علامہ اقبالؒ کی ایک نہایت دلچسپ اور دلآویز غزل۔ روایتی اقبال شناسوں کے لیے اقبالؒ کا ایسا کلام ڈراؤنے خواب کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ خود میرا یہ حال ہے کہ یہ غزل پڑھ کے جہاں ایک خاص کیفیت دل پر طاری ہوتی ہے، وہیں دماغ میں بھی بہت سے ایسے سوالات چکرانے لگتے ہیں جو خمار انگیز بھی ہیں اور کربناک بھی۔ اور جن کے جوابات ہما شما کے بس کا روگ معلوم نہیں ہوتے۔
اس غزل کو پڑھ کر یہ اندازہ کرنا دشوار نہیں کہ اقبالؒ کا ذہنی سفر فقط فلسفہ و مذہب کی روایتی گزرگاہوں پر نہ تھا بلکہ ایک عظیم دماغ کو کائنات پر تدبر کے دوران جن عقلی، جذباتی اور وجدانی منازل سے سابقہ پڑتا ہے ان پر بھی وہ قدم زن رہے تھے۔ خدا جانے کب تک؟
ایں ہم جہانے آں ہم جہانے
ایں بیکرانے آں بیکرانے
یہ دنیا بھی ایک جہان ہے۔ اگلی دنیا بھی ایک جہان ہے۔ اِس کی بھی حد نہیں۔ اُس کی بھی کوئی حد نہیں۔
ہر دو خیالے ہر دو گمانے
از شعلۂِ من موجِ دخانے
دونوں جہان خیالی ہیں۔ دونوں جہانوں کی بنا گمان پر ہے۔ میرے لیے دونوں یوں ہیں کہ جیسے میں ایک شعلہ ہوں اور یہ مجھ سے نکلتی ہوئی دھوئیں کی لہریں ہیں۔
ایں یک دو آنے آں یک دو آنے
من جاودانے من جاودانے
یہ دنیا بھی چند لمحوں کی ہے۔ وہ دنیا بھی چند لمحوں کی۔ میں ہمیشہ رہنے والا ہوں۔ ایک میں ہمیشہ رہنے والا ہوں!
ایں کم عیارے آں کم عیارے
من پاک جانے نقدِ روانے
یہ دنیا کسوٹی پہ پوری نہیں اترتی۔ وہ دنیا بھی نہیں۔ فقط میری روح کھوٹ سے پاک ہے اور یہی خالص سرمایہ ہے۔
اینجا مقامے آنجا مقامے
اینجا زمانے آنجا زمانے
اِس جگہ مقامات ہیں۔ اُس جگہ بھی مقامات کی قید ہے۔ اِس جگہ زمانے کی پابندی ہے۔ اُس دنیا میں بھی زمانے سے مفر نہیں۔
اینجا چہ کارم؟ آنجا چہ کارم؟
آہے فغانے آہے فغانے
یہاں میرا کام کیا ہے؟ آہ و فغاں۔ وہاں میرا کیا کام ہو گا؟ وہی آہ و فغاں۔
ایں رہزنِ من آں رہزنِ من
اینجا زیانے آنجا زیانے
یہ دنیا مجھے لوٹتی ہے۔ وہ دنیا مجھے لوٹتی ہے۔ یہاں بھی خسارہ ہے۔ وہاں بھی خسارہ۔
ہر دو فروزم ہر دو بسوزم
ایں آشیانے آں آشیانے
میں دونوں کو آگ لگاتا ہوں۔ دونوں کو پھونک ڈالتا ہوں۔ اس آشیانے کو بھی اور اس آشیانے کو بھی!
علامہ اقبالؔؒ
(زبورِ عجم)