپنے آگے سے پیچھے کھسکانے اور اس کے ساتھ لقندرے لگے اڑانے۔ اس میں کسی نے دیکھ کر ایک سے کہا کہ دیکھو، کسی کی کوڑی کوئی اڑاوے۔ دوسرے نے جواب دیا: کیا تم نے یہ مثل نہیں سنی جو تعجب کرتے ہو کہ “اندھی پیسے کتا کھاتے، پاپی کا مال اکارتھ جائے”۔
نقل 77
شاہ جہاں بادشاہ نے دیوان خاص سے لے قلعے کے صدر دروازے تک ایک رسّا بندھوا دیا تھا اور اُس میں گھنٹالیاں گنتھوا چھور اُس کا بیچ بازار میں ڈلوا دیا تھا۔ اس واسطے کہ جو کوئی فریادی آوے سو اُس رسے کو کھینچے۔ گھنٹالیاں باجیں اور فریادی کی فریاد حضور میں بے وسیلے پہنچے۔
ایک روز کسی سقے کا بیل معہ بھری پکھال اُس رسے کے پاس آن کر کھڑا ہوا۔ سقا کسی کے یہاں مشک ڈالنے گیا تھا۔ بیل نے رسے سے سر کھجلایا۔ اس کے سینگ کا جھٹکا جو لگا، ایک بارگی سب گھنٹالیاں باج اٹھیں۔ سنتے ہی شاہ نے فرمایا: دیکھو کون ہے۔ لوگوں نے جھٹ خبر دی کہ پیر مرشد! اور تو کوئی نہیں، ایک بہشتی کا بیل ہے۔ حکم کیا کہ اُسے اس کے مالک سمیت لے آؤ۔ لوگ فی الفور لے گئے۔ شاہ نے فرمایا کہ اس کی پکھال کا پانی تولو کہ کتنا ہے۔ تول کر عرض کی کہ جہاں پناہ! ساڑھے پانچ من ہے۔ سنتے ہی بادشاہ نے حکم کیا کہ آج سے ساڑھے تین من پانی سے زیادہ شہر میں کوئی پکھال نہ بناوے۔۔ اسی وقت منادی پھر گئی۔ تبھی سے ساڑھے تین من پانی سے زیادہ پکھال نہیں بنتی۔
نقل 78
دو دلی کے بانکے بِرانے مال کے اڑانے کھانے والے کسی مکان سے یہ منصوبہ کر کے اٹھے کہ آج بازار میں چل کر بن کوڑی پیسے مفت کی مٹھائی کھایا چاہیے۔ اور آگے پیچھے ہو بازار میں پہنچے۔ ایک تو جاتے ہی رُپے کی مٹھائی تلوا لگا حلوائی کی دکان پر بیٹھ کھانے۔ اور دوسرے نے اُسی حلوائی سے آٹھ آنے کی مٹھائی اور ادھیلی کے ٹکے لے اپنی راہ لی۔ حلوائی نے دوڑ کر اس کا دامن پکڑا اور کہا: میرا رُپیا دو۔ وہ بولا: میں دے چکا ہوں۔ اس میں دونوں سے رد بدل ہونے لگی اور بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ تب اس بانکے نے کہا کہ میں نے ایک بھلے آدمی کے دیکھتے اِسے رُپیا دیا ہے، نہ مانے چل کر پچھوا دوں۔ لوگوں نے کہا: اچھا تو کہتا ہے تو دکان پر کیوں نہیں لے جاتا۔ لوگوں کے کہے سنے سے حلوائی نے دکان پر جا اُس مٹھائی کھانے والے سے پوچھا کہ میاں صاحب! آپ سچ کہیے، اس نے مجھے رُپیا کب دیا ہے؟ وہ بولا: ابے اِنھوں نے تو رُپیا میرے دیکھتے دیا ہے، پر کہیں میرا رُپیا نہ بھول جائیو۔ یہ کہہ وے دونوں اُسے احمق بنا مٹھائی کھا چلے گئے اور وہ بچارا رو جھینکھ کر بیٹھ رہا۔
نقل 79
کسی دن تلسی داس گسائیں کتنے ایک آدمیوں کے بیچ کہیں بیٹھے گیان چرچا کرتے تھے۔ اس میں اُس راہ سے کسی کی برات آ نکلی۔ اُس کے باجے کی آواز سن سب کے من دُچِتے ہوئے۔ تب تلسی داس ہنسے۔ اُن کو ہنستا دیکھ وِن میں سے کسی نے پوچھا: مہاراج! آپ کیا دیکھ کر ہنسے؟ جواب دیا: دنیا کی بھول دیکھ کے۔ بولا سو کیا، اوتر دیا ؎
پھولے پھولے پھرت ہیں آج ہمارو بیاہ
تلسی گائے بجائے کے دیت کاٹھ میں پائے
نقل 80
ایک بڑا سوداگر کسی صاحب کمال فقیر کے یہاں جا کر مرید ہوا اور پیر کی خدمت میں آٹھوں پہر حاضر رہنے لگا۔ خدا کا چاہا چھ مہینے کے عرصے میں اس کا ایسا کام بگڑا کہ کھانے پینے کو بھی کچھ پاس نرہا۔
ایک روز پیر نے اِسے اداس دیکھ کہا کہ بابا! کیا تو نے یہ مثل بھی نہیں سنی جو اتنی فکر کرتا ہے ؎
الہ داد کرتا کی باتیں کیا نکرتا کیا نکرے
ہاتھی مار گرد میں ڈالے ادنی کے سر چھتر دھرے
ریتے بھرے بھرے ڈھلکا وے
مہر کرے تو پھیر بھرے
نقل 81
ایک روز اکبر بادشاہ کے رو برو کسی مغل نے از راہِ ظرافت راجا ٹوڈل مل سے پوچھا کہ راجا صاحب! تمھارے یہاں مل لفظ کے کیا معنی ہیں؟ وونہیں سمجھ کر راجا نے جواب دیا کہ مرزا صاحب! جو لفظ بیگ کے معنی ہیں سوئی مل کے ہیں۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ مغل بہت شرمندہ ہوا۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ سنسکرت میں یے دونوں نام گوہی کے ہیں۔
نقل 82
کسی مکان پر کوئی ملا بیٹھا لڑکے پڑھاتا تھا کہ ایک لڑکے کے باپ نے آ کر اسے اُلہنا دیا: میاں صاحب! میرے بیٹے کو آپ نے کچھ نہ تربیت کیا۔ دیکھو اب تک چھوکروں کے ساتھ وہ کھیلتا پھرتا ہے اور میرا کہا نہیں مانتا۔ اتنی بات کے سنتے ہی میاں جی خفا ہو کر بولا کہ ہاں صاحب! نیکی برباد گنہ لازم۔ میں نے ایک برس محنت مشقت کر لکھا پڑھا گدھے سے آدمی بنایا اور تم نے یہ بات کہی۔ اب مجھے تم سے کچھ لینے پانے کی امید باقی نرہی۔ یہ یاس کا کلمہ سن کر لڑکے کا باپ تو میاں جی کو بہت سی تسلی دے کے چلا گیا، پر ایک دھوبی اور دھوبن بڑے دولت مند جنھوں نے میاں جی کی زبانی یہ بات رستے میں کھڑے ہو کے سنی تھی کہ میں نے تمھارے لڑکے کو برس دن میں لکھا پڑھا گدھے سے آدمی کیا۔ وے دونوں جورو خصم آ موجود ہوئے اور ہاتھ جوڑ کر بولے کہ میاں جی صاحب! جتنے رُپے چاہیے لیجیے اور میرے بھی گدھے کو آدمی بنا دیجیے۔ ملا نے ان دونوں کی بات سن کے دل میں بچارا کہ یے ہیئے کے اندھے، مت کے ہینے، گانٹھ کے پورے میری قسمت سے آن ملے ہیں۔ اِن سے رُپے کیوں نہیں لیتا۔ یہ سمجھ ان نے اُن سے کہا کہ ہزار رُپے دو اور گدھے کو باندھ جاؤ۔ ایک برس کے بعد آ کر لے جائیو۔ اِس بات کے سنتے ہی وے جھٹ توڑا دے گدھا باندھ گئے اور ایک برس بعد پھر آن موجود ہوئے۔ اُن کو دیکھتے ہی میاں جی نے کہا کہ دو دن پہلے آتے تو اسے پاتے۔ اب تو وہ جا کے جون پور کا قاضی ہوا۔ اُنھوں نے پوچھا کہ اب ہم اُسے کیوں کر پاویں۔ میاں جی نے کہا کہ تم اُس کے باندھنے کی رسی اور دانا کھانے کا نندولا لے جا کے سوں ہیں کھڑے ہو دکھلاؤ۔ جب وہ پہچان کے تمھیں پاس بلاوے، تب تم نرالے لے جا کے سب احوال کہیو۔ اپنا احوال سن کر وہ تمھیں بہتیرا ڈراوے گا، پر تم نہ ڈریو اور کہیو کہ جو تم ہماری بات نہ مانو تو چل کر میاں جی سے پوچھ لو۔
غرض وے دونوں جون پور گئے اور اُسی طرح کرنے لگے۔ تب قاضی نے اِن دونوں کو پاس بلا کر پوچھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو۔ بولے: نرالے چلو تو اس کا احوال کہیں۔ قاضی انھیں نرالے لے گیا۔ پھر اِنھوں نے سب احوال کہہ سنایا۔ قاضی نے دریافت کیا کہ کسی شخص نے انھیں بہکایا ہے۔ اس سے اِن کی بات بن قبول کیے کسی طرح یے میرا پیچھا نہ چھوڑیں گے۔ یوں سمجھ قاضی نے کہا: جو تم نے کہا سو سب سچ، پر اب تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ یے بولے: ہم بے اولاد ہیں، ہمارے مال اموال کے وارث ہو کے مرنے سے مٹی دیجو۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔ آخر مارے شرم کے قاضی نے ان کی بات قبول کی، اس لیے کہ کوئی اور نہ سنے۔
نقل 83
ایک کھتری دنیا سے بیزار ہو کے کسی نانک پنتھی فقیر کا جا کے چیلا ہوا۔ کتنے ایک دن پیچھے ایک روز اُس نے گرو سے کہا کہ مہاراج! میرا جی چاہتا ہے جو آپ کی آگیا پاؤں تو پرتھوی پردچھنا کر آؤں۔ گرو نے کہا: بہت اچھا۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ دنڈوت کر بدا ہوا اور لگا ملک بہ ملک پھرنے۔ جس ملک میں گیا، وہاں اس نے ہر ملک کا آدمی دیکھا تو حیران ہوا۔ ندان کتنے مہینے میں پھر کر گرو کے پاس آیا اور تعجب کر پوچھا کہ مہاراج! یہ کیا آشچرج ہے جو ایک ملک میں آدمی پیدا ہوے اور دوسرے میں جا کر بسے۔ گرو بولا کہ بابا! تو جو اتنا اچنبھا کرتا ہے، سو کیا تو نے یہ دوہا نہیں سنا ؎
کِت کاشی کِت کاشمیر کِت خراسان گجرات
پرسرام یا جیو کی پرا لبدھ لے جات
نقل 84
کسی مکان کے بیچ پانچ سات سپاہی بیٹھے آپس میں ڈینگ مارتے تھے۔ کوئی کہتا تھا میں نے چار گھاؤ کھائے اور کوئی کہتا تھا پانچ۔ غرض ہر ایک نے اپنے اپنے لڑنے اور زخم کھانے کا احوال بیان کیا۔ ایک بوڑھا ٹھٹھول ان کے پاس بیٹھا تھا، بولا کہ میاں! جوانی میں ہم بھی سینکڑوں لڑائیاں لڑے اور ہم نے بھی ہزاروں زخم کھائے ایسے کہ کہیں بدن پر تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہی۔ ہمارے آگے اب کوئی کیا لڑے گا اور کیا زخم کھائے گا۔ اتنی بات کے سنتے ہی اُن میں سے ایک جوان خفا ہو کر بولا: بڑے میاں! کپڑے تو اتارو، دیکھیں تم نے کہاں کہاں گھاؤ کھائے ہیں۔ وہ ہنس کے بولا: میاں گبرو! نہ وہ زمانہ رہا، نہ وے دن رہے، نہ وہ جوانی رہی، نہ وہ تیاری رہی، نہ وہ جسم ہی رہا۔ اب کیا دیکھوگے۔ اتنا کہہ چنپت ہوا۔
نقل 85
کسی منشی کے پاس ایک باہرے کا سید نوکر ہوا۔ ایک روز اُس کا خدمت گار حاضر نہ تھا۔ اُس نے اس سے کہا کہ آج میرا آدمی حاضر نہیں ہے، تم میرے ساتھ دربار چلو۔ کہا: بہت خوب۔ اِس نے اُسے چار پیسے دے کر کہا کہ سارے دن دربار میں رہنا ہوگا، تم ان کے پان لے کے چار گلوری لگوا لاؤ۔ جب میں اشارہ کروں، تب دو کھیلی دیجو۔ میں آگے جاتا ہوں، تم لے کر جلد آؤ۔ یہ کہہ وہ تو دربار میں جا بیٹھا اور اِس نے اپنے دل میں بچارا کہ چار پیسے کے پان سے تو میاں کا پیٹ نہ بھرے گا، اس سے بہتر ہے کہ چار پیسے کی چار روٹی لے چلوں تو میاں پیٹ بھر کھائے گا۔ یہ من میں ٹھان چار پیسے کی چار روٹی لے رومال میں باندھ بغل میں دبا میاں کے سوں ہیں جا کھڑا ہوا۔ منشی نے اسے دیکھتے ہی جوں اشارہ کر ہاتھ بڑھایا توں اُس نے رومال سے دو روٹی کھول اُس کے ہاتھ دیں۔ وہ دیکھتے ہی ہکا بکا ہو لگا اِس کی طرف دیکھنے۔ اُس کے طور بگڑے دیکھ یہ بولا: بھونڈی طرح دیدے پھاڑ پھاڑ دیکھے سے کے میں نہیں کھائی، دو اور دھری سیں۔ یہ سن وہ شرمندہ ہو اپنے دل میں کہنے لگا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ اناڑی کا سودا بارہ باٹ۔
نقل 86
ایک زمیندار کے دو بیٹے، پر ان دونوں میں ہمیشہ ان بناؤ رہتا۔ ایک ایک کو نہ دیکھ سکتا۔ جب ان کا باپ مر گیا، تب وے دونوں آپس میں لڑنے لگے۔ ندان بڑے بھائی نے چھوٹے کو زمینداری سے بے دخل کر مار کے نکال دیا۔ تب وہ کسی اور بڑے زمیندار کو اپنے بڑے بھائی پر چڑھا لایا۔ اُس نے آتے ہی کھڑی سواری اسے مار لیا اور ساری زمینداری کو اپنے قبضے میں کیا۔ جو چڑھا لایا تھا، وِسے کچھ کھانے کو کر دیا۔ یہ ماجرا دیکھ کسی نے تلسی داس گسائیں کے آگے جا کے کہا کہ مہاراج! دنیا کے آرام کے لیے اور چند روز کی زندگی کے واسطے اُس نے بھائی کو مروایا اور دین و دنیا کو گنوایا۔ اِس میں اُس کے ہاتھ کیا آیا۔ جب بھائی بھائی سے یہ سلوک کرے تب دوسرے سے کوئی کیا توقع رکھے۔ تلسی داس جی بولے کہ اس بات کا اچرج مت کرو، ایسے اور بھی ٹھور کہا ہے ؎
بدھک بدھیو مِرگ بان تیں رُدھرو دِیو بتائے
اتِ ہت ان ہت ہوت ہے تلسی دُردنِ پائے
نقل 87
ایک روز کسی حبشی نے راہ میں درپن پڑا پایا۔ ہاتھ میں لے جوں اِس نے اُس میں دیکھا تو اسے اپنے چہرے کا عکس نظر آیا۔ تب لا حول و لا قوۃ الا باللہ پڑھ آرسی پر تھوک یہ کہہ پھینک دیا کہ جب ایسا برا منہ ہے تبھی کوئی رستے میں ڈال گیا ہے۔
نقل 88
اکبر بادشاہ کے روبرو ایک روز میاں تان سین نے سورداس کا یہ بسن پد گایا ؎
جسدا بار بار یہ بھاکھی
ہے کوو برج میں ہتو ہمارو
چلت گُپا لہ راکھی
شاہ نے اس کے معنیٰ پوچھے۔ میاں نے کہا: جسودا گھڑی گھڑی یہ کہے ہے، ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو چلتے ہوئے گوپال کو رکھے۔ میاں تو گائے سمجھائے چلے گئے۔ اس میں آئے بیربل۔ حضرت نے اُن سے بھی اس کا ارتھ پوچھا۔ بیربل بولے: پیر و مرشد! بار کہتے ہیں دروازے کو، سو جسودا دروازہ دروازہ یہ کہتی ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کو نجانے دے۔ اتنے میں راجا ٹوڈل مل آئے۔ حضرت نے اُن سے بھی معنیٰ پوچھے۔ کہا: حضرت سلامت! جسودا کرشن کی ما۔ بار کہتے ہیں پانی کو اور دروازے کو۔ سو پانی کا دروازہ ہوا گھاٹ۔ اس سے معنیٰ یے ہوئے کہ جسودا گھاٹ گھاٹ یہ کہتی ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کو چلنے سے باز رکھے۔
اس درمیان آئے ملا فیضی۔ بادشاہ نے اُن سے بھی وِس کے معنیٰ پوچھے۔ جواب دیا: جہاں پناہ سلامت! بار بمعنیٰ آب اور در۔ یہاں آب سے مراد ہے آنسو اور در سے مراد ہے آنکھ۔ اس سے معنیٰ یے نکلے کہ جسودا رو کر یہ کہتی ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کو نجانے دے۔ اس عرصے میں آئے نواب خان خاناں۔ شاہ نے اُن سے بھی اُس کے معنیٰ پوچھے۔ تب نواب نے عرض کی کہ قبلۂ عالم! اس بسن پد کے معنیٰ کسی اور نے بھی کہے ہیں۔ اس بات کے سنتے ہی جس جس نے جو جو معنیٰ کہے تھے، حضرت نے کہہ سنائے۔ تب نواب نے کہا: جہاں پناہ! یہ تو اُس بسن پد کے معنیٰ نہیں، پر ہاں ہر ایک نے اپنے دل کا خیال بیان کیا۔ شاہ نے فرمایا: سو کیا؟ بولا: وہ بچارا کلاونت جیسے ایک نوم توم لفظ کو گھڑی گھڑی کہتا ہے، وِس کے دل میں یہی خیال بندھا کہ جسودا بھی گھڑی گھڑی کہتی ہے۔ اور بیربل ذات کا باہمن، در در کا پھرنے والا۔ اس کے بھی دل میں یہی خیال بندھا کہ جسودا در در کہتی ہے۔ اور ٹوڈل مل متصدی۔ اُس کے خیال نے یہی بندش باندھی کہ جسودا گھاٹ گھاٹ کہتی ہے۔ اور فیضی شاعر، اسے سواے رونے کے اور مضمون نہ سوجھا۔ اس سے اُس کے خیال میں آیا کہ جسودا رو رو کہتی ہے۔ یہ بات سن کر شاہ نے فرمایا کہ بھلا، اب تم کہو اُس کے کیا معنیٰ ہیں۔ عرض کی کہ جہاں پناہ! بار کہتے ہیں بال کو۔ سو جسودا کا بال بال یہ کہتا ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کا چلنا موقوف کرے۔
معنیٰ کے سنتے ہی شاہ نے خوش ہو سب کی داد دی اور وسعتِ زبانِ برج کی نہایت تعریف کی۔
نقل 89
کسی راجا کی سبھا میں ایک کبِ جا کے چپ چاپ بیٹھ رہا۔ اس میں کوئی راج سبھا میں سے بولا کہ آج کیا ہے جو کبِ جی تم مون گہے بیٹھے ہو۔ اِس نے اُس کی بات کا اتّر تو ندیا، پر یہ دوہا پڑھا ؎
اتِ کا بھلا نہ برسنا اتِ کی بھلی نہ دُھپ
اتِ کا بھلا نہ بولنا اتِ کی بھلی نہ چپ
اس کے سنتے ہی اس نے بھی اِس دوہے کو پڑھ سنایا ؎
کون چہے ہے برسنا کون چہے ہے دُھپ
کون چہے ہے بولنا کون چہے ہے چپ
پھر کبِ نے یہ دوہا کہہ سنایا ؎
مالی چاہے برسنا دھوبی چاہے دُھپ
ساہ جو چاہے بولنا چور جو چاہے چپ
نقل 90
کوئی کایتھ ہمیشہ اپنے بیٹے کو سمجھاتا اور یہ کہتا کہ بابا جان! دنیا بری جگہ ہے۔ کر تو ڈر، نکر تو بھی ڈر۔ اُس کا بیٹا سن کر یہ جواب دیتا: لالا جی! بری برے کے واسطے ہے۔ کر تو ڈر، نکر تو نہ ڈر۔ غرض جب نہ تب ان دونوں میں یہی گفتگو ہوتی۔
ایک روز اُس نے اپنا وہ گھوڑا سواری کو منگوایا کہ جس پر کبھی سوار نہوا تھا اور کھلا پلا کے خوب تیار کیا تھا۔ گھوڑے کے آتے ہی باپ نے بیٹے سے کہا: بابا جان! اس پر تم سوار ہو، ہم دیکھیں۔ بیٹے نے بھی یہی کہا۔ ندان بہت سی کہا سنی کے بعد اُس کا باپ ہی سوار ہوا اور بیٹا پیچھے پیچھے دیکھتا چلا۔ اس میں کئی ایک شخصوں نے دیکھ کر کہا: دیکھو یہ کیا کم بخت ہے کہ قبر میں پانو لٹکا چکا، اور تو بھی اس کی ہوس نہیں گئی۔ جوان بیٹا پیچھے جوتی چٹکاتا آتا ہے اور آپ گھوڑے پر چڑھا جاتا ہے۔ یہ سن وہ اتر پڑا اور بیٹے کو چڑھا آپ پیچھے پیچھے دیکھتا چلا۔ پھر کئی آدمی دیکھ کے بولے کہ دیکھو یہ کیا نالایق و ناخلف ہے جو آپ سوار ہو باپ کو جلو میں دوڑاتا ہے۔ یہ سن آگے بڑھ وے دونوں چڑھ لیے۔ تب کوئی بول اٹھا کہ یے کیا مسخرے ہیں جو ایک گھوڑے پر دو لد لیے ہیں۔ یوں سن وے دونوں اتر پڑے اور سائیس نے گھوڑا ڈُریا لیا۔ یے پیچھے پیچھے دیکھتے چلے۔ تب انھیں دیکھ ایک نے ایک سے کہا کہ بھائی! دیکھو حرام کا مال مفت جاتا ہے اور کسی کے کام نہیں آتا۔
اس بات کے سنتے ہی کایتھ نے بیٹے سے کہا: کیوں بابا جان! دنیا کی زبان سے بچنے کی کوئی اور تدبیر ہو تو کرو۔ مجھ سے تو اب کچھ نہیں بن آتی۔ لا جواب ہو بیٹا بولا: لالا جی! تم سچ فرماتے تھے۔ دنیا بری جگہ ہے۔ کر تو ڈر، نہ کر تو بھی ڈر۔ اس کا کچھ علاج نہیں۔
نقل 91
ایک شخص اپنے شہر سے تباہ ہو کر پر شہر میں گیا۔ جاتے ہی وہاں اُس نے تھوڑے سے رُپیوں سے آڑھت کی دوکان کی اور بہت سا قرض دام کر کے اُس نے اپنی دوکان چمکائی اور تجارت بڑھائی ایسی کہ اُس کی ٹکر کا اُس نگر میں کوئی دوکان دار نرہا جو کسی بات میں اُس کا سامھنا کرے۔ قضاکار پانچ چار معاملوں کے بلٹنے میں اس کا دِوالا نکلا اور قید پڑا۔ ندان وہاں ہیں مرا، دَین سے چھٹ نکل نہ سکا۔ تب کسی نے اس کے بننے اور بگڑ کر مرنے کا سب احوال جا کر ایک مہاجن کی محفل میں کہا۔ سن کر محفل کے لوگ اُس کے حال پر بہت افسوس کرنے لگے۔ صاحب محفل بولا: تم جو اتنا افسوس کرتے، سو کیا تم نے کبھی یہ مثل بھی نہیں سنی کہ ؎
سنپت تھوڑی رِن گھنا بیری میں کا باس
ندی کنارے رو کھڑا جب تب ہوئے بناس
اس کے سنتے ہی ایک اُن میں سے بول اٹھا: ہاں ساہ جی! سچ کہتے ہو، یہ وہی کہاوت ہوئی کہ اوچھی پونجی خصمیں کھائے۔
نقل 92
ایک سوداگر بچہ اپنے باپ دادے کی سب دولت اڑا پڑا مفلس ہو لگا دکھ پانے۔ تب اس کے دل میں آیا کہ بزرگوں نے سوداگری کر کے پیسے جمع کیے تھے۔ بہتر ہے کہ میں بھی سوداگری کروں، خدا مجھے بھی دے گا۔ یہ سمجھ حویلی بیچ چار ہزار رُپے لے سوداگری کو نکلا۔ تو ایک اُس کے باپ کا غلام تھا سو بھی ساتھ ہو لیا۔ اور چلا چلا کسی شہر میں پہنچا۔ وہاں بازار میں دیکھے تو سب طرف سب جنس بکتی ہے اور ایک اور ایک شخص مسند بچھائے حقہ لگائے بیٹھا رہ رہ یہ کہتا ہے کہ میں بات بیچتا ہوں۔ جسے درکار ہو مجھ سے مول لے۔ اس نے اُس کے پاس جا ہزار رُپے دے کہا کہ ان کی بات ہمیں دو۔ اُس نے توڑا لے کہا کہ جوچھوٹے سے بڑا ہو، وِسے چھوٹا کبھی نجانیے۔ اِس نے کہا: اور؟ بولا: اور رُپے دو اور لو۔ اِس نے پھر ایک توڑا دیا۔ اُس نے کہا: کسی کا عیب دیکھیے تو اُس کی پردہ پوشی کیجیے۔ پھر اس نے پوچھا: اور؟ وہ بولا: اور رُپے دو اور لو۔ پھر اس نے ہزار دیے۔ تب اُس نے کہا: بھوکھ لگی ہوئی ہوئے اور کوئی کھانے کی تواضع کرے تو ہزار کام چھوڑ کھانا کھائے۔ پھر اِس نے پوچھا: اور؟ پھر وِس نے رُپے لے کہا: بے قدر خاوند کی نوکری کبھی نکریے۔ غرض یہ چار ہزار رُپے دے چار بات لے تباہ ہو وہاں رہا اور قضاکار وہ غلام اُس شہر کا بادشاہ ہوا۔
ایک روز بادشاہ تخت رواں پر سوار چلا جاتا تھا اور وہ سوداگر بچہ سامھنے شکستہ حال ننگے پانو تین دن کے فاقے سے نظر آیا۔ دیکھتے ہی شاہ نے فرمایا کہ اِس شخص کو میرے نہ پہنچتے نہ پہنچتے جلد مکان پر لاؤ۔ لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لے جا حاضر کیا۔ اس نے آداب بجایا۔ تب شاہ نے فرمایا: تو مجھے جانتا ہے؟ سچ کہہ۔ بولا: جہاں پناہ! آپ نیم خدا ہیں اور ملک کے مالک۔ پھر شاہ نے دو دفع پوچھا اور اِس نے یہی جواب دیا۔ تد خوش ہو اُس نے اِسے اپنا وزیر کیا اور سب سلطنت کا مختار۔
ایک روز محل سرا میں بادشاہ کے پیچھے پیچھے چلا جاتا تھا کہ اس نے دیکھا جو ایک خاص خواص شہر کے کوتوال کو لیے شراب پیے نیند میں غافل پڑی ہے۔ اس نے دیکھتے ہی کمر سے دُشالہ کھول اُن دونوں پر ڈال دیا۔ شاہ پھر کر محل میں داخل ہوئے اور یہ رخصت ہو اپنے گھر آیا۔ اس میں اُن کی آنکھ کھلی تو وِنھوں نے شاہ کا آنا اور وزیر کا دُشالا اڑھانا معلوم کیا۔ کوتوال تو وہاں سے نکل وزیر کی ڈیوڑھی پر جا حاضر ہوا اور اُس بد ذات نے کپڑے پھاڑ، بال کھسوٹ، زمین میں لوٹ بادشاہ کو بلا کے کہا کہ وزیر کی یہ جان جو تمھارے رہتے مجھ پر ہاتھ ڈالے اور بے حرمت کرے۔ افسوس دُشالا میرے ہاتھ رہ گیا اور وہ بھاگ کر نکل گیا۔ خدا کی قسم پکڑ پاتی تو بوٹیاں کاٹ کاٹ کھاتی۔ یہ کہہ ہاتھ کاٹ پچھاڑ کھا زمین پر گری۔ اُس کی حالت دیکھ اور بات سن شاہ نے خفا ہو وزیر کو بلا بھیجا۔ جتنے وہ آوے تتنے ایک رقعہ فوجدار کو لکھا کہ جو شخص رقعہ لے کر آتا ہے، وِس کا سر فی الفور کاٹ کے بھیج دوگے اور اس میں کچھ دیری ہوئی تو تمھارا سر نہیں۔ وزیر کے آتے ہی شاہ نے رقعہ دے کے فرمایا کہ تمھارا یہ درجہ نہیں جو رقعہ لے فوجدار کے یہاں جاؤ، پر مجھے دوسرے کا اعتبار نہیں۔ اس لیے تمھیں بھیجتا ہوں۔ اس رقعہ کا جواب جلد لاؤ۔ وہ جوں رقعہ لے کے چلا توں راستے میں کسی امرا نے کھانے کی تواضع کی۔ یہ بولا: کام ضرور کا ہے اور کھانا تیار۔ میں کیا کروں۔ قضا کار کوتوال بھی ان کے ساتھ تھا۔ از راہ خوش آمد بولا کہ پیر و مرشد! آپ کھانا نوش جان فرمائیے۔ تب تک بندہ رقعے کا جواب لا دیتا ہے۔ وزیر نے رقعہ اُس کے ہاتھ دیا اور آپ کھانا کھایا۔ جوں کھانا کھا کر اٹھا تو خاں میں کسا اُس کا سر آن موجود ہوا۔ یہ لے حضور میں گیا۔ شاہ نے اتنا کہہ محل سرا میں بھیج دیا کہ جس نے تجھے بے حرمت کیا یہ اس کا سر ہے، لے۔ وہ دیکھ ڈر کر چپ ہو رہی۔ پھر بادشاہ نے سب بھید کہہ کر وزیر سے پوچھا کہ میں نے تو تیرا سر کاٹنے کو لکھا تھا۔ یہ کیا سبب جو کوتوال کا سر کٹا؟ وزیر نے جوں کا توں سب احوال کہہ سنایا اور رخصت مانگی۔ شاہ نے فرمایا: یہ کبھی نہوگا کہ اب تمھیں رخصت ملے۔ بولا: جہاں پناہ! آپ کو یاد ہے جو میں نے چار بات خریدی تھیں؟ فرمایا: مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ کہا: تین تو آزمائیں اور چوتھی یہ ہے کہ بے قدر خاوند کی نوکری کبھی نہ کریے۔ اس سے اب آپ کچھ نفرمائیے۔ بندہ ہرگاہ نہ رہے گا۔ اتنا کہہ وزیر رخصت ہوا اور بادشاہ شرمندہ ہو دم کھا رہا۔
نقل 93
تام گرام صاحب کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا۔ ایک روز ایک عربی مول لیا۔ اس میں منشی صدر الدین نے از راہ خیر خواہی کہا کہ اس گھوڑے پر پنجابی سائیس رہے تو اس کی خدمت بہ خوبی ہو۔ یہ بات سن صاحب نے اصطبل سے سائیسوں کے جمعدار کو بلا کر فرمایا کہ ہمیں ایک پنجابی سائیس لا دے اور بھول گئے۔
بیس پچیس دن بعد ایک روز صاحب کو وہ بات یاد آئی۔ وِسے بلوا کے پوچھا کہ سائیس ملا یا نہیں۔ وہ بولا: خداوند! غلام ڈھونڈھتا ہے، ابھی نہیں پایا۔ یہ بات سن کے منشی نے کہا: کیا بد ذات ہے، ایک مہینے سے ٹال مٹال کرتا ہے اور سائیس نہیں لا دیتا۔ بولا: پیر و مرشد! بد ذات کے کہے کا میں برا نہیں مانتا۔ آپ خاوند ہیں جو مزاج میں آوے سو کہیے۔ پر خاوندوں کے رو برو حق بات کہنے میں کچھ عیب نہیں۔ تقصیر معاف! یے مولوی منشی نہوئیں جو ایک کے بلانے سے سَو آن حاضر ہوئیں۔ یے تو سائیس ہیں، مہینوں کی تلاش میں ایک آدھ مل جائے تو مل جائے۔ نہیں تو ملنا محال۔ یہ سن صاحب ہنسے اور امیدوار جو مولوی منشی اُس وقت حاضر تھے، شرمندہ ہوئے اور منشی صدر الدین پشیمان ہو دم کھا رہا۔
نقل 94
ایک روز دلی کے دو کنگال بانکے شام کے وقت بازار میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک حلوائی مٹھائی کا خوانچہ منہا منہ بھرا آگے دھرے بیٹھا ہے۔ یے اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور ایک نے ایک سے کہا کہ اسے نظر نہیں آتا۔ دوسرے نے دو انگلیاں اُس کی آنکھ کے سامنے کیں۔ وہ بولا: یہ کیا کرتے ہو؟ اِس نے کہا: ہم نے جانا تھا کہ تجھے دیستا نہیں اور جو دیستا ہے تو آگے دھری مٹھائی کس لیے نہیں کھاتا۔ بولا: اس کے کھانے سے گھر جاتا ہے۔ اتنی بات کے سنتے ہی وے وِسکی سب مٹھائی کھا یہ کہہ چلے گئے کہ تیرا گھر رہے بھلا ہمارا ہی گھر جائے گا۔ اور وہ بچارا اپنے کہنے سے شرمندہ ہو رو کر بیٹھ رہا۔
نقل 95
ایک دن راجا سوائی جے سنگھ پنڈتوں کی سبھا کیے بیٹھے تھے اور شاستر چرچا ہو رہی تھی۔ اس میں کچھ ذکر جو آیا تو راجا نے سب کی طرف مخاطب ہو پوچھا کہ پرتھی کا مدھیہ بھاگ کہاں ہے، سو ہمیں بتاؤ۔ اس بات کے سنتے ہی سب دم کھا رہے اور کسی سے کچھ جواب نہ بن آیا۔ تب ایک چوبے بول اٹھا کہ دھرماوتار! جو آپ میرے ساتھ چلو تو ہوں بتاؤں۔ یہ سن راجا اٹھ کھڑا ہوا اور بولا کہ چلو دکھا دو۔ وہ بھی سبھا سمیت راجا کو لیے کسی میدان بیابان میں جا کچھ ادھر اُدھر ناپ ایک جگہ برچھی گاڑ بولا کہ جہاں یہ سیل گڈیو ہے، سوئی دھرتی کو بیچ ہے۔ راجا نے کہا: ہم کیسے مانیں؟ جواب دیا: یا کوں کہا چاہیے، نمانو تو ماپ لیو۔ اس بات کو سن راجا اور اُس کے ساتھ کے لوگ لا جواب ہو گھر آئے۔
نقل 96
ایک روز کوئی افیمی دو گھڑی دن رہے افیم کا گھولا چڑھا بازار کی سیر کو نکلا تو دیکھتا کیا ہے کہ سوں ہیں سے بھس اور کڑوی سے بھرے چھکڑوں کا تانتے کا تانتا چلا آتا ہے۔ اُسے دیکھ اتنا کہہ وہ کسی بھلے آدمی کے بند کیواڑ سے بھڑ کر کھڑا ہو رہا کہ بچائیو بچائیو، خبردار دھکا نہ لگے۔ اس میں پینک جو آئی تو اسے وہیں کھڑے کھڑے پہر بھر گذر گیا۔ ندان جب گھر والے نے دروازہ کھولا تب وہ پچھاڑ کھا کے گرا اور بولا کہ اتنا کہا “بچائیو بچائیو”، پر گرائے بن نرہا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ساروان گاڑی وان مانند حیوان ہیں۔
نقل 97
کوئی بھلا مانس صاحب شعور زمانے کی گردش سے اپنے گھر میں بیٹھا فاقے کشی کر رہا تھا کہ یہ خبر سن اُس کے کسی دوست نے آکر کہا: یہ کیا غضب ہے کہ ہاتھ پاے کے کاہلی منہ میں مونچھیں جائیں۔ بولا: میں کیا کروں؟ اِن نے کہا: دانا لوگوں کا قول ہے کہ انسان پر جب تباہی پڑے تب سفر کرے۔ اسی بات کو عمل میں لاؤ۔ غرض اُس نے آشنا کی بات مان سفر دور دراز کیا اور چند برس میں کئی بڑا روپے لے اپنے گھر آیا۔ اسے آسودہ حال دیکھ ایک نے ایک سے کہا کہ اس شہر میں یہ بھوکھا مرتا تھا۔ باہر جا کہاں سے اتنی دولت لے آیا جو مال ور ہو گیا۔ وہ بولا: کیا تم نے یہ کہاوت نہیں سنی جو اتنا تعجب کرتے ہو؟ پوچھا: کیا؟ کہا ؎
پان پدارتھ سگھڑ نر ان تولے ہی بکائیں
جوں جوں چڑھیں دِساوراں مول مہنگے جائیں
نقل 98
دلی میں کسی افیمی کے چھ لڑکے تھے۔ ایک دن وہ تین لڑکوں کو ساتھ لے حضرت قطب کے میلے میں گیا۔ وہاں بھیڑ بھڑکّا دیکھ یہ ڈر کر ایک لڑکے کو کاندھے پر چڑھائے، دوسرے کو گودی میں لے، تیسرے کا ہاتھ پکڑ الگ ہو جوں ایک طرف کھڑا ہوا توں پینک میں آیا۔ پہر ایک بعد میلے میں کچھ ہلڑ جو ہوا تو وہ پینک سے چونک کاندھے کے لڑکے کو نہ دیکھ بہت گھبرایا۔ ندان یوں کہتا کہتا کوتوال کے پاس آیا کہ ہائے میرا لڑکا کھویا گیا۔ کوتوال نے پوچھا: تمھارے کے لڑکے ہیں؟ بولا: چھ۔ اُن میں سے ایک کھویا ہے۔ کوتوال نے سن کے ڈھنڈوریے کو اس کے ساتھ کر دیا۔ وہ تمام دن اُسے سارے شہر میں لیے پھرا۔ آخر رو جھینکھ شام کے وقت جوں گھر میں دھسا توں دروازہ کی چوکھٹ لڑکے کے سر میں لگی۔ وہ رویا۔ تب یہ بولا: اے کمبخت ناشدنی! تمام شہر میں خراب کر مجھے رلا کے جو تو اب رویا، پہلے ہی کیوں نہ بولا جو میں اتنا خراب نہ ہوتا۔ اس بات کو سن کسی اس کے آشنا نے کہا: بھائی! جو مثل ہم سنتے تھے، سو تم نے سچ کر دکھائی کہ بغل میں لڑکا شہر میں ڈھنڈورا۔
نقل 99
شہر کلکتے کے بیچ کوئی مولوی ساٹھ ستر برس کے سن میں خضاب کر رات کے وقت کٹنیاں لگائے ایک ہندوستانی بی بی کو نکاح کر لایا۔ وہ رات بھر تو جوان کے دھوکھے خوش رہی۔ پر بھور ہوتے ہی اِس کے چہرے کی جھریاں اور بالوں کی سپیدی، ہاتھ پانو کی سختی، باتوں کی کرختی دیکھ سن لگی کٹنیوں کو گالیاں دے دے سر پیٹ پیٹ بے اختیار پکار پکار رونے اور ارادہ نکلنے کا بھی کیا۔ حیا اور شرم نے نہ نکلنے دیا۔ چار ناچار دنیا سے بے زار من مار رہنے لگی۔
ایک روز مولوی صاحب کلپ لگانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اس نے دور سے دیکھ اصیل کو پکار کے کہا: اے ماما اے ماما! اس بوڑھے خبیس سے پوچھ کہ ایک دفع کالا منہ کر کے تو مجھے دام میں لایا۔ اب کسے برباد کرنے کو روسیاہ کرتا ہے۔ اتنی بات سن شرمندہ ہو مولوی نے اُس دن سے پھر خضاب نہ کیا۔
نقل 100
شاہ جہاں بادشاہ کے شہزادے دارا شکوہ کو علم نجوم سے بڑا شوق تھا۔ نجومی اور جوتشی ہمیشہ نوکر رہتے۔ ایک ایک سے عداوت رکھتا، پر شہزادے کے خوف سے کوئی کسی کا کچھ کر نہ سکتا۔ ایک روز قابو پا نجومیوں نے شہزادے کو سکھایا کہ خداوند! ان جوتشیوں سے پوچھیے کہ بھوں چال کب آوے گا۔ شہزادے نے سب کو بلا کر پوچھا اور کہا کہ یا تو تم بھوں چال کا آنا بتاؤ۔ نہیں میرے شہر سے نکل جاؤ۔ یہ بات سن جوتشیوں نے عرض کی کہ دھرماوتار! آٹھ دن میں اس کا اتر دیں گے تو بھلا۔ نہیں آپ کا نگر چھوڑ دیں گے۔ اتنا کہہ باہر آ ایک مکان پر بیٹھ یے فکر کرتے تھے کہ کسی چوبے نے انھیں فکر مند دیکھ پوچھا: بابا! جو آج کہا ہے جو تم بھاوِت ہو رہے ہو۔ وِنھوں نے سب ماجرا کہہ سنایا۔ تب چوبے بولا: تم مو کوں لے چلو، یا کو اوتر ہوں دیؤں گا۔ اتنی بات اس کے منہ سے نکلتے ہی وے ہاتھوں ہاتھ چوبے کو حضور میں لے گئے اور کہا کہ بھوں چال کا احوال یے کہیں گے۔ شہزادے نے فرمایا: اچھا کہے۔ چوبے بولا: دھرم مورت! جا سمیں بھگوان نے سِرشٹ رچوے کی اِچّھا کی، تا سمیں دُوے منکھ بنائے اور اوپر سوں نیچے نرک میں ڈار دیے۔ تن میں ایک منہ کے گریو اور دوسرو چوتڑ کے۔ منہ کے بل گرن وارو مسلمان بھیو اور دوسرو ہندو۔ ایک کی درشٹ نیچے کوں رہی اور دوسرے کی اوپر کوں۔ یا ہی تیں جوتشی آکاش کی سب بات جانتُ ہیں۔ گرہن کو ہو نوں یے بتائے دیں گے اور بھوں چال کی بات وِنتیں پوچھو، وے بتاویں گے۔
چوبے کی یہ جگت سن شہزادے نے ہنس کر کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟ بولا: یا ہی لیے بھور اٹھ مسلمان منہ دھووت ہیں اور ہندو جنگل جاتُ ہیں۔ یا کو یہی پرمان ہے۔ اس حاضر جوابی اور بے باکی سے خوش ہو شہزادے نے چوبے کو انعام دیا اور جوتشیوں کو بحال کیا۔
تمام شد
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی فرید الحسن، کراچی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا
|
لا ایلما
محب علوی، لاہور محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |