تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمھاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
تمھارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مسلم
مگر کسی نے نظر کے بدلے دل آزمایا تو کیا کرو گے
اتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نکردہ سکونِ ساحل نہ راس آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو بگڑ کے قابلؔ سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے