غلام یاسین فوت ہو گیا۔
اطلاع ملنے پر میں نے اس کے نمبر پر کال کی۔ آدمی کی عقل کا یہ عالم ہے کہ میں جانتا تھا کہ اطلاع جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ آدمی ایسے موقعوں پر اچانک کتنا خوش فہم ہو جاتا ہے۔ مگر پھر بھی میرے دل میں خیال آیا کہ وہ فون اٹھائے گا تو اس سے کہوں گا، گھٹیا انسان! تم نے یہ کیا کمینگی کی۔ حد ہے یار۔ میرا تو دل دہل گیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یاسین کا نمبر مصروف رہا اور میں وہ بکواس سوچتا رہا جو مجھے اس کے ساتھ کرنی تھی۔ پھر اچانک آواز آئی۔ سر، ابو فوت ہو گئے ہیں۔ میں گڑبڑا گیا۔ یہ تو بالکل یاسین کی آواز تھی۔ اس نے کہا، میں علی حسن بول رہا ہوں۔
علی حسن یاسین کا بیٹا ہے۔ یاسین ایک ناکام آدمی تھا۔ مگر ایک انتہائی کامیاب باپ۔ علی حسن اس کی نقل ہے مگر اس سے بہت بہتر۔ یاسین علی حسن سے بہت چھوٹا تھا جب میری اس سے دوستی ہوئی۔ ہم دونوں ہم جماعت تھے۔ پرائمری ہم نے اکٹھے پاس کی۔ پھر وہ شاید رکشہ چلانے لگا۔ کھینچ تان کے مڈل بھی اس نے کر لیا مگر میٹرک نہ کر سکا۔ خیر، کیا فرق پڑتا ہے؟ خاص طور پر اب جب وہ مر گیا ہے۔
میری چھوٹی بہن اکثر مذاق کرتی ہے کہ بھائی کے سبھی دوست انتہائی ذہین، انتہائی قابل ہوتے ہیں۔ عام آدمی کبھی کوئی سنا ہی نہیں۔ میں بہت بےبس محسوس کرتا ہوں۔ وہ نہیں سمجھ سکتی کہ ذہانت، قابلیت اور لیاقت صرف وہ نہیں جس کی پیمائش آپ کچھ خاص کامیابیوں سے کر سکیں۔ وہ بیچاری تو ایک طرف رہی، زمانہ آج تک نہیں سمجھ سکا۔ اگر سمجھتا ہوتا تو یاسین کی قدر نہ کر لیتا؟
اس دور میں میں نے ایک ہی آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس کے پاس بڑے بڑے رجسٹروں میں لمبے لمبے حساب لکھے نظر آتے تھے۔ میٹرک فیل ہونے کے باوجود یاسین کو پیچیدہ سے پیچیدہ حساب کتاب کے لیے کبھی کیلکولیٹر استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ لیکن اسے تو میں نے پےدرپے ناکامیوں کے باوجود کبھی حوصلہ ہارتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر منصوبے کی ناکامی کے بعد اور زیادہ جوش سے نئے منصوبے پر کام کرنے کا عادی تھا۔ ہر بار لگتا تھا کہ وہ ماضی کی سب ناکامیوں کا بدلہ مستقبل سے لے کر رہے گا۔ اس نے رکشہ چلایا، رکشے بنائے، فیکٹریوں میں نوکریاں کیں، کاروبار کیے، اے سی مکینک بنا، امپورٹر بننے کی کوشش کی، ماہرِ تعلیم بھی بننے والا تھا کہ اچانک سانس اکھڑ گئی۔ لڑکے رکشہ میں رکھ کر ہسپتال لے گئے۔ مگر وہ مر چکا تھا۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ایک بےوقوف آدمی تھا۔ لیکن ذہین بہرحال تھا۔ کیسا عجیب مذاق ہے!
زندگی ایسے ہی مذاق کرتی ہے۔ بہت سے ذہین لوگ بہت بےوقوف ہوتے ہیں۔ اور زندگی بھر بےوقوف ہی رہتے ہیں۔ اپنی ذہانت سمیت۔ حق یہ ہے کہ انسانی دماغ لوٹے کی مانند ہے۔ زیادہ پانی بھر جائے تو ٹونٹی سے نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ انسان کے دماغ میں بھی جب ایک حد سے زیادہ فعالیت پیدا ہوتی ہے تو کسی دوسری جانب سے عقل کا نکاس شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص غیرمعمولی طور پر ذہین ہو تو اس کی غیرمعمولی حماقتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہم لوگوں کو یاسین کی غیرمعمولی ذہانت اور حماقت دونوں ہی کی عادت پڑ گئی تھی۔ وہ ایک غریب آدمی تھا۔ غریب آدمیوں کی حماقتیں ان کی ذہانتوں سے زیادہ جانی جاتی ہیں۔ شہر کے لوگوں میں بھی یاسین کی پہچان اس کی بےوقوفیاں ہی ہوں گی۔ خیر، اب وہ مر گیا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے؟
میں نے یہ سطریں معلوم نہیں کیوں لکھی ہیں۔ مجھے کئی بار لگا ہے کہ میری سانس اکھڑ رہی ہے۔ میں بھی مر جاؤں گا۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ نہیں یار۔ میرا چھوٹا سا بچہ ہے۔ ماں ہیں۔ بیوی ہے۔ بہن بھائی ہیں۔ دوست یار ہیں۔ اتنی بھرپور زندگی ہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ یاسین۔ وہ تو ابھی چند گھنٹے پہلے تک مجھ سے بھی زیادہ مصروف تھا۔ خبیث آدمی ساری زندگی مصروف رہا۔ ہم ہمیشہ اس سے کہتے تھے، بریک پر پاؤں رکھو۔ دھیرے چلو۔ اتنی جلدی نہ کرو۔ اسے بہت جلدی تھی۔ ترقی کرنے کی۔ کامیاب ہونے کی۔ ماضی کے بدلے مستقبل سے لینے کی۔ ایک لمحہ ضائع نہیں کرتا تھا ظالم۔ لیکن اب کیا فائدہ؟ اب تو خود ضائع ہو گیا۔
یاسین بہت ذہین آدمی تھا۔ زمانہ سمجھے یا نہ سمجھے، میری بہن مانے یا نہ مانے۔ میں جانتا ہوں۔ اور اگر آپ کو مجھ پر اعتماد ہے تو میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ اپنے اردگرد ہر ذہین آدمی کو یہ پیغام پہنچا دیجیے۔ ذہانت، قابلیت، عقل وغیرہ دنیا کی بیکار ترین چیزیں ہیں۔ یہ ایک نوالہ روٹی کا آپ کے منہ میں نہیں ڈال سکتیں۔ آپ کو محبت کرنا اور وصول کرنا نہیں سکھا سکتیں۔ آپ کو جینا نہیں سکھا سکتیں۔ ذہانت پر ناز کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ذہین لوگوں کی زندگیاں بےوقوفوں سے کہیں زیادہ عبرتناک ہوتی ہیں۔ ظاہر تو جو ہے سو ہے مگر جو اندر گزرتی ہے وہ یا عقل والے جانتے ہیں یا ان کا خدا۔ یہی حقیقت ہے۔ دنیا عقل سے نہیں چلتی۔ ورنہ احمقوں اور معصوموں کو لوگ کچا چبا جاتے۔ دنیا کے قاعدے اور ہیں۔ یہ قاعدے شاید ہمیں کتوں سے سیکھنے چاہئیں۔ وہ دن بھر لوگوں کی ٹھوکریں اور دھتکاریں سہہ کر رات کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر سونی گلیاں انھیں تاج پہناتی ہیں۔ وہ شیر اور شاہ ہو جاتے ہیں۔ پھر دن نکل آتا ہے۔ پھر رات ہو جاتی ہے۔ اگر کتے اس پھیر پر غور و فکر کرنا شروع کر دیں تو ایک ہی لمحے میں پھڑک کر جان دے دیں۔ جیسے یاسین نے دے دی۔ مگر خیر۔ اب تو وہ مر گیا ہے۔