نالے کرنے کی جو بندے کو اجازت ہو گی
حشر ہو جائے گا اے جان قیامت ہو گی
حال انجام کا آغاز میں معلوم نہ تھا
کیا سمجھتے تھے محبت میں مصیبت ہو گی
مجھ سے باتیں نہ تعلی کی کیا کر واعظ
قامتِ یار سے بڑھ کر نہ قیامت ہو گی
فخر انساں نہ کرے جسم کی تیاری پر
ایک دن خاک یہ مٹی کی عمارت ہو گی
ہے شبِ وصل میں گھڑیال کا بجنا سر چوٹ
صبح ہو جائے گی تو کیا مری نوبت ہو گی
قامتِ یار کے عاشق جو اٹھیں گے پسِ مرگ
حشر میں حشر قیامت میں قیامت ہو گی
لاش کو دفن تو کر دو جو کیا ہے مجھے قتل
دیکھ لے گا کوئی مفسد تو قباحت ہو گی
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
بغلِ گور میں بےتابئ دل کے ہاتھوں
مر گئے پر بھی ہمیں خاک نہ راحت ہو گی
سخت جانی کے سبب شرم سے میں کٹتا ہوں
ہاتھ دکھ جائیں گے قاتل کو اذیت ہو گی
نہ ملا خاک میں اے چرخ دلِ سوزاں کو
ذروں میں گرمئ خورشید قیامت ہو گی
چاہیے عشقِ حقیقی نہ بتوں کو دل دے
اے صباؔ دیکھ امانت میں خیانت ہو گی