دیباچۂ مؤلف
حمد و ثنائے بے پایاں لائق اس آفریدگار کے ہے کہ خالقِ کون ومکاں اور روزی رسانِ عالم و عالمیاں ہے اور نعمت فراواں قابل اس رسول ﷺ کے کہ باعث تکوین تمام کائنات کا ہے۔
بعد اس کے اضعف العباد احقر الناس مظہر علی خاں متخلص بہ ولا یہ قصہ مادھونل اور کام کندلا کا کہ زبان برج میں موتی رام کبیشور نے کہا ہے، بہ موجب فرمائش جناب گل کرست صاحب دام اقبالہ کے بہ محاورہ زبان اردو بیان کرتا ہے۔
لیکن ابتدائے قصہ شہر کی تعریف میں اور اُس کے راجا اور لوگوں کے وصف میں ہے۔
1
بلند بلند مکانوں کے بالا خانوں کا عالم دیکھ کر آسمان زمین کا عالم تہ و بالا تھا۔ نئے نئے طور کے مکان منقش۔ عالی شانوں پر سنہری کلسیوں کے چمکنے سے عجب اجالا۔ صاحب علم و ہنر، نیک افعال و نیک کردار اور لوگ اچھے اچھے آرام چین سے اس بستی میں بستے تھے۔
وہ پہ پاؤتی نگری مشہور تھی اور راجا گوپی چند دانش و بخشش میں یکتا، نیک افعال، خجستہ خصال، مہر سے معمور، حلم و حیا سے مشہور، صورت و سیرت میں خوب، خَلق طالب وہ مطلوب۔ دوست اس کے لطف سے شاد اور دشمن قہر سے برباد، جا بجا اس کی دھاک۔
غرض وہاں کا راجا، راجا اندر کی طرح راج کرتا تھا اور اس کے محل میں عورتیں ہر ذات کی تھیں، لیکن سب سے بہتر اور برتر، پاکیزہ طینت و آراستہ بہ زیب و زینت شرم و آداب سے اور علم و ہنر سے، مالا مال خوبیوں سے۔ اس کی ساری خلقت خوش حال، سامان عیش و نشاط، ملک سراپا انبساط، شکل و شمائل بری سراپا غرور سے، بھری عیش ونشاط کے طَور سے، آگاہ شکل میں مانند ماہ گلبن چمن شادمانی، گل گلزار جوانی، ابرو کمان تیر اس کی ہر ایک مژگان ناز کے۔ اس میں تمام آئین نپٹ، حسین و نازنین اس کی رانی تھی اور ایک مادھو نام برہمن، خوبصورت و خوش سیرت اس کا بڑا مصاحب تھا۔
چنانچہ راجا کی مہربانی و نوازش اس پر حد سے زیادہ تھی اور وہ نہایت فہیم و عاقل اور علم موسیقی میں کامل تھا۔ شکل اس کی دیکھ انسان و پری دیوانے ہو جاتے تھے۔ غرض زبان کبیشور اور مولف کی اس کی تعریف میں قاصر ہے۔ ابیات:
یاد میں اس کی کون سا دل جو مثل جرس نالاں نہیں
چشم نظارہ کس کی یہاں اب آئینہ ساں حیران نہیں
ایک نگہ اس ماہ جبیں کو دیکھا ہے جس نے، اس کا تو
دیدہ ہے گریاں، سینہ ہے بریاں ہوش نہیں اوسان نہیں
کاکل مشکیں رشک سنبل، عارض گلگوں غیرت گل
قد کو نسبت سرو سے دوں پر اس میں تو یہ شان نہیں
دست نگاریں دیکھ کے ڈوبا پنجۂ مرجاں دریا میں
ساعد کی حرکات سے اس کی شاخ گل میں جان نہیں
چشم خمار میں دیکھ کے اس گل کی باغ جہاں میں اے یارو!
حیرت ہے اک عالم کو، کچھ نرگس ہی حیران نہیں
حاصل یہ کہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور بین کی صدا کو سن کر رنڈیاں تمام شہر کی ایسی محو ہو گئیں تھیں کہ مطلق آپ میں نہ تھیں اس سبب سے سارے شہر کے لوگ تنگ ہو کر ایک دن فریاد کو راجا کے پاس آئے اور کہنے لگے: “سنیے مہاراج! راجن کے راجا! تم نے سب طرح سے رعیت کو نوازا اور تم سے سب طرح سے راضی ہیں لیکن مادھو کے گُنوں سے اب رہ نہیں سکتی اور شہر کو چھوڑے جاتی ہے”۔
تب راجا نے ان سبھوں سے کہا کہ “مادھو کی تقصیر ایسی کیا ہے جو غصے ہو اس پر، شہر کو چھوڑاتے ہو؟”
تب ہاتھ جوڑ کر سب نے ماجرا جوں کا توں عرض کیا اور بولے “انصاف کرو فریاد کو پہنچو! نہیں تو ہم یہاں نہ رہیں گے۔ کیا آپ نے سنا نہیں اگلے لوگ کہہ گئے ہیں جو بھائی، بھتیجا، بھانجا خوبصورت ہو تو رنڈیاں اس سے بھی باز نہیں آتیں اور اگر اپنے تئیں بچا بھی رکھتی ہیں پر جب وہ نظر آتا ہے، بے اختیار مزے میں آجاتی ہیں”۔
یہ سن راجا کے جی میں یہ آئی کہ گو بھلے ہوں یا برے لیکن رسم یہ ہے کہ ایک کے واسطے بہتوں کو خفا نہیں کرتے۔ پھر امتحان کے لیے پتیاں کنول کے پھولوں کی بچھوا کر کتنی ایک رنڈیوں کو اچھی اچھی باریک ململوں کی ساڑیاں پہنا اُن پر بٹھلایا اور برہمن کو بلوا راجا نے نیچی نظریں کر کہا: “جتنے گن تجھ میں ہیں سو میرے آگے ظاہر کر”۔
مادھو یہ بات سن راجا کی، سوچا کہ کسی دشمن نے چغلی کھائی لیکن نیک آدمی اور بے مان کو جو کوئی دکھ بھی دے تو بھی وہ کسی کو سخت نہیں کہتا جیسے خواص گنے کا کہ خوبی اپنی سے دست بردار نہیں ہوتا گو کہ اس کی پور سے پور جدا کریں۔ ویسے ہی بد سرشت اپنی بدی سے باز نہیں آتا۔ مثلاً سانپ اگر اچھی ذات کا ہو، وقت پر اپنے زہر ہی اگلتا ہے۔ اور عدول حکمی راجا کی، تواضع نہ کرنی برہمن کی اور جدا سلانا عورت کا بدون ہتھیار کے مارنا ہے۔ یہ سمجھ کر مادھو بین کاندھے پر لے اور ساتوں سر ملا گانے لگے۔
بس اتنے میں یہ سماں اور عالم اس کا دیکھتے ہی ہر ایک عورت کی ویسی ہی حالت ہوئی اور کنول کی پتیاں ہر ایک کے بدن سے چپک گئیاں۔ راجا نے یہ حال جو دیکھا نہایت متعجب ہوا۔ الحق کہ راگ سکھیوں کے سکھ کا سامان ہے اور دکھیوں کے دکھ کا درماں۔ کامنیوں کے موہنے کو موہنی منتر ہے اور خوشی کی بنیاد و عیش کی جتنی حالتیں ہیں ان کا بڑھانے والا ہے اور کام دیو کا پیشکار۔ اسی واسطے اسے پنڈت پانچواں بید کہتے ہیں۔
پھر راجا اس کے گن اور روپ کو دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ “افزائش حسن و کمال کی، موجب وبال کا ہوتی ہے چنانچہ سیتا کو خوبصورتی نے زہر دکھایا اور راون کو غرور پیش آیا”۔
پھر غمگین ہو ایک بیڑا تین پان کا دے کر کہا: “اب رخصت ہو اور اس شہر سے جا کہ یہ راج اور شورش خلق کی ہم میں تم میں جدائی کا سبب ہوئی”۔
یہ سوچ کر مادھو نے کہا کہ “جب ماں دیوے زہر اور راجا کرے قہر تو پناہ کس کی؟”
لیکن از بس کہ عاقل و دانا تھا۔ اس کے مزاج پر ہرگز اس بات کا ملال نہ ہوا اور یوں شہر کو چھوڑا جوں پان کا اگال۔
2
القصہ جب شہر سے مادھو چلا تو سب رنڈیاں نوجوان ڈاڑھیں مار مار کر رونے لگیں۔ غرض کیا کہیے یہ اندھیر عالم میں ہوا کہ گویا آفتاب چھپ گیا۔ دن کی رات ہوئی اور اُس کو کچھ پروا نہ تھی۔ شہر شہر اور جنگل جنگل ہر روز نیا دانہ نیا پانی کھاتا پیتا اور ایک عالم کی سیر کرتا ہوا منزل بہ منزل چلا جاتا تھا۔
اتفاقاً کام وتی نگر میں جا پہنچا جس کا راجا حسن و جمال میں چودھویں رات کا سا چاند، صاحب عدالت و حق شناس، قدیم رسموں کو جاری کرنے والا، داد و دہش میں بے نظیر، عالی منش، تمکین شعار، کوہ وقار، جود و سخا میں ممتاز، رعیت پرور، غریب نواز، عالی فطرت، والا ہمت، جنگ آزمودہ، رستم وقت، شرمندہ کرنے والا کام دیو کا، عیاش مزاج، کہ و مہ کے دل کا چین تھا، نام نامی اُس کا مہاراج کام سین!
اُس کے شہر میں ایک زہرہ جبیں کام کندلا کنچنی تھی، نہایت حسین، بڑی چترا اور پر بیں، آنکھیں نرگس کی سی، چتون مرگ کی سی، زلف مثل زنجیر، پلکیں ناوک کا تیر، ابرو مانند ہلال، بینی الف کے مثال، عارض گل سے بھی نازک تر، لب رشک برگ گل تر، دانت موتیوں کی سی لڑی، تس پر مس کی دھڑی، شیریں گفتار، کبک رفتار، ماہ طلعت، مہر صورت۔ ایسی صاحب جمال جس کے دیکھے دل کا دور ہو ملال، غیرت حور و پری، سراسر عشوہ و ناز سے بھری۔ ہر ایک اُس کا شیفتہ، دل سے فریفتہ۔ بیت ؎
وہ شکل و شمائل وہ اُس کی نگاہ
جسے دیکھ کر ہو خجل مہر و ماہ
غرض ایک دن کا اتفاق ہے کہ رات کا سماں تھا۔ نہایت بناؤ سنگار سے راجا کے سامنے وہ ناچ رہی تھی۔ قضا کار مادھو بھی مردنگ کی آواز کی دھن پر جلد جلد اور خوشی خوشی راجا کی ڈیوڑھی پر پہنچ کر چاہتا تھا کہ بے محابہ اور درّانہ اندر گھس جاوے لیکن دربانوں نے روکا اور جانے نہ دیا۔ تب اُس کے دل پر قیامت ایک صدمہ ہوا اور نہایت بے کل اور بے چین ہوا۔ اسی سوچ میں بیٹھ گیا کہ کیونکر راجا کی مجلس میں جائے اور وہاں کا مزہ اٹھائے۔ ہر چند کہ سماجت کی لیکن فائدہ نہ کیا۔ تب اس نے کہا کہ “تمھارے راجا کی مجلس میں سب کوڑھ ہیں۔ حسن و قبح کو دریافت نہیں کرتے”۔
یہ سن دربانوں میں سے ایک نے راجا سے جا کر عرض کی کہ “ایک برہمن دروازے پر پکار پکار یہی کہتا ہے کہ ساری سبھا راجا کی کوڑھ ہے؟”
راجا نے تب فرمایا کہ “اس سے یہ جاکر پوچھ کس سبب سے تو راجا کی سبھا کو کوڑھ کہتا ہے؟”
اس نے راجا کے فرمانے کے بہ موجب مادھو سے کہا۔
پھر اس نے حضور میں عرض کر بھیجا کہ “چار چار مردنگی تین طرف جو ہیں، پورب رخ کے مردنگیوں سے ایک کا انگوٹھا نہیں ہے جس سے سم پر تھاپ پوری نہیں بیٹھتی، اس سبب سے میں نے مورکھ جانی۔
پھر دربان نے راجا سے یہ روداد عرض کی۔ راجا نے اس حقیقت کو سن کر ان مردنگیوں کے ہاتھ دیکھے تو سچ مچ ایک شخص کا انگوٹھا موم کا تھا۔
راجا برہمن کی چترائی سے بہت محظوظ ہوا اور اپنے پاس بلوا لیا۔ اس نے آکر راجا کو اسیس دی کہ “چرنجی رہو”۔
تب راجا نے لاکھ روپے اور خلعت مع جواہر اُسے دیا اور سنگھاسن پر بٹھا کر بہت نوازش فرمائی۔
قاعدہ ہے کہ صاحب کمال کو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں، خصوصاً اپنے ہم فن کو یا وہ شخص کہ جس کو ایک فن میں خوب دخل ہو، اُس فن کے ماہر کو بہ دل چاہتا ہے۔ غرض دونوں میں موافقت مقرر ہوتی ہے بلکہ ایسا شخص جو پرائے شہر میں وارد ہو تو اُس کی زیادہ عزت و حرمت کرتے ہیں۔
اور صاحب علم و ہنر کی یوں پرورش کرتا ہے جیسے ماں باپ بیٹا بیٹی کی۔ اگر صاحب کمال کمینہ بھی ہو تو مجلس میں لو جاگہ دیتے ہیں۔ ذات کو اس کی کوئی نہیں پوچھتا، سب ہی عزیز کرتے ہیں۔ بے کمال ہر جگہ ذلیل و خوار ہے اور رنج و بلا میں گرفتار ہے۔ چنانچہ مثل مشہور ہے: بے ہنر جس جگہ جائے وہاں سختی اٹھائے اور بے علم گویا نابینا ہے بلکہ عبث اس کا جینا ہے۔ اگر اہل ہنر کا مال و دولت سب برباد ہو جائے تو بھی کچھ پروا نہیں۔ کس واسطے کہ جہاں جاوے گا سب کچھ اس کے ہاتھ آوے گا۔ جس طرح مادھو کو پھر اس سے بہتر خدا تعالیٰ نے میسر کر دیا۔
3
الغرض کام کندلا بھی اس کی چترائی دیکھ کر اپنے دل میں کہنے لگی: “یہ شخص بڑا ہی صاحب کمال ہے اور راگ تال سر سے خبردار۔ جو کچھ آگے حضور میں راجا کے کرتب کرتی تھی اس کی بھلائی اور برائی کا کوئی معلوم کرنے والا نہ تھا۔ بہتر یہ ہے اب جو کچھ کیجیے سوچ سمجھ کر کیجیے کہ یہ محظوظ ہو”۔
اس بات کو دل میں ٹھہرا کر، پوشاک باریک صندل کے عطر میں بسا کر پہنی اور خوب سا بناؤ سنگار کیا بلکہ گہنا پھولوں کا بھی پہن لہا۔ بیت ؎
کیا کیا کروں اب وصف میں اس چرخ بریں کا
ہے بدر کہ کوکب ہے کوئی چرخ بریں کا
اور اپنے سماجی ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ “آراستہ ہو اور اپنے اپنے ساز ملاؤ”۔
تب انھوں نے مردنگ کنگری، بین بانسری، روز بین اُپنگ، سر منڈل گن، تنتی تال، کرتال، منہ چنگ، دائرہ رباب، جل ترنگ اور چنک امرٹ، کنڈلی بناگ، مین کھرج، رکھب گندھار، مدھم پنجم، دھیوت نکھاد ان ساتوں سروں کو موافق دستور کے باندھا پھر کام کندلا راجا کے حضور سب سمیت آئی اور ساتھنیں اس کی راگ الاپ، گیت چھند، پر بند گیت دوھرا، بش پد گانے لگیں اور کام کندلا موافق بولوں کے بھاؤ بتانے، بھویں موڑ، تان توڑ مادھو سے آنکھیں لڑانے۔ بیت ؎
وہ نگاہیں جو چار ہوتی ہیں
برچھیاں ہیں کہ پار ہوتی ہیں
غرض کہ جو کچھ یہ کرتب کرتی تھی سو مادھو معلوم کرتا تھا۔ اتنے میں اور ہنر کیا کہ شیشہ پانی کا بھرا ہوا سر پر رکھا اور منہ سے موتی پرونے لگی اور بٹے ہاتھ سے اچھالنے کہ ایک بھنورا کچ کی بھٹنی پر آبیٹھا اور عطر کی بو جو پائی تو وہیں جم کر ڈنک مارنے لگا۔ اس کی کچھ کی کچھ حالت ہو گئی۔ اس بات کو مادھو کے سوا کسی نے معلوم نہ کیا۔
تب کام کندلا نے یہ دل میں کہا کہ “اگر ہاتھ سے دور کرتی ہوں تو بٹا گرتا ہے، جو سر کو جھکاتی ہوں تو شیشہ، جو ٹھہروں تو تال جاتا ہے”۔
یہ سمجھ کر دم کو روک، بھٹنی کی راہ سے نکالا اس میں ایک بارگی جوں گرم ہوا بھنورے کو لگی اڑ گیا۔
یہ ہنر مادھو نے دریافت کر چاروں طرف نگاہ کی۔ دیکھا تو کسی نے معلوم نہ کیا بلکہ راجا بھی مورکھ ہے کہ اس نے بھی اس کی چترائی اور گن کی خوبی دریافت نہ کی۔
تب مادھو نے جو کچھ اسباب راجا نے دیا تھا، سب کا سب کام کندلا کے حوالے کیا۔ پھر تو ہر ایک کی پیار کی نظر ہر ایک پر پڑنے لگی لیکن سیری دیدار سے طرفین کو نہ تھی۔ چوری کے دیکھنے سے جی کیونکر بھرے اور دل بے تاب صبر کس طرح کرے؟ آنکھیں ہی رسوا کرتی ہیں اور پہلے لذت بھی یہی اٹھاتی ہیں۔ پیچھے دل مزہ اٹھاتا ہے نداں پرائے ہاتھ جاتا ہے۔ سچ ہے کہ نین بڑے لالچی، بیری اور ڈھیٹ ہوتے ہیں، نہ ان کو شرم نہ حیا نہ کسی کی جان و آبرو کا دھیان ذرا۔
غرض یہاں تک دیکھا دیکھی ہوئی کہ ہر ایک کے لوح دل پر ہر ایک کی صورت نقش ہو گئی اور جی دونوں کے مل گئے۔ مادھو اشاروں میں اس کی تعریف کرتا تھا اور وہ آنکھوں سے سلام کرتی تھی۔ وہ اس پر بہ دل ہو گیا تھا مبتلا اور یہ اس کے جی سے ہو گئی تھی شیدا۔ غرض کام دیو نے عجب کام کیا کہ بھری مجلس دونوں کو بدنام کیا۔
نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
یکایک کھل گئیں دونوں طرف سے دل کی کل جھڑیاں
4
آخر اس کے سب اسباب دینے سے راجا نے برہم ہو کر کہا کہ “میں نے تجھے دو لاکھ روپے کی جنس اور مال مع خلعت بخشا سو تو نے اس بیسوا کو دے ڈالا اور آپ پھر بھکاری کا بھکاری ہو گیا۔ فقیر ہمارے سامنے کیا ہمت جتاوے۔ اکثر ہوتا ہے کہ بھیک مانگے اور نہ پاوے۔ تجھ غریب فقیر کو ہرگز یہ حرکت مناسب نہ تھی۔
معلوم ہوا کہ تو بڑا نادان ہے پر یہ تو بتا وہ کون سا ہنر انوکھا دیکھا تھا تو نے جس پر ایسی بخشش کی؟”
تب تو مادھو نے کہا: سنو راجا! ہرن حیوان ہے اور سدا بن میں بستا ہے لیکن جب میر شکار راگنی بہروپ کی گاتا ہے تب وہ بے سدھ ہو جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے اور اسی حالت میں ہرنی سے کہتا ہے: اب کیا کریں؟ اس بدک کو کیا دیں، ہمارے تو پاس کچھ نہیں۔ تب وہ کہتی ہے جو کچھ دینے کا نہیں تو جان دے۔ غرض وہ میر شکار کی بندوق کی گولی کھاتا ہے اور اپنی جان گنواتا ہے۔ صد آفرین اس ہرن پر کہ جس نے راگ پر ریجھ کر جان دی۔ سچ ہے کہ اگلے راجوں نے بھی بڑی بڑی ہمتیں کیں ہیں لیکن ہرن کی ہمت و بخشش کو کوئی نہیں پہنچتا۔
تب راجا بولا: “معلوم ہوا کہ تجھے مال و دولت کی پروا نہیں، اس ہنر کو پھر بیان کر!”
تب اس نے کہا: “تیری مجلس ساری کوڑھ ہے اور کسو کو اس فن میں اچھے برے کی تمیز نہیں۔ میں اس کا ماہر ہوں۔ اگر حد سے زیادہ محظوظ ہوں تو جان تلک بھی دے گذروں”۔ وہ سب کیفیت مفصل بیان کی۔ تب راجا نے کہا: “کیا ڈھیٹ ہے کہ چپکا نہیں رہتا۔ جی میں ایسا غصہ آتا ہے ایک تلوار ماروں کہ دو ٹکڑے ہو جاوے پر بامنھ سمجھ کر کچھ نہیں کہتا اور بدنامی سے بھی ہوں ڈرتا”۔
تب مادھو نے کہا: “جو تو مجھے مارے تو بھوت بن کے تجھ ہی کو لگوں اور دونوں جہاں میں بھی تجھے روسیاہی ہو۔ اے راجا! جو ہتیا برہمن کی کرتا ہے وہ پھر جنم کوڑھی کا لیتا ہے گو وہ ہزار تیرتھ اور ہوم کرے پر ہتیا نہیں جاتی”۔
راجا نے یہ سن کر اس سے کہا کہ “ماں باپ اور برہمن کے مارنے سے بڑا گناہ ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت برا ہے۔ یہ بہتر ہے کہ تو میرے ملک سے نکل جا اور اپنے عمل بھر میں جس کے یہاں سنوں گا اس کا زن و فرزند کولھو میں پلواؤں گا”۔
پھر حکم کیا کہ “اس کو نکال دو اور منادی شہر میں کر دو کہ اسے جو کوئی اپنے گھر میں رکھے گا اس کی کھال کھینچ بھس بھر دوں گا”۔
مادھو نے کہا: “اگر یہ ہے تو تیرے شہر میں کون رہے گا۔ میں نے تو مسافری اختیار کی اور کمال بھی رکھتا ہوں۔ جہاں جاؤں گا وہاں میری قدر و منزلت ہوگی، ہمیشہ ہمنشیں راجوں کا رہا ہوں، مال و دولت کی کبھی پروا نہیں رہی”۔
یہ بات سن راجا محل میں گیا اور مادھو دل میں یہ سوچنے لگا، جب ساعت بد آتی ہے کچھ کہہ کر نہیں آتی بلکہ سمجھی بھی نہیں جاتی۔ اگر اُتر سے قطب تارہ دکھن میں ہو جاوے، یا سورج پورب چھوڑ پچھم سے نکلے، یا آگ کی تاثیر سرد ہو جاوے، یا پہاڑ پر کنول پھولے یا سمندر تھاہ ہووے یا گنگا اُلٹی بہے یا بال و پر پہاڑ کے نکلیں، یہ ہووے تو ہو، پر قسمت کا لکھا نہیں مٹتا اور تقدیر سے کچھ بس نہیں چلتا۔ جیسے کرم کے لکھے سے رام بن بن پھرا اور روان نے خویش و قوم سمیت سمیت سب کچھ گنوایا اور پنڈوؤں کا راج گیا۔ راجا نل بھیک مانگتا تھا۔ یہی طالع کروڑ طرح سے آدمی کا سوانگ بناتے ہیں اور اس کو رتبے سے گراتے ہیں۔ ہر چند کہ اپنی خستہ حالی کسی کو گوارا نہیں پر مقدر سے کچھ چارہ نہیں۔
5
اتنے میں کام کندلا اُٹھ کر آئی اور کہنے لگی: “تو کیوں اس قدر متردد و متفکر ہے۔ میں تو تیرے علم و ہنر کی خریدار اور سمجھنے والی ہوں۔ تو میرے گن بدیا کا جاننے والا ہے جیسے بھنورا کنول کی خوبی کو جانتا ہے اور ڈاڈو (مینڈک) درخت کی جڑ میں رہتا ہے پر درخت کو نہیں پہچانتا۔ ویسے ہی ناچنے اور تھرکنے کے لطف کو اندھا نہیں دیکھتا اور روپ کروپ میں فرق نہیں کر سکتا۔ پھر ایسے مقام پر افسوس عبث ہے، آؤ میرے گھر چل کر رہو! میں تمھاری خدمت کروں گی اور مجھے الفت و محبت کی باتیں سکھاؤ! آتش شوق کو بجھاؤ! شربت وصال محبت کے پیاسے کو پلاؤ! اپنے بیمار الفت کی کر دوا۔ میں عاشق تیری تو عاشق میرا۔ تو چاند میں چکور، میں کنول تو بھونرا۔ آ بس کے رس لے۔ میں صدف تو نیساں، گوہر مراد سے مجھے بھر دے!”
تب مادھو بولا: “دنیا میں سدا یکساں پیار اخلاص نہیں رہتا۔ وہاں دوستی کیجیے جہاں ایک سی رہے ورنہ کون درد فراق سہے۔ کیا فائدہ جو دو دن ملے اور رات دن آتش ہجر سے جلے۔ دوستی کا انجام اضطرابی ہے اور طرفین کی اس میں خانہ خرابی ہے۔ نہ بیٹھے قرار نہ کھڑے چین، ایک سی بے کلی رہتی ہے دن رین ؎
ہر ایک مو تن کا لگتا ہے خار
یوں کٹتی ہے عاشق کی لیل و نہار
جب اپنا نہ ہو گلبدن ہم کنار
تو پہلو میں ہیں موئے تن خار خار
یہ سمجھ کر دل کہیں نہیں لگاتے۔ تو جان لے کہ عاشق مانند تلوار کے ہے۔ جس کسو کو اس کا زخم کاری لگے وہ بچتا نہیں اور عاشق آگ کا شعلہ ہے کہ جس کو لگے جلا ہی دے۔ اس کے سوز سے پتنگ واقف ہے کہ جو شمع کو دیکھ کر رہ نہیں سکتا اور وصل کا مزہ جلنے میں ہی ہے اٹھاتا”۔
یہ سن کر کام کندلا تحمل نہ کر سکی اور بے اختیار اٹھ کر کہنے لگی: “پریم پریت کے مزے سکھاؤ! اور اخلاص پیار کی باتیں بتاؤ! اب اندیشہ کچھ نہ کرو! اُٹھو ہمارے گھر چلو!”
یہ سن مادھو کام کندلا کے ساتھ چلا اور سکھیاں بھی ساتھ ہولیں۔
القصہ حویلی میں لے جا، ہاتھ پاؤں دھلا، مسند پر بٹھایا اور سکھیوں نے پھولوں کی سیج کی تیاری کر کے در و دیوار پر گلاب چھڑک دیا اور عطردان، پاندان، پھولوں کی چنگیروں کو دھوم دھام سے آراستہ کر جا بجا اپنے قرینے سے رکھا۔ پھر ایک سکھی نے مادھو کو لے جا اسی سیج پر بٹھایا۔ وہاں اس کا عالم دیکھ کام دیو شرمندہ ہوا۔ اُدھر کام کندلا نے بھی سولہ سنگار بارہ ابھرن کرکے اور بھی جواہر پہنا اور کہنے لگی: “سنو سکھیو! پیم پیت کی پہیلیاں مجھے سکھاؤ کہ اب تک نادان اچپلی ہوں۔
اس کی لذت سے چنداں واقف نہیں ہوں۔ باتیں صحبت داری کی نہیں آتیں۔ نہ یہ ڈھب آتا ہے کہ جس سے مرد فریفتہ و گرویدہ ہووے۔ دیکھیے پہلی ملاقات ہے، کیا ہو۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ سب باتوں میں چترا ہے اور کوک سنگیت کا ماہر، چودہ بدیا کا جاننے والا۔ یوں تو علم کوک کا میں بھی جانتی ہوں، پر اس کے سوا کچھ اور بھی مجھے سکھاؤ۔ کیونکہ مادھو کے دیکھے سے جی سہما جاتا ہے۔ تم سب کو اپنا جان کر پوچھتی ہوں”۔
تب سکھیوں نے کہا: “کوک کی ریت تم بھی خوب سمجھتی ہو۔ سب گھاتیں جانتی ہو اور کام دیو کے انگ پہچانتی ہو۔ جس جگہ ٹھکانا کام کا جانو اس جگہ ہاتھ مت لگانے دینا اور اس کے بدن میں جس جگہ ہو وہاں کی مچھیاں لینا”۔
یوں سمجھا بجھا مادھو کے پاس بھیجا۔ وہ اس روپ سے اسے دیکھ کر اور بھی ریجھ گیا اور وہیں کام دیو نے آ گھیرا۔ آہستہ آہستہ اس کے پاس جاکر پلنگ پر لے آیا۔ پھر دونوں چترائی کی باتیں کرنے لگے۔ شہوت و جوانی میں بھرے ہوئے، خوبی سگھڑائی میں گھڑے عیش کی حالتوں میں بس کر محو ہوئے۔ شہوت کی آگ کی تاب نہ لائے۔ جس طرح سے کہ کوک کی ریت تھی اسی طرح سے ہم بستر ہوئے اور وہ رات خوشی خورّمی سے کاٹی۔ پر جو جو کہ عمل میں لائے کسی نے دریافت نہ کیا۔ غرض جہاں ہوا کا نہ ہو گذر اور چاند سورج کی نہ پڑے نظر وہاں کی حالت کوئی کیا بیان کرے مگر سکھیوں کو کلا کی سی آواز معلوم ہوتی تھی۔
6
اتنے میں صبح ہوئی اور سورج نکلا۔
سب سکھیاں اس کے پاس گئیں۔ کام کندلا کسمسائی ہوئی سیج پر لیٹی تھی۔ انیندی آنکھیں جھپکی جاتی تھیں اور بات بات میں جنباہیاں (جماہیاں) آتی تھیں۔ بدن میں طاقت نہ تھی، ایسی نچڑ گئی تھی جیسے بھنورا کنول کا رس پی لیتا ہے اور وہ کمھلا جاتا ہے۔ پوشاک اور سنگار کی یہ حالت تھی کہ تمام چولی چسکی ہوئی، انگیا مسکی ہوئی، مانگ بگڑی ہوئی، زلفیں بکھری ہوئی۔ ہونٹوں پر دانتوں کے نشان اور چھاتی پر انگلیوں کے اور کنچن سے دیہ پر نقش زیور کے۔ جب سکھیاں اٹھا کر لے چلیں تو متوالی سی چلنے لگی کہ قدم رکھتی تھی کہیں اور پڑتا تھا کہیں۔ جوں توں سنبھال کر باہر لائیں اور بٹھلایا۔ پھر کوئی بال الجھے ہوئے ہاروں میں سے سلجھانے لگی اور کوئی زیور سنوارنے، کوئی گلاب چھڑکنے، کوئی خراش سینے پر زعفران گھس گھس لگانے۔
ندان اشنان کے واسطے تالاب پر لے گئیں تو چکوا چکوی نے یہ جانا کہ چاند نکلا، وہ اس دھوکے سے جدا ہونے لگے اور پھول کنول کے مندنے اور کلیاں نیلوفر کی کھلنے لگیں۔ پھر اس کے بدن میں خوشبو ابٹن مل کر، نہلا دھلا باہر لائیں۔ پانی کی بوندیں اس کے چمپئی رنگ پر یوں لگتی تھیں جیسے چمپا کے پھول پر شبنم اور ہر ایک لٹ سے قطرہ پانی کا گرتا ہوا نظر آتا تھا جیسے سانپ منہ سے موتی اگلتا ہے۔ گھونگر والے بال چھوٹے چھوٹے اس کے ماتھے پر یوں تھے جیسے جھنڈ بھنوروں کا اور قطرے پانی کے ان سے ایسے ٹپکتے تھے جیسے وہ کنول کا رس پی کر اگلتے ہیں۔ غرض کہ بال سکھا، بدن پونچھ، پوشاک پہن، سولہ سنگار بارہ ابھرن کر، سکھیوں سے باہم یہ مشورہ کیا “آج مادھو کو یہاں اور بھی کس طرح رکھا چاہیے۔ اب کا بچھڑا ہوا پھر دیکھیے کب ملے۔ مثل مشہور ہے ندی ناؤ سنجوگ، کت اودھو کت لوگ”۔
تب سکھیوں نے کہا کہ “کام کندلا! تمھارے سکھ سے ہمارا سکھ ہے اور تمھارے دکھ سے ہمارا دکھ۔ جو کچھ کہو قبول ہے”۔
پھر یہ بات ٹھہرا مادھو کے پاس آکر کہا کہ “تجھ بن مجھے صبر و قرار نہیں۔ یہی جی چاہتا ہے کہ ایک پل تجھے نہ چھوڑوں”۔
تب سکھیوں نے بھی کہا کہ “سچ ہے اس کی ایسی ہی حالت ہے۔ کیا کرے سب کو چھوڑ کر تیری ہوئی۔ سو تو چپکا بیٹھا ہے۔ بہتر اس سے یہ ہے جو دل میں ہو سو کہہ۔ یقین کر جان جن کی روحیں ملی ہوئی ہوتی ہیں، وہی باہم دگر یہاں بھی ملتے ہیں اور بدون وہاں کی ملاقات کے یہاں ملاقات نہیں ہوتی۔ بیت ؎
ازل سے روحیں ملیں تھیں جو مل گئیں باہم
نہ ہوتا ورنہ کبھو دوستی کا یہ عالم
غرض جو ہو سو ہو۔ آج تو اور بھی نہ جا!”
یہ سن مادھو نے کام کندلا سے کہا کہ “ہمیں رخصت کر اور اپنے پر آفت مت لا! یہ خبر جو راجا تلک پہنچے تو خدا جانے تیرا کیا حال ہو۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ باز آ اس بات سے در گزر کہ انجام اس کا خرابی و پشیمانی ہے۔ اس اندیشے کے مارے جاتا ہوں و الّا مجھے بھی کسی طرح سے تیری دوری گوارا نہیں۔ میں یاد ایک پل نہ بھولوں گا ؎
جدائی تری کس کو منظور ہے
زمیں سخت اور آسماں دور ہے
بس تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ مجھے جانے دے”۔
تب کام کندلا نے کہا: “ہنوز تو نہیں گیا تس پر میری حالت تباہ ہے۔ اگر جائے گا تو مر ہی جاؤں گی ؎
نہ ہوئی غم سے کسی آن رہائی مجھ کو
جو رسوائی خرابی ہو سب گوارا ہے لیکن آج کی رات اور بھی رہ جا کہ پھر پھولوں کی سیج پر ہم بستر ہووں اور دل کی حسرتیں کھوویں”۔
7
آخر انھیں باتوں میں سانجھ ہو گئی اور چاندنی نکل آئی۔
سکھیوں نے سیج کی تیاری بہ دستور کی اور یہ دونوں بھی بن ٹھن کر پلنگ پر آئے اور آپس میں یہ کہنے لگے کہ “دوستی میں بچھڑنا ہی خرابی ہے”۔
اتنے میں کام کندلا نے کہا کہ “وصل کی رات کا عرصہ تھوڑا ہے۔ ایسا علاج کیجیے کہ گھٹنے نہ پاوے!”
تب مادھو نے بین اٹھا کر ایسا راگ بجایا کہ چاند کی رتھ کے ہرن کھڑے ہو رہے۔ رات بڑھ گئی۔ سویرا نہ ہو پایا۔ چکوا چکوی بھی تالابوں پر جدائی سے گھبرا گئے۔
تب کام کندلا نے کہا: “سدا رہے آدھی رات اور چاند سورج میں مل جائے۔ اس واسطے کہ صبح کو ہمارا پیتم جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یا اللہ! چھ مہینے کی رات کردے”۔
جب دیکھا اس نے کہ رات بڑھ گئی اور صبح نہیں ہوتی تب بین ہاتھ سے رکھ دی۔ ہرن چل نکلے اور چاند چھپا، صبح ہوئی، سورج نکلا۔ تب اس بیراگی نے کام کندلا سے کہا کہ “ہمیں رخصت دو تو ہم رستہ پکڑیں”۔
وہ بولی کہ میں تو مرتے دم تلک اپنے منہ سے نہ کہوں گی ؎
ہو چکی وصل کی شب اشک ہمارا نکلا
رات آخر ہوئی بس صبح کا تارا نکلا
وہ زبان گویا نہ ہو جو تجھے جانے کو کہے اور وہ آنکھ نابینا ہو جو دوست کا جانا دیکھے”۔
جب یہ دیکھا کہ کسی طرح جانے نہیں دیتی تب تو دھوتی اور پوتھی اٹھا، بین کاندھے پر رکھ چلنے کا ارادہ کیا۔ کام کندلا نے ہاتھ اس کا پکڑ لیا اور کہنے لگی: “کیا تو مسافر دوست ہوا تھا کہ میرے دل کو لوٹ کر لے چلا۔ پہلے مجھے جوہر کر تو پیچھے کہیں جا!”
یہ کہتے آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگی کہ تمام تن بدن اس کا بھیگ گیا۔ وہ دو دن کی دوستی جدائی کے وقت اس کے جی کا جنجال ہو گئی۔
پھر گھبرا کر بولی کہ “تم نے نیہ کی ناؤ کا گن ہاتھ میں لے کر اس کو جدائی کے سمندر میں چھوڑ دیا۔ بدون گن کھینچے کشتی کنارے نہیں لگتی اور بغیر ملاح کے نہیں چلتی۔ تو ہی اس کشتی کا کھینے والا ہے۔ جو تو جائے گا تو میں ڈوب جاؤں گی۔ کیونکہ اس دریا میں بہت سی دکھ کی لہریں اٹھتی ہیں۔ اگر مجھے ڈوبنے سے بچایا چاہتا ہے تو اکیلا نہ چھوڑ اور میرے پاس سے نہ جا! یہ ممکن نہیں کہ تجھ بن یہاں رہوں۔ میں بھی پیچھے تیرے کنٹھا جھولی لے، بھبھوت مل، مندرا پہن، جوگن ہو، تپشی کے بھیس بن بن پھروں گی، تیرے ہی گن گاؤں گی اور گورکھ گورکھ گہراؤں گی۔ غرض روئے زمین کے سارے تیرتھ پھروں گی۔ قرار جی کو جب ہووے گا جب تجھ سے ملوں گی۔ کھنڈ کھنڈ تیرت کروں اور کاشی میں بھی کروٹ لوں۔ من میں یہی ارادہ کرکے کہ جب جیوں تجھ کو ڈھونڈھوں اور ملوں۔ بہتر یہ ہے کہ تو مجھے برہ کے پھندے میں نہ پھنسا۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جا۔ اے دوست مسافر! کوئی بھی محبت کی راہ میں دغا دیتا ہے۔ مجھے مت چھوڑ! ساتھ لے چل!”
کام کندلا کی یہ باتیں سن مادھو آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور بولا: “میرا ہاتھ چھوڑ دے!”
وہ کسی طرح نہ چھوڑتی تھی۔ ندان سکھیوں نے چھڑا دیا۔ وہ من مار کے رہ گئی اور بچھڑنے سے یار کے اس کی یہ حالت ہوئی گویا کہ جی گیا اور تن رہ گیا، جیسے سانپ جاوے اور کچلی رہ جاوے۔
آخر غش ہوکر زمین پر گر پڑی۔
8
تب سکھیوں نے اسے اٹھا کر پلنگ پر لٹایا۔ پھر اس کا بدن تمام ٹھنڈا ہوگیا۔ ہونٹ سوکھ گئے۔ ایسی بے خبری ہوئی کہ اپنے درد کی سرت نہ رہی۔ بدن اس کا ہو گیا بے سانس، سکھیوں کو اس کے جینے کی نہ رہی آس۔ تو بھی اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے اور دوا دارو کرنے لگیں۔ جب کچھ فائدہ نہ ہوا تب تدبیر سے تھکیں۔ رونہاک ہو کر کہنے لگیں کہ “اِسے برہ کے سانپ نے ڈسا ہے۔ اس کا ہم پاس منتر نہیں۔ مگر کانوں سے لگ کر اس کے دوست کا نام جپو سب!”
یہ بات من میں ٹھہرا مادھو مادھو پکاریں۔ اس نام کے سنتے ہی ہوش میں آئی۔ آنکھیں کھول چاروں طرف دیکھا۔ جب مادھو نظر نہ آیا، پھر درد دوری سے حال اس کا ایسا تغیر ہوا جیسے کنول بن تالاب مرجھائے اور مچھلی بن پانی تڑپنے لگے۔
غرض کتنی دیر میں بحال ہو کہنے لگی: “کیسا میرا دل پتھر ہے کہ یار کے جاتے ہی ٹکڑے نہ ہوا اور جی بھی ایسا بے حیا ہے کہ اس کے ہاتھ سے نکل نہ گیا۔ یہ سچ ہے ؎
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی جگ میں بھاری لگے
حیف ہے کہ وہ جاوے اور میری جان نہ جاوے۔ تعجب ہے کہ ایسے درد جدائی کے سہوں اور میں اب تلک جیتی رہوں۔ وہ دوست بروگی پونجی سکھ اور چین کی لے گیا۔ آنکھیں اور جان و تن جدائی کے بس میں ہو، دکھ سہنے کو رہ گئے۔ اب دیکھیے وہ دل کی نگری کا لوٹنے والا کچھ میری تسلی کو کب بھیجتا ہے سندیسا”۔
یہ کہہ کر یوں بولی: “سچ ہے جو پردیسی سے پیت کرے تو پھر وہی دکھ بھرے۔ مشہور ہے کہ جوگی، بھونرا، پردیسی تینوں اپنے نہیں ہوتے۔ ایک پل میں دل موہ لے جاتے ہیں۔ دوست کر دوست کا دکھ درد نہیں جانتے اور ملتے وقت بچھڑنے کا دل میں اندیشہ نہیں لاتے۔ جیسے چکور کے دکھ کو چاند نہیں جانتا، اور وہ اس بغیر اندھیری رات بے کلی سے سر ہے دھنتا”۔
یوں ہی مادھو بن شب و روز درد فراق میں گرفتار تھی لیکن جب رات ہوتی تو گھر سے باہر اور باہر سے اندر گھبرائی گھبرائی اُدھر کی ادھر اور اِدھر کی ادھر پھرتی۔ کبھی اس کا نام لے لے کر پکارتی، کبھی دیوانی سی رو رو چیخیں مارتی ؎
آباد تم نے اور کہیں کا نگر کیا
جوں شمع ہم نے زیست کو رو رو بسر کیا
آتش فراق سے شعلے کی مانند جلتی۔ کف افسوس ملتی۔ نہ رات کو نیند نہ دن کو بھوک۔ اور جدائی کے تپ کی بھڑک سے سیج پر نہ سوتی۔ تمام رات منہ ڈھانک ڈھانک روتی، تب کہیں صبح منہ دکھاتی اور دن کی شکل نظر آتی۔ جب دن ہوتا تو رات رات جپتی اور رات ہوتی تو دن دن رٹتی۔ از بس کہ درد جدائی نے اُس کے دل میں گھر کیا تھا۔ آٹھوں پہر بے تاب رہتی تھی۔ ہر آن اپنے پر دکھ سہتی، دھیان گیان بدیا سب بھول گئی تھی۔
ناچنا گانا سگھڑائی چترائی کچھ یاد نہ رہی۔ حق ہے برہ کی پیڑ جس کے تن کو لگے وہ سوکھ جائے اور اس کے ست سوکھ جائیں۔ چاؤ اور خوشی کبھی گرد نہ آئیں۔ جس کے بدن میں یہ بلا رہے وہ زندگی میں بھی مرتا رہے۔
القصہ وہ جی ہارے من مارے رہتی تھی، پر اپنا درد دل کسی سے نہ کہتی تھی۔ گھڑی ہوش میں آتی تھی، کبھی بے ہوش ہو جاتی۔ ہر دم اُسے سانپ کے کاٹے کی سی لہریں آتی تھیں۔ آنسو آنکھوں سے لال لال نکلتے تھے اور استخوان آسانی سے سانس لیتے ہلتے۔ رنگ زرد تھا۔ لہو بدن کا سوکھ گیا تھا۔ ضعف اس قدر تھا کہ ہوا کا لگنا بھی اُس کو ایک صدمہ تھا۔ غرض ایسی بے حال ہوگئی تھی کہ سکھیاں غش میں اسے دیکھ کر ‘مر گئی مر گئی’ پکار اٹھتیں اور کبھی گلاب کے چھینٹے دینے لگتیں اور پانی منہ میں چواتیں۔ گھڑی چندن گھس گھس بدن پر لگاتیں۔ پھولوں کی سیج پر سلاتیں۔ تد بھی وہ عشق کی آگ سے جلی جلی پکارتی۔ چاندنی اور رات کی ٹھنڈی ہوا اس کے بدن کو آگ سی لگتی تھی۔ کوئل اور مور کی آواز دل کے گھاؤ پر زہر کا سا اثر کرتی۔ اس کے کبت اور کہانیاں، گیت اور باجے حق میں اُس کے سم تھے۔
سچ ہے کہ جتنی لگانے اور سننے کی چیزیں ہیں سکھیوں کو سکھ دیتی ہیں اور دکھیوں کو دکھ۔
9
قصہ کوتاہ کام کندلا کے بچھڑنے سے مادھو نل کو بھی دکھ بھاری ہوا اور تیر عشق کا اس کے دل پر بھی کاری لگا۔ برہ کی تپ سے اس کی جان بے تاب جلنے لگی اور دم بہ دم منہ سے آہ نکلنے لگی۔ بن بن دیوانوں کی طرح پھرتا تھا۔ روتا اور آنسوؤں کے پانی سے سینے کے داغ دھوتا۔ درد جدائی کی شدت سے ایک پل اسے آرام نہ تھا۔ اضطرابی اور بے قراری کے سوا کچھ اور اسے کام نہ تھا۔ کبھی بین بجا کر اپنے سوکھے بدن میں مانند درخت خشک کے آگ لگاتا اور کبھی وہ بروگی اپنے من میں چنتا اس طرح کرتا تھا جیسے جوگی گورکھ کے گیان میں دھیان لگائے رہتا ہے۔ واقعی یہ سمندر فراق کا نہ کنارہ رکھتا ہے نہ تھاہ! احوال اس کا نہ بیان کیا جاتا ہے نہ لکھا۔ جو کوئی اس میں گرے، ہرچند کہ دانا ہو پر دین دنیا کی اسے مطلق خبر نہ رہے۔ اور برہ کا سانپ جس کو ڈسے وہ جیتا ہر گز نہ بچے۔ قسم ہے یہ جدائی کی آگ جس کو لگے نہ بجھے، بلکہ بھڑکتی ہی رہے۔ سو ہی آگ مادھو کے بھی تن میں لگی تھی۔ اس کے سوز سے جلتا ہوا صحرا بہ صحرا پھرتا تھا۔ بس کہ دل و جگر و پوست و استخوان جلتے تھے۔ سانس اس کے منہ سے دھواں سا نکلتا تھا۔ برہ کی ہوک دل میں اٹھتی تھی، آنسو آنکھوں سے بھر لاتا تھا۔اور ناتوانی اس قدر تھی کہ سوکھے پتے کی طرح جنگل کی باؤ سے کبھی ادھر جا پڑتا کبھی ادھر۔ اگر کانٹا پاؤں میں چبھتا تو اف بھی نہ کرتا پر درد فرقت سے ڈاڑھیں مار مار کر روتا۔
غرض اس کی آہ و زاری سے جنگل کے وحشی آرام نہ پاتے تھے اور درندوں گزندوں میں سے کوئی اُس کے پاس نہ آتا۔ اور جو کوئی آتا تو اس کی آگ کی لپٹ سے پھر بھاگ جاتا۔ اور اس برہ کے مارے کی یہ صورت تھی آنکھیں آنسوؤں سے بھریں، چہرہ زرد، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے، جگر گرم، لہو خشک، مارے دبلاپے کے ہڈیوں میں چمڑا لگا ہوا، نہایت نڈھال، خستہ حال، نہ بھوک نہ پیاس، میلے کپڑے، جی اداس۔
قصہ کوتاہ اُسی حالت میں جوں توں اپنے تئیں سنبھال کر جی میں یہ کہنے لگا: “اگر اس بن میں درد جدائی سے مر جاؤں تو کام کندلا کو پھر کہاں پاؤں۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ایسے شخص کی تلاش کیجیے جو اپنے دکھ درد کو پہنچے اور کام کندلا سے ملا دے۔ جو لوگ دولت کو دیتے ہیں اور بیت دور کرتے ہیں، مشکل کے آسان کرنے والے ہیں اُن کا ہی نام جہاں میں روشن اور جینا بھی ان کا ہی لطف رکھتا ہے جیسے راجا رام چندر، راجا بھتری، راجا بل، راجا کرن تھے۔ حیف کہ ان میں سے کوئی نہیں جو میرے درد کو پہنچے اور اس دکھ سے چھڑاوے۔ مگر ایک راجا بکر ماجیت اُجین میں سنتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اُس پاس چلیے، شاید وہ اپنے یہ درد دل کی دوا کرے اور اس بلا سے نجات ملے”۔
یہ سوچ کر بین اور برہ کو ساتھ لیے نیند، بھوک، پیاس بس لیے اُس جنگل کو چھوڑ اُدھر کا راستہ لیا۔ منزلیں طے کرتا، دن رات دکھ بھرتا چند روز میں متصل سواد اُجین کے جا پہنچا تو دیکھتا کیا ہے کہ ایک دریا موج مار رہا ہے اور سبزہ لہرا رہا ہے۔ از بس کہ اُس کے گرد و نواح میں کوئیں اور تالاب ہیں۔ باغ زراعت وہاں کے سر سبز و شاداب۔ وہاں سے آگے بڑھا تو شہر بہ درجہ آباد دلچسپ نظر آیا۔ بازار اُس کا نہایت خوش اسلوب اور عمارات حد سے زیادہ خوب۔ حویلیاں وہاں کی سونے سے منقش اور جواہر نگار۔ ہر ایک مکان رکھتا تھا نئی طرح کی بہار۔ کوٹھوں اور دیواروں پر سنہرے کلس جگمگا رہے تھے اور بادلے کے نشاں پھرا رہے تھے۔ بیت ؎
ہر ایک قصر ایسا عالیشاں
قصر قیصر کا پست ہوئے جہاں
اور لوگ وہاں کے تمام مال و منال سے ایسے آسودہ تھے کہ غنی غریب پہچانا نہ جاتا تھا۔
10
غرض مادھو ہر ایک کوچہ و بازار کی سیر کرتا ہوا راجا کی ڈیوڑھی پر پہنچا تو دیکھتا کیا ہے کہ راجا محل بڑا عالیشان سونے کا ہے اور جواہر اس پر اس بہتات سے جڑا گویا کیلاش پروت سے جگمگا رہا ہے اور دروازے پر عامل و فوجدار جگہ جگہ کے اور راجے پنڈت ملک ملک کے حاضر ہیں۔ جو حکم پاتا ہے وہ حضور کے حجرے کو جاتا ہے۔ یوں ہر ایک جا نہیں سکتا۔
یہ حال دیکھ کر ہوا اداس اور راجا کے ملنے کی چھوڑی آس۔ ناچار وہاں سے پھرا اور گلی کوچے کا رستہ لیا۔ دن کو تو بے حواس چاروں طرف پھرتا اور رات کو رو رو آہیں بھرتا۔ روز و شب جی پر دکھ سہتا پر اپنا درد دل کسی سے نہ کہتا۔ پھر کتنے دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ ایک مہا دیو کا مندر بلور کا بنایا ہوا ہے کہ اس میں راجا بکرما جیت ہمیشہ پوجا کو آتے ہیں۔
بے تابی سے گھبرا کر وہاں گیا اور اس کی دیوار پر یہ دوہرا لکھا:
نہ راجا رام چندر ہے جسے سیتا کا فراق ہوا تھا، نہ راجا نل جسے دمینتی سے جدائی ہوئی تھی، نہ راجا پنڈر ہے جو اربسی سے بچھڑا تھا۔ راجا بھرتری بھی نہیں جو پنگلا سے جدا کا ہو جوگی ہوا تھا۔ یہ سب کے سب جہاں سے برہ کا جوگ کرکے اٹھ گئے، اب کون ہے جو میرا دکھ سمجھے اور رنج کو دور کرے۔ اور وہاں سے گیا۔ اتنے میں راجا بکر ماجیت پوجا کے واسطے آئے اور پوجا پرکرما (بیکرما) کے واسطے مندر کے گرد گھومنے لگے تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک دوہرا مندر کی دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ اسے پڑھ کر بولے کہ “میرے شہر میں کوئی ایسا بروگی آیا ہے جو برہ کی آگ سے آٹھ پہر جلتا ہے”۔
پھر اپنے مصاحبوں سے کہا: “وہ لوگ بڑے عجیب طرح کے بیوقوف اور نادان ہوتے ہیں جو اپنا دل پرائے ہاتھ دے، کسو کی شرم و حیا نہیں کرتے اور سب کچھ چین اپنا چھوڑ کر برہ کے دکھ بھرتے ہیں”۔
یہ کہہ کر حکم کیا کہ “دیکھو! وہ برہی کہاں ہے؟ میرے شہر میں جو کوئی دکھی رہے گا مجھے (ساکا بند بکرم) گوبند بکرم کون کہے گا۔ مجھ کو یہی چاہیے کہ جس وقت آفت زدہ دکھیا کو پاؤں یا سنوں تو اس کا دکھ درد دور کروں۔ تم میں سے جو کوئی اسے ڈھونڈ لائے گا تو بہت سا انعام پائے گا”۔
پرائے دکھ کو وہی جانتا ہے جس پر دکھ پڑا ہو اور جو اپنے دست قدرت کے وقت محتاج کی دست گیری کرتا ہے اسے محتاجی کبھی پیش نہیں آتی۔
حاصل یہ کہ وہ راجا دکھ کا دور کرنے والا اور دیا کا سمندر تھا۔ پرائی پیڑ سن کر منہ اس کا پیلا ہو گیا۔ پل پل دل میں چنتا کرنے لگا اور کھانا پینا چھوڑ کر کہا: “جب تک وہ شخص نہ ملے گا یوں ہی رہوں گا”۔
یہ سنتے ہی زن و مرد اس کی تلاش کے واسطے راجا کے حضور میں آئے، تب سبھوں کو اس نے برہ بیوگی کے لچن بتائے۔ پھر تو وے ہر کوچہ و بازار میں گھر گھر، در در متلاشی ہو، جا بہ جا پھرنے لگے۔ اور ایک کٹنی بھی گیان متی نام اس کی تلاش میں نکلی تھی۔
ڈھونڈتی ڈھونڈتی مہا دیو کے مندر پاس آپہنچی اور اتفاقاً مادھو بھی وہاں وارد تھا۔ دیکھتی کیا ہے کہ ایک شخص ہے کہ تن و توش اُس کا تحلیل ہو کر بدن خشک ہو گیا ہے اور آنسو آنکھوں میں بھر بھر لاتا ہے اور گھڑی گھڑی ٹھنڈی ٹھنڈی سانس لیتا، اداس اور بے حواس بیٹھا ہے۔ کبھی گاتا کبھی بین بجاتا، کبھی روتا اور کبھی کام کندلا کا نام لے لے پکارتا۔ لباس گلے کا میلا۔ سر کے بال بڑھے ہوئے۔ نہایت بری حالت، رنگ زرد ہے، خون بدن میں نہیں۔ گوشت گھل کر ہڈی چمڑہ رہ گیا ہے اور ناتوانی سے یہ نوبت پہنچی ہے کہ پاؤں سے سر ملتا ہے۔
یہ احوال دیکھ گیان متی نے اپنے دل میں کہا: “ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے کہ جس کے دکھ سے راجا کو دکھ ہے۔ اسی سوچ میں کھڑی تھی کہ اتنے میں دس بیس سکھیاں اس کی اور بھی ڈھونڈتی ہوئیں وہاں آن پہنچیں۔
تب اُن سے ان نے کہا: “یہ وہی ہے جس کو سب رنڈی مرد ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ غرض اب یہی بہتر ہے کہ اسے یہاں سے ہاتھوں ہاتھ حضور میں لے چلو کہ ہمارے راجا کو سکھ ہو”۔
11
مادھو یہ سب چپکا سنا کیا اور کچھ نہ بولا۔ پر جو کوئی احوال اس سے پوچھتا تو نظریں نیچی کر درد دل سے وہ ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتا۔ یہاں تک اپنے معشوق کی تصویر میں مصروف تھا کہ نہ کچھ کسی کی بات سنتا تھا نہ کہتا۔ جیسے جوگی اپنے گرو کے دھیان میں رہتا ہے ویسے ہی یہ بھی اپنے دھیان میں اس کی دوستی کی مالا پھیرتا تھا اور منتر کی جگہ اس کا نام جپتا۔ بیت ؎
عاشق کو اس کے یارو کوئی کچھ کہا کرے
پر وہ اسی کے نام کی ثمرن جپا کرے
تب گیان متی نے اس سے کہا: “اے بیراگی! برہ کے بس میں ہو کر گو سکھ کی دولت سب چھوڑی پر دل کھول کر بولو اور اپنے درد کی باتیں کہو۔ کیوں چپکے ہو؟ تمھیں اسی کی قسم ہے جس کی جدائی میں یہ حال بنایا ہے اور سکھ آرام گنوایا ہے۔ حجاب کو اڑا دو اور خاموشی کا پردہ اٹھا دو”۔
مادھو اس کی قسم مان کر جدائی کا احوال اور کام کندلا کی دوستی کا قصہ کہنے لگا۔ پھر اس طرح سے کہ ایک دم کہتا اور ایک پل روتا۔ کنول سی آنکھوں کو آنسوؤں سے دھوتا۔ سچ ہے دکھ کی باتیں جس کے آگے دکھیا کہتا ہے اس کو بھی دکھ کا اثر ہو جاتا ہے اور سکھ جاتا رہتا ہے۔ دکھ کے سمندر میں وہی گرتا ہے جس کے دل کو دکھ کی لاگ ہوتی ہے۔
غرض کہ اس کی پیڑ سکھیوں کے بھی دل کو لگ گئی اور برہ کی تپ سے سب کی گات جلنے لگی اور تمام بدن پسیجنے۔ آنسؤں سے انگیا اور آنچل بھیگے۔
صدقے جائیے اُن کے جو بیگانے درد کو اپنا کر جانتے ہیں اور پھٹے منہ اُن کا ہے جن کے دلوں میں پرائی پیڑ اثر نہیں کرتی، جیسے پانی پتھر میں نہیں بھدتا۔
پھر گیان متی نے کہا: “ہم راجا بکرم کی لونڈیاں ہیں۔ تمھارے ڈھونڈنے کو ہم سب کو بھیجا ہے اور تمھارے دکھ سے وہ آپ بھی دکھ میں ہے۔ بہتر اب یہ ہے آؤ راجا پاس چلو تمھارا مقصد پورا ہوگا”۔
یہ سب کچھ سمجھا کر اُسے حضور میں لائیں اور عرض کیا: “یہ وہی برہمن درد مند ہے کہ جس کے دکھ سے آپ کو بے چینی تھی”۔
تب راجا نے برہمن جان کر اس کی بہت سی تعظیم و تواضع کی اور اپنے پاس بٹھایا اور منہ اس کا تک رہا کہ سر سے پاؤں تلک برہ کی اگن میں جلتا ہے اور محبت کے سوز سے گلتا۔
کہنے لگا: “کام دیو بھی کیا مورکھ ہے جو کندن سی دیہ کو نیہ کی آگ سے جلا کر راکھ کر ڈالتا ہے”۔
پھر بولا: اے باہمن دیوتا! جو کچھ کہو اس کو بجا لاویں۔ زہے نصیب ہمارے کہ تم نے ہمیں درسن دیا۔ سچ کہو کہاں سے تم آئے ہو؟ اور کیا تمھارا نام ہے؟ اور کس کے عشق سے دولت دنیا چھوڑ کر فقیری اختیار کی؟ پر خاطر جمع رکھو کہ ایشور تمھارا مطلب پورا کرے گا۔
تب کہنے لگا کہ “میرا نام مادھو نل ہے۔ بید سنگیت، بیا کرن، سا مدرک، جوتش، رس، گیتا کوک کاویہ، آگم نپگل ان سب کو پڑھا ہوں اور بین مردنگ سے لے دنیا میں جتنے باجے ہیں سب کو بجاتا ہوں۔ راگ راگنی کو بھی ساتھ دانست کے گاتا ہوں۔ تمام جانوروں کی بولی سمجھتا ہوں۔ جہاں کے گر اور بدیا سے ماہر ہوں اور پوہ پاوتی نگری، جہاں کا راج راجا گوبند چند کرتا ہے، وہاں کا رہنے والا ہوں۔ پہلے تو راجا نے میرا بہت سا آدرمان کیا۔ پھر دیس نکالا دیا۔ میں اداس ہو کر وہاں سے جا بجا سیر کرتا ہوا کام وتی نگر میں آیا، جہاں کا راجا کام سین ہے کہ جس کا وصف جن و بشر کرتے ہیں اور اس شہر میں کام کندلا نام ایک کنچنی رہتی ہے۔ وہ سنگیت کے علم میں ایک ہے اور شکل و شمائل میں نیک۔ چاند اس کے منہ سے شرمندہ اور سورج اس کی چمک کو لگ نہیں سکتا۔ ایک ذرہ آنکھیں مہری لگ رہی ہیں۔ اس کے روپ سے عقل، چترائی اور گن سب کے سب جاتے رہے۔ اے راجا! جس دم مَیں دنیا میں پیدا ہوا تھا اُسی دم ہما نے میرے دل کی لوح پر عشق لکھ دیا تھا۔ اُسی میں اس کو ایک دم بھولتا نہیں ہوں اور اسی کا تصور آٹھ پہر رہتا ہے۔ جدھر دیکھتا ہوں وہی نظر آتی ہیں۔ غرض اُس کی صورت نے میری آنکھوں میں آن کر جی نکال لیا اور دل میں گھر کیا۔ سدا میرے نین اس کے درشن کو ترستے ہیں اور جی ملنے کو تڑپتا ہے۔ حیف ہے کہ بھگوان نے مجھے پر نہ دیے، اگر ہوتے تو اس کے پاس اُڑ کر پہنچتا”۔
12
جب اُن نے تمام اپنا درد دل کا کہا، ساری مجلس راجا کی بھیچک رہ گئی۔ بلکہ جتنے پنڈت گنی اور دانا تھے، وے بھی حیرانی سے منھ دیکھ کر اس کا رہ گئے۔ راجا بھی حیرت میں آیا پر اُن نے اتنا کہا کہ “پنڈت جی! تم سب کے سردار ہو اور سب گنوں سے خبردار۔ جس کو چاہو بات میں موہ لو۔ ایسا کون ہے جو تم کو موہے ٹک۔ ایک سمجھو کہ دل مانند لعل کے ہے اور جان کو اس سے سکھ ہے۔ غیر کے ہاتھ ایسے جواہر کو دے کر دکھ لینا اچھا نہیں”۔
تب مادھو نے کہا: سنیے مہاراج! من تو جوں توں اپنے اختیار میں بھی رہ سکتا ہے پر یہ آنکھیں بڑی ذوتی ہیں کہ اس کو بگانے بس کر کے جی کو بے چین کر دیتی ہیں۔ انھیں آنکھوں نے میرے دل کو بھی کام کندلا کے بس میں کردیا اور اُسی کے بچھڑنے سے میرا ان پانی چھوٹا ہے اور پل پل میں درد اُس کی جدائی کا بڑھتا ہے۔ چت کے اندر جو آگ ہے اس کا سوز اسی میں رہتا ہے اور یہ اگن جس کو لگتی ہے وہی سہتا ہے۔
تب راجا نے کہا: تم اتنے بڑے گنی ہو کر، حیف ہے، کسی سے دوستی کرو اور اُس کی محبت میں مرو۔ راجا رائے جتنے ہیں سب تمھاری قدر بوجھتے ہیں اور چرن تمھارے پوجتے ہیں۔ اپنے تئیں دیکھو! اور اسے سنتے ہو! بیسوا مال و دولت ہی تلک ہے آشنا مفلسی میں کسی سے نہیں کرتی وفا۔ اُس کی آنکھ ادھر ہے اور دل ادھر۔ کسی سے لگاوٹ کسی سے رکھائی، کہیں بھولا پن کہیں چترائی۔ ایک دم میں یار ایک پل میں بیزار۔ اس کی دوستی پر مت تپیاؤ اور بیسوا کی صحبت سے باز آؤ۔ بیت ؎
کسو سے اشارہ کسی سے ہے بات
کسی سے ہے چشمک کسی سے ہے گھات
تب مادھو نے کہا: “اے راجا! تو اگر اسے میری آنکھوں سے دیکھے تو ان باتوں کا مطلب دھیان نہ کرے۔ راجا! جو چیز جس کو بھاتی ہے وہ اس کی آنکھوں میں سہاتی ہے۔ وہ رو برو نہ ہو اگر تو بستی اجاڑ آوے نظر۔ اگرچہ دریا اور سمندر بہتے ہیں پر پپیہا سوات کی بوند ہی کو تکتا ہے۔ دن رات پانی میں رہتی ہے سیپی پر پیاسی ہی نیسان ہے پانی کے قطرے کی۔ ہر چند تارے آسمان پر بے شمار ہیں پر چکوریں چاندنی کی ہیں بے قرار۔ مچھلی بن پانی بے تاب ہو اور بھنورا بغیر کنول کے خراب۔ کام کندلا بن مادھو کا یہ کچھ ہے حال۔ عشق ہوا ہے جنجال اے راجا جلد سنبھال!”
تب تو راجا بولا: “اس بیسوا کی دوستی سے باز آ۔ میرا کہنا مان! تو باہمن تیرے وہ لائق نہیں ہے”۔
تب کہا اس نے: “میں تو ابھی چھوڑ دوں۔ پر کیا کروں کہ دل میرے بس میں نہیں۔ مہاراج! کام کندلا نے میرا مال و دولت، دل و جان لیا اور اس کے بدلے برہ کا دکھ دیا۔ جب تلک آنکھوں میں ہے جان اور تن میں ہے سانس تب تک نہ چھوڑوں گا اس سے ملنے کی آس۔ جب تک نہ مروں گا اور دوزخ بہشت میں نہ جاؤں گا، پپیہے کی طرح کام کندلا ہی کا نام جپوں گا۔ کیونکہ جو کوئی خام خیال رکھتا ہے اور بو الہوس ہوتا ہے وہ دوستی کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ جن نے اگلے جنم میں ثواب کے کام کیے ہیں وہی دوستی کی راہ میں قدم رکھتا ہے۔ انسان تو سب ہی ہیں پر آدمی وہی ہے جس کو عشق ہو۔ اور عاشق نہ ڈوبتا ہے نہ جلتا ہے۔ غرض کسی طرح مرتا نہیں۔ جس کے دل میں عشق کی گرمی ہے صاحب معرفت وہی ہے۔ بدن مانند خانۂ تاریک کے ہے اور محبت اس میں مثل چراغ کے۔ بیت ؎
سینے ميں اپنے یوں ہے یہ دل کا داغ روشن
جیسے اندھیرے گھر میں ہووے چراغ روشن
جب محبت دل میں یار کی باتوں سے آتی ہے تب ایسی باتیں ظہور میں آتی ہیں”۔
آخر مادھو کی باتوں سے راجا اور تمام مجلس کے لوگ رونے لگے اور جو کوئی یہ احوال سنتا تھا اس کے دیکھنے کو آتا تھا۔ پر جو اس کو دیکھتا تھا اس کا دکھ اسے بھی ہوتا تھا۔ تمام اجین میں جا بجا یہی چرچا تھا۔ جہاں چار رنڈی مرد بیٹھتے تھے تو یہی مذکور کرتے کہ اس شہر میں اک بیراگی آیا ہے، بہت خوبصورت اور چترا ہے۔ لیکن سکھ اور چین تج کر دوستی کے عہد سے رات دن صندل سے بدن پر راکھ ملتا ہے اور آہوں کا دھواں اس کے منہ سے نکلتا ہے۔ غرض اس کی خستہ حالی سن سن اور دیکھ دیکھ ہر ایک سر دھنتا تھا اور دریغ سے ہاتھ ملتا۔
13
ایک دن کا ذکر ہے کہ راجا بکرماجیت اس کا ہاتھ پکڑ، رات کے وقت اپنے محل میں لے گیا اور اس جڑاؤ محل میں سونے کے چراغ ہر طرف ایسے روشن تھے جیسے ستارے۔ اس سبب سے اس مندر کی جوت مانند کیلاس کے تھی اور اقسام کی خوشبویاں مہک رہیں تھیں۔ فرش ریشمی زعفران سے چھڑکا ہوا جا بجا بچھا تھا اور قرینے سے ایک سنگاسن بھی دھرا تھا۔ راجا برہمن کو لے کر اس پر بیٹھا اور جس گن بدّیا اور علم و ہنر کی بات پوچھی، مادھو نے بے تامل اس کا جواب دیا۔ تب راجا نے اٹھ کر اس کے پاؤں دھو کہا کہ میں تمھارا چیلا ہوں۔ جو مانگو سو دوں۔
تب مادھو نے کہا: اگر آپ کو میری خوشی منظور ہے تو کام کندلا کو مجھے دلوا دیجیے کہ جس کی خاطر میں نے تن من دھن سب کھویا اور دل کا لہو آنکھوں سے رویا۔ پھر بے اختیار یوں کہنے لگا: اللہ مجھے پر دے تو اڑ کر دیکھوں۔
تب راجا نے دل میں غور کی کہ اس کا دھیان سوائے اس کے کسی طرف نہیں۔ اگر میں اس کو زبردستی رکھوں تو خوب نہیں۔ کیونکہ اس کے فراق میں اس کی جان جاوے گی اور مجھ پر ناحق ہتیا ہو وے گی۔ بہتر یہی ہے کہ جسے یہ چاہتا ہے اسے دلا دیجیے۔
یہ اپنے جی میں ٹھہرا اور دیوان عام میں آ، پردھان کو یاد فرما، حکم کیا کہ ہمارے ملک میں ڈھنڈھورا پٹوا دو اور جابجا شقے طلب کر کے لکھ بھیجو۔ اس نے بہ موجب راجا کے حکم کے کیا۔ چنانچہ راجا دیس دیس اور رسالہ دار وغیرہ چھوٹے بڑے نوکر اپنی اپنی تیاری کر، مستعد لڑائی کے ہو، حضور میں آن کر حاضر ہوئے۔
تب راجا نے شہر کے باہر، ندی کے کنارے جا، ڈیرہ کیا۔
تمام فوج کا محلہ دیکھا تو بیس لاکھ سوار اور نو ہزار فیل نشین تھے۔ رتھوں کا اور پیادوں کا شمار نہ تھا، پھر ہاست بازار کی تو کیا گنتی؟
غرض اسی فوج سے کام وتی نگری کو چلا اور زمین ہلنے لگی اور سیس ناگ مارے بوجھ کے کانپنے اور راجا دسوں دسا کے مارے دہشت کے تھرتھرانے لگے۔ گھوڑوں کے سموں سے ایسی دھول اڑتی تھی کہ آسمان زمین ایک نظر آتے تھے اور راجا جس کے ملک کی طرف گذرتا تھا وہ بھینٹ لے کر آن ملتا۔ لیکن سواری کے وقت آپ پیچھے ہوتا اور مادھو کو آگے رکھتا۔
دھن ہے ایسے ساکے بند راجا کو کہ جس نے پرایا دکھ دور کرنے کو اپنا دیس چھوڑا اور برہمن کے واسطے گھر بار، سکھ چین، سب کچھ تجا۔ کوچ بہ کوچ چلا جاتا تھا۔
14
غرض چند روز کے عرصے میں اس مقام پر پہنچے کہ وہاں سے کام وتی نگری چالیس کوس رہ گئی تھی۔ ڈیروں داخل ہو راجا نے اپنے دل میں کہا: “دیکھوں وہ عورت کیسی ہے جس کے فراق میں یہ مرتا ہے۔ وہ بھی اس کے درد ہجر میں گرفتار ہے یا نہیں”۔ یہ سوچ کر گھوڑے پر سوار ہو، تمام لشکر بھیڑ بنگاہ کو چھوڑ، شہر کی طرف اکیلا چلا مگر ایک خواص ساتھ ہو لیا۔ غرض پہر دن چڑھتے چڑھتے شہر میں داخل ہو اور لوگوں سے کام کندلا کا پتہ پوچھتا ہوا اس کے دروازے پر پہنچ، گھوڑے پر سے اتر حویلی میں جایا چاہتا تھا کہ دربان نے دوڑ کر خبر کی کہ “ایک شخص ڈیوڑھی میں کھڑا ہے شکل اس کی راجوں کی سی ہے۔ پر معلوم نہیں کہ راجا ہے یا کوئی بڑا آدمی”۔
یہ سن کر ایک چیری جلدی سے اپنے ساتھ راجا کو اپنے گھر لے گئی اور چتر ساری میں بٹھایا۔ اتنے میں وہاں دیکھتا کیا ہے کہ ایک عورت نہایت شکیل و حسین ہے لیکن تن بدن کی اسے اپنے خبر نہیں۔ کپڑے میلے، برا حال جی نڈھال، مادھو ہی مادھو کرتی ہے۔ پل پل میں چھپ چھیجتی جاتی ہے اور مورچھا گت چلی آتی ہے۔ لہو گوشت پوست سوکھ رہا ہے۔ کندن سا مکھڑا پیلا پڑ گیا ہے۔ ناچنا گانا بجانا سب کچھ بھولی ہوئی ہے۔ سانس ہی دم بہ دم کی اس کو سولی ہے لیکن اس حال میں بھی اسی کا خیال رکھتی ہے۔
بہتیری راجا نے دوستی کی باتیں کیں پر ان نے آنکھ بھی اس سے نہ ملائی اور ایک بات کا بھی جواب نہ دیا۔ مگر آنکھوں میں آنسو بھر بھر لائی اور پی پی گئی۔ آخر راجا نے جھنجھلا کر کہا کہ اتنا گھمنڈ کسی کو مناسب نہیں۔ اس کو زر سے کام ہے۔ اعلیٰ و ادنیٰ سے کیا مطلب؟
بس ہر ایک سے چاہیے کہ لگاوٹ کرے اور اپنے بس میں کرے۔
تب کام کندلا بولی: تم ایسی باتیں نہ کہو۔ میں نے اپنا جی اس باہمن کو دچھنا دیا ہے اور آنکھوں نے میری دیکھنا تج کر برت لیا ہے۔ میں بولتی اسی سے ہوں جو میرے من میں بستا ہے اور اس کے دیکھنے سے آنکھوں میں ٹھنڈک ہوتی ہے۔ میرا تو من، دھن جی وہی لے گیا ہے۔ اس کے بن مجھے سارا جگ سونا لگتا ہے۔ کسی بات کی مجھے سرت نہ رہی۔ گن روپ چھوڑ کر باؤلی ہو گئی۔میری آنکھیں ادھر ہیں وہ ہے جدھر۔ پھر کس طرح سے کروں کسی پر نظر!
راجا اس کا روپ دیکھ اور حال سن اپنے جی میں کہنے لگا: یہ اس پر جان دیتی ہے، وہ اس پر جی دیتا ہے۔ اس کی جدائی سے وہ لٹ گیا اور اس کے بیوگ سے یہ لٹ گئی ہے۔ ایک کا من دوسرے سے لگ رہا ہے۔ ہر ایک کی آنکھوں کو ہر ایک کا دھیان بندھ رہا ہے۔ آٹھ پہر میں ایک پل نہیں سوتے۔ نسدِن جدائی کی پیڑ سے ہیں روتے۔ برہ کی ریت دونوں میں برابر پائی جاتی ہے۔ حالت ان کی ایک سی نظر آتی ہے۔ ان کی پیت کی ایسی ہے نیک جیسے نظروں کی راہ ہے ایک۔ مالتی لگی ہے بھونرے کے رس میں اور اس باس میں ہے لگا۔ برہ کی سول من ہر ایک کا سہہ نہیں سکتا۔ اس عورت کی جان اس مرد کے تن میں ہے اور اس کی جان اس کے بدن میں۔ پھر سمجھا کہ ان کی کپٹ کی نہیں ہے پیت ان دونوں میں وہ دیکھی جو سنی ہے دوستی کی ریت۔ اگر ان کی محبت جھوٹی ہوتی تو دونوں کے دل کا چین برہ کی پیر نہ کھوتی۔ ایسی چاہت پر جان مال سب گنوا دیجیے اور برہ کا درد اپنے دل پر لیجیے۔ جن میں کپٹ پردہ نہیں وہ دور ہوں یا نزدیک پر رہتے ہیں ملے۔ اس طرح کی پیت پر تن من دھن سب واریے۔
ندان راجا نے اس گھر کی دیرینہ بڑی بوڑھیاں جو تھیں، ان سب کو بلا کر پوچھا: “کس کے واسطے اس کی سدھ بدھ گئی ہے اور کس کی محبت و الفت کی برہ کے بس میں پڑی ہے؟”
تب سکھیاں اس کا احوال رو رو کر بیان کرنے لگیں کہ “ایک مادھونل نام بم بیٹا تھا۔ اس کی برہ کی آگ میں جلتی ہے۔ وہی مسافر اسے ٹھگ گیا اور اس کے دل و جان کو اسی کا دھیان لگ گیا۔ کبھی بے ہوش ہوتی اور کبھی ہوش میں آ رہتی ہے۔ پپیہے کے سے بچن۔ لہو اس کا برہ کی آگ سے سوکھ گیا ہے اور سفید پڑ گیا ہے بدن۔ نہیں معلوم وہ بمنہیٹا موہن روپ بن آیا تھا یا اندر تھا کہ اسے چھل گیا، یا کام دیو تھا کہ اس نے دیکھا۔ اس کی چاہت میں اس کی یہ حالت ہے کہ کسی سے بیان ہو نہیں سکتی۔ برہ کی ٹھنڈی سانسیں لے لے اپنی جان دے رہی ہے۔ رات بھر اس کی آنکھ جھپکتی اور دن کو بے تابی سے تڑپتی۔ غرض ہر وقت اس کے عشق میں دکھ بھرتی ہے اور جیتے جی مرتی ہے۔ دوست کے بیوگ سے یہ آنکھوں سے آنسو بہاتی ہے اور مریچ کر اپنے تئیں خاک میں ملاتی ہے”۔
یہ سن کر راجا نے واسطے آزمائش کے یہ کہا کہ “مادھونل کو ہم نے جوگی کے بھیس اجین نگری میں بیوگ بھرا دیکھا تھا۔ ندان بیوگ کی سول سے بہت دکھ پاکے مر گیا”۔
جب یہ بات راجا نے تمام کی، کام کندلا نے ایک پچھاڑ کھائی اور مانند پنگلا کے تمام ہوئی ؎
دوست کے مرنے کا جب حال جدائی میں سنا
آہ اس درد سے کھینچی کہ ہوئی جان ہوا
سکھیوں نے جو آکر دیکھا تو اس کے دانت بیٹھ گئے ہیں اور زبان اینٹھ گئی ہے اور آنکھیں مچ گئی ہیں۔ پھر ایک نے نبض پر جو ہاتھ رکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ برسوں سے موئی پڑی ہے۔
وہیں بال بکھرا ڈاڑھیں مار مار سب کی سب رونے لگیں اور یوں کہنے: “چنبیلی بھونرے کی جدائی میں سکھ کے پانی بن سوکھ گئی اور دکھ کا کانٹا کھا کر جھڑ گئی۔ پر اس کی برہ کا درد نہ سہہ سکی”۔
15
تب راجا اپنے جی میں کہنے لگا کہ جس کے واسطے برہمن نے اتنے دکھ اٹھائے سو بات کی بات میں مر گئی۔ وہ بچن سنتے ہی ندان سر دھننے لگا اور پچھتانے لگا کہ مجھ سے بڑا پاپ ہوا جو میں جانتا کہ سنتے ہی اپنی جان دے گی تو ہرگز اس سے یہ بات نہ کہتا، پر چوکا۔ گویا اپنے ہاتھ سے زہر دیا۔ اب اس باہمن کو کیا جواب دوں گا، جو وہ بھی یہ سن کر مر جائے تو دونوں کے عذاب میں گرفتار ہوں گا۔
پھر سکھیوں سے کہنے لگا کہ اس نے ہجر کی تپ سے آنکھیں موند لی ہیں یا برہ کے سانپ نے اسے ڈسا ہے۔ میں گاڈرو کو لے آتا ہوں کیونکہ اس کی جان نکل نہیں گئی بلکہ آہ کے ساتھ غش کر گئی ہے۔ ابھی اس کے دن مرنے کے نہیں اور یہ ہرگز نہ مرے گی۔ کس واسطے کہ جس کے بدن میں بیوگ آگ رہتی ہے اس کے تئیں موت چھو نہیں سکتی۔ اور اس کو اجل کیونکر آوے کہ برہ موت کی بھی موت ہے۔
پھر راجا کام کندلا کی جان کھو، سکھیوں کی تسلی کر، نراس ہو من مار کر چلا اور تین پہر رات بجے اپنی فوج میں آپہنچا جیسے جُواری دولت ہار جاتا ہے۔ جب صبح ہوئی، دربار کر بیٹھا اور مادھو کو بلا کر یہ بات کہی کہ جس کے واسطے یہ یہ قصہ ہوا وہ عورت بچن سنتے ہی مرگئی۔
جب مادھو نے یہ سنا کہ کہ کام کندلا نے میرے بغیر جان دے دی، سنتے ہی گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر زمین پر پچھاڑ کھا کر گرا اور ایک آہ بھر کے مر گیا۔
مالتی آگ کی گرمی سے جلتے سنی تھی، پر اس کے جلنے کا احوال سن کر بھونرے کو جلتے نہ دیکھا تھا۔ سو اچرج یہاں دیکھا۔
غرض اس کے گرتے ہی ہا ہا کر ساری مجلس دوڑ پڑی۔ کوئی ناک بند کرنے لگا، کوئی آرسی دکھانے پنڈت گنی بید بہت سے دھائے۔ جوگی جتی اور گاڈرو آئے۔ دوا اور جڑی بونٹی، منتر جنتر کر تھکے۔ پر کسی کی تدبیر نے اثر نہ کیا۔ سارا سریر ٹھنڈا ہو گیا۔
من سادھن اور جی سارتن سانس کے ساتھ گیا۔ علاج کرنے والوں نے جب دیکھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔
تب راجا نے بے اختیار رو رو کہا: پہلے تو میں نے ایک رنڈی کی ہتیا کی۔ تس پیچھے اس باہمن کی۔ جو کوئی رنڈی کو مارتا ہے وہ بہت دکھ پاتا ہے اور باہمن کے خون سے دوزخ میں جاتا ہے۔ حیف کہ مجھ سے یہ دونوں کام ہوئے۔ ناحق ان کی دوستی کو جھوٹ سمجھ کر میں کپٹ سے چھل کیا اور دونوں کا جی لیا۔ اب بہتر یہ ہے کہ میں آپ جل مروں۔ سچ ہے کہ جنھوں نے ایک نیت پوری کی ہے انھیں کسی طرح سے گناہ نہیں۔ بلکہ بگانی دوستی میں جو خلل کرتے ہیں، وہی عذاب میں پکڑے جاتے ہیں۔
اور تمام لشکر میں مادھو کے مرنے کا یہ شور وغل ہوا کہ ہاتھی گھوڑے چھوٹ گئے۔ بھوک پیاس سب بھول گئے۔ کھانے پکے پکائے پڑے رہے۔ فوج میں گھبراہٹ پڑ گئی اور ہر ایک جا یہی چرچا تھا کہ وہ باہمن بات سنتے ہی مر گیا۔ جس کے کام کو راجا نے یہ کچھ کیا۔ پھر راجا وہاں سے اٹھ کر ندی کے کنارے آیا اور چندن ملا، گیرا گر منگوا، چتا بنوا، اس پر گھی چھڑکوایا اور بہت سا سونا گائیں دان کیں۔
تب تو لوگ سمجھانے لگے: مہاراج! تمھاری سلامتی میں سب کی سلامتی ہے۔ ایک آدمی کے واسطے تمام عالم کا مرنا اچھا نہیں۔ مثل مشہور ہے کوئی مرتے پیچھے نہیں مرتا۔ اس کی اجل یوں ہی آئی تھی۔ وہ مرگیا اب اس بات سے باز آئیے کہ تمھارے مرنے سے ہم سب خراب ہوں گے۔ بگانے ملک میں آئے ہوئے ہیں۔ ایسا نہ کرو جس سے جہاں ہنسے۔ کیونکہ دنیا دکھ کی جگہ ہے۔ جس کی جو قسمت میں ہوتا ہے سو پاتا ہے۔ اسے مرنا تھا مر گیا۔ یہاں سے اٹھیے اور کٹک میں چلیے۔ نہیں تو ہم سبھی تمھارے ساتھ چلیں گے۔ فوج میں کھلبلی پڑ رہی ہے۔ تمھارے چلنے سے سب کی ڈھارس بندھے گی اور سنسار کی یہی ریت ہے۔ ہزاروں جانیں پیدا ہوتی ہیں اور مرتی ہیں۔ اس کا سوچ بچار کسی کو نہیں ہوتا۔ پر راجا کا مرنا سب کو دکھ دیتا ہے۔
تب راجا نے کہا: سنو! اس طرح دھرم جاتا ہے۔ اس جگ میں سب مرنے کو آئے ہیں اور اعلیٰ ادنیٰ کو موت ہی کھائے گی۔ پر دھرم کی ریکھا کبھی نہ مٹے گی۔ یہ ہمارا کام نہیں جو پرایا دکھ دیکھ سکیں۔ اس میں ہمارا دھرم کرم نہیں رہتا اور جہنمی ہوتے ہیں۔ پون کال تو سبھی کو کھائے گا پر دھرماتما ہمیشہ جیتا ہے۔ اور جس کو دنیا میں سب برا کہیں وہ جیتا ہی موا ہے۔ پھر کیا مرے گا۔ پاپی کا خدا نام نہ لواوے۔
16
یہ اُن سب کو جواب دے، وہاں سے جا، ندی میں نہا دھو، دھوتی باندھ، بہت دان کیا، منہ میں تلسی دل اور گنگا جل لے بارہ تلک دیے، سورج کو ڈنڈوت کر، چتا میں آکر بیٹھا۔
جب یہ خبر سرگ لوگوں میں پہنچی کہ راجا بکرما جیت جیتا جلتا ہے تب دیوتا، اربسی، گندھرب، کنسر اپنے اپنے اپنے تخت پر سوار ہو کر دیکھنے کو آئے اور راجا کا جو بڑا دوست بیر بیتال تھا وہ سنتے ہی سب سے پہلے آیا۔ چاہے کہ راجا اس چتا میں آگ دے وہیں بیتال نے دوڑ کر راجا کا ہاتھ پکڑا اور کہا: تو سا کے بندھ راجا ہے۔ تجھ سے کانپتے ہیں سب دیوتا۔ آدمی سیس ناگ۔ کس واسطے تو جلتا ہے بگانے دکھ کے دور کرنے والے؟
تب راجا نے کہا: سن بیتال! میں نے بڑا پاپ کیا ہے۔ پہلے ایک عورت کو مارا، پھر باہمن ہتیا کی۔ اب موت کے فرشتے کے ڈر سے اور دوزخ سے جیتے جی جلتا ہوں۔
تب بیتال نے کہا: راجا تم مت جلو۔ تھوڑی بات کے واسطے کیوں اپنی جان دیتے ہو۔ میں جا کر ایک گھڑا امرت کا بھر لاتا ہوں اور دونوں کو جلاتا ہوں۔ دنیا میں بہت آدمی مرتے ہیں جو بدنامی سے ڈرتے ہیں اور برے وے ہیں جو اپنی برائی سن کے نَلجّے ہو، جیتے ہیں۔ اے راجا! کیوں گھبراتے ہو؟ میں اب امرت لینے جاتا ہوں۔
غرض وہاں پہنچ کر امرت کے کند میں سے ایک گھڑا بھر، راجا کے پاس لے آیا۔ پہلے امرت مادھو کے منہ میں دیا۔ حلق میں اُترتے ہی اس کے وہ اُٹھ بیٹھا اور کندلا کندلا پھر رٹنے لگا۔
غرض مادھو کے جیتے ہی راجا چتا سے اتر بیتال کے پاؤں پر گر کر کہنے لگا کہ “تو نے میری جان بچائی مگر آرام جب ہو کہ کام کندلا بھی جیے”۔
یہ کہہ کر شادیانے بجوائے اور ارب کھرب لٹائے۔ تمام فوج میں خوشی خورمی ہوئی اور رنڈی مرد کی چنتا گئی۔
یہ تماشا دیکھ دیوتا، آدمی، گندھرب، منی گنی سب راجا کی مضبوطی اور ساہس پر دھن وھن کرنے لگے۔
پھر راجا سونے کا گھڑا امرت سے بھر، بید کا بھیس بنا، کام کندلا کے دروازے پر جا کر کام بید کا پکارا اور دربان اس کی آواز سن کر سکھیوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ “ایک بید آیا ہے”۔ سنتے ہی ان میں سے ایک سکھی دروازے پر آ اس کو اندر لے چلی اور جی میں یہ کہتی تھی کہ “یہ بید ایسا ہے خوبصورت جیسے کاکی مورت۔ اس کے دیکھنے سے چاہیے اسے آرام ہو”۔
پنڈت بید بدیسی گنی، سندر وہ ایسا تھا کہ جسے سکھیاں پہلے تو دیکھ بھچک رہ گئیں۔ پھر چت کر بہت سا آدر کیا اور باتنبر پر بٹھایا۔ پھر کام کندلا جہاں موئی پڑی تھی، وہاں سے اسے اٹھا لائیں۔ اس کے روبرو رکھ دیا۔
تب بید نے کہا: “اسے نہ تپ ہے نہ جاڑا۔ نہ سن بات بلکہ کچھ روگ نہیں جو میں چنگا کروں۔ یہ مر گئی ہے اس کی کیا دوا۔ آگ جلا، پانی کا ڈوبا، بلکہ آسمان کا گیا پھر سکتا ہے اور جس کو برہ کے سانپ نے ڈسا ہے اس کا منتر جنتر کچھ نہیں”۔
پھر سکھیوں نے کہا: “جو اسے جلاؤ تو جو کچھ منہ سے مانگو وہی پاؤ۔ جو بید کہ موئے کو جلاتا ہے وہ برنبہہ کہاتا ہے”۔
یہ سن کر بید بولا: “بید آزاری کی دوا کرتا ہے نہ مردے کی”۔
غرض جب ایسے نراسے بچن اس نے سنائے تب سب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ندان اس کے مرنے کا یقین ہوا۔ تب تو رو رو زمین پر پچھاڑیں کھانے لگیں اور اس پر خاک ڈالنے۔
کہتے ہیں گن، خوبصورتی، چترائی تب ہی تلک ہے کہ جب تلک ہے جان جہان۔ دم نکل گیا تب اسی جسم کو سب کہتے ہیں مسان۔
17
آخر کار یہ حال جو بید نے دیکھا تو اپنے جی میں ڈر کر کہنے لگا کہ مبادا ان میں سے بھی کوئی مر جائے تو کیسی بن آئے۔ تب دلاسے دینے لگا کہ تم اتنا مت روؤ اور مت کڑھو! اس کا میں کچھ علاج کرتا ہوں۔
تب بہ زور جبڑا اس کا چیر کر امرت منہ میں چوایا۔ گلے اترتے ہی وہ بھی مادھو مادھو پکارتی اٹھی اور سکھیوں سے کہنے لگی کہ اتنے دنوں میں آج نیند بھر سوئی اور تھوڑا سا آرام ہوا۔
تب سکھیوں نے کہا: تو تو مر گئی تھی۔ اس بید دھنتر نے تجھے جلایا ہے۔ نہیں معلوم یہ ہنونت ہے یا کوئی مہا بلی جس نے بیگانے کارن لاکھ کوس جاکر جیون مول بونٹی لا، جان بخشی کی۔
یہ بات سن کام کندلا بہت سا خوش ہوئی اور سکھیاں بھی پخنت ہوئیں۔ پھر جو کچھ زر زیور جس جس کے پاس تھا ہر ایک نے بید کے آگے رکھا۔
تب اس نے کہا: میں دان نہیں لیتا۔ بلکہ جو کچھ مجھ سے مانگو میں تم کو دوں۔ اور جو لالچی ہو اس کو دنیا میں جس نہیں ملتا۔
تب کام کندلا نے کہا: سنو صاحب! ہمیں تمھاری بید کی سی شکل نہیں معلوم ہوتی۔ کوئی دیوتا ہو کہ بید کے روپ میں آ، تم نے میرے منہ میں امرت دے، جلایا۔ تم اپنا احوال مجھ سے سچ بتاؤ۔ کون ہو کہاں سے آئے ہو جو میرے دل کا دھوکا مٹے؟
تب راجا کہنے لگا: میں ساکے بند بکرم راجا ہوں اور اُجین نگری کے ملک کا مالک۔ جس کو دکھی دیکھتا ہوں اس کا دکھ دور کرتا ہوں۔ چنانچہ اس ملک میں مادھونل کے واسطے آیا۔ پر کیا کہوں کیا کیا دکھ اٹھایا۔ پھر تیری محبت آزمانے کو یہاں آکر مادھو کے مرنے کی خبر دی۔ جب تو سنتے ہی مر گئی تب اس کو واسطے آزمائش کے تیرے مرنے کی خبر پہنچائی۔ جب وہ بھی مرگیا تب میں نے اپنے جلنے کی تیاری کر، چتا پر جا بیٹھا کہ اتنے میں بیتال آپہنچا اور میرا ہاتھ پکڑ کہنے لگا: تو کیوں جلتا ہے؟ میں امرت لا دونوں کو جلا دیتا ہوں۔ پھر اُن نے مجھے تھوڑی دیر میں امرت لا دیا۔ میں نے پہلے مادھو کو جلا دیکھا۔ پھر تیرے کارن بید کا سوانگ بنایا اور تجھے بھی جلایا۔
جب راجا سب یہ باتیں کہہ چکا، تب کام کندلا راجا کے پاؤں پر اپنے سر کو رکھ کے کہنے لگی: یہ دنیا سمندر اتھاہ ہے اور تم اس کے جہاز ہو۔ اے راجوں کے راجا! مہاراج! جو برہ کے گھاؤ کی دوا دیتے ہیں، دونوں جہان میں جس لیتے ہیں۔ پر برلے ہی پنڈت ایسے ہوتے کہ پرائے دکھ درد کو پہنچتے ہیں اور بگانے گنوں کو بوجھتے ہیں، ووہی دنیا میں بہتر ہوتے ہیں۔
یہ باتیں کہہ پھر کام کندلا بے اختیار ہو، راجا سے گڑ گڑا کر کہنے لگی کہ میرا سندیسا مادھو سے کہنا۔ گئی ہوئی جان پھر آئی ہے۔ اگر اب کے گئی تو پھر نہ آئے گی۔ غرض بدون تمھارے میں نے دکھ اٹھائے بھاری۔ پر تم نے کبھی جوگی بن کر بھی پھیرا نہ کیا۔ ایک باری تم اپنی صورت آن کے دکھا جاؤ جو تمھارے دیکھے سے میرے برہ کی آگ ٹھنڈی ہو۔ غرض میرا دکھ درد سب تم پر ظاہر ہے۔ جو کچھ میں نے کہا ہے سو تم سب کچھ سمجھا کر کہنا اب برہ کی آگ سے مجھے بچا لینا۔ اے راجا! مادھونل مجھے اس طرح ملاؤ جس طرح کہ دمینتی راجا نل سے ملی”۔
یہ احوال سن کر راجا اپنے سر کو دھن، اس کی بہت سی تسلی کر، اپنے لشکر کو چلنے لگا۔ تب سکھیوں نے اسیس دی کہ “ہمیشہ جیتے رہو”۔
18
پھر راجا گھوڑے پر سوار اپنے لشکر میں آ، ڈیرے داخل ہو اور سب کو بلا، دربار کر، اس کی برہ کی باتیں کہنے لگا، پھر ساری مجلس کے لوگ بھی اپنا اپنا سر دھننے لگے، اور برہ کا دکھ ان سب پر غالب ہوا۔
پھر راجا نے کہا: “تم سب کوئی اس احوال کو سنو کہ اس زمانے میں ایسی دوستی نہیں ہوتی۔ ان کی تو پریت دونوں جگ نے ہی جانی اور سالہا سال تک رہے گی یہ کہانی۔ کل جگ میں وہی نہیں مرتے جنھوں نے اپنی دیہی برہ کی آگ سے جلائی”۔
جب یہ بات کہہ چکا تو دیوان کو بلا کر کہا: “کوئی اب ایسی بات کرو جس سے ہمیشہ دنیا میں یہ کتھا رہے اور کام سین کے پاس ایسے وکیل کو پان دے کر رخصت کرو جو ذات کا اشراف، خوبصورت، عقل و دانش میں ایک دھیر اور سورما، زبان آور، پنڈت، سبھا چاتر، ڈھیٹ ہوئے”۔
دیوان نے ایسا ہی آدمی تلاش کر کے حاضر کیا۔ تب راجا نے فرمایا "کام سین راجا کو ہماری طرف سے یہ پیغام جا کر دو کہ گاؤں زمین جو کچھ ہم سے مانگو سو تو دیں گے پر کام کندلا کو بھجوادو۔ بہتر یہ ہے کہ ہماری تمھاری آپس میں دوستی رہے۔ نہیں تو لڑائی کی تیاری کرو۔ میں اسے لڑ کر لوں گا”۔
غرض سری پت راؤ جو ذات کا رگھوبنسی دوت بڑا چاتر تھا اس نے جب یہ سب کچھ سنا حضور سے رخصت ہو کر چلا۔ کتنی ایک دیر میں راجا کام سین کی ڈیوڑھی پر آن پہنچا، تب عرض بیگی نے یہ حضور میں جا کر عرض کیا کہ راجا بیر بکرما جیت کا وکیل حاضر ہے؟
کہا: جلدی سے اس دوت کو لاؤ۔
یہ کہہ کر وہیں چار آدمی اس کے پیشوا لینے کو بھیجے۔
جب وہ حضور میں آیا تو راجا نے پوچھا کہ تیرا کیا نام ہے؟ اور کس راجا کا بھیجا آیا ہے؟
تب وکیل نے یہ عرض کی کہ راجا بیر بکرما جیت سا کے بندھ تمھاری سرحد میں آ اترا ہے اور مجھ کو یہ پیغام دے کر آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ہم مادھونل برہمن کے واسطے دیس چھوڑ پردیس میں آئے ہیں۔ گاؤں زمین جو کچھ مانگو سو دیویں۔ پر کام کندلا کو بھجوا دو۔
تب راجا کام سین نے خفا ہو کر کہا: کوئی ایسی بات بھی دربار میں کہتا ہے؟ جو میں کام کندلا کو بھجوا دوں تو سب راجوں میں بدنام ہوں۔ یہی سب دیس دیس کے راجا کہیں گے کہ ڈانڈ دے کر اپنا دیس بچایا۔ جب تک میرے دم میں دم ہے تب تک کام کندلا کو نہ دوں گا۔ اگر اسی وقت تیرا راجا لڑائی کے واسطے چڑھ آوے تو میں بھی لڑنے کو حاضر ہوں۔
پھر وکیل نے عرض کی: “اے راجا! تھوڑی سی بات کو کیوں بڑھاتا ہے؟ یہ دیس پتی راجوں کا راجا اتنی دور سے اس کے واسطے آیا ہے۔ یہ وہ ساکا بند راجا بکرما جیت ہے جس کو سارے دیس کے راجا سیس نوائے ڈانڈ دیتے ہیں۔ اور یہ ایسا بڑا راجا ہے جس کے پرتاپ سے آدمی، دیو، دیوتا کانپتے ہیں۔ اُس کے ہاتھیوں اور گھوڑوں کے دَل کا جب شمار نہیں پھر آدمیوں کا کیا حساب ہے۔ جس وقت کہ وہ کوچ کرتا ہے آسمان پر گرد چھا جاتی ہے کہ نظر نہیں آتا ہے۔ پر جنھیں خدا نے بڑا کیا ہے وے راہ میں قدم سمجھ کر رکھتے ہیں اور دشمن سے بھی نیو کر چلتے، بات بھی کہتے ہیں تو نرمی سے”۔
یہ سن کر راجا غصے ہو، تیوری چڑھا، آنکھیں بدل، وکیل سے کہنے لگا کہ “میرا نام کام سین ہے۔ میں سوا خدا کے کسو سے نہیں ڈرتا۔ اٹھ! یہاں سے جا! اور اپنے راجا سے کہہ کہ اسی وقت چڑھ آوے”۔
تب دوت نے کہا کہ “اے راجا! اٹھ اور اور لڑائی کا مستعد ہو۔ جو سور ہیں وے شیر کے میدان میں گونجیں گے اور جو ہرن سے ہیں وے بھاگ جاویں گے”۔
پھر وہاں سے اٹھ اپنے راجا کے پاس آ عرض کی کہ “میں نے اسے بہت سمجھایا پر وہ نہ سمجھا۔ سوائے لڑائی کے اور بات نہیں کہتا”۔
تب بکرما جیت بھی طیش سے کہنے لگا: “دیکھوں یہ میرے آگے سے کہاں جاتا ہے۔ اب ہماری فوج کے سوار پیادے تیار ہوں۔ کالے بادل سے ہاتھی جنگی کنپٹا مستی سے پٹکتے ہیں اور متوالے سے جھومتے ہیں، مانند پہاڑ کے ان کو آگے رکھو کہ ان کے چلنے سے زمین ہلے اور دسوں دسا راجا کانپیں۔ بھورے اور پیلے بیل ایسے رتوں میں جوتو جو چھوٹنے سے مانند شیر کے لگیں”۔
یہ سن دیوان نے بموجب حکم تیار کیے۔
19
تب راجا بھی سوار ہو کام وتی نگر کو چلا۔ نقیب بولتے ہوئے، ڈنکا ہوتا ہوا، رکاب بہ رکاب، پرے کے پرے برابر برابر فوجوں کے چلے آتے تھے۔ تمام راجا اور سردار پرے باندھ باندھ، سلام کر کر اپنے اپنے غول میں شامل ہوتے جاتے تھے۔ کہیں ترھی پھکتی، کہیں طاشا مرفا بجتا جاتا۔ تمام نشان و بان کے پھریرے کھلے ہوئے۔ غول کے غول اور دل کے دل چلے آتے تھے۔
یہ شہرہ کام وتی نگر میں پہنچا کہ راجا بکرما جیت چڑھ آیا۔
اس خبر کے سننے سے تمام شہر میں کھلبلی پڑ گئی۔ پھر اُس کے لوگوں نے گھبرا کر بھاگنے کی تیاری کی۔ یہ احوال شہر کا سن راجا کام سین نے کہا: جہاں تلک ہماری فوج ہے سب کی سب تیار ہو آئے۔
از بس کہ سبھی لوگ منتظر حکم کے تھے، فی الفور تیار ہو گئے۔ ہرچند شیر دبلا، ماڑیا، کمزور ہو پر جب ہاتھی اُس کے چنگل میں چنگھاڑے تو وہ پیٹھ نہ دے بلکہ سامنا اس کا کرے۔
غرض راجا کے رفیق راچپوت چندیلے، بوندیلے، بھگیلے، رگھو بنس، چندر ہنس، پتوار، چوہان اور جتنے بیر سورما منگرے منچلے، راوت مہنت، پنت، ساونت تھے، اپنے اپنے زرہ بکتر، خود، چار آئنے پہن، ہتھیار باندھ، تیار ہو حاضر ہوئے۔ تب راجا کام سین بھی اپنے بدن پر سلاح آراستہ کر، سوار ہو سب کو ساتھ لے، راجا بکرما جیت کے مقابلے کو چلا۔ تب رانی اوپر محل کے جا دیکھنے لگی اور سکھی سے کہنے لگی: “ساجن رن چڑھے، ہمارے اس سے دل کو بڑی خوشی ہوئی۔ تو ہاتھ سندھورا لے اور مانگ سیندور بھر دے۔ پھر مارو باجا”۔
اور اپنے اپنے دلوں میں سب نے مرنا ٹھانا تھا۔ غرض ادھر سے کام سین اپنی تیاری سے گیا اور ادھر سے بکرما جیت سامنے ہوا۔ وہیں دونوں طرف مارو باجا۔ گھوڑے ہنہنانے لگے اور ہاتھی چنھگاڑیں مارنے، سورما للکارنے اور کایر ڈرنے۔ پھر کڑکیت کھڑکا کہنے لگے اور مضبوطوں کو امنگ لڑنے کی آنے لگی۔ توپیں دغنے لگیں۔ اگن بان ہر طرف سے چھوٹنے لگے۔ ہاتھی گھوڑے چونک چونک پڑے۔ چکر اور تبر چلنے اور تبر سے تبر بھڑنے۔ گولی چلنے لگی۔ ہتھنال، شتر نال چھٹنے لگے۔ غرض زمین و آسماں دھواں دھار ہو گیا۔ غلغلہ اور شور جنگ کا عرش تلک پہنچا۔ دیر تک اسی طرح لڑائی جمی رہی۔ ندان ارادہ سورماؤں کا یہ ہوا کہ ہلا کریں۔
تب آپس میں کہنے لگے تلوار چلے تو معلوم ہو کس کی فتح ہوئی اور کس کی شکست کہ اتنے میں ہلا ہوا۔ راوت پر راوت آیا۔ سوار سے سوار بھڑا۔ پیادے سے پیادہ لڑا۔ کمیت سے کمیت جُتا اور ہاتھی سے ہاتھی نے دانت ملائے۔ تلوار چلنے لگی۔ آدمی کھیرے ککڑی کی طرح کٹنے لگے۔ لوہے سے لوہا بجنے لگا، برچھی پر برچھی چلنے لگی اور تیر گولے کی بوچھار پڑنے لگی۔ سچ یہ ہے کہ سور بیر انھیں کہتے ہیں جو تلوار کی آنچ میں جم کر کھڑے رہیں۔ ایک سے ایک سامنے ہو رہا تھا۔ ایک دوسرے کو مار پاؤں سے ٹال رہا تھا۔ جوں جوں کڑکیت تعریف کرتے تھے توں توں سورما للکار بڑھ بڑھ کے تلواریں مارتے تھے۔ سر جو کٹتا تھا، دھڑ لڑتا تھا اور کسی کا دھڑ زمین پر گر مار مار پکارتا تھا اور مہادیو ان کے سروں کی چن چن کر مالا بناتے تھے۔ غرض ہر طرف لوتھوں کے ڈھیر تھے۔ لہو کے نالے پر نالے بہ رہے تھے۔ جو بڑے بڑے سورما تھے تلواریں پھینک پھینک باہم دگر کمریں پکڑ پکڑ کر چھری کٹاری سے لڑتے تھے۔ جو جسے پکڑتا تھا وہ اسے نہ چھوڑتا۔ لوتھ پر لوتھ پڑ گئی۔
پھر تو دونوں طرف سے مست ہاتھیوں کی فوج کی طرف پیل دیا۔ تب جو جو اچھے راوت تھے انھوں نے مارے تلواروں کے ان کو تمام کیا۔ سونڈیں اور دانت کاٹ کاٹ کر گرا دیے۔ عجب صورتیں ان کی ڈرانی ہو گئیں۔
سونڈیں یوں معلوم ہوتی تھیں گویا کہ آسمان سے سانپ برسے ہیں اور ہاتھی ایسے پڑے تھے جیسے پہاڑ سے خون کا ایک دریا بہہ رہا تھا کہ بھوت مسان جوگنی بھیروں اس میں آن آن نہاتے تھے اور لوتھوں کو اٹھا اٹھا خوش ہو ہو کھاتے۔ گدھ آ آ نوچتے۔ گیدڑ چباتے۔ کوے آنکھیں نکال نکال کھاتے۔ جب لہو گھاؤں سے بھبھکتا تو چھوڑ بھاگتے اور پھر آن کر کھاتے۔ ایسے سور بیر پرایا دکھ دور کرنے کو، لڑائی کے لڑنے کو، منہ پر گھاؤ سہنے کو، برے وقت خاوند کی رفاقت کرنے کو خدا نے چھتری پیدا کیے ہیں۔
20
غرض اس طرح کا چار دن گھمسان رہا۔ دونوں طرف کے لوگ بہت سے جوجھے۔ مگر کچھ لوگ راجا بکرما جیت کے بچے اور کام سین کے ساتھ والے سب مارے گئے۔ لاکن جو ان میں مضبوطی سے مارے گئے ان کے واسطے تخت آئے اور ان پر سوار ہو ہو کر سورج لوک کو گئے۔ جو اپنے آقا کے کام پر لڑائی میں مارے جاتے ہیں ان کی شادی سورج لوک میں حوروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ جو سورما رن میں سن مکھ ہو کر لڑتے ہیں اگر وے مارے جاتے ہیں تو وہاں عیش کرتے ہیں۔ اگر جیتے رہتے ہیں تو یہاں مزے اٹھاتے ہیں۔ ان کا دونوں جہاں میں بھلا ہوتا ہے۔
جب کام سین لڑائی ہارا تب اپنے جی میں کہنے لگا: اب کسی طرح سے ملوں اور صلح کروں۔ ندان یہ بات دل میں ٹھہرا، ہتھیار کھول، ہاتھ باندھ، راجا بکرما جیت کے روبرو آیا اور سلام کیا۔ تب راجا نے بہت سی دلداری کی اور راجا کام سین کا ہاتھ پکڑ کر کام وتی نگری کو لے چلا۔ غرض جب کہ نگری میں پہنچے، کام سین نے کام کندلا کو بلوا، راجا بکرما جیت کے حوالے کیا۔
پھر راجا نے کام کندلا مادھو کو بخش دی۔ پھر ان دونوں کو عجب طرح کی خوشی وخرمی حاصل ہوئی کہ جس کا بیان نہیں کیا جاتا۔
شب فراق گئی اور صبح وصال آئی۔ ایسے ملے جیسے صبح کے وقت چکوا چکوی۔ چند روز کے بعد اُجین کو کوچ کیا اور اُن دونوں کو ساتھ لیا۔
کوچ بہ کوچ چلے جاتے تھے۔ آخر کتنے دنوں میں اُجین میں داخل ہوئے۔ پھر رانی کو اور تمام شہر کے لوگوں کو بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ شادیانے بجنے لگے اور جا بہ جا ناچ راگ ہونے لگا۔
کام کندلا اور مادھونل اخلاص پیار سے آپس میں رہنے لگے اور راجا کو دعائیں دینے۔ دوہرا ؎
اپنا سکھ تج دکھ سہے پر دکھ کھنڈن جائے
اور نباہت ایک سم دلہن سک بندھی رائے
الحمد للہ کہ یہ رنگین دلچسپ داستان تاریخ دسویں ذیقعدہ کی سنہ بارہ سو پندرہ ہجری مطابق سنہ اٹھارہ سو ایک عیسوی میں مع دو تاریخ ہجری و عیسوی کے تمام ہوئی۔ ابیات:
جو کہتے ہوں باتیں بتا عشق کی
تو سنیے کہانی ذرا عشق کی
ہے رنگین و مطبوع و دلکش تمام
لکھی داستان یہ ولا عشق کی
کہ تاریخ یہ ہے زروئے بیاں
کہی من لگن سب کتھا عشق کی
ردیف و قوافی بدل اور بھی
ولا کہہ یہ آئی ندا عشق کی
سنہ عیسوی کے مطابق تمام
جو اعداد تاریخ چاہے تمام
سر جہل کر دور اور دیکھ لے
فسانہ ہے یکسر عجیب و غریب