کالج میں ہمارے ایک استاد تھے۔ غوری صاحب۔ حلیے سے لڑکے سے معلوم ہوتے تھے۔ عادات میں بھی ایک طرفہ کھلنڈرا پن تھا۔ ٹھٹھا، مذاق، اچھل کود، آوارہ گردی۔ سب کچھ ہم جیسا تھا۔ لہٰذا یاد پڑتا ہے کہ نہ انھوں نے ہمیں کچھ خاص سنجیدگی سے لیا نہ ہم نے انھیں۔ سال بھر ان کی شاگردی میں گزرا۔ پھر میں زندگی گزارنے میں مصروف ہو گیا۔
کالج میں میں کوئی ایسا غیر معمولی طالبِ علم نہ تھا کہ کسی کو یاد رہ جاتا۔ پھر سولہ سترہ برس اس بات کو ہو چلے تھے۔ غوری صاحب نے ہزاروں طلبہ کو اس دوران میں پڑھایا ہو گا۔ ہزاروں مجھ سے پہلے گزرے ہوں گے۔ اتنے لوگوں کو یاد رکھنا آدمی کے بس کی بات کہاں؟ اور پھر ایک لاابالی اور کھلنڈرے آدمی کے بس کی؟ نہیں۔ مگر نہیں۔ میرا حساب کتاب شاید ٹھیک نہیں۔
پبلک سروس کمیشن کا ایک انٹرویو تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ پینل کی سربراہی خیبر پختونخوا کے مشہور آئی جی ناصر درانی مرحوم کر رہے تھے۔ بائیں جانب کوئی صاحب بیٹھے تھے۔ اور دائیں جانب۔۔۔ دائیں جانب تشریف فرما تھے جناب امجد غوری۔ میں ٹھٹکا۔ وہی چہرہ۔ وہی جسامت۔ وہی بدن بولی۔ بس ذرا بالوں میں سفیدی آ گئی تھی۔ مونچھیں تھوڑی سی نمایاں ہو گئی تھیں۔ چہرے پر کسی قدر بےنیازی اور سرد مہری کا تاثر تھا۔ لباس میں بھی کچھ پروفیسرانہ قسم کی متانت جھلک رہی تھی۔ لڑکا بڑا ہو گیا تھا۔ مگر تھا تو وہی۔ ٹھٹکنا حق تھا۔ مگر شاید ایک لحظہ کی بھی دیر کیے بغیر میں اپنے تحیر کو چھپانے میں کامیاب ہو گیا۔ میرے قدم میز کے سامنے امیدوروں کے لیے رکھی کرسی کی طرف بڑھے اور انٹرویو شروع ہو گیا۔
باہر آ کر میں نے گہری سانس لی اور سوچنے لگا۔ میں اپنی حیرت پر اتنی آسانی سے کبھی قابو نہ پا سکتا اگر غوری صاحب کے چہرے پر مجھے شناسائی کی ایک رمق بھی نظر آ جاتی۔ ان کی آنکھوں نے مجھے پہچاننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ احساس ہوا کہ میں محض ایک امیدوار تھا۔ اگر ان کا شاگرد ہونے کا خیال تھا تو مجھے تھا۔ انھیں ہرگز نہ تھا۔ مجھے جیسے ہزاروں ان کی زندگی میں مسافروں کی طرح آئے اور گزر گئے ہوں گے۔ ہمارے لیے بے شک وہ ایک ہی تھے۔ مگر ان کے لیے تو ہم ہزاروں تھے۔ کس کس کو یاد رکھتے؟
گھر پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی۔ میں تھک گیا تھا۔ کھانا کھا کر سو گیا۔ کچھ ہی دیر سویا ہوں گا کہ کسی نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ کوئی صاحب مسلسل کال کر رہے تھے اور پیغام چھوڑا تھا کہ جیسے ہی میں اٹھوں، ان سے رابطہ کروں۔ رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ غوری صاحب کے قریبی دوست ہیں۔ فرمایا کہ غوری صاحب میری کال کا انتظار کر رہے ہیں۔
جلدی سے فون کیا تو سلام دعا کا تکلف کیے بغیر ہی چہکنے لگے، "تو اندر آیا تو میں نے کہا۔ لو بھئی۔ آ گیا میرا چیتا!”
میں حیران رہ گیا۔ غوری صاحب مجھے پہچانتے تھے؟ ہزاروں شاگردوں میں میں انھیں یاد تھا؟ کیا واقعی؟ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ کیوں یاد تھا میں؟ میرے تو نمبر بھی اچھے نہیں تھے۔ کالج بھی بیچ میں چھوڑ دیا تھا میں نے۔ پھر کیسے؟
پھر اس سوال کا جواب مجھے مل گیا۔ جواب خاصا عجیب و غریب ہے۔ شاید آپ یقین نہ کر سکیں۔ لیکن اگر آپ خود استاد ہیں تو اس کی گواہی ضرور دے سکتے ہیں۔ استاد کو یاد رہنے کے لیے اچھا شاگرد ہونا ضروری نہیں۔ صرف شاگرد ہونا ضروری ہے۔ غوری صاحب کو میں ہی یاد نہ تھا۔ انھیں سب یاد ہوں گے۔ ہزاروں۔ لاکھوں بھی ہوں تو نہیں بھول سکتے۔ بڑھاپے یا معذوری کی بات الگ ہے مگر جب تک دماغ کام کرتا ہے تب تک شاگرد استاد کے دماغ سے نہیں نکل سکتے۔
غوری صاحب کو خدا سلامت رکھے۔ انھوں نے سبق دیا کہ شاگرد جنے ہوؤں سے کم نہیں ہوتے۔ استاد ان سے محبت کرتا ہے۔ انھیں یاد رکھتا ہے۔ ان کی فکر کرتا ہے۔ ان کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے۔ اسی لیے روحانی باپ کہلاتا ہے۔ باپ ہونا کوئی مذاق نہیں۔ استاد ہونا کوئی کھیل نہیں۔