اے میرے ہم نشیں
درد مزدوروں کی ہڑتال بن گیا ہے
بھوک کے لیے کب سے بھوکے پڑے ہیں
بے بسی دندناتی ہوئی میرے سامنے
ایسے کھڑی ہے
کہ جیسے میری محبوب ہو
رتجگوں کے درمیاں صرف رات ہے
رات اجالے کی خوشبو لیے سو گئی ہے
خواب آنکھوں کے حلقوں میں بپھرے پڑے ہیں
مرد مرضوں کی کھال بن گیا ہے
جو کھانے کے قابل نہیں ہے
بھوک کھنکھناتے ہوئے
میرے سامنے یوں کھڑی ہے
کہ جیسے میں شاہی محلے کا دلال ہوں
زنگ آلود لمحوں کی پائل
میرے پاؤں جکڑے ہوئے ہے
اے میرے ہم نشیں۔۔۔
تیرا ہونے کے قابل نہیں ہوں
بھوک چار سو مجھے پکڑے ہوئے ہے۔۔۔۔۔
بھوک
آزاد نظم
اظہارِ برأت
معاصرین کی نگارشات کی اردو گاہ پر اشاعت کسی قسم کی توثیق کے مترادف نہیں۔ تمام مصنفین اپنے خیالات اور پیرایۂ اظہار کے خود ذمہ دار ہیں۔
تبصرہ کیجیے
اظہارِ خیال
معاصرین
عصرِ حاضر کے اردو ادیبوں کی منتخب نگارشات۔ غزلیں، نظمیں، مضامین، انشائیے، شذرات اور بہت کچھ۔ جدید اردو ادب!