ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
آوارہ و رسوا سہی ہم منزلِ شب میں
اک صبح بہاراں سے مگر آنکھ لڑی ہے
آداب تری بزم کے جینے نہیں دیتے
دیوانوں کو جینے کی تمنا تو بڑی ہے
چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا
محسوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
منزل کے تصور میں کٹھن ہو گئیں راہیں
ہر موڑ پہ اک نور کی دیوار کھڑی ہے
دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنا کے لیے عمر پڑی ہے
شائستۂ پرواز ہیں صدیوں کے اسیر آج
افلاک میں ہلچل ہے زمیں چونک پڑی ہے
کیا نقش ابھی دیکھیے ہوتے ہیں نمایاں
حالات کے چہرے سے ذرا گرد جھڑی ہے
کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابلؔ غمِ دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے