بچپن بچوں کے رسالے پڑھتے گزرا۔ نونہال، تعلیم و تربیت، پھول، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ اور خدا جانے کیا کیا۔ اب نام بھی یاد نہیں۔ مگر اتنا یاد ہے کہ کراچی سے پنجاب منتقل ہوئے تو چھانٹ چھانٹ کر جو رسالے اور کتابیں ساتھ لائے وہ شاید تین بوریوں میں تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں عمرو عیار، آنگلو بانگلو اور ٹارزن وغیرہ کی کہانیاں بھی شامل تھیں اور لطیفوں کے کتابچے بھی۔ تب میری عمر آٹھ نو برس تھی۔
لطیفوں سے یاد آیا۔ چھٹی ساتویں جماعت تک مجھے شعر اور لطیفے کا فرق معلوم نہ تھا۔ شعر کو لطیفہ اور لطیفے کو شعر کہہ کر سناتا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ شاعری جتنی بیکار چیز کوئی اور معلوم نہ ہوتی تھی۔ سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا بلا ہے۔ کیوں لکھتے ہیں؟ کیوں پڑھتے ہیں؟ میری دلچسپی محض کہانیوں اور لطیفوں میں تھی۔ معلوماتِ عامہ سے بھی شغف تھا۔ مگر اقوالِ زریں، پند و نصائح، مضامین، شاعری وغیرہ سے ایسے بھاگتا تھا جیسے بقول پنجابیوں کے کتا مسیت (مسجد) سے۔ اللہ کی کرنی دیکھیے کہ اب پسند ناپسند بالکل الٹ گئی ہے۔ سوائے لطیفوں کے ماضی کی ہر پسند دل سے اتر گئی ہے اور ہر ناپسند گویا زندگی کا جزوِ لا ینفک بن گئی ہے۔
والدِ مرحوم درویش آدمی تھے۔ ہمارے پڑھنے لکھنے سے یوں تو انھیں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی مگر رسالوں کتابوں کی سنسر شپ بڑی سخت تھی۔ میٹرک میں ایک مرتبہ میں ردی والے سے خلیل جبران کی کوئی کتاب خرید لایا۔ ابو نے معائنہ کیا اور واپس کروا دی۔
میں جس کتاب کو اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ خریداری سمجھتا ہوں وہ دیوانِ غالب تھی۔ میٹرک کے پرچے غالباً ہو چکے تھے۔ ابو اور میں مختلف لوگوں کی گائی ہوئی غزلیں سنا کرتے تھے۔ اسی دوران میں غالب کو باقاعدہ پڑھنے کا اشتیاق ہوا۔ میں نے اجازت مانگی۔ ابو نے دے دی۔ میں ایک چھوٹی سی مقامی لائبریری سے، جہاں زیادہ تر لوگ عمران سیریز ادھار لینے آتے تھے، دیوان کا ایک پرانا نسخہ خرید لایا۔ دونوں باپ بیٹا جت گئے۔ ایک دن ابو کے ایک دوست نے ابو کو پڑھتے دیکھ کر کہا، "یہ تمھاری عمر ہے دیوانِ غالب پڑھنے کی؟” ابو نے کہا، "یہی تو عمر ہے۔ راحیل تو ویسے پڑھتا ہے۔”
ایف ایس سی کے پہلے سال کے پرچے ہونے والے تھے تو دونوں باپ بیٹا کو فیض پسند آ گئے۔ امی نے بہت احتجاج کیا کہ راحیل کی پڑھائی متاثر ہو گی مگر ابو نے پیسے دے کر مجھے میاں چنوں بھیج دیا۔ میں وہاں سے نسخہ ہائے وفا خرید لایا۔ یہ آخری کتاب تھی جو ہم باپ بیٹا نے مل کر پڑھی۔ پھر ابو جان دوسری دنیا چلے گئے۔ میں یہیں رہا اور اب ویسی ہی کتابیں پڑھتا ہوں جیسی وہ ہوتے تو پڑھتے۔ مذہب، فلسفہ، شاعری۔ کہانیاں کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ وقت بہت آگے نکل گیا ہے۔
نسخہ ہائے وفا کی خریداری کا قصہ دو تین روز پہلے فیض کے نواسے عدیل ہاشمی کو سنایا تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے، "ہمارے لیے تو فیض لازمی نصاب تھے۔ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔” ابو جان کو یہ بھی خاصے پسند تھے۔ بعض کھیلوں میں ان کے چلبلے کرداروں سے بہت لطف اٹھایا۔ مگر اب عدیل ہاشمی بھی بوڑھے ہو رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ زندگی خود سب سے انوکھی، سب سے اچھوتی کہانی ہے۔ اور لازمی نصاب بھی ہے۔ پھر اختیاری طور پر شاعری، مذہب اور فلسفہ ہی کیوں نہ پڑھ لیے جائیں؟