گھٹا ٹوپ کا لفظ ہم میں سے اکثر نے سن رکھا ہے۔ مگر ہم اسے اسمِ صفت کے طور پر جانتے ہیں۔ یعنی یہ لفظ اندھیرے کی خصوصیت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے سے مراد ہے گھپ اندھیرا۔ گہری تاریکی۔ جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔
آپ نے گاڑیوں کو دھوپ، بارش، گرد وغیرہ سے بچانے کے لیے استعمال ہونے والی رنگا رنگ چادریں دیکھ رکھی ہیں۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں انھیں اردو میں کیا کہتے ہیں؟
گھٹا ٹوپ!
غور سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ یہ لفظ مفرد نہیں بلکہ مرکب ہے۔ یعنی دو الفاظ گھٹا اور ٹوپ سے مل کر بنا ہے۔ گھٹا کے معانی سے ہم واقف ہیں۔ کالے، گھن گھور اور گہرے بادلوں کو گھٹا کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ سنسکرت سے آیا ہے اور اردو اور ہندی دونوں میں رائج ہے۔ ٹوپ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ بڑی ٹوپی کو کہا جاتا ہے۔ تاہم اس کا اصل مطلب ہے غلاف، پوشش یا ڈھکنے والی چیز۔ کانوں تک آ جانے والی بڑی ٹوپی کو کن ٹوپ کہا جاتا ہے۔ ٹوپنا ایک مصدر بھی اردو میں ہے جس کے معانی میں کسی چیز کو مٹی سے ڈھانپ دینا، دفن کرنا اور لٹکانا وغیرہ شامل ہیں۔
تو گھٹا ٹوپ کا مطلب ہوا وہ غلاف یا پوشش جو کسی شے کو گھٹا سے محفوظ رکھے۔ یہ دراصل اس چادر کو کہا جاتا تھا جو پالکیوں، رتھوں اور دیگر سواریوں کو بارش اور دھول مٹی وغیرہ سے بچانے کے لیے ان پر ڈالی جاتی تھی۔ اسی کی ایک صورت وہ کور (cover) ہے جو آج کل ہم اپنی گاڑیوں کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے کہ آپ دو سو برس پہلے کے ہندوستان میں موجود ہیں۔ آپ ایک پالکی میں بیٹھے ہوں اور اچانک گھنگھور گھٹائیں گھر آتی ہیں۔ بارش، بجلی، تاریکی۔ کہار جلدی سے پالکی کو گھٹا ٹوپ سے ڈھک دیتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ وہ ماحول کیسا ہو گا؟
گھپ اندھیرا۔
شاید اسی وجہ سے گھٹا ٹوپ کا لفظ اندھیرے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا۔ لیکن اب عالم یہ ہے کہ اس کے اصل معانی اکثر لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ حالانکہ گھٹا ٹوپ کام میں تو آج بھی آتا ہے۔ پہلے سے زیادہ!