رقیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معانی ہیں نظر رکھنے والا۔ نگران۔ حفاظت کرنے والا۔ یہ لفظ قرآنِ مجید میں باری تعالیٰ کی صفت کے طور پر آیا ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں پر نگاہ رکھتا ہے اور ان کی حفاظت فرماتا ہے۔ اس حالت یا کیفیت کو رقابت کہا جاتا ہے۔ مراقبہ کا لفظ بھی اسی مادے سے ہے۔ اس کے اصطلاحی معانی اپنے باطن یا حقیقت پر نگاہ کرنے اور دھیان لگانے کے ہیں۔
عربی، فارسی اور اردو شاعری میں اپنے معانی کے اعتبار سے یہ لفظ اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی کے محبوب پر نگاہ رکھتا ہو۔ محبوب کو عاشق سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو۔ اس کی اصل یہ ہے کہ اگر کسی حسین پر دو لوگ عاشق ہوں تو ظاہر ہے کہ دونوں اس پر نگران رہیں گے اور اسے ایک دوسرے سے محفوظ رکھنا چاہیں گے۔ لہٰذا وہ ایک دوسرے کے لیے رقیب ہیں۔
ہماری شاعری کی روایت میں رقیب کو کئی اور ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مثلاً عدو۔ عدو کا معنیٰ ہے دشمن۔ یا غیر۔ غیر کے معانی دوسرے یا اجنبی کے ہیں۔ گویا عاشق و معشوق ایک ہیں اور رقیب ان کے درمیان دوسرا ہے۔ یا یہ آشنا ہیں اور وہ اجنبی ہے۔ اسی طرح رقیب کو مدعی بھی کہا جاتا ہے۔ مدعی کا مطلب ہے دعویٰ کرنے والا۔ چونکہ رقیب بھی عاشق کی طرح محبوب پر دعویٰ رکھتا ہے اس لیے مدعی کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ رقیب کو حریف بھی کہتے ہیں۔ یہ لفظ اس لحاظ سے بڑا دلچسپ ہے کہ اس کے معانی دوست کے بھی ہیں اور دشمن کے بھی۔ حرفت پیشے کو کہا جاتا ہے اور حریف اسے کہتے ہیں جو آپ کا ہم پیشہ ہو۔ چونکہ عاشق اور رقیب دونوں ایک ہی کام کرتے ہیں اس لیے حریف کہلاتے ہیں۔
اردو شاعروں کا رقیب سے جو تعلق رہا ہے اس کے تقریباً تمام پہلوؤں کو آغاؔ اکبر آبادی نے ایک بلیغ شعر میں بیان کر دیا ہے:
رقیب قتل ہوا اس کی تیغِ ابرو سے
حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا