ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
ایک تم سے کیا محبت ہو گئی
ساری دنیا ہی سے نفرت ہو گئی
جو مری ہونی تھی حالت ہو گئی
خیر اک دنیا کو عبرت ہو گئی
دل میں داغوں کی وہ کثرت ہو گئی
رو نما اک شانِ وحدت ہو گئی
سوگ میں یہ کس کی شرکت ہو گئی
بزمِ ماتم بزمِ عشرت ہو گئی
جی رہا ہوں موت کی امید میں
مر ہی جاؤں گا جو صحت ہو گئی
لاکھ جھڑکو اب کہیں پھرتا ہے دل
ہو گئی اب تو محبت ہو گئی
ناز کا باعث ہوا اپنا نیاز
شکر سے پیدا شکایت ہو گئی
ایسی ضد کا کیا ٹھکانا ہے بھلا
بات جو کہہ دی وہ قسمت ہو گئی
غیر سے باتیں ہیں ہم سے عذر تھا
آج تم کو خوب فرصت ہو گئی
دے گئی ان کی شکر رنجی مزہ
درد میں پیدا حلاوت ہو گئی
بختِ خفتہ اور کب جاگے گا تو
اٹھ ارے صبحِ قیامت ہو گئی
یا تو مسجد رات دن یا میکدہ
کیا سے کیا اللہ حالت ہو گئی
حضرتِ دل آپ اور ارمانِ وصل
اللہ اللہ اب یہ ہمت ہو گئی
اس کو ہر ذرہ ہے اک دنیائے راز
منکشف جس پر حقیقت ہو گئی
اب کہاں وہ رات دن کی صحبتیں
مل گئے صاحب سلامت ہو گئی
کر چکے رندی بس اب مجذوبؔ تم
ایک چلو میں یہ حالت ہو گئی