جسم کی خوشبو الگ ہے عطر کی خوشبو الگ
اور اس پر صحبتِ خوش رنگ کا جادو الگ
وصل کی ساری خوشی کو چاٹ لیتی ہے یہ فکر
میں بچھڑ جاؤں نہ تجھ سے ہو نہ جائے تو الگ
میری وحشت نے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا مجھے
شہر ہے بے زار مجھ سے دشت میں آہو الگ
ختم ہونے میں نہیں آتی روایت ہجر کی
میں الگ دکھ سہہ رہا ہوں اور وہ مہ رو الگ
ایک حیرانی لیے ہے ایک طغیانی لیے
آئنے کی خو الگ ہے آب جو کی خو الگ
ایک دریا کو رواں رکھنے کو آنکھیں ہار دیں
اور کنارے جوڑنے میں ہو گئے بازو الگ
صبح تھی ساجدؔ اجالے سے حذر کرتی ہوئی
اور الجھتے جا رہے تھے رات کے گیسو الگ