باغباں نے یہ انوکھا ستم ایجاد کیا
آشیاں پھونک کے پانی کو بہت یاد کیا
درِ زنداں پہ لکھا ہے کسی دیوانے نے
وہی آزاد ہے جس نے اسے آباد کیا
یاد رہ جائے گا ارمانِ اسیری میرا
جس نے اس باغ میں صیاد کو صیاد کیا
نیند کیا آئے شہادت کے طلب گاروں کو
فکر رہتی ہے ستمگر نے کسے یاد کیا
ڈر گیا نالۂ شب گیر سے میرے صیاد
شام کو قید کیا صبح کو آزاد کیا
لذتِ درد کی معراج دکھانے کے لیے
مجھ کو بسمل تجھے اللہ نے صیاد کیا
جس پہ احباب بہت روئے فقط اتنا تھا
گھر کو ویران کیا قبر کو آباد کیا
عقل کیا چیز ہے اک وضع کی پابندی ہے
دل کو مدت ہوئی اس قید سے آزاد کیا
جس کفِ خاک کو آنکھوں پہ فرشتوں نے لیا
کیوں خراباتِ جہاں میں اسے برباد کیا
دم نہیں ہے رگِ سودا میں بہار آخر ہے
کیا کروں گا جو مجھے قید سے آزاد کیا
اس کو ناقدرئ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا