شاعرانہ مزاج شاعری سے کچھ الگ شے ہے۔ بہت سے لوگ اچھے شعر کہتے ہیں مگر شاعرانہ مزاج سے محروم رہتے ہیں۔ دوسری جانب بہت سی طبیعتوں میں شاعرانہ رنگ پایا جاتا ہے مگر وہ شعر گوئی کا مادہ نہیں رکھتیں۔ عدمؔ اردو کے وہ غیرمعمولی شاعر ہیں جن میں یہ دونوں باتیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ وہ نہ صرف ایک نہایت اعلیٰ شاعر ہیں بلکہ انھیں وہ بلا کا شاعرانہ مزاج بھی فطرت نے ارزانی کیا ہے جو شاید اساتذہ کی اکثریت کو بھی نصیب نہ ہو سکا۔
ذیل کا شعر دیکھیے۔ یہ صرف ایک خوبصورت شعر نہیں۔ اس کے پیچھے ایک مزاج ہے جو سرتاپا شاعری ہے۔ اس کی حسیات، اس کے جذبات، اس کے تاثرات، اس کی بصیرت، اس کی بصارت، اس کی سماعت، اس کا آہنگ، اس کا ادراک۔۔۔ سب شاعرانہ!
اس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدمؔ
ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے
انگلیوں سے ساز کی جو رعایت عدمؔ نے تلاش کی ہے اسے مجاز کی چوبیس صورتوں میں نہیں ڈھونڈنا چاہیے۔ پھر کسی شے کو محض دیکھنے سے سامعہ کا متاثر ہو جانا ایسا معاملہ ہے کہ اس کا حق ادا کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ مثال دیتا ہوں۔ وہ مشہور شعر آپ نے سن رکھا ہو گا:
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے
اہلِ ذوق سمجھ سکتے ہیں کہ یہ شعر عدمؔ کے کلام کے مقابل کس قدر پھیکا اور بےروح ہے۔ شاعر نے رنگوں کے باتیں کرنے اور باتوں سے خوشبو آنے کا دعویٰ تو پیش کر دیا مگر اس کی توجیہ ویسی نہ کر سکا جیسا کہ حق تھا۔ یعنی قاری کو اپنی سمجھ سے فرض کرنا پڑتا ہے کہ شاعر کا بیان مجازی معنوں میں ہے۔ یہ نتیجہ جیسا کہ چاہیے، شعر سے خود بخود برآمد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عدمؔ کے ہاں حسنِ تعلیل کا وہ کمال ہے کہ شاید اپنی نوع کی واحد مثال ہو۔ یعنی انگلیوں کی نزاکت سے ساز کا خیال آتا ہے۔ اور یہ خیال محض ذہن کا واہمہ نہیں کہ کاسۂ سر میں گونج کر رہ جائے بلکہ دل کا زندہ خیال ہے جو کیفیات کی ایک دنیا بیدار کر دیتا ہے اور شاعر کو باقاعدہ ساز کی صدا آتی ہوئی معلوم ہونے لگتی ہے۔ نازک انگلیوں اور ساز کے درمیان جو ایک رومانوی قسم کا تعلق ہے، عام شاعر کے ذہن کا تو اس تک پہنچنا ہی محال ہے کجا یہ کہ ایسا بےنظیر بیان کر سکے۔
انگلیوں کی نزاکت کی رعایت سے ساز کی آواز کے لیے ہلکی کی صفت لائی گئی ہے۔ پھر سی کے معمولی لفظ نے اپنے برمحل استعمال کی بدولت نزاکت و لطافت کو اس درجے پر پہنچا دیا ہے کہ سبحان اللہ، ماشاءاللہ۔ صرف اس ایک لفظ کو نکال دینے سے بیان کس قدر پست ہو جائے گا۔ یعنی ایک ہلکی صدائے ساز آتی ہے کے مقابل ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے میں وہ جادو ہے جو شاید خود محبوب کی نازک انگلیوں کے بس میں بھی نہ ہو گا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عدمؔ نے شعر میں بظاہر یہ بیان نہیں کیا کہ یہ کیفیت ذاتی اور داخلی ہے۔ مگر قرینہ ایسا زبردست ہے کہ قاری فوراً خارجی منظر سے شاعر کے دل میں اتر کر اس کی داخلی کیفیات تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی یہ امکان بہت کم ہے کہ کوئی ذی شعور آدمی یہ شعر سن کر خیال کرے کہ انگلیوں سے واقعی کوئی ساز کی صدا برآمد ہوتی ہے۔ حالانکہ ظاہری بیان اسی بات کا ہے۔ دوسری جانب رنگوں کے باتیں کرنے والے شعر میں دعویٰ محض دعویٰ ہی کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ دعویٰ بھی شاعرانہ ہے مگر شاعرانہ طبیعت کے فقدان کی وجہ سے شاعر اس کے لیے وہ تعلیل اور قرائن فراہم نہیں کر سکا جو عدمؔ نے اپنے شعر میں دکھا دیے ہیں۔
عدمؔ کے شعر کے پہلے مصرع میں اکثر کا لفظ بظاہر اس قبیل سے ہے جسے اصطلاح میں حشو کہتے ہیں۔ یعنی وزن پورا کرنے کی خاطر لائے جانے والے بھرتی کے الفاظ۔ مگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی ایک عجیب لطافت پائی ہے۔ یعنی ساز کی آواز وہ نہیں کہ ہمیشہ سنائی دے۔ شاعر دیوانہ نہیں۔ پاگل نہیں کہ ہر وقت کان بجتے ہوں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ایسا اکثر ہوتا ہے۔ اب اکثر کا معاملہ عین وہی ہے جو عاشقوں کا دیکھنے میں آتا ہے۔ یعنی گو کہ وہ بالکل دیوانے نہیں ہوتے مگر ان سے کم بھی نہیں ہوتے۔ بعض اوقات جب ہوش یاوری کرتا ہے تو معقول آدمیوں کی طرح پیش آتے ہیں۔ مگر زیادہ تر عالم وہی ہے کہ خیال دماغ کی بجائے دل پر وارد ہوتا ہے اور جذبات و کیفیات کے لہو میں ڈوب کر وہ رنگین حسیت پیدا کر دیتا ہے جسے ہم شاعرانہ مزاج کہتے ہیں۔
اب پھر پڑھیے۔
اس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدمؔ
ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے