پیش لفظ
از اشرف صبوحی دہلوی
دنیا نکھرتے نکھرتے جب اس قابل ہو گئی کہ اس کے روپ کے گاہک پیدا ہوں تو بادشاہت کا آغاز ہوا۔ بڑے بڑے بانکے ترچھے اپنے بل دکھانے لگے۔ ان میں بعض کے دماغوں میں ایسی ہوا سمائی کہ شاہی سے خدائی کے دعوے دار بن گئے۔ مگر مادر گیتی کو ان کی یہ ادا پسند نہ آئی، جس وقت چاہا اس نے ٹانگ پکڑ کر کھینچ لی۔ ہندوستان کی راج دھانیاں دیوتاؤں نے سجائیں، راجاؤں کو اوتاروں کا درجہ دیا، پھر بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات؛ کوئی چار دن سے زیادہ اپنی نوبت نہ بجا سکا۔ ان کے بعد آسمان نے پھر ایک اور رنگ بدلا؛ یہ دیس باہر والوں کی یورش کا آماج گاہ بن گیا اور وہی بات ہوئی کہ “ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت”۔ تمدن اور معاشرت میں تبدیلیاں ہونے لگیں۔ آخر میں اسلامی سلطنت قائم ہوئی اور وہ بھی اس شان و شوکت کی جس کے تذکرے نو سو سال گزرنے کے بعد آج تک زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ یعنی:
تیموری ٹڈی دل ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کے اُس پار سے اٹھتا ہے؛ بابر پرچم جہاں بانی اڑاتا ہوا درۂ خیبر کے سنگلاخ راستے سے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اور اسے فتح کرکے مغلیہ سلطنت کا سنگ بنیاد رکھتا ہے۔ پھر “بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” کا نغمہ الاپتا ہوا حکومت اپنے ولی عہد ہُمایوں کے حوالے کرکے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ہمایوں زمامِ سلطنت سنبھالتے ہی خانہ جنگیوں میں گھر جاتا ہے اور شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر نظام سقّے کی مشک پر تیرتا ہوا ایران پہنچتا ہے؛ کابل پر گرجتا ہے اور پھر برستا ہوا دہلی آ کر اندر پرستھ کی بلندی سے زمین کی پستی میں سما جاتا ہے۔
اس کے بعد اکبر اپنے نو رتن کے ساتھ حکومت کی سبھا سجاتا ہے؛ کبھی دربار میں چمکتا ہے اور کبھی یلغار میں مصروف نظر آتا ہے؛ شہنشاہی کی ایسی دھاک بٹھاتا ہے کہ اکبرِ اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جہانگیر محبت میں مست اور جامِ شراب در دست باپ کے تاج و تخت کو لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھوں سے سنبھالتا ہے اور زنجیرِ عدل کے سہارے زندگی کے دن پورے کرتے ہوئے راہیٔ عالمِ بقا ہو جاتا ہے۔ شاہ جہاں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے شوق میں عمارت پر عمارت بنا رہا ہے اور عجائباتِ عالم کا ایک نمونہ تاج محل کی شکل میں چھوڑ جاتا ہے۔ عالم گیر تلوار ہاتھ میں لیے اور قرآن سر پر رکھے بوڑھے باپ کو قیدخانے میں دھکیل رہا ہے۔
حیدرآباد کا رخ ہے؛ گول کنڈے پر ابوالحسن تانا شاہ عطر میں ڈوبا ہوا عیش کا جیش سے مقابلہ ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ مرہٹوں کی لوٹ مار اور عالم گیر کی سپاہیانہ ہمت کا توڑ ایک تماشا ہے جس کی غلطیوں پر تعصب کی روایتیں تیار ہو گئیں۔
عالم گیری شان اورنگ آباد میں دفن ہو رہی ہے اور دہلی کا تخت لا وارث مال کی طرح لوٹا جا رہا ہے۔ طوائف الملوکی کا دور ہے۔ محمد شاہ رنگیلا سلطنت کی اہمیت کو “ایں دفتر بے معنی غرقِ مے ناب اولیٰ” کہہ کر طبلے کی تھاپ اور گویّوں کی الاپ پر نثار کر رہا ہے۔ اسی اثنا میں ایک ایرانی سپاہی جس کو “ابنِ شمشیر ابنِ شمشیر” کہنے پر فخر تھا، گھوڑے کی پیٹھ سے اُچھل کر تخت پر بیٹھتا ہے اور ہندوستان آ کر دہلی کا تخت اور ہندوستان کی قسمت اُلٹ دیتا ہے۔
شاہ عالم ثانی بے چارہ، جس کی حکومت کے متعلق مشہور تھا کہ “حکومتِ شاہ عالم از دہلی تا پالم” غلام قادر سے آنکھیں نکلوا کر عدم آباد کا رستہ ٹٹول رہا ہے۔ آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر جس کے پاس نہ تیموری لشکر تھا، نہ بابری شجاعت و شوکت، نہ اکبری صولت و جبروت، نہ شاہ جہانی سطوت و شان، پھر بھی بادشاہ تھا، نام ہی کا سہی، اور چونکہ آل تیمور کا خاتمہ اس پر ہوا اس لیے ہماری نگاہیں اب تک اسی پر جمی ہوئی ہیں۔
دلی کا لال قلعہ جب تک اس میں غدر کے سبز قدم نہیں آئے تھے، اپنی گودیوں کے پالوں کے لیے سچ مچ کا گہوارہ تھا؛ ایسا گہوارہ جس میں عیشوں اور راحتوں کے سوا ہزاروں چیزیں پرورش پاتی ہیں۔ وہاں کا طرز تمدن، وہاں کی معاشرت اور بولیاں ٹھولیاں سب جداگانہ تھیں۔ ہمارے باپ دادا نے وہ دور دیکھا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے، انھیں اور ان کے بعد ان کی اولاد کو مدتوں وہی بہار نظر آتی رہی بلکہ آج تک اُن ہی کہانیوں کو کہنے سننے میں مگن ہیں۔ کیوں نہ ہوں، پرانا مقولہ ہے“اَلنَّاسُ عَلٰی دِینِ مُلُوکِهِم” اور کچھ نہ سہی گزری ہوئی بہاروں کا ذکر بھی نہ کریں، ان کی بولیاں بھی نہ بولیں!
دولت اور حکومت والے اپنی زندگیوں کو عام زندگیوں سے ہمیشہ الگ رکھتے ہیں۔ جینے کی باتیں تو ایک طرف مرکر بھی وہ دوسروں کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے؛ پھر یہاں تو شاہی دیگ کی کھرچن تھی، جتنی اس کی شکل صورت، بو باس انوکھی ہوتی، کم تھا۔ نئی تانتی کے انجان بے خبر پوچھیں گے کہ آخر وہ کیا باتیں تھیں جن کو زمانے کی نظر کھا گئی اور جو اب کسی گھرانے کا روز مرہ نہیں؟ خدا بخشے منشی فیض الدین مرحوم کو اگر وہ “بزم آخر” کے نام سے یہ دل چسپ اور معلوماتی کتاب لکھ کر دلی والوں پر احسان نہ کرتے تو میں سچ کہتا ہوں کہ نوجوانوں کے سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اور یہ بھی اس وقت کی کیفیت ہے جب بہار لٹ چکی تھی اور خزاں کا دور دورہ تھا۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ جب اس لال حویلی کی کوکھ ہری تھی تو اس کا جلال وجمال کیا ہوگا۔ واقعی بڑے مغل بادشاہ شاہی نہیں خدائی کرتے ہوں گے۔
منشی فیض الدین مرحوم جنھوں نے قلعے میں پرورش پائی اور وہیں چھوٹے سے بڑے ہوئے، اُن کا اس کتاب کے لکھنے سے اصل مقصد تاریخ نویسی نہ تھا، بلکہ اس مٹی ہوئی ثقافت اور دَم توڑتے ہوئے تمدّن کو محفوظ کر لینے کی آرزو اور شعوری کوشش تھی جس کا اعتراف مصنف نے خود کیا ہے:
خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جُز خار گلشن میں
بتاتا باغباں رو رو، یہاں غنچہ، یہاں گُل تھا
وہ تو فقط غنچہ وگل کا پتا دینا چاہتے تھے لیکن تاریخ کا اور اس کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ اور ثقافت کے سنگم پر زمانے جنم لیتے ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
یوں تو دلی کے اس دل چسپ موضوع پر قبل وما بعد غدر کے اخبارات و رسائل اور مختلف کتب جن میں سفرنامۂ ابنِ بطوطہ، ڈاکٹر برنیر کا روزنامچہ، سر سید کی آثار الصنادید وغیرہ بہت سی کار آمد چیزیں ہیں، لیکن “بزمِ آخر” میں ابو ظفر معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی کے زمانے سے ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ اخیر بادشاہِ دہلی کے عہد تک روزمرہ کے ظاہر و مخفی برتاؤ، خانگی معاملات، طرزِ معاشرت، دربار اور سواری کے قاعدے، جشن اور نذروں کے قرینے، میلوں کے رنگ، تماشوں کے ڈھنگ، زنانہ میلوں میں بیگمات کی بات چیت، غرض بہت سی ایسی استعمالی اشیا اور ملبوسات کا ذکر ہے جن سے آج قطعی نابلد ہیں؛ علاوہ ازیں تخت نشینی اور مرنے کی کیفیت وغیرہ بیان کی گئی ہے۔ اور یہ کتاب قلعے کی اس تہذیب و معاشرت، رسم و رواج اور زبان کا وہ زندہ جاوید مرقع ہے جس کی اہمیت سے انکار کی جرات نہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں بہت کم ایسے اہل قلم ہوں گے جنھوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہو اور اس کتاب سے استفادہ نہ کیا ہو۔
اس کتاب کے چھپنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ غدر کے بعد کے ادیبوں کو جنھوں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے شہر آبادی اور غدر کے جو حالات اور واقعات سنے تھے انھیں قلم بند کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ انھوں نے بڑی محنت اور قابلیت سے انھیں مرتب کیا۔ مرحوم بزرگوں میں مولانا راشد الخیری کی “نوبت پنج روزہ”، “دلی کی آخری بہار”، “داستانِ پارینہ”، “غدر کی ماری شہزادیاں”، خواجہ حسن نظامی کی غدر کی بارہ کتابوں کا سیٹ، ناصر نذیر فراق کی “لال قلعہ کی ایک جھلک”، “دلی کا اجڑا ہوا لال قلعہ”، مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی “دہلی کی آخری شمع” اور “پھول والوں کی سیر”، عرش تیموری کی “قلعۂ معلی کی جھلکیاں”، باقر علی داستان گو کا “مولا بخش ہاتھی” قابل ذکر ہیں۔ بقید حیات لکھنے والوں میں وزیر حسن دہلوی کا “دلی کا آخری دیدار”، خواجہ محمد شفیع کا “دلی کا سنبھالا”، سید یوسف بخاری کی “یہ دلی ہے”، اس خاکسار کی“دلی کی چند ہستیاں”؛ یہ تمام تقریباً ایک ہی زمانے سے متعلق اور مختلف گذشتہ واقعات کی کڑیاں ہیں۔
“بزم آخر” کا پہلا ایڈیشن ١٨٩٠ء میں یا اس سے قبل شائع ہوا ہوگا، اس لیے کہ شاہ زادہ میرزا محمد سلیمان شاہ جنھوں نے “بزمِ آخر” پر تقریظ لکھی اور اس تقریظ میں “بزمِ آخر” کے مندرجات کی تصدیق کے علاوہ اپنے اور مصنف کے باہمی تعلقات پر بھی روشنی ڈالی، انھوں نے بقول یادگار خاندان مغلیہ صاحب عالم میرزا خیر الدین خورشید جاہ صاحب ۱۸۹۰ء میں انتقال کیا۔ بہرحال یہ تقریظ انھوں نے اسی سن میں یا اس سے کچھ پہلے لکھی ہوگی۔
مجلسِ ترقیٔ ادب نے اردو ادب کی ایسی گراں قدر اور مفید کتابوں کو جو آج نایاب ہو چکی ہیں، نہایت تزئین و تہذیب کے ساتھ حسن و خوبی اور نفاست سے دوبارہ شائع کرنے کا مہتم بالشان سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کو میں نے حتی الامکان احتیاط کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ قدیم الفاظ جو آج کل بالکل نہیں سمجھے جاتے اور عام لغات میں نہیں ملتے، ان کی تشریح میں نے فرہنگ میں کردی ہے۔ کتاب کے صحیح چھپنے کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ خدا کرے صاحب ذوق حضرات اور اہل علم اصحاب اسے پسند فرمائیں اور یہ علمی اور ادبی تحفہ ہمارے کتب خانوں کے لیے زینت کا موجب ہو!
اشرف صبوحی دہلوی
۳۱ جنوری ۱۹۶۵ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قُل سِـــیرُوا فِي الأرضِ ثُمّ انظُـــرُوا
اللہ اکبر
چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا
ہزاروں بلبلوں کی فوج تھی ایک شور تھا غل تھا
خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جز خار گلشن میں
بتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا
بادشاہ کے محل کا حال
رات
دیکھو بادشاہ محل میں سکھ فرماتے ہیں۔ چپی والیاں چپی کر رہی ہیں۔ باہر قصہ خواں بیٹھا داستان کہہ رہا ہے۔ ڈیوڑھیاں مامور ہیں، اندر حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں پہرے دے رہی ہیں۔ باہر حبشی، قلار، دربان، مردھے، پیادے، سپاہی پہرے چوکی سے ہوشیار ہیں۔ لو اب چار گھڑی رات باقی رہی، وہ بادشاہی توپ صبح کی دَن سے چلی۔
صبح
چلمچی آفتابے والیوں نے زیر انداز بچھا چلمچی آفتابہ لگایا۔رومال خانے والیاں رومال، پاؤں پاک، بینی پاک لیے کھڑی ہیں۔ بادشاہ بیدار ہوئے سب نے مجرا کیا، مبارک باد دی، طشت چوکی پر گئے؛ پھر وضو کیا، نماز پڑھی، وظیفہ پڑھا۔ اتنے میں توشہ خانےوالیاں کمخاب کا دست بقچہ لے کر حاضر ہوئیں، پوشاک بدلی، دیکھو تو جسولنی کیسے ادب سے ہاتھ باندھے عرض کر رہی ہے:
جہاں پناہ! حکیم جی حاضر ہیں۔ حکم ہوا “ہوں!” یعنی بلاؤ۔ اے لو! وہ پردہ ہوگیا؛ آگے آگے جسولنی، پیچھے پیچھے حکیم جی منہ پر رومال ڈالے چلے آتے ہیں، مجرا کیا،نبض دیکھی، رخصت ہوئے، دواخانے میں سےتبرید کمخاب کے کسنے میں کسی ہوئی، اوپر مہر لگی ہوئی آئی؛ دواخانے والے نے سامنے مہر توڑ تبرید بادشاہ کو پلائی۔بھنڈے کھانے والیوں نےبھنڈہ تازہ کر، کارچوبی زیر انداز بچھا، چاندی کے تاش میں لگا دیا، کٹوری تیار کر بھنڈے پر رکھ دی۔بادشاہ نے بھنڈانوش کیا، محل کی سواری کا حکم دیا۔
محل کی سواری
کہاریاں ہوادار لائیں، بادشاہ سوار ہوئے۔ دیکھو!اُردا بیگنیاں مردانے کپڑے پہنے، سر پر پگڑی، کمر میں ڈوپٹے باندھے، جریب ہاتھ میں لیے ہوئے، اور حبشنیاں، ترکنیاں، قِلماقنیاں جریب پکڑے تخت کے ساتھ ساتھ ہیں۔ خواجہ سرا مورچھل کرتے جاتے ہیں۔جسولنیاں آگےآگے ہاتھ میں جریب لیے پکارتی جاتی ہیں: “خبردار ہو، خبردار ہو”۔ درگاہ میں سواری آئی، سلام کیا، فاتحہ پڑھی، لو اب سواری پھر کر آئی، بیٹھک میں داخل ہوئی۔
بادشاہ تپک پر بیٹھے، ملکۂ دوراں اپنی سوزنی پر اور سب بیویاں حرمیں اپنے اپنے درجے سے دائیں طرف بیٹھیں۔ شاہزادے، شاہزادیاں اور بیگماتیں بائیں طرف بیٹھیں۔ جسولنیاں، خواجے باہر کی عرض و معروض بادشاہ سے کر رہی ہیں، حکم احکام جاری ہو رہے ہیں، عرضیاں دستخط ہو رہی ہیں۔ لو! ڈیڑھ پہر دن چڑھا، خاصے کی داروغہ نے عرض کیا: “کرامات! خاصے کو کیا حکم ہے؟” حکم ہوا: “اچھا”۔ جسولنی نے خاصے والیوں کو آواز دی: ‘‘بیویو! خاصہ لاؤ، نعمت([1]) خانہ تیار کرو!”
خاصہ
کہاریاں، کشمیرنیں دوڑیں۔ دیکھو! ہنڈکلیا، چھوٹے خاصے، بڑے خاصے کے خوان سر پر لیے چلی آتی ہیں، خوانوں کا تار لگ رہا ہے۔ ایلو! خاصے والیوں نے پہلے ایک سات گز لمبا، تین گز چکلا چمڑا بچھایا، اوپر سفید دستر خوان بچھایا۔ بیچوں بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی، چھ گز اونچی چوکی لگا، اس پر بھی پہلے چمڑا پھر دسترخوان بچھا، خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر لگا، خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔ اس پر بادشاہ خاصہ کھائیں گے؛ باقی دسترخوان پر بیگماتیں، شاہزادے، شاہزادیاں کھانا کھائیں گی۔ لو اب کھانا چنا جاتا ہے۔
کھانوں کے نام
چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، بِری روٹی، بیسنی روٹی، خمیری روٹی، نان، شیر مال، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، باقر خانی، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان پنبہ، نان گلزار، نان قماش، نان تُنکی، بادام کی نان خطائی، پستے کی نان خطائی، چھوارے کی نان خطائی، یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نُکتی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، چُلاؤ، سارے بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، شولہ، کھچڑی، قبولی، طاہری، متنجن، زردہ مزعفر، سویاں، من و سلویٰ، فرنی، کھیر، بادام کی کھیر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نَمِش، دودھ کا دلمہ، بادام کا دلمہ، سموسے سلونے میٹھے، شاخیں، کھجلے، قتلمے، قورمہ، قلیہ، دو پیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بورانی، رائتا، کھیرے کی دوغ، ککڑی کی دوغ، پنیر کی چٹنی، سمنی، آش، دہی بڑے، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، آلو کا دُلمہ، بینگن کا دُلمہ، کریلوں کا دُلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، سیخ کے کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، لوزات کے کباب، خطائی کباب، حسینی کباب، روٹی کا حلوا، گاجر کا حلوا، کدو کا حلوا، ملائی کا حلوا، بادام کا حلوا، پستے کا حلوا، رنگترے کا حلوا، آم کا مربّا، سیب کا مربّا، بہی کا مربّا، ترنج کا مربّا، کریلے کا مربّا، رنگترے کا مربّا، لیموں کا مربّا، انناس کا مربّا، گڑہل کا مربّا، بادام کا مربّا، ککروندے کا مربّا، بانس کا مربّا، ان سب قسموں کے اچار اور کپڑے کا اچار بھی۔ بادام کے نُقل، پستے کے نقل، خشخاش کے نقل، سونف کے نقل، مٹھائی کے رنگترے، شریفے، امرود، جامنیں، انار وغیرہ اپنے اپنے موسم میں۔ اور گیہوں کی بالیں مٹھائی کی بنی ہوئیں، حلوا سوہن گری کا، پپڑی کا، گوندے کا، حبشی لڈو موتی چور کے، مونگ کے، بادام کے، پستے کے، ملائی کے۔ لوزات مونگ کی، دودھ کی، پستے کی، بادام کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ مغزی، امرتی، جلیبی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، در بہشت، بالو شاہی، اندرسے کی گولیاں، اندرسے وغیرہ۔
یہ سب چیزیں قابوں، طشتریوں، رکابیوں، پیالوں، پیالیوں میں قرینے قرینے سے چنی گئیں؛ بیچ میں سفل دان رکھ دیے، اوپر نعمت خانہ کھڑا کر دیا کہ مکھیاں دستر خوان پر نہ آویں۔ مشک، زعفران، کیوڑے کی بو سے تمام مکان مہک رہا ہے۔ چاندی کے ورقوں سے دستر خوان جگمگا رہا ہے۔ چلمچی، آفتابہ، بیسن دانی، چنبیلی کی کھلی، صندل کی ٹکیوں کی ڈبیاں ایک طرف زیر انداز پر لگی ہیں۔ رومال، زانو پوش، دست پاک، بینی پاک ایک طرف رومال خانے والیاں ہاتھوں میں رومال لیے کھڑی ہیں۔ جسولنی نے عرض کیا: “حضور! خاصہ تیار ہے”۔ بادشاہ اپنی تپک پر چوکی کے سامنے آن کر بیٹھے۔ دائیں طرف ملکۂ دوراں اور اَور بیگماتیں، بائیں طرف شاہزادے، شاہزادیاں بیٹھیں۔ رومال خانے والیوں نے زانو پوش گھٹنوں پر ڈال دیے، دست پاک آگے رکھ دیے۔ خاصے کی داروغہ نے خاص خوراک کی مہر توڑ، خاصہ کھلانا شروع کیا۔ دیکھو! بادشاہ آلتی پالتی مارے بیٹھے خاصہ کھا رہے ہیں؛ بیگماتیں، شاہزادے، شاہزادیاں کیسے ادب سے بیٹھی نیچی نگاہ کیے کھانا کھا رہی ہیں۔ جس کو بادشاہ اپنے ہاتھ سے اُلُش مرحمت فرماتے ہیں، کیا سر و قد کھڑے ہو کر آداب بجا کر لیتا ہے۔
ایلو! اب بادشاہ خاصہ کھا چکے، دعا مانگی، پہلے بیسن، پھر کھلی اور صندل کی ٹکیوں سے ہاتھ دھوئے، دستر خوان بڑھایا گیا۔ پلنگ خانے والیوں نے جھٹ پٹ پلنگ جھاڑ جھوڑ، ادقچہ، گبّہ، چادر، کس کسا، تکیے، گل تکیے لگا، تکیہ پوش ڈال، دولائی، چادرہ، رضائی پائنتی لگا، پلنگ آراستہ کیا۔ بادشاہ خواب گاہ میں آئے، پلنگ پر بیٹھے، بھنڈا نوش کیا؛ گھنٹہ بھر بعد آب حیات مانگا۔ آب دار خانے کی داروغہ نے گنگا کا پانی جو صراحیوں میں بھرا برف میں لگا ہوا ہے، جھٹ ایک توڑ کی صراحی نکال، مہر لگا، گیلی صافی لپیٹ خوجے کے حوالہ کیا۔اس نے بادشاہ کے سامنے مہر توڑ، چاندی کے ظرف میں نکال بادشاہ کو پلایا۔ دیکھو پیتے وقت سب کھڑے ہو گئے؛ جب پی چکے تو سب نے “مزید حیات” کہا، مجرا کیا۔
ایلو! وہ دوپہر([2]) بجی، بادشاہ پلنگ پر دراز ہوئے۔ خواب گاہ کے پردے چھٹ گئے، چپی والیاں چپی پر آ بیٹھیں۔ دیکھو تو اب کیسی چپ چاپ ہو گئی، کیا مجال کوئی ہوں تو کر سکے۔
لو اب ڈیڑھ پہر دن باقی رہ گیا۔ بادشاہ بیدار ہوئے، وضو کیا، ظہر کی نماز وظیفہ پڑھ کے لوگوں کی عرض معروض سنی۔ کچھ بات چیت کی۔ اتنے میں عصر کا وقت آگیا۔ عصر کی نماز، وظیفہ پڑھا۔ دو گھڑی دن رہ گیا۔ جسولنی نے عرض کیا: “جہاں پناہ! عملہ فعلہ توزکِ رکاب حاضر ہے”۔ حکم ہوا: “رخصت!” جھروکوں میں آ بیٹھے۔ جسولنی نے آواز دی “خبردار ہو!” سپاہیوں نے سلامی اتاری؛ امیر امرا جھروکوں میں آ کھڑے ہوئے۔ مغرب کی اذان ہوئی، بادشاہ کھڑے ہوگئے۔ مغرب کی نماز وظیفہ پڑھا۔ جھروکوں کے نیچے اور جہاں جہاں سپاہیوں کے پہرے ہیں، وردیاں بجنے لگیں۔ نقار خانے میں نوبت بجنی شروع ہوئی۔
رات ہوئی
مشعلچیوں نے روشنی کی تیاری کی۔ جھاڑ، فانوس، فتیل سوز([3])، ایک شاخی، دو شاخی، سہ شاخی، پنج شاخی، پنجیاں، مشعل، لالٹینیں روشن ہوئیں۔ چار گھڑی رات آئی؛ لو وہ روشن چوکی کا گشت طبلہ نفیری بجتی ہوئی، مشعل ساتھ، دیوان عام دیوان خاص میں سے ہوکر جھروکوں کے نیچے آیا۔ عشا کا وقت آیا، نماز وظیفے سے فارغ ہوئے، ناچ گانے کی تیاری ہوئی۔ تان رس خاں چوکی کے طائفے حاضر ہوئے، ناچ ہونے لگا۔ ایلو! سازندے قنات کے پیچھے کھڑے طبلہ، سارنگی، تال کی جوڑی بجا رہے ہیں۔ ناچنے والی بادشاہ کے سامنے کھڑی ناچ رہی ہے۔ وہ ڈیڑھ پہر رات کی توپ چلی، دھائیں۔ پھر اُسی طرح خاصے کی تیاری ہوئی۔ خاصہ کھایا، بھنڈا نوش کیا؛ وہی گھنٹہ بھر پیچھے آب حیات مانگا۔ آدھی رات کی نوبت بجنی شروع ہوئی، آرام فرمایا، چپی، مکی، داستان ہونے لگی۔ حبشنیاں، ترکنیاں، قِلماقنیاں پلنگ کے پہرے پر آ موجود ہوئیں۔ ڈیوڑھیاں مامور ہوگئیں۔ حبشی، قُلار، دربان، مِردھے، پیادے سپاہی ڈیوڑھیوں پر اپنی اپنی چوکی پہرے پر کھڑے ہوگئے۔ حکیم، طبیب، خواص اپنی چوکی میں حاضر ہوئے۔ صبح ہوئی، نماز وظیفہ فارغ ہو سواری کا حکم دیا۔
روز مرہ کی سواری
دیکھو! بادشاہ ہوا خوری کو سوار ہوتے ہیں۔ سواری تیار ہے۔ بادشاہ برآمد ہوئے، جسولنی نے آواز دی: “خبردار ہو!”۔ نقیب، چوب داروں نے جواب دیا: “اللّٰہ و رسول خبردار ہے”۔ سب نے مجرا کیا۔ چوب دار پکارا: “کرو مجرا جہاں پناہ سلامت!”۔ کہار ہوا دار لائے، بادشاہ سوار ہوئے۔ چرن بردار نے باناتی زیر انداز میں چرن لپیٹ بغل میں مارے۔ دو خواص تخت رواں کے دونوں طرف مورچھل لے کر ساتھ ہوئے اور خواص گشتی دست بقچہ، رومال، بینی پاک، اگال دان اور ضرورت کی چیزیں لے کر چلے۔ بھنڈے بردار بھنڈا لے تختِ رواں کے برابر آ گیا، بھنڈے کا پینچ بادشاہ نے ہاتھ میں لے لیا۔ ایک ٹوکرے میں آبِ حیات کی صراحیاں برف میں لگی ہوئیں، ایک طرف آگ کی انگیٹھی، کوئلوں کے گُل، بھیلسہ، تمباکو کہار بھنگی میں لیے ساتھ ساتھ ہے۔ گھڑیالی ریت کی گھڑی، گھڑیال ہاتھ میں لٹکائے گھڑی پہر بجاتا جاتا ہے۔ امیر امرا تخت کا پایہ پکڑے اپنے اپنے رتبے سے چلے جاتے ہیں۔ کہار پنکھا آفتابی لیے، حبشی قلار چاندی کے شیر دہاں سونٹے، لال لال آنکڑے دار لکڑیاں ہاتھوں میں لیےگرد و پیش تخت رواں کے چلے جاتے ہیں۔ نقیب، چوبدار سونے روپے کے عصا ہاتھوں میں لیے آگے آگے پکارتے جاتے ہیں “بڑھے جاؤ صاحب، بڑھاؤ قدم کو جا بجا سے جہاں پناہ بادشاہ سلامت!”۔ خاص بردار ڈھلیٹوں کو دیکھو! لال لال بانات کے انگرکھے پہنے، کالی پگڑیاں، دوپٹے سر سے باندھے، لال بانات کے غلاف بندوقوں پر چڑھے ہوئے، کندھوں پر دھرے، ڈھلیٹ پیٹھ پر ڈھال، کمر میں تلوار لٹکائے لگائے، اُن کے آگے کڑکیٹ کڑکا کہتے،ان کے آگے خاصے گھوڑے چاندی سونے کے ساز لگے، روسی مخمل کے غاشیے کار چوبی کام کے پڑے،سر پر کلغیاں چھم چھم کرتے چلے جاتے ہیں۔سقے چھڑکاؤ کرتے جاتے ہیں۔دیکھو گھوڑا باگ سے ہرتا پھرتا ہے۔کہار گھٹنے کے اشارے سے کام دیتے ہیں۔جس طرح گھٹنے کا اشارہ بادشاہ کر دیتے ہیں، اسی طرح ہرتے پھرتے ٹھہرتے چلتے ہیں۔ایلو! سورج کی کرن نکلی،کہار نے آفتابی لگا دی،سواری پھر کر آئی،دیوان خاص میں بیٹھ کر عدالت کا دربار کیا۔
عدالت کا دربار
دیکھو! بادشاہ تخت پر بیٹھے ہیں؛امیر،وزیر،بخشی،ناظر، وکیل،میر عدل، میر منشی، محرر، مُتصدّی وغیرہ ہاتھ باندھے اپنے اپنے محکموں کے کاغذات پیش کر رہے ہیں۔میر عدل بہادر دار الانصاف کے مقدمے پیش کر رہا ہے،عرض بیگی داد خواہوں کی عرضیاں حضور میں گزار رہا ہے،حکم احکام جاری ہورہے ہیں، دار الانشا سے کسی کے نام شقہ،کسی کو فرمان لکھا جاتا ہے۔شُقّوں میں شاہزادوں کے القاب “نور چشم طال عمرہ”، معزز امیروں کو “فدویٔ خاص” لکھتے ہیں۔شقوں کی پیشانی پر سرمے کی قلم سے صاد
امیر غریب بادشاہ کو عرضی میں القاب ‘‘حضرت جہاں پناہ سلامت’’ لکھتے ہیں۔ بادشاہ عرضیوں پر سرمے کی قلم سے دستخط کرتے ہیں: ‘‘حسب سر رشتۂ دار الانصاف تحقیقات بعمل آید، میر عدل احوال دریافتہ بحضور عرض رساند”۔
جلوس کی سواری
آج یہ دھائیں دھائیں توپیں کیسی چلتی ہیں؟ اوہو! بادشاہ سوار ہوئے؛ چلو سواری دیکھیں۔ ایلو! وہ پہلے نشان کے دو ہاتھی آئے، کیا تمامی کا پھریرا اڑتا جاتا ہے۔ ریشم کی ڈوریاں، کلابتوں کے پھندے لٹکتے ہیں۔ اب چتر کا ہاتھی آیا، دیکھنا کیا بڑا سارا ہے، سارے ہاتھی پر چھایا ہوا ہے۔ اوپر سونے کی کلسی، نیچے چاندی کی ڈنڈی، نیچے اوپر سے کار چوبی کام میں لپا ہوا، کلابتونی جھالر لٹکتی ہے۔
لو اب ماہی مراتب کے ہاتھی آنے شروع ہوئے! آہا دیکھنا!! ایک سورج کی صورت، ایک مچھلی کی شکل، ایک شیر کا کلہ، ایک آدمی کا پنجہ، ایک گھوڑے کا سر سونے کے بنا کر سنہری چوبوں پر لگائے ہیں۔ تمامی کے پٹکے، قیطونی ڈوریاں، پھولوں کے سہرے بندھے ہوئے ہیں۔ اچھی! یہ کیا ہیں؟ بھئی! کہتے ہیں کہ بادشاہوں نے جو ملک فتح کیے ہیں یہ ان ملکوں کے نشان ہیں۔ یہ سورج کی جو شکل ہے، یہ خاص بادشاہی نشان ہے۔ زنبور خانے کو تو دیکھو، آگے ایک اونٹ پر نقارہ بجتا آتا ہے، پیچھے زنبوروں کے اونٹ ہیں۔ اونٹوں پر کاٹھیاں کسی ہوئی ہیں۔ آگے بڑی سے بڑی جو بندوقیں کاٹھیوں پر ہیں یہ زنبوریں کہلاتی ہیں۔ پیچھے زنبورچی بیٹھے چھوڑتے چلے آتے ہیں۔ اب سپاہیوں کی پلٹنیں آئیں۔ دیکھو آگے آگے کپتان، نائب کپتان، کُمیدان گھوڑوں پر سوار ہیں۔ پیچھے بادشاہی تِلنگوں کی پلٹن، اس کے پیچھے بچھیرا پلٹنیں ہیں۔ جیسے چھوٹے چھوٹے لڑکے وردیاں پہنے، بندوق، توسدان لگائے ویسے ہی افسر اور باجے والے ہیں۔ ایک پلٹن کی وردی نجیبوں کی، دوسری تلنگوں کی ہے۔ کالی پلٹن۔ اگرئی پلٹن کو دیکھو، سو سو آدمی کا ایک تُمن ہے، ہر تمن میں ایک ایک نشان اور تاشہ، مرفہ، ترئی ہے۔ ایک ایک صوبہ دار، جمعدار، دفعدار، امتیازی ہے۔ مقیشی توڑے، طرّے پگڑیوں پر باندھے، گلے میں کارچوبی پرتلے ڈالے ہوئے۔ سپاہیوں کی کمر میں تلواریں، کندھے پر دھماکے دو دو قطار باندھے چلے آتے ہیں۔ تاشا باجا بجتا آتا ہے۔ خاصے گھوڑوں کو دیکھو، کیسے سونے چاندی کے ساز، ہینکل، گنڈے، پُوزی، دُمچی، کلغیاں لگی، پٹھوں پر پاکھریں پڑیں، پاؤں میں جھانجن، کارچوبی غاشیے پڑے چھم چھم کرتے، کلائیاں مارتے چلے آتے ہیں۔ اہا ہا!!! سایہ دار تخت کو تو ذرا دیکھو، بالکل نالکی کی صورت ہے۔ چاروں طرف شیشے لگے ہوئے، اوپر سنہری بنگلہ کلسیاں، آگے چھجا ہے، اندر زربفت رومی، مخمل کے مسند تکیے لگے ہوئے ہیں۔ خس خانے کے تخت کو دیکھو، کیا نالکی نما خس کا بنگلہ، ویسا ہی چھجا کلسیاں لگی ہوئیں، بیچ میں چھوٹا سا فرّاشی پنکھا لگا ہوا۔ پیچھے پیچھے کہار ڈوری کھینچتے آتے ہیں، ہزاروں سے پانی سقے چھڑکتے آتے ہیں۔ سایہ دار تخت اور نالکی میں چھ ڈنڈے ہوتے ہیں۔ وہ ہوادار تخت آیا۔ دیکھو! اس کے بھی چار ڈنڈے ہیں، ڈنڈوں پر چاندی کے خول، گرد کٹہرا، پیچھے کٹاؤ دار تکیہ، سارا سونے کا کام کیا ہوا، بیچ میں مسند تکیہ۔ ایلو! پہلو میں دو تکیے دوہرے کیے ہوئے ریشم کی ڈوری سے بندھے ہوئے، آگے دو ترکش ایک کمان لگی ہوئی ہے۔
اب احتشام توپ خانے کا نشان، دستی چتر، روشن چوکی بجتی ہوئی، تمامی کی جھنڈیاں اڑتی ہوئی، کڑکیٹ کڑکا کہتے، ڈھلیت ڈھال تلوار باندھے، خاص بردار کندھوں پر بندوقیں رکھے، حبشی قلار چاندی کے شیر دہاں سونٹے لیے، نقیب چوبدار سونے روپے کے عصے لیے، خواص سفید سفید پگڑیاں دوپٹے باندھے، چنی ہوئی چپکنیں پہنے اپنے عہدے لیے چلے آتے ہیں۔ دیکھنا دیکھنا! وہ نیگڈنبر کا ہاتھی آیا۔ یہ عماری کی سی صورت بڑا اونچا سنہری سنہری ہاتھی پر کسا ہوا ہے، اسی کو نیگڈمبر کہتے ہیں۔ یہ خاص بادشاہ کی سواری کا ہے۔ عماری کی دو برجیاں اس کی ایک ہے کہ فقط بادشاہ ہی پر سایہ رہے۔ ہاتھی پر بانات کی جھول کارچوبی سلمے ستارے کے کام کی، ماتھے پر فولاد کی ڈھال سونے کے پھول اس میں جڑی ہوئی پڑی ہے۔ فوجدار خاں([4]) کے سر پر دستار، دستار پر گوشوارہ کلغی، ایک ہاتھ میں گجباگ، ایک میں بادشاہ کا بھنڈا، ہاتھی کو ہولتے چلے آتے ہیں۔ نیگڈمبر کے بیچ میں بادشاہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ دیکھو سر پر دستار، دستار پر جیغہ، سر پینچ، گوشوارہ، بادشاہی تاج، موتیوں کا طُرّہ، گلے میں موتیوں کا کنٹھا، موتی مالائیں، ہیروں کا ہار، بازو پر بھج بند، نورتن بڑے بڑے ہیروں کے جڑاؤ، ہاتھوں میں زمرد، یاقوت، موتیوں کی سمرنین پہنے ہوئے۔ بھنڈے کا پینچ ہاتھ میں، کس شان و شوکت سے بیٹھے ہیں۔ خواصی میں بادشاہ کا بیٹا جس کو نظارت کی خدمت ہے، بیٹھا مورچھل کرتا جاتا ہے۔ ہاتھی کے پیچھے ریشم کی ڈوری پڑی ہوئی ہے، دربان اس کو ہاتھ سے مانپتا جاتا ہے، اس کو جریب کہتے ہیں۔ جب کوس پورا ہو جاتا ہے تو دربان ایک جھنڈی لے کر سامنے آتا ہے، بادشاہ کو مجرا کرتا ہے۔ اس سے یہ مراد ہے، سواری کوس بھر آئی۔
گھڑیالی گھڑیال ریت کی گھڑی ہاتھ میں لیے وقت پر گھڑی پہر بجاتا ہے۔ ہودے کا ہاتھی دیکھو کیا خوبصورت چاندی کا ہودا کسا ہوا ہے۔ آگے دو ترکش، ایک کمان لگی ہوئی، پیچھے چاندی کی ڈنڈی میں خم دیا ہوا، پھول پتے بنے ہوئے، چھوٹا سا چھتر اس میں لٹکتا ہے، بیچوں بیچ میں اس کا سایہ بادشاہ پر رہتا ہے۔ ایک جریب پیچھے ملکہ زمانی([5]) اور شاہ زادوں کی عماریاں، اُن کے پیچھے امیر امرا، نواب، راجاؤں کی سواریاں؛ اُن کے پیچھے سواروں کا رسالہ، طبل([6]) کا ہاتھی، سب سے پیچھے بیلے([7]) کا ہاتھی، طبل بجتا آتا ہے، فقیروں کو بیلا بٹتا جاتا ہے۔ دیکھو کیا رسان رسان، کس ادب قاعدے سے سواری چلی آتی ہے۔ بازاروں کوٹھوں پر خلقت کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں، جھک جھک آداب مجرے کر رہے ہیں۔ بادشاہ آنکھوں سے سب کا مجرا لیتے جاتے ہیں۔ نقیب چوب دار پکارتے جاتے ہیں: “ملاحظہ، آداب سے کرو مجرا! جہاں پناہ! بادشاہ سلامت”۔ لو بس سواری کی سیر دیکھ چکے، آؤ اب جشن کا تماشا دیکھو۔
جشن
یہ بادشاہ کی تخت نشینی کی سالگرہ ہے۔ چالیس دن تک اس میں بڑی خوشی ہوتی ہے اور دربار کے لوگوں کو خلعت، انعام اکرام، جوڑے باگے، کھانا دانہ بٹتا ہے۔ رات دن طبلے پر تھاپ، تھئی تھئی ناچ ہوتا ہے۔
تورے بندی
دیکھو دس دن پہلے سے تورے بندی شروع ہوئی۔ کھانے پک رہے ہیں، دن رات دیگیں کھڑک رہی ہیں، رنگ برنگ کے پلاؤ، بریانی، متنجن، مزعفر، زردہ، فرنی، یاقوتی، نان، شیر مال، خمیری روٹی، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، میٹھے سلونے سموسے، کباب، پنیر، قورمہ، سالن، بڑے بڑے لاکھی طباق، رکابی طشتری، پیالوں میں لگا، آم کا مربا، آم کا اچار، ملائی، کھانڈ، لال لال چوگھڑوں میں رکھ، خوانوں میں لگا، پلاؤ، متنجن، بریانی کے طباقوں پر مانڈھے ڈھانک، خوانوں میں لگا، اوپر کھانچی رکھ، کسنے کس، تورے پوش ڈال، بینگھیوں میں بھیج رہے ہیں۔ بائیس خوانوں سے زیادہ، دو سے کم تورہ نہیں ہوتا۔ جیسی جس کی عزت ہے اتنے ہی خوانوں کا تورہ چوب دار گھر بگھر بانٹتے پھرتے ہیں، جھولیاں بھر بھر کے انعام لائے ہیں۔ لو اب تورے بندی ہو چکی۔
مہمان داری
جشن کے چار دن باقی رہ گئے، مہمان داری شروع ہوئی۔ تمام شاہ زادیاں، امیر زادیاں رنگ محل، خاص محل، ہیرا محل، موتی محل میں جمع ہوئیں۔ دونوں وقت اچھے سے اچھے کھانے، پان زردہ، چھالیا، بُن ڈلیاں، الائچیاں؛ صبح کے ناشتے کو حلوا پوری، کچوریاں، مٹھائیاں خوانوں میں کمہاروں کے سر پر رکھے جسولنیاں ایک ایک کو بانٹتی پھرتی ہیں۔ رات دن گانا بجانا، آپس میں چُہل چہچہے ہو رہے ہیں۔ ایلو! دس بیس مل جل کے بیٹھی ہنس بول رہی تھیں؛ ایک کو جو شیطان اچھلا، پیچھے سے آ ایک کالا چتھڑا چپکے سے ایک کے سر پر پھینک دیا۔ وہ ووئی ووئی کرتی اور ساتھ ہی ان کے پاس جتنی بیٹھی تھیں، گد بد گرتی پڑتی چیخیں مارتی بھاگیں؛ ایک چیخم چاخ مچا دی، سارا محل سر پر اٹھا لیا۔ تو دوڑ، میں دوڑ، ارے یہ کیا ہوا ؟ ایک کہتی ہے: “اوپر سے مرداری گری”،دوسری کہتی ہے: “واہ! نہیں بی، رسی([8]) ہے، مجھے گلگلی گلگلی سوجھی تھی۔ اے بی امّا جان! اے بی بھابی جان! اے بی نانی حضرت! اے بی دادی حضرت! اے بی اما چھوچھو! اے بی اما ہپّو! اچھی ذرا دیکھنا! میرے کلیجے پر ہاتھ رکھنا، جس وقت سے یہ نگوڑی میرے سر پر آکر گری ہے میرا کلیجا چار چار ہاتھ اچھل رہا ہے۔ اری سنبل! اری صنوبر!چڑیل، غیبانی، کدھر اڑ گئیں؟
جی!([9])
نکلے تمھارا جی!([10]) دیکھو تو مرداری ہے، تو جلدی سے سونے کا پانی لاؤ، میں اپنی بچی کا پنڈا دھوؤں؛ رسّی ہے تو صدقے کے لیے خوردہ منگاؤں۔ ہے ہے خدا نے میری بچی کی جان پچائی۔ دور پار اگر ایسی ویسی کچھ ہو جاتی تو وہ بندی کس کی ماں کو ماں کہتی۔ لونڈیاں باندیاں لالٹین شمع لے لے کے دوڑیں؛ دور ہی سے کھڑی کہہ رہی ہیں، اے ہے بیوی! خدا جھوٹ نہ بلائے یہ تو رسّی ہے۔ جھٹ مٹی پڑھ پڑھ کے اس طرف پھینکنے لگیں۔ ایک کہتی ہے: بوا یہ تو ایک جائے جم ہو گیا؛ نگوڑا اس جائے سے ہلے نہ جلے۔ دوسری کہتی ہے: واہ! میں نے اسے کیل دیا ہے، کیا مقدور بھلا یہ سرک تو سکے۔ لو بھلا تم ایسی چھتی چھیتا ہو اور ایسا ہی تمھارا چھوچھکا ہے؛ ارے خوجوں کو بلاؤ۔ خوجے لکڑیاں لے لے کے دوڑے، پاس آکے جو دیکھیں کہیں رسی ہے نہ مرداری؛ ایک کالا کپڑا ہے، سب کو اٹھا کے دکھایا کہ واہ حضرت! اچھے میل کا بیل بنایا۔ جن کا یہ کرشمہ تھا، ایک دفعہ ہی قہقہہ مار کے ہنسیں۔ سب کی سب لعنت ملامت کرنے لگیں: “شابش بوا تم کو، در گور تمھاری صورت! تمھارے نزدیک تو ایک ہنسی ہوئی، یہاں چُلّوؤں لہو خشک ہو گیا”۔
رت جگہ
آج بیوی سے لے کر باندی تک سب نے بناؤ سنگار کیے۔
پوشاک: بنارسی زری بونٹی، مقیشی تاروں کی کریب، لاہی پھلکاری، گلشن، بابرلیٹ، آب رواں، شبنم کے دوپٹے۔ زربفت، کمخاب، گُلبدن، مشروع، اطلس، گورنٹ، چیولی، رادھا نگری کی تہ پوشیاں۔([11])
مصالحہ: ٹھپّا، گوکھرو، کِرن، طُرہ، کھجور چھڑی، لہر، بیج بیل، چھڑیاں، بند روم کا جال، چنبیلی کا جال، ماہی پشت کا جال، چین، مُرمرے کی توئی، کیڑے کے پر کی توئی، موتیوں کی توئی، سلمے ستارے کی توئی، پکا گوکھرو، ننی جان، چمپا، پیمک، لیس، ولایتی توئی ٹکی ہوئی۔
رنگ: گل انار، نارنجی، گیندئی، پستئی، سردئی، فالسائی، عنّابی، کاکریزی، سُرمئی، اودا، نافرمانی، گل شفتالو، سیبی، فاختائی، کوکئی، آبی، بسنتی، دھانی، کافوری، گلابی، گُڑھلی، بادامی، شربتی؛ رنگ برنگ کے جوڑے پہنے ہوئے۔
گہنے: ٹیکا، جھومر، سراسری، نتھ، کیل، پتے، بالیاں، بالے، ہالے، کرن پھول، جھمکے، کھٹکے، جھپکے کے بالے، بجلی کے بالے، چھڑے، مگر، چودانیاں، چاند، گلوبند، چنپا کلی، جُگنی، گجرے کا توڑا، موتیا کا توڑا، چھلوں کا توڑا، کنٹھی، ٹیپ، چھلّا، دو لڑی، ست لڑا، دُھگدھگی، ہیکل، چندن ہار، کیری، زنجیر، جوشن، نونگے، اکّے، نورتن، بھج بند، مٹھیاں، پہونچیاں، کنگن، موتی پاک، حباب، چوہے دنتیاں، پٹڑیاں، نوگریاں، لچھے، چوڑیاں، جہاں گیریاں، کڑے، انگوٹھیاں، چھلے، آرسی، توڑے، لچھے، کڑے، جھانجن، چوڑیاں، پازیب، چوراسی، چٹکی چھلّے؛ سر سے پاوں تک سونے موتیوں میں لدی ہوئیں۔
جوتیاں: گھیتلی، اَنی دار، کفش، زیر پائی، کف پائی، سلیم شاہی؛ پاؤں میں چھم چھم کرتیں ملکۂ دوراں کے پاس حاضر ہوئیں؛ مُجرا کیا، اپنے اپنے قرینے سے بیٹھ گئیں۔ ملکۂ دوراں نِک سے سُک تک بناؤ سنگار کیے، سونے میں پیلی، موتیوں میں سفید اپنی مسند پر بیٹھی ہیں؛ آگے سٹک لگی ہوئی ہے۔ خواجہ سرائے، نوکریں چاکریں، لونڈیاں باندیاں ہاتھ باندھے کھڑی ہوئی ہیں۔ توشہ خانے والیاں جوڑوں کی کشتیاں لے کر حاضر ہوئیں۔ ملکۂ دوراں اپنے ہاتھ سے ایک ایک کو جوڑے دیتی ہیں؛ سب سر و قد ہو ہو کر جوڑے لیتی ہیں، آداب بجا لاتی ہیں، نذریں دیتی ہیں۔ بس جوڑے بٹ چکے، نذریں ہو چکیں، اب دال بھیگنے کا وقت آیا۔
یہ جشن کی رات کا ایک شگون ہے۔ بادشاہ کی بیوی اپنے ہاتھ سے دال کی سات لبیں بھر کر پہلے لگن میں ڈالیں اور بادشاہ اپنے ہاتھ سے بڑے پہلے کڑھائی میں ڈالیں۔
لو اب ملکۂ دوراں دال بھگونے چلیں؛ مبارک باد کی نوبت نقارچنیں بجانے لگیں۔ آگے آگے روشن چوکی والیاں روشن چوکی، تاشے باجے والیاں تاشا باجا بجاتی؛ حبشنیاں، ترکنیاں، قِلماقنیاں، اُردا بیگنیاں، خواجہ سرائے، جسولنیاں اور شاہ زادیاں، بیگماتیں، حرم، سُریت، ناموس، چپی والیاں، گائنیں، امیر زادیاں سب اپنے اپنے قرینے اور قاعدے سے ملکۂ دوراں کے تام جھام کے ساتھ ساتھ چلیں۔ رنگ محل میں ملکۂ دوراں کی سواری آئی۔ دیکھو! ڈھیر سی مونگ کی دال چنی پھٹکی اور قلعی دار بڑے بڑے لگن رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے ملکۂ دوراں نے دال کی سات لبیں بھر کر لگن میں ڈالیں، پھر خاصے والیوں نے سب دال لگنوں میں ڈال دی، اوپر سے پانی ڈالا۔ سب نے کھڑے ہو کر مجرا کیا، مبارک باد دی، شادیانے بجنے لگے۔ لو وہ آدھی رات کی نوبت بجنی شروع ہوئی۔ خاصے والیوں نے جلدی جلدی دال دھو دھلا، پیٹھی پیس پسا تیار کر کڑھائیاں چڑھا دیں۔ ملکۂ دوراں نے اپنے ہاتھ سے سات بڑے بنائے۔ ایلو! وہ بادشاہ ہوادار میں سوار باجے گاجے سے آئے۔ وہی ساتوں بڑے چمچے میں لے کر بادشاہ نے کڑھائی میں ڈالے۔ سب کھڑے ہو گئے، چاروں طرف سے مجرا مبارک باد ہونے لگی۔ روشن چوکی، نوبت، تاشا باجا بجنے لگا۔ بادشاہ اور ملکۂ دوراں سوار ہوئیں۔ سب اسی طرح سواری کے ساتھ ساتھ بیٹھک میں آئے۔ فرّاشیوں نے ایک ستھری چوکی بچھائی، اس پر اجلا اجلا بُراق سا بچھونا کیا، دو کوری ٹھلیوں میں شربت بھرا، ان پر دو بدھنیاں دودھ کی بھر کر رکھیں، کلاوے اور پھولوں کے سہرے ان کے گلے میں باندھے، دو پان کے بیڑے بدھنیوں کی ٹونٹی میں رکھے۔ اس کو جیگڑ کہتے ہیں، یہ بادشاہ کی سلامتی کی بھری جاتی ہے۔ لو اب پچھلا پہر ہوا، خاصے والیوں نے بڑے، گلگلے، کھنکڑیاں، تل تلا، اللہ میاں کا رحم، کچے چاول پیس، کھانڈ ملا، بڑے بڑے پیڑے بنا، قابوں میں لگا، کشمیرنوں، کہاریوں کے سر پر خوان رکھوا جیگڑ کے پاس لا کر چن دیے۔ بادشاہ نے کھڑے ہو کر نیاز دی۔ پکوان سب کو بٹ گیا؛ رت جگا ہو چکا، دربار کی تیاری ہونے لگی۔
وہ بادشاہی توپ صبح کی چلی، دھائیں! بادشاہ حمام میں گئے، حمام کر کے پوشاک بدلی اور توشے خانے، جواہر خانے والیاں پوشاک اور جواہر لے کر حاضر ہوئیں۔ تاشا باجا، روشن چوکی، نوبت خانے والیاں مبارک باد کا باجا بجانے لگیں۔ دیکھو! نیچے قبا اوپر چار قب پہنا، سر پر دستار، دستار پر گوشوارہ، جیغہ، سرپینچ، تاج شاہی رکھا، بڑے بڑے موتیوں کا طرّہ لٹکایا، گلے میں موتیوں کا کنٹھا اور ایک موتی مالا ایک سو ایک دانے کی جن میں ایک ایک دانہ زمرد کا اور ایک ایک موتی کا ہے اور دس دس دانوں کے بعد یاقوت کی ہڑیں لگی ہوئی ہیں، بیچ میں یاقوت کی بڑی تختی ہے۔ دوسری موتی مالا نرے موتیوں کی، زمرد کی ہڑیں، بیچ میں یاقوت کی بڑی تختی پہن کر پھر ہیروں کا ہار پہنا۔ بازوؤں پر ہیروں کے بھج بند اور نورتن باندھے، ہاتھوں میں سمرنیں، دائیں میں چار بائیں میں تین پہنیں۔ دو سُمرنیں دو دو موتیوں کی، دو ایک ایک موتیوں کی لڑی کی، دو زمرد کی ہیں؛ ساتویں سمرن میں چار بہت بڑے بڑے موتی اور دو زمرد کے بڑے دانے، بیچ میں ایک لعل ہے، یہ سمرن دائیں ہاتھ میں پہنی۔ اب پوشاک اور جواہر پہن چکے، اندر صحنک باہر دربار کی تیاری دیکھو۔
صحنک
خشکہ ابل رہا ہے؛ دہی کھانڈ آیا، کورے کورے کونڈوں میں خشکہ نکال، دہی کھانڈ اس پر ڈال، ایک پردے کے مکان میں جہاں مرد کا نام بھی نہیں، ستھرا سا بہت اجلا دسترخوان بچھا، دہی خشکے کے کونڈے، چونے کی طشتریاں، چوڑیوں کے جوڑے، مسّی اور منہدی کی پڑیاں لال کاغذ اور کلاوے سے بندھی ہوئیں، عطر کی شیشیاں، لال لال اوڑھنیاں ٹھپے لگی ہوئیں، سوا سوا روپیہ چراغی کا، سات ترکاریاں دسترخوان پر چن دیں۔ بیوی زنیں آئیں، پہلے نیاز دی، ایک چھنگلی میں منہدی لگائی، لال اوڑھنیاں اوڑھیں، صحنک کھانے بیٹھیں۔ پہلے ایک ایک چونے کی طشتری کھائی، یہ پارسائی کا امتحان ہے۔ جو پارسا ہوتی ہیں ان کا منہ چونے سے نہیں پھٹتا۔ لو اب صحنک کھانی شروع کی۔ ایلو! وہ پھر دہی کھانڈ خشکے پر ڈالا، اب صحنک دوہرا رہی ہیں۔ لو صاحب وہ سب کونڈے صاف کر دیے۔ دسترخوان پر سے ایک ایک دانہ اٹھا کر کھا گئیں۔ چلمچی میں ہاتھ دھوئے، کلی کی۔ چلمچی کا پانی بھی ایک کنارے ڈال دیا کہ پاؤں تلے نہ آئے۔ مسّی ملی، عطر لگایا، چوڑیوں کے جوڑے، چراغی کے روپے لے لے کر رخصت ہوئیں۔ لو صحنک ہو چکی، دربار کی سیر دیکھو۔
جشن کا دربار
دیکھو! سب امیر امرا نقار خانے کے دروازے پر سے اتر کر پیدل دیوان عام میں چلے آتے ہیں؛ یہ پہلی آداب گاہ ہے۔ دیوان عام میں جالی کے دروازے میں دیکھنا کیسی موٹی سی لوہے کی زنجیر اڑی پڑی ہوئی ہے کہ آدمی سیدھا نہیں جا سکتا، سب جھک جھک کر زنجیر کے نیچے سے جاتے ہیں؛ یہ دوسری آداب گاہ ہے۔ ایلو! دیوان خاص کے دروازے پر کیا بڑا سا پردہ لال بانات کا کھنچا ہوا ہے؛ یہ لال پردہ کہلاتا ہے۔ مِردھے، پیادے، دربان، سپاہی، قُلار ہاتھوں میں لال لال لکڑیاں لیے کھڑے ہیں۔ جو کوئی غیر آدمی اندر جانے کا ارادہ کرے تو قلار وہی لال لکڑی آنکڑے دار گردن میں ڈال کھینچ کر باہر نکال دیتے ہیں۔ مگر جشن کے دن حکم عام تھا جس کا جی چاہے پگڑی باندھ کر چلا آئے، دربار کی سیر دیکھے۔
دیکھو! لال پردے کے پاس کھڑے ہو کر پہلے مجرا کرکے کہ یہ تیسری آداب گاہ ہے، پھر دیوان خاص میں تخت کے سامنے آداب بجا لا کر اپنی اپنی جائے پر کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھو! دیوان خاص میں فرش فروش کیا ہوا ہے، باناتی پردے کھنچے ہوئے ہیں۔ بیچوں بیچ میں سنگ مرمر کے ہشت پہلو چبوترے پر تخت طاؤس لگا ہوا ہے۔ اس کے آگے دلدا پیش گیر([12]) کھنچا ہوا ہے۔ دیکھنا کیا خوبصورت تخت بنا ہوا ہے۔ چاروں طرف تین تین در کیسے خوش نما محرابوں کے ہیں۔ گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، اوپر بنگلے نما گول چھت، محراب دار، اس پر سونے کی کلسیاں؛ سامنے محراب پر دو مور آمنے سامنے موتیوں کی تسبیحیاں منہ میں لیے ہوئے کھڑے ہیں؛ سر سے پاؤں تک سونے میں لپا ہوا جگمگا رہا ہے۔ بیچ میں رومی مخمل اور زربفت کا مسند تکیہ لگا ہوا ہے۔ دو خواص ہما کے مورچھل لیے اہلو پہلو میں کھڑے ہیں، پیچھے ایک جا نماز بچھی ہے۔
معتبر الدولہ اعتبار الملک بہادر وزیر([13])، عمدۃ الحکما)[14]( حاذق زمان احترام الدولہ بہادر، شمس الدولہ بہادر([15])، معین الدولہ بہادر([16])، سیف الدولہ بہادر([17])، انیس الدولہ بہادر([18])، راجا مرزا بہادر، راجا بہادر، غیاث الدولہ بہادر، سحبانِ زمان نجم الدولہ بہادر، وقار الدولہ بہادر، مصلح الدولہ بہادر، علاء الدولہ بہادر، موسس الدولہ بہادر، سرفراز الدولہ بہادر، میر عدل بہادر، میر منشی دار الانشاءِ سلطانی، میر توزک وغیرہ اپنے اپنے مرتبے اور قاعدے سے دونوں ہاتھ جریب پر رکھے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ مِردھے، نقیب، چوب دار، عرض بیگی سامنے آداب گاہ کے پاس کھڑے ہیں۔
دیوان خاص کے صحن میں ایک طرف خاصے گھوڑے چاندی سونے کے ساز لگے ہوئے، ایک طرف ہاتھی مولا بخش،([19]) خورشید گنج،([20]) چاند مورت([21]) وغیرہ، رنگے ہوئے ماتھوں پر فولاد کی ڈھالیں، سونے کے پھولوں کی، کانوں میں ریشم اور کلابتون کے گپھے اور لڑیاں، کارچوبی جھولیں پڑی ہوئیں۔ ایک طرف ماہی مراتب، چتر، نشان، روشن چوکی والے، جھنڈیوں والے، ڈھلیٹ جمے کھڑے ہیں۔ حبشی، قلار چاندی کے شیر دہاں سونٹے، خاص بردار بندوقیں لیے ہوئے کٹہرے کے نیچے کھڑے ہیں۔
دیوان عام کے میدان میں ساری پلٹنیں جمی کھڑی ہیں۔ احتشام توپ خانے کی توپیں لگی ہوئی ہیں۔ ایلو! وہ جسولنی نے اندر سے آواز دی “خبردار ہو!”، نقیب چوب داروں نے جواب دیا “اللہ رسول خبردار ہے”۔ اوہو!!! وہ بادشاہ برآمد ہوئے، نقیب چوبدار پکارے “بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ رسول کی امان، دوست شاد، دشمن پائمال، بلائیں رد!” کہاروں نے جھٹ ہوادار کہاریوں سے لے لیا۔ پہلے بادشاہ نے تخت کے پیچھے اتر کر نماز کی دو رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھیں، دعا مانگی، پھر ہوادار میں سوار ہوئے۔ کہاروں نے ہوادار تخت طاؤس کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ نے تخت پر جلوس فرمایا، جھنڈیاں ہلیں، دنادن توپیں چلنے لگیں، سب فوج نے سلامی اتاری، شادیانے بجنے لگے۔ گوہر اکلیل سلطنت مہین پور خلافت، ولی عہد بہادر بائیں طرف تخت کے اور شاہ زادگان نام دار، والا تبار، قرۂ باصرۂ خلافت، غرۂ ناصیۂ سلطنت دائیں طرف تخت کے برابر، امیر امرا کے آگے کھڑے ہوئے۔ دیکھو! پہلے ولی عہد نذر دینے کھڑے ہوئے۔ وہ آداب گاہ پر آئے، مجرا کیا۔ نقیب پکارا “جہاں پناہ بادشاہ سلامت! عالم پناہ بادشاہ سلامت! مہابلی بادشاہ سلامت!”، مجرا کرکے بادشاہ کو جا کر نذر دی۔ بادشاہ نے نذر لے کر نذر نثار کو دے دی۔ پھر الٹے پاؤں آداب گاہ پر آئے، مجرا کر خلعت پہنا، جیغہ، سرپینچ، گوشوارہ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے سر پر باندھا؛ موتی، مالا، سپر، تلوار گلے میں ڈالی۔ اسی طرح آداب گاہ پرالٹے پاؤں آکر مجراکیا؛ خلعت کی نذر دی، پھر الٹے ہی پاؤں آداب گاہ پر آ، مجراکر، کھڑے ہوگئے۔
دیکھو! اب اسی طرح اور شاہ زادے اور سارے امیر امرا اپنے اپنے رتبے سے نذریں دے رہے ہیں؛ جواہر خانے میں سے خلعت پہن پہن کر آتے ہیں؛ بادشاہ اپنے ہاتھ سے شاہزادوں کے سرپر جیغہ، سرپینچ، گوشوارہ اور معزز امیروں کے سر پر گوشوارہ باندھ دیتے ہیں۔ آداب مجرے ہو رہے ہیں، نقیب، چوب دار پکار رہے ہیں “ملاحظہ، آدابسے کرو مجرا! جہاں پناہ بادشاہ سلامت! عالم پناہ بادشاہ سلامت! مہابلی بادشاہ سلامت!”
لو بادشاہ نے تکیہ سرکایا، فاتحہ کو ہاتھ اٹھایا۔ غرض بیگی پکارا “دربار برخاست”۔ کہاروں نے ہوادار تخت کے برابر لگادیا، بادشاہ سوار ہوئے۔خاصی دیوڑھی پر سے کہاریوں نے ہوادار لے لیا۔بادشاہ محل میں داخل ہوئے، سب لوگ رخصت ہوئے۔چالیس دن تک روز دربار خلعت اور نذریں ہوں گی اور انعام اکرام سب کارخانوں کے داروغاؤں اور آدمیوں کو حیثیت کے موافق ملیں گے۔اب محل کادربار دیکھو!
محل کا دربار
دیکھو! یہ چاندی کاتخت، گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، نیچے پایوں میں کیسے خوبصورت پھول پتے بنے ہوئے ہیں۔ اوپر کرکری تاش کا تخت پوش پڑاہوا، دائیں طرف ملکۂ دوراں اپنی مسند پر سر سے پاؤں تک سونے موتی جواہر میں ڈوبی ہوئیں، ناک میں نتھ جس میں چڑیا کے انڈے برابر موتی پڑے ہوئے ہیں، پہنے بیٹھی ہیں۔ ان کے برابر اور بیویاں اپنی اپنی سوزنیوں پر گہنا پاتا، ناک میں نتھیں پہنے بیٹھی ہیں۔ بائیں طرف شہزادیاں بناؤ سنگار کیے، سر سے پاؤں تک گہنے میں لدی ہوئی بیٹھی ہیں۔ سامنے حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں، اُردا بیگنیاں، جسولنیاں، خواجہ سرائے جریبیں پکڑے مؤدب کھڑے ہیں۔ بادشاہ محل میں داخل ہوئے، جسولنی نے آواز دی “خبردار ہو!” سب بیگماتیں سر وقد کھڑی ہوگئیں، مجرا کیا۔ تخت پر سے تخت پوش خوجوں نے اُٹھایا، کہاریوں نے ہوادار تخت کے برابر لگادیا۔ بادشاہ تخت پر بیٹھے؛ خواجہ سرائے مورچھل لے کر تخت کے برابر کھڑے ہوگئے۔ پہلے ملکۂ دوراں نے کھڑے ہوکر مجرا کیا، نذر دی، پھر مجرا کرکے بیٹھ گئیں۔ اب اور بیویوں اور شاہ زادیوں نے اسی طرح اپنے اپنے رتبے سے نذریں دیں۔ بادشاہ نے سب کو بھاری بھاری دوپٹّے حیثیت کے موافق اپنے ہاتھ سے دیے۔ سب نے کھڑے ہو ہوکر دوپٹّے لیے، مجرا کیا، نذریں دیں۔ اب ناچ گانا شروع ہوا۔ ایلو! ناچنے والی تو اندر بادشاہ کے سامنے ناچ رہی ہے اور سازندے سرانچے کے پیچھے کھڑے طبلہ، سارنگی، تال کی جوڑی بجا رہے ہیں۔ تان رس خاں آئے، دو چار تانیں اُن کی سنیں۔ لو اب خاصے کی تیاری ہونے لگی؛ دربار برخاست ہوا، ناچ گانا موقوف ہوا۔ بادشاہ نے خاصہ نوش فرما کر سُکھ کیا۔ تیسرے پہر سب اسی طرح اکٹھے ہوگئے؛ بادشاہ مسند پر آکر بیٹھے۔ مٹھائی کے خوان اور آٹھ قابیں مٹھائی کی، ایک چاندی کی کشتی میں بڑا سا کلاوہ، پان کے بیڑے، ہری دوب، مصری کے کوزے، چاندی کا چھلا رکھا ہوا، اوپر کمخابی کشتی پوش کلابتونی جھالر کا پڑا ہوا آیا۔ جسولنی نے عرض کیا: “حضرت صاحب)[22]( تشریف لائے”۔ بادشاہ سر وقد تعظیم کو کھڑے ہوگئے، مسند پر بٹھایا۔
حضرت نے پہلی ایک قاب پر حضرت صلّی اللہ علیہ و سلم کی، دوسری پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی، تیسری پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی، چوتھی پر حضرت امام حسن حسینؑ کی، پانچویں پر بڑ بڑیڑوں کی، چھٹی پر بابر بادشاہ کی، ساتویں پر اوتوں کی، آٹھویں پر پریوں کی نیاز دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نیاز کا سوائے بیوی زنوں کے، بابر بادشاہ کی نیاز کا سوائے ان کی اولاد کے اور پریوں کی نیاز کا سوائے پارسا عورتوں کے اور کسی کو نہیں ملتا، اور باقی سب کی نیازوں کا سب کو تقسیم ہوجاتا ہے۔
دیکھو! حضرت صاحب نے کشتی میں سے کلاوہ نکالا؛ پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر ا یک گرہ اس میں لگائی، دوسری گرہ میں پان کا بیڑا باندھا، تیسری میں ہری دوب مصری کی ڈلی، چوتھی میں چاندی کا چھلا باندھا، پانچویں گرہ بادشاہ کے سر سے چھوا کر اس کلاوے میں لگائی۔ سب نے کھڑے ہو کر مجرا کیا، مبارک باد دی: “ایک سال یہ ہزار سال اور خدا نصیب کرے!”۔ سالگرہ کے شادیانے بجنے لگے۔ اب مہینا بھر تک دربار، نذریں، خلعت، انعام، تاج رنگ، مہمان داری اسی طرح ہوگی۔ نوروز کی رسمیں دیکھو!
نوروز
یہ نیا سال شروع ہوتا ہے۔ نجومی پنڈت جو رنگ سال کا بتاتے ہیں، دیکھو ویسی ہی رنگ کی پوشاک بادشاہ اور بیگماتوں اور شاہ زادیوں کی تیار ہورہی ہے۔ بانس کی کھپچیوں کی کھانچیاں، ان میں سات سات مٹی کی طشتریاں بھوڈل پھری ہوئی، سات رنگ کی مٹھائیوں سے بھری ہوئی،اوپر نوروزی رنگ کے کسنے بسمے کے چھپے ہوئے کسے ہوئے، نوروزی رنگ کے جوڑے گوٹا کناری ٹکے ہوئے، کشتیوں میں رکھے ہوئے، اسی رنگ کے کشتی پوش پڑے ہوئے، کہاریوں کے سر پر جسولنیاں لیے ہوئے بانٹتی پھرتی ہیں۔ لو دربار آراستہ ہوا، بادشاہ نوروزی پوشاک پہن کر برآمد ہوئے۔دیکھو! سب شاہزادے بھی نوروزی کپڑے پہنے ہوئے، امیرامرا، نواب راجا نوروزی رنگ کی پگڑی دوپٹے باندھے ہوئے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ نذریں ہونے لگیں۔ سلطان الشعرا اور اَور شاعروں نے مبارکباد کے قصیدے پڑھے، خلعت مرحمت ہوئے۔دربار برخاست ہوا۔دسترخوان چنا گیا۔
دیکھو! نوروزی رنگ کا دسترخوان اور ویسے ہی خوانوں کے خوان پوش اور کسنے ہیں۔ سات رنگ کے پلاؤ، مٹھائیاں،سالن، ترکاریاں،میوے اور سب چیزیں سات سات طرح کی ہیں،اور سات ترکاریاں ملی ہوئی بھی پکی ہیں ؛ اس کو نورتن کہتے ہیں۔
ایلو! جو کی روٹی، ساگ کی بھجیا اور ستّو بھی ہیں۔ خاصےکی داروغہ نے عرض کیا: “جہاں پناہ! دسترخوان تیار ہے”۔ بادشاہ آئے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دسترخوان پر نیاز دی کہ یہ ان کی خلافت کا دن ہے اور یہ دسترخوان بھی حضرت علی کا کہلاتا ہے۔ بادشاہ نے ذرا ذرا سا اس میں سے پہلے آپ چکھا، پھر ولی عہد اور شہزادوں اور معزز امیروں کو اپنے ہاتھ سے تبرک دیا۔ سب نے مجراکر کے لیا۔ لو اب دیوان خاص میں زنانہ ہوگیا، سب بیگماتیں آئیں۔ بادشاہ نے اسی طرح ذرا ذرا سا اپنے ہاتھ سے تبرک ان کو دیا۔ بادشاہ اور بیگماتیں محل میں داخل ہوئیں۔ باقی تبرک سب کو بٹ گیا۔ تیسرے پہر کو سب بیگماتیں اور شاہ زادے جمع ہوئے۔
دیکھو! اب پنکھا جھلنے کا شگون ہوا، پھر ہاتھوں میں چاندی سونالے کر اچھالا۔ یہ بھی نو روز کا شگونہے۔ چار گھڑی دن رہے سلاطین بھائی بند سبزوار مرغیوں کے انڈے نیش دار،مشک زعفران پان میں رنگ رنگا، دیوان خاص میں آئے۔ بادشاہ برآ مد ہوئے،مسند پر بیٹھے۔ سب بھائی بند سلاطین اور شاہ زادے سامنے ہو بیٹھے۔ دیکھو اب انڈے لڑتے ہیں۔ ایک نے ایک انڈا ہاتھ میں لے کر نیچے رکھا۔ سارا انگلیوں میں چھپالیا فقط اس کا نیش کھلارکھا۔دوسرا اوپر سے دوسرے انڈے سے اس پر چوٹیں لگانے لگا۔ ایلو! دونوں میں سے کسی کا انڈا ٹوٹ گیا۔جس نے توڑا ہے، اس کے ساتھ والے نے غل مچا یا ہے “وہ توڑا”۔ بس پانچ انڈے لڑ چکے، بادشاہ محل میں داخل ہوئے۔ سب بھائی بند رخصت ہوئے۔ نوروز ہو چکا، اب محرم کی رسمیں دیکھو۔
محرم
محرم کا چاند دکھائی دیا، ماتم کے باجے بجنے لگے، سبیلیں رکھی گئیں۔ بادشاہ حضرت امام حسنؑ حسینؑ کے فقیر بنے، سبز کپڑے پہنے، گلے میں سبز کفنی جھولی ڈالی، جھولی میں الائچی دانے، سونف، خشخاش بھری، درگاہ میں جاکر سلام کیا، نیاز دی۔ دس تک صبح کو کھانا، شام کو شربت فقیروں کو بٹے گا۔ چھٹی تاریخ ہوئی، آج بادشاہ لنگر میں کھنچیں گے۔
دیکھو! چاندی کے دو پنجے بنے ہوئے، دولکڑیوں پر لگے ہوئے، لال سبز کپڑے ان پر بندھے ہوئے،ان کو شدّے کہتے ہیں۔ بادشاہ کے دونوں ہاتھوں میں ہیں۔ ایک چاندی کی زنجیر کمر میں پڑی ہوئی ہے۔ دو سیدوں نے آکر زنجیر پکڑ بادشاہ کو دوچارقدم کھینچا۔ایلو! وہ زنجیر بادشاہ کے گلے میں ڈال دی۔دونوں شدّے سید لے گئے۔
ساتویں تاریخ ہوئی۔دیکھو! ابرک کے کنول، ان میں شمعیں روشن، بانس کی کھپچیوں کی ٹٹیاں لال کاغذ سے منڈھی ہوئیں، ان پر لال لال کنول، بیچ میں دغدغے روشن ہیں۔ منہدی اور مالیدے کے خوان، بڑی بڑی طوغیں جلتی ہوئیں ساتھ ساتھ ہیں۔ آگے آگے تاشے باجے، روشن چوکی والیاں، پیچھے پیچھے بادشاہ اور بیگماتیں، حبشنیاں، ترکنیاں، خوجے وغیرہ سب چلے جاتے ہیں۔ لو منہدی امام باڑے میں پہنچی، آرائش سب لٹ گئی۔منہدی، مالیدہ، طوغیں درگاہ میں چڑھا دیں۔ آٹھویں تاریخ ہوئی، ایلو! آج بادشاہ حضرت عباس کے سقے بنے، لال کھاروے کی ایک لنگی بندھی ہوئی، شربت کی بھری ہوئی ایک مشک کندھے پر رکھے ہوئے معصوموں کو شربت پلا رہے ہیں۔ لو شربت پلا چکے، مالیدے پر نیاز دی، سب کو بٹوادیا۔
آج دسویں تاریخ عشرے کا دن ہے۔ مٹی کے آبخورے لمبے، گلے کے بیچ میں سے پتلے کورے کورےآئے؛ ان کو کوزیاں کہتے ہیں۔ دودھ اور شربت بھرا گیا۔ لال لال کلاوے ان کے گلوں میں باندھے۔ تازے تازے تر حلوے کے کونڈے بھر کر رکھے گئے، نیاز ہوئی۔ دیکھو! چھوٹے چھوٹے بچے دوڑے چلے آتے ہیں؛ ایک ایک دودھ، ایک ایک شربت کی کوزی پی، حلوا چٹ کر، پیسے کوڑیوں کی جھولیاں بھر کیسے اچھلتے کودتے کُلانچیں مارتے چلے جاتے ہیں۔ ظہر کا وقت ہوا، بادشاہ برآمد ہوئے، موتی مسجد میں عاشورے کی نماز پڑھی، دیوان خاص میں حاضری کی تیاری ہوئی۔ ایک بڑا سا دسترخوان بچھا، اس پر شیرمالیں چنی گئیں۔ شیرمالوں پر کباب، پنیر، پودینہ، ادرک، مولیاں کتر کے رکھیں۔بادشاہ نے کھڑے ہو کر نیاز دی؛ ذرا سا شیرمال، کباب، پنیر، مولی کا ٹکڑا پہلے آپ چکھا، پھر ایک ایک شیرمال اور کباب وغیرہ پہلے ولی عہد، پھر اور شاہ زادوں اور معزز امیروں کو اپنے ہاتھ سے دیا، باقی سب کو بٹ گئیں۔ ایلو! وہ جامع مسجد سے تبرکات نالکی میں رکھے ہوئے، آگے آگے سپاہیوں کے تمن، باجا بجتا ہوا، آئے؛ بادشاہ تعظیم کو کھڑے ہوگئے۔ تبرکات نالکی میں سے نکال کر چوکی پر رکھے گئے۔ حضرت محمد ﷺ کا جبہ اور نعلین آنکھوں سے لگائیں؛ حضرت علیؓ کے ہاتھ کا قرآن شریف سر پر رکھا، بوسہ دیا؛ حضرت امام حسن حسینؑ کی خاک شفا کو آنکھوں سے لگایا؛ پھر حضرت ﷺ کے موئے مبارک کو گلاب اور خوشبو میں غسل دیا۔ لو اب زنانہ ہوا، بیگماتیں آئیں، تبرکات کی زیارت کی، بادشاہ اور بیگماتیں محل میں داخل ہوئیں۔ تبرکات اُسی طرح نالکی میں باجے گاجے سے جامع مسجد گئے۔ شام کو اسی طرح محل کی درگاہ کے تبرکات کی زیارت کی۔ دیکھو! گوٹا بٹ رہا ہے؛ بُن ڈلیاں، الائچیاں، جوز چھالیہ کتر کے بھنے ہوئے خربوزوں کے بیج اور دھنیا کترا ہوا کھوپرا اس میں ملا کے گوٹا بنایا، شیشے اور کاغذ کی پیٹیوں اور کارچوبی بٹووں اور چھوٹی چھوٹی طشتریوں میں رکھ، ان پر مہین مہین رنگین کھوپرے کے پھول بنا آپس میں بٹ رہا ہے۔ اکثر سلاطین قلعے میں تعزیہ داری کرتے تھے، فقیر پیک بنتے تھے۔ کوئی نشانچی کوئی نقیب بنتا تھا، کوئی تاشا، کوئی ڈھول، کوئی جھانجھ تعزیوں کے آگے بجاتا تھا، کوئی مرثیے پڑھتا تھا۔ مرثیے خوانوں کو درگاہ میں سے چار چار طشتریاں بُن چکنی ڈلیاں، بھنے ہوئے خربوزے کے بیج اور دھنیے کی ملا کرتی تھیں؛ بڑی دھوم سے عَلَم اٹھاتے تھے۔ محرم ہو چکا، آخری چہارشنبہ آیا۔
آخری چہار شنبہ
صفر جسے تیرہ تیزی کا مہینا کہتے ہیں، اس مہینے کی تیرھویں تاریخ ہوئی، دیکھو! چنے کی سلونی گھنگنیاں نون مرچ ڈال کے اور گیہوں کی پھیکی گھنگنیاں ابال کے اوپر خشخاش اور کھانڈ ڈالکے قابوں میں نکال کے نیاز دی،پھر بانٹ دیں۔اسی مہینے کے آخری بدھ کو بادشاہ نے صبح دربارکیا۔دیکھو! جواہر خانے کا داروغہ سونے چاندی کے چھلے چاندی کی کشتی میں لگا کرلایا۔ چارچھلے،ان میں سے دوسونے کے،دو چاندی کے بادشاہ نے آپ پہنے، دو ولی عہد کو پہنائے۔ایک ایک اور شاہ زادوں کو اپنے ہاتھ سے دے دیے،باقی اور امیر امراؤں کو تقسیم ہوگئے۔ سب نے مجراکیا،نذریں دیں، درباربرخاست ہوا؛ بادشاہ اپنی بیٹھک میں آئے۔ وہ چاروں چھلے جو آپ پہنے تھے ملکہ زمانی کو دیے۔تیسرا پہر ہوا۔ دیکھو! کوری کوری ٹھلیاں آئیں؛پہلے ایک ٹھلیامیں تھوڑا سا پانی اور ایک اشرفی کپڑے میں لپیٹ کر اس میں ڈالی۔ بادشاہ کے آگے کھڑے ہوکر سر پر سے پیچھے پھینک دی۔ او ہو ہو!!! وہ پڑاق سے ٹھلیاٹوٹ گئی، اشرفی حلال خوری اٹھالے گئی۔ ایلو! تھوڑا ساپھونس لا کر جلایا، بادشاہ نے اس کو لانگا۔ لو اب بیگماتوں اور شاہ زادوں کو ٹھلیاں تقسیم ہونے لگیں۔ کسی ٹھلیا میں پانچ، کسی میں چار، کسی میں دوروپے، کسی میں ایک ہی روپیہ ڈال، کہاریوں کے سرپر رکھوا، جسولنیوں کو ساتھ کرسب کے یہاں بھیج دیں۔ سب نے ان کو انعامدیا اور ٹھلیاں لے کر اسی طرح کھڑے ہوکر توڑ دیں۔ جو کچھ ٹھلیوں میں تھا وہ حلال خوریاں اٹھالے گئیں۔ تیسرے پہر سبزہ روندنے باغ میں گئے۔ آخری چہار شنبہ کی عیدیاں؛ شاہ زادوں کے استاد سنہری روپہلے پھولدار کاغذ پر لکھ کر لائے؛ شاہزادوں کو عیدیاں اور چھٹی دے، عیدیوں کے روپے لے، رخصت ہوئے۔
عیدی آخری چہار شنبہ
آخری چار شنبہ ماہ صفر
جانب باغ سیر کن بنگر
ہر کہ امروز می کند شادی
غم نہ بیند بقول پیغمبر
بارہ وفات
ربیع الاول کے مہینے کو بارہ وفات کامہینا کہتے ہیں۔ پہلی تاریخ اس مہینے کی ہوئی، موتی محل میں فرش فروش ہوا، بیچ میں بادشاہ کی مسند لگی۔تیسرے پہر کو بادشاہ برآمد ہوئے۔ دائیں بائیں مشائخ لوگ، سامنے قوال آکر بیٹھے، گانا شروع ہوا۔ ایلو! مشائخوں میں سے کسی کو حالت آئی؛ دیکھو! کیاپٹخنیاں کھارہاہے۔او ہو! وہ حال کھیلتے کھیلتے کھڑا ہوگیا۔ بادشاہ اور سب لوگ ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جس شعر پر حالت آئی ہے، قوال اسی کو گھڑی گھڑی گائے جاتے ہیں، زور زور سے ڈھولکی پیٹے جاتے ہیں۔لو حال کھیل چکے، ہوش میں آگئے، چپکے ہوکر بیٹھ گئے، بادشاہ اور سب لوگ بھی بیٹھ گئے،گاناموقوف ہوا۔الائچی دانوں کے خوان آئے، ختم ہوا، الائچی دانے تقسیم ہوئے۔ بادشاہ اپنی بیٹھک میں آگئے۔سب لوگ رخصت ہوگئے۔ اب بارہ دن تک روز اسی طرح مجلس اور صبح شام کھانا مشائخوں([23]) اور ملنگوں کو ملے گا۔
بارھویں تاریخ ہوئی۔ دیکھو! محل اور مہتاب باغ کی درگاہ میں ٹھاٹھر بندی ہورہی ہے۔ لال لال کنول اور قمقمے، ان میں دغدغے رکھے گئے؛ رات ہوئی، روشنی ہونے لگی۔ پہلے بادشاہ محل کی درگاہ میں آئے۔مشائخ جمع ہوئے، قوال گانے لگے۔ یہاں بُنوں کے قہوے پر ختم ہو رہاہے۔دیکھو وہ قہوے کی پیالیاں بٹ رہی ہیں۔
عرس
اسی مہینے کی چودھویں تاریخ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا عرس ہوتاہے۔ بادشاہ خواجہ صاحب([24]) میں آئے اور شہر کی خلقت بھی جمع ہوئی۔بادشاہ نےمزار پر کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی، گلاب،صندل، پھول ملاکر چمچے سے قبر پر ڈالا۔ ستر روپے نذر اور بیس روپے کا شامیانہ، دس روپے کا قبر پوش چڑھایا؛ ساٹھ روپئے خادموں اور مشائخوں کے کھانا پکوانے کو دیے۔ایلو! وہ روشنی اور باجے گاجے سے منہدی آئی،دیکھو! گلاب کے شیشے، قبر کا غلاف شاہ زادوں کے سرپر ہے،منہدی کے ساتھ ساتھ چلے آتے ہیں۔ درگاہ میں آکر گلاب کے شیشے اور منہدی چڑھادی، غلاف قبر پر ڈالا، ختم ہوا۔ بادشاہ نے محل میں آکر خاصہ کھایا، آرام کیا۔ صبح کے ختم میں شامل ہو، سب وہاں سے رخصت ہوئے۔
گیارھویں حضرت غوث الاعظمؒ
ربیع الثانی کے مہینے کو میراں جی کہتے ہیں؛ اس مہینے کی گیارھویں تاریخ ہوئی؛ دیکھو! دیوان خاص کے صحن میں آتش بازی گڑی؛ انار،پھلجڑی، مہتاب، جائی جوئی، ہت پھول، چھچھوندر، چکر، گنج، پٹاخے، چرخیاں،ہوائیاں، زمینی گولے، آسمانی گولے، خدنگ، چدّر،کوٹھی، پنکھیاں، سانپ، درخت، ہاتھی وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک بانس کی کھپچیوں کا بنگلہ سا بنا ہوا، اوپر پنّی، ابرک لال کاغذ منڈھاہوا، اس کو منہدی کہتے ہیں،دیوان خاص میں رکھی گئی۔دسترخوان بچھا، سب طرح کا کھانا چنا گیا۔ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے منہدی روشن کی۔ پھر دستر خوان پر حضرت غوث الاعظمؒ کی نیاز دی، آتش بازی چھٹنے لگی، کھانا تقسیم ہوا۔ صبح کو مہتاب باغ کی درگاہ میں مشائخ جمع ہوئے، بادشاہ آئے، ختم ہوا، تبرک بٹا۔
سترھویں
اسی مہینے کی سترھویں تاریخ حضرت سلطان نظام الدین اولیاء کا عرس ہوتا ہے۔ دیکھو! رات کو درگاہ میں مشائخ جمع ہوئے، پہلے ختم ہوا، پھر قوالی ہونے لگی، مشائخوں کو حال آنے لگے۔ صبح کو بادشاہ آئے، درگاہ میں فاتحہ پڑھی، چار اشرفیاں اور بتیس روپے درگاہ میں نذر چڑھائی، دو سو روپے عرس کے مصارف کے خادموں کو دیے؛ ختم میں شامل ہوئے، تبرک کی ہنڈیاں اور پھیٹے)[25]( خادم لائے۔ بادشاہ نے ایک اشرفی تبرک کی اُن کو دی، پھر سوار ہو گئے۔ دیکھو! اب شہر کی خلقت آنی شروع ہوئی۔ درگاہ میں نذریں چڑھنے لگیں، خادموں کی گوڑی ہونے لگی۔ اپنی اپنی اسامیاں تاک تاک کے دو دو تبرک کی ہنڈیاں، کھیلیں، بتاشے، شکر پارے اُن میں بھرے ہوئے، آٹے سے اُن کے منہ لپے ہوئے خادم اُن کو دیتے ہیں اور گرہ گرہ بھر کے دھوتر کے سبز سفید پھیٹے اُن کے سر سے باندھ دیتے ہیں۔ بہت سی خاطر مدارت کر کے اُن سے کہتے ہیں: “ہم آپ کے دعا گو قدیم ہیں، رات دن آپ کی کامیابی کی درگاہ شریف میں دعائیں مانگتے ہیں”، اپنا معمول اُن سے لے لیتے ہیں۔ اب درگاہ شریف میں ناچ ہونے لگا۔ دیکھو! کوئی ناچ دیکھ رہا ہے، کوئی باؤلی میں سیڑھیوں پر بیٹھا نہا رہا ہے، کوئی چت کوئی پٹ تیر رہا ہے، کوئی دھما دھم اوپر سے کود رہا ہے۔ لوگ باؤلی میں کوڑیاں پیسے پھینک رہے ہیں، لڑکے غوطے لگا لگا کر نکال رہے ہیں۔ سودے والے پکار رہے ہیں “تازی گرما گرم کچوریاں ہیں، برفی ہے تازی دودھ کی، مکھن ہے ملائی سے میٹھا، کوزے ملائی کی برف کے، کسیرو ہیں میوے، گھلے فالسے ہیں شربت کو، ڈالی ڈالی کا گھلا ہی پیوندی ہے، سیاہ لچھے ہیں ہاتھوں کے، کھلونے ہیں بالے بھولوں کے”۔ کوئی مقراضی حلوا لیے بیٹھا ہے، کوئی کباب، لونگچڑے، کھجلے، شیر مال، باقر خانی، خمیری روٹی، نہاری بیچ رہا ہے۔ ککڑ والے حقہ پلاتے پھرتے ہیں، پنواڑی گلوریاں بنا رہا ہے، کٹورے چھنک رہے ہیں۔ فالودے والے فالودہ، پن بھتا، تخم ریحان، اولے، گلاب پاش، کٹورے چمچے لیے بیٹھے ہیں۔ لو! دوپہر ہوئی، اب میلہ ہمایوں کے مقبرے میں آیا۔ دیکھو تو کوئی بھول بھلیوں میں بھولا بھالا کیسا ہکا بکا پھر رہا ہے، کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں لیٹا آرام لے رہا ہے۔ ایک طرف پتنگ بازی ہو رہی ہے؛ بگلا، کل چِڑا، دو پلکا، دو پنّا، کل دمہ، کانڑا، کنکوّا اڑا رہا ہے؛ کل سِری، لل دُمی، کلیجہ جلی، دو باز پریوں دار، الفن تکلّیں بڑھ رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی دھیری پکار رہا ہے۔ جو کوئی ہم سے نہ لڑائے اُس کی دھیری ہے۔ لو پینچ لڑ گئے، ڈھیلیں چلنے لگیں۔ وہ کسی کا کٹ گیا۔ آہا!!! کیا غل مچایا ہے، وہ کاٹا! جس بیچارے کا کٹ گیا اُس کا منہ تو کیا فق فق ہو رہا ہے۔ کسی کا ہتھے پر سے اکھڑ گیا، کسی کا کنیانے لگا، کسی کا چکرا رہا ہے، کسی کی دال چپو([26]) ہو گئی، کوئی کھچم کر رہا ہے، کوئی ٹھمکیاں دے رہا ہے۔ لو کنکوے بازی ہو چکی۔
اہا ہا!!! دیکھنا وہ کسی شہزادے کی سواری آئی۔ آگے آگے سپاہیوں کے تُمن ہیں، باجا بجا آتا ہے، نقیب چوب دار پکارتے آتے ہیں: “صاحب عالم پناہ سلامت!”۔ عماری میں آپ بیٹھے ہیں، خواصی میں مختار بیٹھا مورچھل کرتا آتا ہے، پیچھے سواروں کا رسالہ چلا آتا ہے۔ مقبرے کے دروازے پر فیل بان نے ہاتھی بٹھا دیا، سب جلوس ٹھہر گیا، سلامی اتاری۔ کہاروں نے نالکی لگا دی، نالکی میں سوار ہو کر اندر آئے۔ دو خواص مورچھل لے کر ادھر ادھر آگئے، اور سب اردگرد ہو گئے۔ نقیب چوب دار آگے آگے “ہٹو بڑھو صاحب!” کرتے چلے۔ مقبرے کے چبوترے پر سے پیدل اتر کر اوپر آئے۔ یہاں پہلے سے فرش فروش ایک طرف کیا ہوا ہے، سپاہیوں کا پہرہ لگا ہوا ہے۔ اپنی مسند پر بیٹھ کے میلے کی سیر دیکھی؛ ناچ رنگ دیکھ سوار ہو گئے۔ شام تک سب میلے کے لوگ چنپت ہوئے۔ اب دیکھو پتوں اور چھلکوں کے ڈھیر، مکھیوں کی بِھنکار کے سوا کچھ بھی دکھائی دیتا ہے! یا تو وہ گہما گہمی تھی یا دیکھو اب کیا سناٹا ہو گیا۔ اب مقبرہ کیسا سائیں سائیں کرتا ہے، دیکھنے سے جی پریشان ہوتا ہے۔ لو صاحب سترھویں ہو چکی۔
مدار صاحب
جمادی الاول کے مہینے کو مدار کا مہینا کہتے ہیں۔ پہلی تاریخ ہوئی، قلعے کے نیچے مدار صاحب کی چھڑیاں کھڑی ہوئیں۔ دیکھو! شام کو چھیلب دار ڈھول بجاتے، مدار صاحب کی چھڑی لیے دیوان خاص میں آئے۔ بادشاہ برآمد ہوئے۔ مالیدوں کے خوان آئے۔ چھیلب دار نے پھولوں کی بدّھی مدار صاحب کے سامنے رکھی، نیاز ہوئی ؛ مالیدہ سب کو بٹ گیا، بدھی بادشاہ نے پہن لی۔
دیکھو! کیسا لمبا لہکا لہبرا([27]) آیا، کرکری تاش کا پھریرا ہے اور یہ چاندی کی کٹوری ہے، چھیلب دار کو دے کر رخصت کیا، یہ نشان بادشاہ کی طرف سے مدار صاحب کی درگاہ میں چڑھے گا۔
خواجہ صاحب کی چھڑیاں
جمادی الثانی، یہ خواجہ معین الدین کا مہینا کہلاتا ہے، چودھویں تاریخ سے قطب صاحب میں دور دور کی خلقت آکے جمع ہوئی، اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا بڑی دھوم سے عرس ہوتا ہے، یہاں سے اکٹھے ہو کر جو لوگ اجمیر شریف جاتے ہیں اس کو میدنی کہتے ہیں۔ رات کو حضرت قطب صاحب کی درگاہ میں ختم ہوا، صبح کو سولھویں تاریخ میدنی رخصت ہوئی۔ بادشاہ نے چاندنی کانشان تمامی کے پھریرے کا چڑھایا، تھوڑی دور جلوس کی سواری سے میدنی کو پہنچانے گئے۔ دیکھو جو لوگ اجمیر شریف گئے ہیں ان کے گھروں میں رات کو خواجہ صاحب کے گیت گائے جاتے ہیں۔
ایلو! اجمیر شریف سے لوگ پھر کر آئے، کنبے والوں نے دھوئے ہوئے تل اور چاول اور کھانڈ سینیوں میں لگا کر ان کو بھیجے، اس کو چاب کہتے ہیں۔ تیل ماش اور ٹکے تصدق کو جلیبیوں کے کونڈے، کپڑوں کے جوڑے خوانوں اور کشتیوں میں لگا کر انھوں نے وہاں کی سوغاتیں درگاہ کا صندل، صندل کی کنگھیاں، کنگھے، تسبیحاں، تھولی، جامدانیاں، جے پور کے چادرے، انگوچھے، رومال، چندرمان، کلیاں، چلمیں، کٹوری عطر سب کو دیا۔
رجب
اس مہینے کے پہلے یا دوسرے یا تیسرے یا چوتھے جمعہ کو مُردوں کی تبارک ہوتی ہے۔ دیکھو! گھی، کھانڈ اور میدے کی میٹھی روٹیاں، اوپر سونف اور خشخاش لگا کے تندور سے پکوائیں۔ سورۂ تبارک جو قرآن شریف میں ہے، چالیس دفعہ پڑھوائی، ایک ستھری چوکی پر دستر خوان بچھایا، اُس پر روٹیاں رکھیں۔ کوری بدھنیوں میں پانی بھر کر اور جوڑا، تسبیح، مسواک، جانماز، کنگھی، جوتی کشتی میں لگا کے پاس رکھا۔ اگر سوز لوبان روشن کیا، نیاز ہوئی؛ بدھنیاں اور جوڑا اور چوتھائی روٹیاں مسجدوں میں بھیج دیں، باقی سب کو تقسیم ہو گئیں؛ اس کو “تَبارک” کہتے ہیں۔ اسی مہینے میں حضرت جلال بخاری کے کونڈے ہوتے ہیں۔ دیکھو بڑے بڑے کونڈے مٹی کے آئے؛ پلاؤ، زردہ، کھیر اُن میں بھر کر نیاز دے کر لٹوا دیے۔
شب برات
اس مہینے کی چودھویں تاریخ شاہ زادوں کے اُستاد لال سفید چمکتی ہوئی عیدیاں لکھ لکھ کر لائے، شاہ زادوں کو دیں۔
عیدی
آمد شب برات جہاں پر چراغ شد
بازار از شگفتن او صحن باغ شد
انار و پھلجڑی و ہوائی و مہتاب
گل ہائے بوستاں بہ ہمیں داغ داغ شد
استادوں کو عیدی کے اشرفی روپے ملے، مکتبوں میں چھٹی ہوئی۔ دیکھو! اب کوری کوری ٹھلیاں، آبخورے آئے، ایک بڑی سی چوکی پر دھو دھلا کر پانی بھر کر رکھے گئے۔ شیرمالیں اور میٹھے کی رکابیاں قابیں آئیں، اگر سوز میں لوبان روشن ہوا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت امیر حمزہؓ، حضرت فاطمہؓ، بڑبڑیڑے، بابر بادشاہ، اوت اور سب اپنے مُردوں کی جدا جدا قابوں، شیرمالوں، پانی کے آبخوروں پر، اور دودھ پیتے بچے جو مرے، اُن کی دودھ کے آبخوروں پر نیاز ہوئی۔ حضرت فاطمہ کی نیاز کا بیوی زنوں کو، بابر بادشاہ کی نیاز کا خاص اُن کی اولاد کو، باقی ہما شما کو بٹ گیا۔ تیسرے پہر کو آتش بازی شاہ زادوں اور شاہ زادیوں کو تقسیم ہوئی۔ دیکھو! رات کو بیٹوں کے ہاتھی بھوڈل پھرے ہوئے مٹی کے، اُن کی سونڈ اور سر پر چراغ بنے ہوئے؛ بیٹیوں کی ہڑیاں بنگلے کی صورت کی مٹی کی بنی ہوئیں، اوپر چراغ بنے ہوئے روشن ہوئیں۔ سب نے مبارک باد دی۔ تاشے باجے، نوبت خانے، روشن چوکی والیاں باجا بجانے لگیں۔ بڑی خوشی ہوئی، آتش بازی چھٹنے لگی۔
لو اب بادشاہ امام باڑے میں آئے۔ دیکھو! اپنے ہاتھ سے روشنی کی۔ کنگنی کی کھیر پک کے آئی، ایک چمچے میں لے کر پہلے ذرا سی آپ چکھی، پھر ایک ایک چمچا سب کو اپنے ہاتھ سے دیا؛ مجرا کرکے سب نے لے لیا۔ اپنی بیٹھک میں آئے، خاصہ کھایا، آرام کیا۔
رمضان
دیکھو! دو دن پہلے شتر سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ ابر بدلی کے سبب سے جو اُنتیسویں کو یہاں چاند نہ دکھائی دیا اور کہیں کسی گاؤں، قصبے یا پہاڑ پر کسی کو نظر آگیا تو سانڈنی سوار وہاں کے قاضی یا رئیس یا کسی معتبر آدمیوں کی گواہی لکھوا، مارا مار کرکے حضور میں آئے، چاند کی خبر پہنچائی۔ بادشاہ نے عالموں سے فتویٰ لے کر توپوں کا حکم دیا۔ گیارہ توپیں رمضان کے چاند کی چلیں۔ جو اُنتیسویں کو کہیں چاند نہ دکھائی دیا تو تیسویں کی شام کو توپیں چلیں۔ سب بیگماتیں، حرمیں، سُرتیں، ناموسیں، چپی والیاں، گائنیں، شاہ زادے، شاہ زادیاں مبارک باد کو آئیں۔ تاشے باجے، روشن چوکی، نوبت خانے والیاں مبارکباد بجانے لگیں۔ دیکھو! بادشاہ کے ہاں سے پنیر کی چکتیاں، مصری کے کوزے سب کو تقسیم ہوئے۔ لو دو گھڑی رات آئی، وہ عشا کی اذان ہوئی، دیوان خاص میں نماز کی تیاری ہوئی۔ باریدار نے عرض کیا: “کرامات! جماعت تیار ہے”۔ بادشاہ بر آمد ہوئے، جماعت سے نماز پڑھی، ڈیڑھ سپارہ قرآن شریف کا تراویحوں میں سنا؛ پھر بیٹھک میں آئے، کچھ بات چیت کی، بھنڈا نوش کر پلنگ پر آرام کیا۔ ڈیڑھ پہر رات باقی رہی، اندر محل، باھر نقار خانے اور جامع مسجد میں پہلا ڈنکا سحری کا شروع ہوا، سحری کے خاصے کی تیاری ہونے لگی۔ دوسرے ڈنکے پر دستر خوان چننا شروع ہوا۔ تیسرے ڈنکے پر بادشاہ نے سحری کا خاصہ کھایا، بھنڈا نوش فرمایا۔ لو اب چار گھڑی رات باقی رہی۔ وہ صبح کی توپ چلی؛ کُلّی کی، آب حیات پیا۔ اب کھانا پینا موقوف ہوا، روزے کی نیت کی۔ صبح ہوئی، نماز پڑھی، درگاہ میں جا کر سلام کر، باہر ہوا خوری کو سوار ہوئے۔ سواری پھر کر آئی، محل میں لوگوں کی کچھ عرض و معروض سنی، دوپہر کو سکھ کیا۔ تیسرا پہر ہوا، محل میں تندور گرم ہوا۔ بادشاہ کے لیے دیکھو ایک سنہری کرسی شیر کے سے پایوں کی، پشت پر سنہری پھول پتے کٹے ہوئے، مخمل کا گبّہ نرم نرم اس پر بچھا ہوا، تندور کے سامنے لگی ہوئی ہے۔ بیگماتیں، حرمیں، شاہ زادیاں اپنے ہاتھ سے بیسنی، روغنی، میٹھی روٹیاں، کلچے تندور میں لگا رہی ہیں، بادشاہ بیٹھے سیر دیکھ رہے ہیں۔ کسی کی روٹی اچھی لال لال اتری، وہ کیا خوش ہو رہی ہے۔ کسی کی جل گئی، کسی کی تندور میں گر پڑی، کسی کی ادھ کچری رہ گئی؛ دیکھو ان پر کیا قہقہے لگ رہے ہیں۔ بیسیوں لوہے کے چولھے گرم ہیں، پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں، اپنی اپنی بھاوَن کی چیزیں آپ پکا رہی ہیں۔ دیکھو! تپتّی، نوینے، میتھی کا ساگ ہے، کہیں ہری مرچیں، موتیا کے پھولوں کے نیچے کی سبز سبز ڈنڈیاں، بینگن کا دُلمہ، گھئے کی تلاجی، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال ہے۔ کہیں بڑے، پھلکیاں، پوریاں، شامی کباب تلے جاتے ہیں ۔ کہیں سیخوں کے کباب، حسینی کباب، تکّوں کے کباب، نان پاؤ کے ٹکڑے، گاجر کا لچھا اور طرح طرح کی چیزیں پک رہی ہیں ؛ روزے بہلا رہی ہیں۔ ایلو! کوئی روزے خور سامنے آگئی؛ دیکھو اس کا کیا لکھا ہو رہا ہے۔ کوئی کہتی ہے “روزے خور خدا کے چور، ہاتھ میں بیڑا منہ میں کیڑا”۔ کوئی کہتی ہے “روزے خوروں پہ کیا تباہی ہے، ٹوٹی جوتی پھٹی رضائی ہے”۔ آخر یہاں تک اس کا ناک میں دم کیا کہ کھسیانی ہو کر سامنے سے چلی گئی۔
ایلو وہ کسی کا روزہ اچھلا؛ ہیں! اے بی یہ کیا ہوا ؟
کسی لونڈی باندی سے کچھ کام بگڑ گیا تھا؛ آپ ہی سارے برتن توڑ پھوڑ، پکتی ہنڈیاں چولھے پر سے پھینک پھنکا، آپ ہی منہ تھوتھائے، اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑی ہیں ؛ منہ سے بولی نہ سر سے کھیلیں۔ ایک آتی ہے سمجھاتی ہے، دوسری آتی ہے مناتی ہے: “بوا خدا کا روزہ رکھو، بندوں پہ ظلم توڑو ؛ ایسے روزے سے کیا فائدہ؟ کتے نے نہ فاقہ کیا تم نے کیا”۔ ایک دفعہ ہی تیکھی ہوکر جھلا کے بولیں: “بس بی بس! اپنی زبان کو لگام دو۔ اپنی کرنی اپنی بھرنی۔ تم بڑی خدا ترس ہو ؛ کھڑی جنت میں جاؤ گی تو اپنے واسطے، ہم دوزخ کا کندہ بنیں گے تو اپنے واسطے”۔ “چلو بی چلو، اس چنڈالنی کے منہ نہ لگو۔ اس کے سر پر تو آج شیطان چڑھا ہے۔ تھو تھو، چھائیں پھوئیں؛ خدا ایسے کے پرچھاویں سے بچائے!”
دیکھو! مالنیں دکانیں لگائے محل میں پھولوں کے کنٹھے گونتھ رہی ہیں۔ سب فصل کے میوے ترکاریاں بیچ رہی ہیں، ایک ایک پیسے کی چیز کے چار چار لے رہی ہیں۔ دہی بڑے، فالودے، پوریوں والیاں سر پر رکھے بیچتی پھرتی ہیں۔ لو عصر کا وقت ہوا، نمازیں پڑھ پڑھ کے روزے کشائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دیکھو! ایک طرف گلاس، طشتریاں، رکابیاں، پیالے، پیالیاں، رنگ برنگ کی چینی کی اور چمچے سینیوں میں لگے ہوئے رکھے ہیں۔ ایک طرف کوری کوری جھجریاں اور صراحیاں، کاغذی آبخورے، اور پیالے چھوٹے چھوٹے لٹکنوں پر رکھے ہیں، اوپر صافیاں پڑی ہوئی ہیں۔ سب ترکاریاں میوے وغیرہ آ کر رکھے گئے۔ سب کو چھیل بنا، کوئی سادی، کسی میں نون مرچیں لگا، مونگ کی دال دھو دھلا، کچھ کچی، کچھ اُبلی، کچھ لال مرچوں کی، کچھ کالی مرچوں کی بنا بنو کر طشتریوں اور رکابیوں میں لگائیں۔ رنگتروں کو چھیل، کھانڈ ملا، راحت جان بنا اور کیلے کے قتلے، پھوٹوں کا قیمہ کر کے کھانڈ ملا کر پیالوں میں رکھا۔ تلی ہوئی مونگ، چنے کی دال، بیسن کی سویّاں، نکتیاں، بھنے ہوئے پستے بادام نون مرچ لگے ہوئے، بادام پستوں کے نُقل، چھوارے، کشمش وغیرہ طشتریوں میں رکھے؛ انگور، انار، فالسے، تخم ریحاں، فالودے، میوے کا شربت، لیموں کا آبشورہ ملا کر گلاسوں میں رکھا۔ دیکھو اب اپنے ہاتھ کا سالن وغیرہ اور روزہ کشائی آپس میں بٹ رہی ہے۔ میں نے تم کو بھیجی ہے، تم نے مجھ کو بھیجی۔
لو اب روزے کا وقت قریب ہے۔ کوئی نڈھال پڑی ہے، کوئی کہتی ہے: “اچھی! پیاس کے مارے حلق میں کانٹے پڑ گئے”۔ کوئی کہتی ہے: “ہائے! بھوک کے مارے کلیجا ٹوٹا جاتا ہے، روزے میں کتنی دیر ہے؟” سب کے کان توپ پر لگے ہوئے ہیں، ایک ایک پل گن گن کر کاٹ رہی ہیں۔ ہرکاروں کی ڈاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ایلو! وہ سورج غروب ہو گیا، مشرق سے سیاہی اٹھی، روزے کا وقت ہوا؛ بادشاہ نے توپ کا حکم دیا، ہرکاروں نے جھنڈیاں ہلائیں، وہ روزے کی توپ چلی، دھائیں۔ اذانیں ہونے لگیں۔ اس وقت کی خوشی دیکھو، کیسی توپ کی آواز سے چونچال ہو گئیں۔ پہلے ذرا سے آب زم زم یا مکّے کی کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولا، پھر شربت کے گلاس ہاتھ میں لے چمچوں سے شربت پیا۔ کسی نے پیاس کی بے تابی میں گلاس ہی منہ سے لگا غٹ غٹ پی لیا۔ ذرا ذرا سی دال ترکاری میوہ وغیرہ چکھا، پھر نماز پڑھ پڑھ کے گلوریاں کھائیں۔ سارا رمضان اسی چہل پہل میں گذر گیا۔
الوداع
آخری جمعہ کو الوداع کی نماز کی تیاری ہوئی۔ بادشاہ جلوس سے سوار ہوئے، جامع مسجد کی سیڑھیوں کے پاس کہاروں نے ہوادار ہاتھی کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ ہوا دار میں سوار ہو جامع مسجد میں آئے، حوض کے پاس آ کر ہوا دار میں سے اترے۔ آگے خاص بردار، نقیب، چوبدار ہٹو بڑھو کرتے، پیچھے شاہ زادے، امیر امرا ادب قاعدے سے اندر آئے۔ دیکھو! امام کے پیچھے بادشاہ کا مصلی، بائیں طرف ولی عہد کا، دائیں طرف اور شاہزادوں کے مصلے لگے ہوئے ہیں۔ بادشاہ، ولی عہد اور شاہ زادے اپنے اپنے مصلوں پر آکر بیٹھے۔ امام جی کو خطبے کا حکم ہوا؛ امام جی منبر پر کھڑے ہوئے؛ قور خانے کے داروغہ نے تلوار امام جی کے گلے میں ڈال دی۔ قبضے پر ہاتھ رکھ کر امام جی نے خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ جب خطبہ پڑھ چکے اور اَور بادشاہوں کے نام لے چکے، جس وقت بادشاہ وقت کا نام آیا، توشے خانے کے داروغہ کو حکم ہوا، اس نے امام جی کو خلعت پہنایا۔ مکبّر پر تکبیر ہوئی، امام نے نیت باندھی، سب نے امام کے ساتھ نیت باندھ لی۔ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا، دعا مانگی۔ سنتیں پڑھ کر بادشاہ آثار شریف میں آئے، زیارت کی۔ پھر سوار ہو کر قلعے میں آئے۔ اُنتیسویں تاریخ ہوئی، سانڈنی سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ دیکھو سب کی آنکھیں آسمان پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر چاند دیکھ لیا یا کہیں سے گواہی شاہدی آ گئی تو بڑی ہی خوشی ہوئی۔ اُوہو بھئی جوان عید ہوئی۔ نقار خانے کے دروازے کے سامنے حوض پر پچیس توپیں عید کے چاند کی دھنادھن چلیں۔ مبارک سلامت ہونےلگی، شادیانے بجنے لگے۔ نہیں تو پھر تیسویں کو یہ رسمیں ہوئیں۔
عید الفطر
رات کو توپیں، ڈیرے خیمے، فرش فروش عیدگاہ روانہ ہوا۔ سواری کا حکم ہوا، ہاتھی رنگے گئے۔ صبح کو بادشاہ نے حمام کیا، پوشاک بدلی، جواہر لگایا۔ خاصے والیوں نے جلدی سے دستر خوان بچھا سویاں، دودھ، اولے، بتاشے، چھوارے، خشکا، کھڑی مسور کی دال اس پر لگا دی۔ بادشاہ نے نیاز دی، ذرا ذرا سا چکھ کر کلی کی۔ باہر بر آمد ہوئے، جسولنی نے خبر داری بولی، باہر تُرئی ہوئی، سب جلوس قاعدے سے کھڑا ہوگیا۔ فوجدار خان نے ہاتھی بٹھا دیا، کہاروں نے ہوا دار تلووں کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ ہودے میں سوار ہوئے، دیوان عام میں سواری آئی۔ احتشام توپ خانے کی توپوں کی اکیس آوازیں ہوئیں۔ قلعے کے دروازے پر پلٹنوں نے سلامی اتاری، اکیس توپیں چلیں۔ عیدگاہ کے دروازے پر سواری پہنچی، جلوس دو طرفہ کھڑا ہوگیا، سلامی اتاری، توپیں سلامی کی چلنے لگیں۔ دروازے پر سے بادشاہ ہوادار میں اور ولی عہد نالکی میں اور سب پیدل عید گاہ کے اندر آئے۔ چبوترے پر سے اتر کر خیمے میں اپنے مصلوں پر کھڑے ہو گئے۔ مکبر پر تکبیر ہوئی، سب نمازیوں نے صفیں درست کیں۔ امام جی کے ساتھ سب نے نیت باندھی۔ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا، سب کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ، ولى عہد، شاہ زادے اپنے مصلوں پر بیٹھے رہے۔ امام جی کو خطبہ کا حکم ہوا، قور خانے کے داروغہ نے امام جی کے گلے میں کلابتونی پرتلا اور تلوار ڈالی۔ امام جی نے منبر پر کھڑے ہو کر تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر خطبہ پڑھا ۔ جب بادشاہ کا نام آیا، توشہ خانے کے داروغہ نے امام جی کو خلعت پہنایا۔ دعا مانگی، خطبے کی ایک توپ چلی۔
اب دھوپ چڑھ گئی تھی، بادشاہ نگڈمبر میں سوار ہوئے ؛ دیوان خاص میں آئے، تخت طاؤس پر بیٹھ کر دربار کیا، نذریں لیں۔ پھول کے طرے اور ہار سب کو مرحمت ہوئے۔ محل میں داخل ہوئے، چاندی کے تخت پر بیٹھ کے محل کی نذریں لیں، خاصہ کھایا، سکھ کیا۔
عید الاضحىٰ
ذی الحجہ کے مہینے کی دسویں تاریخ صبح کو جلوس سے سوار ہوئے، عید گاہ میں آئے، دوگانہ ادا کیا۔ دیکھو جو جو باتیں عید الفطر میں ہوئی تھیں، وہی سب اس میں ہوئیں مگر یہ بات اس میں زیادہ ہے کہ عید گاہ کے اندر جنوب کی طرف ایک بڑا سا خیمہ کھڑا ہے، بیچوں بیچ میں ایک چبوترہ بنا ہوا ہے، اس پر بادشاہ کی مسند لگی۔ پیچھے دو خیمے زنا نے کھڑے ہوئے ہیں، ارد گرد بڑے بڑے سرانچے کھچے ہوئے ہیں۔ ایک اونٹ بانات کی جھول پڑی ہوئی، سینہ پر چونے کا نشان کیا ہوا، رسوں میں جکڑا ہوا، فراش پکڑے کھڑے ہیں۔ دیکھو اب اونٹ کی قربانی ہوتی ہے۔ بادشاہ اونٹ کے پاس آئے، فراشوں نے ایک بڑی سی چادر بادشاہ اور اونٹ کے بیچ میں تان لی۔ قورخانے کے داروغہ نے بادشاہ کے ہاتھ میں برچھی دی۔ قاضی نے اونٹ کی قربانی کی دعا پڑھوائی۔ بادشاہ نے دعا پڑھ کر چونے کے نشان پر اونٹ کے تاک کر برچھی ماری۔ قاضی نے اسے ذبح کیا۔ بادشاہ سوار ہو کر خیمے کی سہ دری کے پاس آئے۔ ایلو! یہاں ایک دنبہ منہدی میں رنگا ہوا کھڑا ہے۔ بادشاہ نے اس کی قربانی کی، خیمے میں آئے، مسند پر بیٹھے۔ بائیں طرف ولی عہد، دائیں طرف اور شہ زادے بیٹھ گئے۔ امیر امرا سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ خاصے والوں نے جھٹ پٹ دسترخوان بچھا اونٹ اور دنبے کی کلیجی کے کباب اور شیر مالیں اس پر لگا دیں۔ بادشاہ نے پہلے ایک ٹکڑا شیرمال کا اور ذرا سا کباب آپ منہ میں ڈالا۔ پھر ولی عہد اور شاہ زادوں اور معزز امیروں کو جو حاضر تھے، کباب اور شیر مالیں اپنے ہاتھ سے دیں۔ سب نے مجرا کر کے لیں۔ دربار برخواست ہوا۔ خیمے میں زنانہ ہو گیا۔ بیگماتیں آئیں۔ بادشاہ نے خاصہ کھایا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کے سوار ہوئے۔ دیوان خاص اور محل میں آکے وہی عید کی طرح دربار کیا۔ نذریں لیں۔ قربانی کے بکرے حیثیت کے موافق سب کے ہاں بھیجے گئے۔
سلونو
اس رسم کا ذکر یوں سنا ہے کہ عزیز الدین عالمگیر ثانی بادشاہ سے ان کے وزیر غازی الدین خاں کو دشمنی تھی۔ ایک دن ڈھکوسلا بنا کر عرض کیا کہ حضور! پرانے کوٹلے میں ایک فقیر صاحب کمال آئے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا اچھا بلاؤ۔ اس نے کہا بہت خوب۔ دوسرے دن پرانے کوٹلے میں ایک موقع کا مکان تجویز کر دو آدمی خنجر لے کر وہاں چھپواں کھڑے کردیے اور بادشاہ سے جھوٹ موٹ آکر عرض کیا کہ کرامات! فقیر صاحب کہتے ہیں ہم آپ بادشاہ ہیں؛ بادشاہ کو غرض ہے تو آپ ہمارے پاس چلے آئیں۔ بادشاہ کو فقیروں سے بہت اعتقاد تھا؛ فرمایا: “ہم آپ چلتے ہیں”۔ جب کوٹلے میں پہنچے، وزیر نے عرض کیا: “جہاں پناہ! فقیر صاحب یہ بھیڑ بھاڑ دیکھ کر ناراض ہوں گے”، بادشاہ نے حکم دیا: “اچھا سب یہیں ٹھہریں”۔بادشاہ تن تنہا وزیر کے ساتھ اندر گئے، جاتے ہی ان دونوں نابکاروں نے بادشاہ کے خنجریں بھونک دیں اور کام تمام کرکے لاش کو دریا کی طرف نیچے پھینک دیا، آپ وہاں سے چنپت بنے۔ وزیر باہر آیا، لوگوں نے پوچھا: “حضور کہاں ہے؟” کہا: “فقیر صاحب پاس بیٹھے ہیں؛ مجھ سے خواب گاہ میں سے ایک کاغذ منگوایاہے، وہ لینے جاتاہوں۔ تم سب یہیں کھڑے رہو، میں ابھی الٹے پاؤں آتاہوں”۔ یہ فقرہ گھڑ کے یہ بھی وہاں سے سٹک گیا۔ اُدھر دریا کی طرف سے کوئی ہندنی چلی آتی تھی۔ کہیں اس کی نگاہ پڑی کہ کسی کی لاش پڑی ہے؛ پاس آکر دیکھا تو پہچانا کہ ارے یہ تو ہمارے بادشاہ ہیں۔ ہے ہے کس ظلمی نے یہ کام کیا؟ وہیں بیٹھ گئی۔ جب بہت دیر ہوگئی تو یہ لوگ گھبرائے اور درّانہ اندر گھس گئے۔وہاں دیکھیں تو بادشاہ نہ فقیر، ادھر ادھر دیکھنے بھالنے لگے۔ نیچے جھک کر جو دیکھیں تو بادشاہ قتل ہوئے پڑے ہیں اور ایک ہندنی پاس بیٹھی نگہبانی کررہی ہے۔ لاش کو اٹھاکر لائے، نہلا دھلا ہمایوں کے مقبرے میں دفن کیا۔ شاہ عالم بادشاہ نے اس ہندنی کی خیر خواہی پر کہ اس نے میرے باپ کی لاش کی رکھوالی کی، اس کو اپنی بہن بنایا اور بہت سا کچھ اس کو دیا۔ بہنوں کی طرح ساری رسمیں اس سے برتتے رہے۔ وہ بھی بھائی سمجھ کر اپنی رسم کے موافق سلونو کے تہوار کو بہت سی مٹھائی تھالوں میں لے کر آتی تھی، بادشاہ اس کو اشرفیاں اور روپے دیتے تھے۔ شاہ عالم کے بعد اکبر شاہ نے اس سے اور بہادر شاہ نے اس کی اولاد سے یہ رسم نباہی۔
دسہرہ
دسہرے کے دن بادشاہ نے دربار کیا۔ دیکھو! پہلے ایک نیل کنٹھ بادشاہ کے سامنے اڑایا۔ ایلو! وہ بازخانے کا داروغہ باز اور شکرا لے کر آیا۔ بادشاہ نے باز کو لے کر ہاتھ پر بٹھایا۔ لو دربار برخواست ہوا۔ تیسرے پہر کو اصطبل خاص کا داروغہ خاص گھوڑوں کو منہدی سے رنگ رنگا، رنگ برنگ کی ان پر نقاشی کر، سونے روپے کے ساز لگا کر جھروکوں کے نیچے لایا، بادشاہ نے گھوڑوں کا ملاحظہ کیا۔ داروغہ کو انعام دے کر رخصت کیا۔
دیوالی
لو آج پہلا دیا ہے۔ دیکھو محل میں سب کی آمد و رفت بند ہوگئی۔ سقنیاں، دھوبنیں، مالنیں، کہاریاں، حلال خوریاں تین دن تک محل کے باہر نہ نکلنے پائیں گی اور نہ کوئی ثابت ترکاری محل میں آنے پائے گی۔ بینگن، مولی، کدو، گاجر وغیرہ اگر کسی نے منگائی بھی تو باہر سے ترشی ہوئی۔ اس لیے کہ کوئی جادو نہ کرے۔ تیسرے دیے کو دیکھو، آج بادشاہ سونے چاندی میں تلیں گے۔ ایک بڑی سی ترازو کھڑی ہوئی۔ ایک طرف پلڑے میں بادشاہ بیٹھے، دوسری طرف چاندی سونا وغیرہ بادشاہ کے برابر تول کے محتاجوں کو بانٹ دیا۔ ایک بھینسا، کالا کمبل، کڑوا تیل، ست نجا، سونا چاندی نقد وغیرہ بادشاہ پر سے تصدق ہوا۔ قلعے کی برجوں کی روشنی کا حکم ہوا۔ کھیلیں، بتاشے، کھانڈ اور مٹی کے کھلونے، ہٹڑیاں اور ہاتھی مٹی کے اور گنوں کی پھاندیاں، نیبو کہاریاں سر پر رکھے جسولنیاں ان کے ساتھ ساتھ گھر بہ گھر بانٹتی پھرتی ہیں۔ رات کو بیٹوں کے ہاتھی، بیٹیوں کی ہٹڑیاں کھیلوں بتاشوں سے بھری گئیں۔ اُن کے آگے روشنی ہوئی، نوبت، روشن چوکی اور باجا بجنے لگا۔ چاروں کونوں میں ایک ایک گنا کھڑا کیا، نیبوؤں میں ڈورے ڈال کر اُن میں لٹکا دیے۔ صبح کو وہ گنے اور نیبو حلال خوری کو دے دیے۔ رتھ بان بیلوں کو بنا سنوار، پاؤں میں منہدی لگا، رنگ برنگ کی اُس پر نقاشی کر، سینگوں پر قلعی اور سنگوڑیاں، ہاتھوں پر کارچوبی پٹے اور سنکھ، گلوں میں گھنگرو، اوپر کارچوبی باناتی جھولیں پڑی ہوئیں، چھم چھم کرتے چلے آتے ہیں۔ بیلوں کو دکھا، انعام اکرام لے اپنے کارخانوں میں آئے۔ دوالی ہو چکی۔
ہولی
دیکھو! ہولی میں جتنے سانگ شہر میں بنے، سب بادشاہ کے جھروکوں کے نیچے آئے، انعام لے کر رخصت ہوئے۔
جھروکوں کا زنانہ
دیکھو! بادشاہی جھروکوں کے نیچے باغ ہے، باغ کے نیچے دریا بہتا ہے، دریا کے کنارے خیمے کھڑے ہوئے ہیں۔ بیچ میں کشتیاں چھوٹیں، کشتیوں میں بھی خیمے پڑے۔ زنانے کا حکم ہوا، دور دور تک ریتی میں پہرے لگ گئے کہ غیر کی بھنبھنی بھی نہ دکھائی دے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں نے دکانیں لگائیں۔ خضری دروازے سے اتر کر شاہ زادے اور شاہ زادیاں محل، نو محلے کے سلاطین اور ان کی بیگماتیں خیموں میں آ کر جمع ہوئیں۔ ایلو!وہ بادشاہ کی سواری آئی۔ دیکھنا کہاریاں کیا بے تکان ہوا دار کندھوں پر لیے چلی آتی ہیں۔ ساتھ ساتھ خوجے مورچھل کرتے بھنڈا ہاتھ میں لیے، اور حبشنیاں، ترکنیاں وغیرہ چلی آتی ہیں۔ وہ جسولنی نے آواز دی “خبردار ہو!” ایلو! سب کھڑے ہوگئے، مجرا کیا۔ بادشاہ جہاں نما میں آکے بیٹھے، باغ لوٹنے کا حکم دیا۔
اہاہا! دیکھنا کیا سر پر پاؤں رکھ کے دوڑیں، جیسے ٹڈی دل اُمنڈ کر آتا ہے۔ دم بھر میں سارے باغ کو نوچ کھسوٹ ڈالا۔ کسی نے نیبو کھٹوں کی جھولیاں بھر لیں، کوئی کیلے کی گیل پکڑے کھڑی ہے، ایک ایک کو کھڑی چیختی ہے “اچھی بُوا آئیو، یہ نگوڑی شیطان کی آنت تڑوائیو”۔ بھلا اُس لُٹّس اور لوٹم لاٹ میں کون کسی کی سنتا ہے؟ کوئی آموں کے درختوں پر پتھریں مار رہی ہے، کوئی چاقو سروتوں سے بیٹھی گنے کاٹ رہی ہے۔ لونڈیاں باندیاں جو ذرا دل چلی تھیں، جھپ جھپ درختوں پر چڑھ گئیں، توڑ توڑ کر وہیں بکر بکر کھانے لگیں۔
اہاہا! دیکھنا کوئی تو گَد سے نیچے گر پڑی، کسی کے کانٹا کسی کے کُھڑینچ لگی، بھوں بھوں بیٹھی رو رہی ہیں۔ “ووئی جھلسا لگے اس باغ کو، مجھ سر مونڈی کے تو کچھ بھی ہاتھ نہ آیا، مفت میں لہولہان ہوئی”۔ لو باغ لٹ چکا۔
دیکھو! نیبو، نارنگی، انار، کھٹوں وغیرہ کی جھولیاں بھرے، ہاتھوں میں گنے لیے خوش ہوتی گرتی پڑتی چلی آتی ہیں۔ کوئی بے چاری جو خالی ہاتھ ہے تو کیا خفت کے مارے کتراتی کنیاتی، آنکھ چرائے، خفیف خفیف، اپنا سا منہ لیے چلی آتی ہے۔ سب اُس کو چھیڑتی نکو بناتی چلی آتی ہیں۔ بس خفیف، دیکھو ہم یہ جھولیاں بھر بھر کر لائے، لو ہم سے لے لو، تم اپنے جی میں نہ کڑھو۔ وہ کہتی ہیں “بُوا تمھارا تمھی کو مبارک رہے!بھاڑ میں پڑو؛ کیا موئی چار کوڑی کی چیز کے لیے اپنا منہ ہاتھ کانٹوں سے نچواتی۔ اپنی ایڑی چوٹی پر سے صدقہ کروں۔ ایسی کیا نعمت کی ماں کا کلیجا تھا”۔ “اہا ہا! سچ کہتی ہو! تمھاری خفت ہماری سر آنکھوں پر، اچھی یہ بتاؤ پھر تم گئیں کیوں تھیں؛ ایک ایک کا منھ تکنے؟ بوا تمھاری وہی لومڑی کی کہاوت ہے؛ انگور کے درخت کے نیچے آئی، خوشے لٹکے ہوئے دیکھ کر بہت للچائی، بہت سی اُچھلی کودی؛ جب کچھ نہ ہاتھ آیا، یہ کہتی چلی گئی، ابھی کچے ہیں، کون دانت کھٹے کرے”۔
لو اب خیموں میں آ کر ناچ رنگ دیکھنے لگیں، ناؤ میں بیٹھ کر دریا کی سیر کرنے لگیں، دریا کے کنارے آپس میں چھینٹم چھانٹا لڑنے لگیں۔ دیکھو کسی کا پاؤں کیچڑ میں پھسل گیا، ساری لت پت ہو گئی۔ کوئی دلدل میں پھنس گئی۔ ان پر کیسے قہقہے پڑ رہے ہیں۔ وہ کھسیانی اور رُنکّھی ہو ہو کر ایک ایک کو چیختی اور پکارتی ہیں: “اے بی امکی! اے بی ڈھمکی! اچھی ادھر آئیو؛ ذرا ہمیں اس کیچڑ میں سے نکالیو”۔ کوئی تو جان بوجھ کر آنا کانی دیتی ہے، کوئی کہتی ہے: “بوا پھٹکی پڑے تمھارے ڈھنگوں پر! اچھی کیچڑ میں کیوں جا پھنسیں۔ اللہ رے تمھارا موٹا دیدہ! دلدل میں جا کودیں۔ سچ مچ دریا کو دیکھ کر آنکھیں پھٹ گئیں یا دیدے پتھرا گئے”۔ غرض خوب سی بولیاں ٹھٹھولیاں مار کر اُن کو نکالا۔ لو اب پنکھے کا وقت آیا؛ بادشاہ کو گلابی پوشاک پہنائی اور سب نے سر سے پاؤں تک گلابی کپڑے پہنے۔ جدھر دیکھو گلابی پوش دکھائی دیتے ہیں۔ دریا کے کنارے گویا گلابی باغ کھل گیا۔ سب سلاطینوں کے گلابی کپڑے، گلابی پگڑیاں، کندھوں پر بندوقیں، گلے میں پرتلے، کمر میں تلواریں ہیں۔ کوئی صوبہ دار، جمعدار، دفعدار، نشان بردار، کوئی تاشے باجے والا، کوئی نقیب بن کر اپنی پلٹن جمائے کھڑے ہیں۔ اوہو! وہ چاندی کا پنکھا مہتاب باغ میں سے اُٹھ کر دھوم سے آیا۔ سلاطینوں کی پلٹن سلامی اُتار پنکھے کے آگے ہوئی۔ اُس کے پیچھے تاشے باجے اور روشن چوکی والیاں چلیں۔ ان کے پیچھے ہوادار میں بادشاہ اور شاہ زادے، شاہ زادیاں اور سلاطینوں کی بیگماتیں تخت کے ارد گرد پنکھے کے ساتھ چلیں، درگاہ میں جا کے پنکھا چڑھا دیا۔ بادشاہ اپنی بیٹھک میں آئے اور سب اپنے اپنے گھر گئے۔
باغ کا زنانہ
بادشاہ کے موتی محل کے آگے ایک بہت بڑا باغ ہے، حیات بخش اس کا نام ہے۔ بیچوں بیچ میں ساٹھ گز سے ساٹھ گز چوکور حوض ہے۔ حوض میں جل محل ہے۔ شمال اور جنوب کو آمنے سامنے ساون بھادوں دو مکان سر سے پاؤں تک سنگ مرمر کے ہیں۔ اُن کے بیچ میں چھوٹے چھوٹے حوض ہیں۔ حوض میں پانی کی چادریں گرتی ہیں۔ چاروں طرف لال پتھر کی بڑی بڑی چار نہریں ہیں، اُن میں پانی جاری ہے۔ نہروں کے گرد لال پتھر کی گل کاری کی کیاریاں، کیاریوں میں گیندا، گل منہدی، گل نورنگ، شبّو، زنبق، گل طرہ، سورج مکھی وغیرہ کھل رہا ہے۔ موتیا، چنبیلی، جوئی، رائے بیل، گلاب، سیوتی، مد مالتی، مولسری کے پھولوں سے سارا باغ مہک رہا ہے۔ بلبلیں چہک رہی ہیں، سبزہ لہک رہا ہے۔ دیکھو! آم شہد کوزہ، بتاشہ، بادشاہ پسند، محمد شاہی، لڈو وغیرہ اور انار، امرود، جامن، رنگترہ، نارنگی، چکوترہ، کھٹا، نیبو، انجیر، شہتوت، بہدانہ، فالسہ، کھرنی، آڑو، شفتالو، آلوچہ، سیب، انگور، ناشپاتی، کمرک، بیری، کٹھل، بڑھل، پاکھل، ککروندہ وغیرہ کے درخت پھل پھولوں میں لدے ہوئے جھوم رہے ہیں، مینہ کا جھمکا لگ رہا ہے، مور جھنگار رہے ہیں، پپیہا پیہو پیہو کر رہا ہے، کویل کوک رہی ہے۔ ایلو! وہ باغ کا زنانہ ہوا اور حکم ہوا کہ سر سے پاؤں تک سب لال جوڑے پہن کر آئیں۔ دیکھو سب نے لال جوڑے رنگوائے، مارا مار کر کے اُن پر مصالحہ([28]) ٹکوائے۔ باغ میں خیمے کھڑے ہوئے، حوض کے چوگرد لکڑیوں کی پاڑیں بندھیں، اُن پر فرش ہوا۔ ایک طرف بادشاہ کی جہاں نما([29]) کھڑی ہوئی۔ حوض میں نواڑے چھوٹے، دکانیں لگیں؛ مالنیں، پنواڑنیں اور ترکاری، میوے، گوٹے کناری، کپڑے والیاں قرینے قرینے سے بیٹھی ہیں۔ بڑے والیاں بڑے اور پوریاں پھلکیاں تل رہی ہیں، کبابنیں کباب لگا رہی ہیں، دہی بڑے والیاں دہی بڑے بیچتی پھرتی ہیں، بساطی اور سادہ کاروں کے لڑکے طرح طرح کا اسباب اور انگوٹھیاں چھلے لیے بیٹھے ہیں، حلوائیوں کے چھوکرے پوریاں کچوریاں مٹھائیاں بیچ رہے ہیں۔
اہا ہا! ذرا بچھیرا پلٹنوں کو تو دیکھو، کیا چھوٹے چھوٹے لڑکے تلنگوں اور نجیبوں کی سی وردیاں پہنے بندوق توسدان لگائے، قطار باندھے برابر قدم سے قدم ملائے چلے آتے ہیں۔ ایلو! وہ مُٹکنا سی توپیں ننھے ننھے گولنداز، نیلی وردیاں پہنے توپیں کھینچے لیے آتے ہیں۔ جا بجا بچھیرا پلٹنوں کے پہرے لگ گئے، توپیں الگ ایک جائے کھڑی ہو گئیں۔ لو باغ کی تیاری ہو چکی۔ اب بیگماتیں اور شاہ زادیاں آنی شروع ہوئیں۔ لال لال چُوچُہاتے جوڑے جھمجھماتے پہنے ہوئے، سونے میں پیلی، موتیوں میں سفید چھم چھم کرتی چلی آتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اَنّا، مغلانیاں،مانی،ددا، چھو چھو،ہپّا، نوکریں، چاکریں، لونڈیاں، باندیاں، ہاتھوں چھاؤں اللہ بسم اللہ کرتی صدقے قربان ہوتی چلی آتی ہیں۔ دیکھنا، بلا لوں! صدقے گئی! واری گئی! بیچ بیچ میں چلو، سفید چادر اوڑھ لو۔ اس چھتےمیں چوٹی والا رہتا ہےاور رسّی کا بھی ڈر ہے۔دور پار! شیطان کے کان بہرے! کسی کا کہیں سایہ جھپیٹا نہ ہو جائے تو یہ بوڑھا چونڈا کورے استرے سے منڈ جائے۔ جو کسی نے بناؤ کو ٹوکا تو قہر آگیا؛انا، مانی، ددا پنجے جھاڑ کے اس کے پیچھے چمٹ گئیں: “حَف تمھاری نظر! تمھارے دیدوں! رائی نون دیکھو، تمھاری ایڑی میں گو لگا۔ اچھی دیکھیو،اُس کلجِبّی نے ایسا ہونسا، مجھے تو آج اپنی بچی کا پنڈا کچھ پھیکا پھیکا دکھائی دیتا ہے، ذرا اس کلھیاری کے پاؤں تلے کی مٹی چولھے میں جلائیو۔
دیکھو اب باغ میں چاروں طرف گانا بجانا اور آپس میں ہمجولیاں مل کر جھولوں اور ہنڈولوں میں جھول رہی ہیں، ایک ایک پر بولیاں ٹھٹھولیاں مار رہی ہیں۔آج تو اس لال جوڑے پر چوٹ ہے۔پھوٹ بوا! تم کو کون سنہری جوڑے کو کالی گوٹ لگا کلیجی پھیپڑا کردیا۔ واہ، اچھی یہ برا معلوم ہوتا ہے۔ خاک تمھاری ارواح! اچھی تمہیں کیا نہیں سوجھتا ہے۔ دشمنوں کے دیدے پٹم ہو گئے۔ایلو! ٹاٹ کی انگیا۔مونچھ کا بخیہ،درگور تمھاری صورت!یہ موا صدقے کا ڈوپٹہ، اس پر یہ بھاری مصالحہ۔ اہا ہا! کوّے کی چونچ میں انار کی کلی، اس کالی کلوٹی شکل پر یہ لال جوڑا کیا کھلتا ہے، بی تمھاری وہی کہاوت ہے کہ آ بوا! لڑیں، لڑے ہماری بلا؛ بلا لے جائے تمھیں چلا چلو ہونے لگی۔ ذرا سی بات تم سے پوچھی تھی، تم تو جھاڑ کا کانٹا ہو گئیں۔ دیکھنا سر ڈولی پاؤں کہار، آئیں بیوی نوبہار۔ اچھی میں کہتی ہوں تمھارا کیوں ہدڑا گیا ہے؛ آدمی کدھر اڑ گئے جو اکیلی پائینچے پھڑکاتی پھرتی ہو۔ اہو ہو! اچھی تمھیں ہماری جان کی قسم، ہمارا حلوا کھائے، ہمیں کو ہے ہے کرکے پیٹے جو اس بڑھیل کی دھج کو نہ دیکھے؛ سر گالا منہ بالا، سینگ کٹا بچھڑوں میں ملیں۔ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، لال جوڑا مٹکائے کیا ٹھسے سے بیٹھی ہیں۔ ایلو! یہ اور قہر توڑا کہ پوپلے منہ میں مسی کی دھڑی اور سوکھے سوکھے ہاتھوں میں منہدی بھی لگی ہوئی ہے۔ اچھی یہ لال کپڑے تو خیر بادشاہ کا حکم ہے، مگر کم بخت یہ منہدی اور مسی کی دھڑی جمائے بغیر کیا اِن کی سرتی نہ تھی۔
دیکھو! لونڈیوں پر غصہ ہو رہا ہے۔ اری گل بہار، نو بہار، سبزہ بہار، چنپا، چنبیلی، گل چمن، نرگس، مان کنور، انند کنور، چنچل کنور، مبارک قدم، نیک قدم کدھر اُڑ گئیں؟ ایلو! وہ باغ میں کُدکڑے لگاتی پھرتی ہیں، سِگڈّے مارتی پھرتی ہیں؛ بھلا ری علامۂ دہر، قطّامہ، چڑیل، مالزادی، قحبہ بچی، سر مونڈی، ناک کاٹی، ایسی شتر بے مہار ہو گئیں، ایسا دیدے کا ڈر نکل گیا، سب کو ازار میں ڈال کر پہن لیا، کام کاج پر دیدہ ہی نہیں لگتا، ایک جائے پاؤں ہی نہیں ٹکتا۔ جلے پاؤں کی بلی کی طرح نچلی ہی نہیں بیٹھتیں۔ سارے باغ کے جالے لیتی پھرتی ہیں۔ میں لہو کے گھونٹ بیٹھی گھونٹ رہی ہوں، کیسے تکلے کے سے بل نکالتی ہوں۔ کوئی دن کو یاد کرو، بچوں کو شور مل رہا ہے۔ بوا تم بھی کیا نین مُتنی ہو، ذرا ذرا سی بات پر ٹسوے بہاتی ہو۔ ایسی کیا انوکھی، اچرج، جان آدم، نعمت کی ماں کا کلیجا، چیل کا مُوت، عنقا چیز تھی جو تم ایسی بلک گئیں۔ چھوٹی بہن تھی، اگر اس نے لے لیا تو کیا ہوا، آؤ میں تمھیں اور منگا دوں گی۔
اچھی دیکھتی ہو اس فِتنی کو، کیا شیطان چڑھا ہے، کیسے دھیے مچا رکھے ہیں، اپنا لہو پانی ایک کیے ڈالتی ہے، کسی عنوان نہیں بہلتی۔ ارے کاکا! ارے فلاں قلی! جائیو، بیوی کے لیے یہ چیز لائیو۔ بیگم صاحب! میں ابھی دیکھ کر آیا ہوں، کسی کی دوکان پر نہیں ہے۔ ایسا کیا بازار میں اوڑا پڑ گیا؛ یہ حرامی تکّا، مادر بخطا، کام چور نوالہ حاضر تو یہیں سے بیٹھا بھیگی بلی بتاتا ہے، ٹالم ٹولے کرتا ہے۔ اری یاقوت! اری زمرد! تو جا کر جہاں سے ملے ابھی ڈھونڈ کے لے کر آ۔ ایلو! یہ موا غارتی کہیں سے یہ موٹے موٹے مُچنگڑ، موئے کچکونڈرے اپنے نگلنے اور ٹھوسنے کو اٹھا لایا؛ یہ تم ہی بیٹھ کر تھورو([30])۔ کھانے کو بسم اللہ، کام کو نعوذ باللہ۔ یہ ہمارے نمک کا اثر ہے، ان کی کیا خطا ہے؟ چلو اب تو نہ روٹھو، آؤ من جاؤ، غصے کو تھوک دو، بہت چوچلے نہ بگھارو، مجھے یہ نِکتوڑے نہیں بھاتے؛ آپس میں بیرا کھیری، کٹم کٹا نہیں کرتے؛ ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی؛ مجھے تو دونوں آنکھیں برابر ہیں۔ تم کیا جنت میں لے جاؤگے۔ وہ کیا مجھے دوزخ دکھائے گی۔ چلو نہیں منتی نہ منو، جوتی کی نوک سے۔ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ ایلو! وہ چھوٹی بہن کیا کہہ رہی ہے۔ ہم بھی جلے کو جلائیں گے، نون مرچیں لگائیں گے۔
لو اب دو گھڑی دن باقی رہا، حضور کی آمد آمد کی خبر ہوئی۔ وہ جسولنی نے آواز دی: “خبردار ہو!”، سواری آئی! دیکھو بادشاہ کی بھی لال پوشاک ہے۔ لال ہی رنگے ہوئے ہما کے پروں کے مورچھل ہیں۔ بچھیرا پلٹنوں نے سلامی اتاری، چھوٹی چھوٹی توپیں دغنے لگیں۔ سب حوض پر آ بیٹھیں۔
بادشاہ اپنی جہاں نما میں آئے، سرو قد کھڑے ہو کر سب نے آداب مجرا کیا۔ دیکھو حوض کے گرد گویا گل لالہ کھل گیا۔ ایلو! وہ باغ لوٹنے کا حکم ہوا۔
اہا ہا! دیکھنا کیسی بے تحاشا گرتی پڑتی، تو مجھ پر میں تجھ پر دوڑیں ؛ کوئی جھپیٹ میں آ کر گر پڑی۔ دیکھو! انا، ددا کیسی پھیپڑا جلاتی بلبلاتی دوڑیں، جھٹ جھاڑ پونچھ کے اٹھا لیا، ایک لوٹا پانی کا اس جائے چھڑک دیا۔ لاکھوں فضیحتے کھڑی کر رہی ہیں۔ تجھ گرانے والی کو جہاں اس کی دائی نے ہاتھ د ھوئے، قربان کروں۔ ایسی خرمست ہوگئیں، آنکھوں پر چربی چھا گئی۔ ہے ہے! یہ کیا الٹا زمانہ آگیا، اینٹیں دبیں روڑے اچھلے۔ نہیں بی ددا! میرے چوٹ ووٹ کہیں نہیں لگی، تم ناحق اتنے پھپڑ دلالے مچاتی ہو۔ کھیل میں شاہ و گدا برابر ہے۔ دیکھو! درختوں کو بلا کی طرح جا کر لپٹ گئیں۔ پھل پھول پتوں تک نوچ کھسوٹ ڈالے۔ بیویاں جھولی پھیلائے نیچے کھڑی ہیں، لونڈیاں باندیاں اوپر سے توڑ توڑ کر ان کی گودی میں ڈالتی جاتی ہیں۔ کوئی کہتی ہے اچھی میری دُردانہ، دل شاد مجھے وہ رنگترہ توڑ دے۔ کوئی کہتی اچھی میری اچپل تو مجھے وہ بڑا سا کھٹا توڑ دے، میں تجھے ایک روپیہ دوں گی۔ ایلو! ایک جو آئیں انھیں کچھ نہ ملا تو وہ کسی کی گودی کسی کے ہاتھ میں سے اچک لے گئیں ؛ یہ منہ تکتی کی تکتی رہ گئیں۔ بولی چوروں پر مور پڑے، اپنے کچھ ہاتھ نہ آیا تو خفت اتارنے کو اوروں کا لوٹ لیا۔ اب یہ سرخ رو چونڈا، ایمان بھونڈا سب میں بیٹھ کر شیخیاں بکھاریں گی “ہم بھی لوٹ لائے”۔ میں بھی کوس کوس کے ڈھیر کروں گی۔ الہی چھریاں، کٹاون، انتى سار زہر مار ہو وے۔
لو اب شام ہوئی، دونوں وقت ملتے ہیں، جُھٹ پُٹا ہوگیا ؛ بس صاحبو چلو چاند نے کھیت کیا، چاندنی چھٹکی، چاند کی بہار لوٹو۔
دیکھو اب حوض اور نہر کی پٹڑیوں پر بیٹھیں چاندنی منا رہی ہیں۔ نواڑوں میں بیٹھی حوض میں پھر رہی ہیں۔ سفید سفید پھولوں کے کنٹھے گلے میں، کانوں میں پھولوں کی بالیاں لال لال کپڑوں پر عجب بہار دکھا رہی ہیں۔ کہیں ڈھولکی بج رہی ہے، گانا ہو رہا ہے، کہیں دس گھرا، پچیسی، قصے، کہانیاں، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں ہو رہی ہیں۔ دس بیس مل کر کھڑی ہو گئیں، آؤ بھئی آنکھ بچولی کھیلیں۔ قطار باندھ کے ایک نے سامنے کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا “اڑنگ بڑنگ طوطی زبر تنگ، مائی جی کا تھان، کھیلے چوغان ہریا ہر بس یہ نو یہ دس”۔ جس کے نام پر دس آتا گیا، اس کو نکالتی گئی۔ اخیر میں جس کے نام پر دس آیا، وہ چور بنی۔ ایک بڑی بوڑھی کو بیچ میں دائی بنا کر بٹھا دیا۔ دائی نے چور کی آنکھیں بھیچیں اور سب نے کہا “تمھاری گود میں کیا؟” چور نے کہا مٹر۔ انھوں نے کہا “تمھاری آنکھیں چٹر پٹر ہوویں جو تم آنکھیں کھولو”۔ یہ کہہ کر کونوں کُھتروں میں جا چھپیں۔ ایک نے آواز دی “چور چھوٹے دائی کی بلا ٹوٹے”، دائی نے چور کی آنکھیں کھول دیں۔ چور ہکا بکا ادھر ادھر دیکھتی پھرتی ہے؛ ڈھونڈ بھال کے ایک آدھ کو پکڑا، وہ جھپ بیٹھ گئی ؛ چور کو کہنے لگی “ہٹو بھئی، یہ کیا سہی ہے، گاڑی بھر رستہ دو”۔ چور نے رستہ دے دیا اور نکل نکل کے بھاگیں۔ چور ان کے پیچھے دوڑی، کسی نے دوڑ کے دائی کو چھو لیا اور کہا “دائی دائی! تیرے ساتوں بھائی”۔ دوڑنے میں کوئی چور کے ہاتھ لگ گئی، یا ذرا سا چور کا ہاتھ بھی کسی کو لگ گیا، یا سات دفعہ سے کوئی زیادہ بیٹھی تو اب یہ چور بنی اور جو سات دفعہ چور بنی اس کا ایک ہاتھ ٹخنے سے ملا کر آدھے دوپٹے سے باندھا، آدھا دوپٹہ ہاتھ میں پکڑے سارے میں لیے کہتی پھرتی ہیں “ہاریں ساتوں لینڈ بُہاریں”۔ جب اس نے تھک کر ناچار اقرار کیا “ہاں بھئی بُہاری”، جب اس کی ٹانگ کھولی۔
سات دن تک اسی طرح روز نئے سج دھج، انوکھے کھیل، نرالی باتیں ہوتی رہیں۔
آٹھویں جمعرات کو پنکھے کی تیاری ہوئی ۔ وہ بھاری بھاری تُلواں، نئی نئی ٹکن کے لال لال جوڑے، سونے کے سچے جڑاؤ اور موتیوں کے گہنے پہنے، نِک سے سُک بناؤ سنگار کیے سارے شہر کی عورتیں امنڈ آئیں؛ باغ گونا گوں ہو گیا؛ دیکھنے والے اش اش کرتے ہیں، طوطیاں ہاتھ پسارتی ہیں۔
لو اب چار گھڑی دن باقی رہا، چاندنی چوک کے باغ سے پنکھا اٹھا۔
دیکھو ہاتھی پر سونے کا پنکھا، نیچے سچے موتیوں کی جھالر، اس میں سچے آویزے، اوپر سونے کا مور، اس کے پیٹ میں گلاب کیوڑا بھرا ہوا، پنجوں میں سے نکل نکل کے سب کو معطر کرتا جاتا ہے۔ آگے آگے پھولوں کی چھڑیاں، نفیری بجتی ہوئی، ہزارے چھوٹتے ہوئے، سپاہیوں کے تمن باجا بجاتے ہوئے ؛ پیچھے سلاطین اور امیر امرا ہاتھیوں پر سوار، دو طرفہ آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ، اس دھوم دھام سے باغ کے دروازے پر پنکھا پہنچا۔ سب لوگ باہر ٹھہر گئے، سلاطین پنکھا لے کر اندر آئے۔ بادشاہ سوار ہوئے، چھوٹی چھوٹی توپیں ننھے ننھے گولنداز دنادن چھوڑنے لگے۔ بچھیرا پلٹنیں سلامی اتار آگے ہوئیں؛ ان کے پیچھے تاشے باجے، روشن چوکی والیاں تاشا، ڈھول، جھانج، طبلہ، نفیری بجاتی چلیں۔ ان کے پیچھے سلاطین پنکھا لیے ہوئے؛ پنکھے کے پیچھے بادشاہ ہوادار میں سوار، خوجے مورچھل کرتے؛ حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں، اردابیگنیاں ہٹو بچو کرتی، جسولنیاں خبرداری پکارتی؛ شاہ زادے تخت کا پایہ پکڑے، شاہ زادیاں، سلاطینوں کی بیگماتیں، نوکریں چاکریں، لونڈیاں، باندیاں، شہر کی عورتیں پیچھے ساتھ ساتھ چلیں۔
اس وقت کی بہار دیکھو؛ کبھی میٹھی میٹھی پھوار پڑتی ہے، کبھی پھنیاں پھنیاں برسنے لگتا ہے؛ آسمان پر کالی گھٹا گھنگور گھمنڈ رہی ہے؛ زمین پر دیکھو تو لال گھٹا کس طور امنڈ رہی ہے۔ اُدھر بادل کی گرج، بجلی کی چمک، اِدھر گوٹے کی جھمک، جواہر کی دمک سے آنکھوں میں چکا چوندی آتی ہے؛ نفیری کی آواز قہر ڈھاتی ہے۔ محل میں، گلیوں میں عورتوں کے غٹ کے غٹ چلے آتے ہیں، کوٹھوں پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں؛ کہیں تل دھرنے کو جائے نہیں؛ تھالی پھینکو تو سر ہی پر گرے۔ جدھر نگاہ اٹھا کر دیکھو، ایک چھت، بیر بُہٹیاں سی دکھائی دیتی ہیں۔ اس تجمّل اور کروفر سے درگاہ میں شام کو پنکھا چڑھا کر پھر سب باغ میں آئے، روشنی کی تیاری ہوئی۔ حوض کے چوگرد نہر کی پٹڑیوں پر دو رستہ بانسوں کے ٹھاٹھروں میں لال لال کنول، ان میں دغدغے روشن ہوئے، چاروں طرف سے آگ سی لگ گئی۔ نواڑوں میں روشنی جیسی چھلاوے حوض میں پھر رہے ہیں۔ درختوں میں قمقمے جگنو کی طرح چمک رہے ہیں۔ کہیں بین بادشاہ زادی کا سانگ بن رہا ہے، کہیں ناچ رنگ ہو رہا ہے۔
رات اسی سیر و تماشہ میں گزری؛ صبح کو سب اپنے اپنے گھر گئے۔ لو میلہ ہو چکا۔
پھول والوں کی سیر
دلی سے سات کوس جنوب کی طرف مہرولی ایک گاؤں ہے، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا وہاں مزار ہے،اس سبب سے یہ گاؤں خواجہ صاحب یا قطب صاحب کرکے مشہور ہے،بادشاہوں کے بڑے بڑے نامی مکان بنائے ہوئے یہاں موجود ہےاور امیروں نے بھی سیر کے واسطے یہاں مکان بنائے ہیں،برسات میں یہاں عجب کیفیت ہوتی ہے۔
اکبر شاہ بادشاہ ثانی کو یہاں کی آب و ہوا موافق تھی اورسیر بہت پسند تھی،اس سبب سے برسات کے موسم میں یہاں آکر رہتے تھے۔
جس زمانے میں مرزا جہانگیر اکبر شاہ کے چاہیتے بیٹے نظربند ہوکے الہ آباد بھیجے گئے تھےتو نواب ممتاز محل ان کی والدہ نے یہ منت مانی تھی کہ مرزا جہانگیر چھٹ کر آئیں گے تو حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر پھولوں کا چھپرکھٹ اور غلاف بڑی دھوم دھام سے چڑھاؤں گی۔
جب مرزا جہانگیر چھٹ کر آئے تو ان کی والدہ نے اپنی منت پوری کی،غلاف اور پھولوں کا چھپرکھٹ اور چھپر کھٹ میں پھول والوں نے اپنا ایجاد ایک پھولوں کا پنکھا بھی بنا کر لٹکا دیا تھا،حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر چڑھایا اور بہت سا کھانا دانا فقیروں کو لٹایا۔ بادشاہ کی خوشی کے سبب سے سارے قلعے کے لوگ اور شہر کی خلقت جمع ہوگئی،گویا ایک بڑا بھاری میلہ ہوگیا۔ اکبر شاہ بادشاہ کو یہ میلہ بہت پسند آیا، ہر برس ساون کے مہینے میں اسے مقرر کردیا۔ دو سوروپے پھول والوں کو پنکھے کی تیاری اور انعام کے جیب خاص سے ملتے تھےاور ہر برس یہ میلہ ہوتا تھا،بلکہ اب بھی ہوتا ہے،جس کا جی چاہے دیکھ لے۔
دیکھو! مہینوں پہلے بادشاہ کے ہاں پنکھے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ رنگ برنگ کے جوڑے، طرح طرح کے ان پر مصالحے ٹک رہے ہیں۔ فراش، سپاہی اور سب کارخانوں کے لوگ خواجہ صاحب روانہ ہوئے۔ دیوان خاص، بادشاہی محل جھاڑ جھوڑ، فرش فروش، چلون، پردے لگا آراستہ کیا۔ ایک دن پہلے محل کا تانتا([31]) روانہ ہوا، خاصگی رتھوں میں تورے داریں([32])، تصرفی میں سب کارخانے والیاں، نوکریں چاکریں، لونڈیاں باندیاں ہیں۔ خوجے سپاہی ساتھ ساتھ چلے جاتے ہیں۔ خمریاں رتھوں کے ساتھ ساتھ دیکھو کیسی دوڑتی اور مانگتی جاتی ہیں: “اللہ خیریں ہی خیریں رہیں گی! تیرے من کی مرادیں ملیں گی ملیں گی! تجھے حق نے دیا ہے دیا ہے۔ تیرے بٹوے میں پیسہ دھرا ہے دھرا ہے۔ تجھے مولیٰ نوازے!دے جا دے جا”۔
دوسرے دن صبح کو بادشاہ سوار ہوئے، چڑھی بڑھی بیگماتیں اور شاہ زادے نالکی اور عماریوں میں ساتھ ہوئے۔ شہر کے باہر سواری آئی، سب جلوس ٹھہرگیا، سلامی اتار قلعے کو رخصت ہوا۔ چھڑی سواری، ہوا دار یا سایہ دار تخت یا چھ گھوڑوں کی بگھی میں خواجہ صاحب میں داخل ہوئے۔ دیکھو سنہری بگھی، اوپر نالکی نما بنگلہ، آگے چھجا، ان پر سنہری کلسیاں ہیں۔ کوچبان لال لال بانات کی کمریاں، پھندنے دار گردان ٹوپیاں، کلابتونی کام کی پہنے ہوئے، گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہانکتے جاتے ہیں۔ آگے آگے سانڈنی سوار، پیچھے سواروں کا رسالہ، آبدار بھنڈا لیے، چوبدارعصا لیے، گھوڑوں پر سوار بگھی کے ساتھ ساتھ اڑائے جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہی محل سے لے کر تالاب اور جھرنا اور امریوں اور ناظر کے باغ تک زنانہ ہو گیا، جا بجا سرانچے کھنچ گئے، سپاہی اور خوجوں کے پہرے لگ گئے۔ کیا مقدور غیر مرد کے نام کا پشّہ بھی کہیں دکھائی دے جائے۔ محل کی جنگلی ڈیوڑھی سے بادشاہ ہوادار میں اور ملکہ زمانی تام جھام میں اور سب ساتھ ساتھ سواری کے جھرنے پر آئے۔ بادشاہ اور ملکہ زمانی بارہ دری میں بیٹھے اور سب ادھر ادھر سیر کرنے لگیں۔ کڑاھیاں چڑھ گئیں، پکوان ہونے لگے، امریوں میں جھولے پڑ گئے، سودے والیاں آ بیٹھیں۔ دیکھو کوئی حوض اور نہر کی پٹڑیوں پر مَلَک مَلَک پھرتی ہے، کوئی کھڑاویں پہنے کھڑ کھڑ کرتی ہے، کوئی آپس میں ہاتھ میں ہاتھ پکڑے ٹھمک چال چلی آتی ہے، کوئی امریوں میں جھولے پر بیٹھی گاتی ہے:
جھولا کن نے ڈالو رے امریاں
باگ اندھیری تال کنارے
مورلا جھنگارے بادر کارے
برسن لاگیں بوندیں پھنیاں پھنیاں
جھولا کن نے ڈالو رے امریاں
سب سکھی مل گئیں بھول بھلیاں
بھولی بھولی ڈولیں شوق رنگ سیّاں
جھولا کن نے ڈالو رے امریاں
ایلو! ایک کھڑی ایک کو ہلسا رہی ہے: “اے بی زناخی! اے بی دشمن! اے بی جان من! اچھی! چلو پھسلنے، پتھر پر سے پھسلیں”۔ وہ کہتی ہیں: “بی ہوش میں آؤ، اپنے حواسوں پر سے صدقہ دو، اپنی عقل کے ناخن لو؛ کہیں کسی کا ہاتھ منہ تڑواؤگی”۔ انا، ددا سمجھانے لگیں: “واری! کہیں بیویاں، بادشاہ زادیاں بھی پتھروں پر سے پھسلتی ہیں؛ لونڈیوں باندیوں کو پھسلواؤ، آپ سیر دیکھو”۔ “چلو بی میں تمھارے پھلاسڑوں میں نہیں آتی؛ تم یوں ہی پھپڑ دلالے کیا کرتی ہو۔ نہیں نہیں ہم تو آپ ہی پھسلیں گے”۔ “اچھا تم نہیں مانتیں تو دیکھو میں حضور سے جا کر عرض کرتی ہوں”۔ دیکھنا کیا کان دبا کے جھٹ چپکی ہو بیٹھیں۔ وہ جھوم جھوم کر بادلوں کا آنا اور بجلی کا کوندنا، مینہ کی چھم چھم، پانی کا شور، ہوا کی سائیں سائیں، کوئل کی کوک، پپیہے کی آواز، مور کی جھنگار، گانے کی للکار عجب بہار دکھا رہی ہے۔ پہاڑوں پر سبزہ لہلہا رہا ہے، رنگین کپڑوں سے لالۂ نافرمان کھل رہا ہے۔ مینہ سے رنگ کٹ کٹ کے رنگین پانی بہہ رہا ہے۔ آم کا ٹپکا لگ رہا ہے، جامنیں پٹا پٹ گر رہی ہیں۔ دیکھو کیسی دوڑ دوڑ کے اٹھا رہی ہیں۔ لو شام ہوئی، جسولنی نے آواز دی: “خبردار ہو!” بادشاہ سوار ہوئے۔ ایلو وہ سب کچھ پھینک پھنکا سواری کے ساتھ ہو لیں۔ نوکریں چاکریں گٹھری مٹھری سینت سنبھال پیچھے ہلو پتو کرتی دوڑیں۔ لو اب پندرہ دن تک اسی طرح روز جھرنے اور تالاب اور لاٹھ کا زنانہ ہوگا اور اسی سیر تماشے میں گزرے گا۔
تین دن سیر کے باقی رہے، پھول والوں نے بادشاہ کو عرضی دی، دو سو روپیہ جیب خاص سے ان کو پنکھے کی تیاری کا مرحمت ہوا۔ تاریخ ٹھہر گئی، شہر میں نفیری بج گئی، جھرنے کا زنانہ موقوف ہوا۔ دیکھو اب شہر کی خلقت آنی شروع ہوئی۔ جن کے مکان تھے وہ تو اپنے مکانوں میں آدھمکے اور مقدور والوں نے سو سو دو دو سو پچاس پچاس روپے کو تین دن کے لیے کرایہ کو لے لیے۔ غریب غربا کو جہاں جائے مل گئی وہیں بیچارے اتر پڑے۔ بعضے فاقہ مست، لنگوٹی میں مست رہنے والے عین دن کے دن روٹیاں گھر سے پکوا، کپڑے بغل میں مار پنکھا دیکھنے پہنچے۔ پنکھا درگاہ تک بھی نہ پہنچنے پایا کہ وہ اپنے گھر کو چنپت بنے۔ لو صاحب یہ بھی لہو لگا کر شہیدوں میں مل گئے۔ جمعرات کے دن سارے شہر کے امیر غریب، دکاندار، ہزاری بزاری جمع ہو گئے۔ شہر سنسان ہو گیا۔
یہاں کی کیفیت دیکھو؛ کسی مکان میں اجلے اجلے فرش، زربفتی مسند تکیے، چاندی کے پلنگ، باناتی پردے، مہین مہین چلونیں، پھول دار نمگیرے، ہنڈیاں، دیوار گیریاں، آئینے، جھاڑ فانوس لگے ہوئے ہیں۔ تھئی تھئی ناچ ہو رہا ہے، دیگیں کھڑک رہی ہیں۔ بریانی، متنجن، قورمہ پک رہا ہے، قہقہے چہچہے اڑ رہے ہیں۔ کہیں خیمے ایک چوبے، دو چوبے، بیچوبے، راؤٹیاں کھڑی ہیں۔ آپس میں بیٹھے کھلی ٹھٹھے مذاق کر رہے ہیں، ناچ رنگ ہو رہا ہے۔ پراٹھے، دودھ، پھینیاں اڑ رہی ہیں۔ کہیں پوری کچوری لڈو، برفی کی چکھوتیاں ہو رہی ہیں، کوئی دہی بڑوں کے چٹخارے لے رہا ہے، کوئی بے چارہ بیٹھا تندور کی آس تک رہا ہے، کوئی جھرنے میں دھما دھم کود رہا ہے، کوئی پھسلنے پتھر پر پھسل رہا ہے۔ کہیں پہلوانوں کے کمالے ہو رہے ہیں، کوئی امریوں میں جھولے پر کھڑا پینگ چڑھا رہا ہے۔ سودے والے آوازیں لگا رہے ہیں: “کالی ہی بھونرالی جامنیں ہیں، نون والی ہی لے نمکین۔ نون کے بتاشے لو! پال والا ہی لے لڈو ہے، جھرنے کا بتاشا ہی گولر ہے، کیلا ہے مصری کا، بھٹے ہیں ہری ڈالی والے، سنگھاڑے ہیں تلاؤ کے ہرے دودھیا، چاٹ ہے نیبو کے رس کی، دہی بڑے ہیں مصالحے کے”۔
سقے کھڑے کٹورے بجا رہے ہیں: “کیا برف کی کھرچن ہے، پانچوں کپڑے ہی سرد ہیں”۔ کوئی سبیل پکار رہا ہے: “پیاسو! سبیل ہے مولیٰ کے نام کی”۔ کوئی کہتا ہے تیرے پاس ہے تو دے جا، نہیں پی جا راہ مولیٰ۔ ککّڑ والے حقہ پلاتے پھرتے ہیں۔ ہیجڑے دکانوں پر چھلّا دے مورے سائیں گاتے اور مانگتے پھرتے ہیں۔ نوٹنگی والے گا رہے ہیں:
ہم مردیسی پاونے جو رین کیو بسرام
بھور بھئے اٹھ جائیں گے بسے تہارو گام([33])
ہم پردیسی رے کہ جائیا ہم پردیسی رے
مداری کے تماشے، یہاں چھل([34]) بٹّے ہو رہے ہیں۔ شہدے امیروں کے مکانوں کے نیچے شور مچا رہے ہیں۔ بے نوا، آزاد، خمرے، رسول شاہی چار ابرو کی صفائی کیے ہوئے اپنی اپنی صدا کہہ رہے ہیں:
کچھ راہ خدا دے جا تیرا بھلا ہوگا
بھلا کر بھلا ہوگا، سودا کر نفع ہوگا
غنیمت جان لے بابا جو دم ہے اللہ ہی اللہ ہے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
رام رام کر لے پنچھی یہ کایا نہیں پاوے گا
کنکر چن چن محل بنایا مورکھ کہے گھر میرا رے
نا گھر تیرا نا گھر میرا چڑیوں رین بسیرا رے
رام رام کر لے اچھے بندے یہ کایا نہیں پاوے گا
ماٹی اوڑھنا ماٹی بچھونا ماٹی کا سرھیانا رے
ماٹی کا کلبوت بنا اس میں کلب([35]) سمایا رے
رام رام کرلے اچھے بندے یہ کایا پھر نہیں پاوے گا
کہیں حسینی([36]) برہمن چادر بچھائے کھڑے کہہ رہے ہیں:
عزیزو حق تعالیٰ کبریا ہے
شرف جس نے پیمبر کو دیا ہے
لو اب تیسرا پہر ہوا۔ اُدھر شاہ زادوں کی سواری، اِدھر پنکھے کی تیاری ہونے لگی۔ شہر کے رئیس اور امیر غریب اچھے اچھے رنگ برنگ کے کپڑے پہن کر نئی سج دھج، نرالی انوٹ، انوکھی وضع سے اپنے اپنے کمروں، برآمدوں، چھجّوں، کوٹھوں، چبوتروں پر ہو بیٹھے۔
ایلو! وہ پہلے آتش باز، قلعی گر، زردوزوں کے پنکھے نفیری بجتی ہوئی امیروں کے مکانوں کے نیچے ٹھہرتے ٹھہراتے انعام لیتے لواتے چلے آتے ہیں۔ اہا ہا! دیکھنا! وہ پھول والوں کے پنکھے کس دھوم سے آئے۔ کیا بہار کے پنکھے ہیں۔ آگے آگے پھولوں کی چھڑیاں ہزارے چھوٹتے؛ نفیری والے کس مزے سے “میرا پیا گیا ہے بدیس، موہے چونری کون رنگاوے، بیر ساون آیو ری” نفیری میں گاتے ٹھٹکتے ٹھٹکاتے روپے رولتے چلے آتے ہیں۔ پیچھے شاہزادے ہاتھیوں پر سوار، آگے سپاہیوں کی قطار، تاشہ مرفہ بجاتے ہوئے، پیچھے خواصی میں مختار بیٹھے مورچھل کرتے ہوئے، نقیب چوبدار پکارتے ہوئے “صاحب عالم پناہ سلامت!” چلے آتے ہیں۔ ان کے پیچھے اور امیر امرا کے ہاتھی چلے آتے ہیں۔ دیکھو رستے میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ کوٹھے، چھجے، مکان بوجھ کے مارے ٹوٹے پڑتے ہیں۔ وہ میٹھی میٹھی پھوار، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور وہ نفیری کی بھینی بھینی آواز قہر توڑ رہی ہے۔ وہ سہانا سہانا جنگل اور وہ آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ، کیاگل زار ہو رہا ہے۔ اس دھوم دھام سے شام کو بادشاہی محلوں کے نیچے پنکھے آئے۔ شاہزادے ہاتھی پر سے اتر کے اپنے کمروں میں آبیٹھے اور سب پیدل ہو گئے، حضور چلونوں میں اوپر آبیٹھے ہیں۔
اب نفیری والوں کی سیر دیکھو! کیسی جان توڑ توڑ کر نفیری بجا رہے ہیں۔ خوجے اوپر سے چھناچھن ان کی جھولیوں میں روپے پھینک رہے ہیں۔ انعام لے لے کر رخصت ہوئے، پنکھے درگاہ میں جا کر چڑھا دیے۔ رات بھر ناچ رنگ کی محفلیں ہوئیں؛ ڈھولک، ستار، طنبورہ، طبلہ کھڑکتا رہا۔ صبح کو سونے چاندی کے چھلے، انگوٹھیاں، اکّے، نونگے، پوتھوں کے لچھے، موتیوں کے ہار اور کنٹھیاں، شیشوں کے ہار اور لال، سبز، زرد، اودے، پچرنگے سوت کے ڈورے، پنکھیاں، پراٹھے، پنیر، کھویا، یہاں کی سوغاتیں لے لوا چلنا شروع کیا۔ شام تک سب میلہ بِھرّی ہو گیا۔ بادشاہ ساری برسات یہیں گزاریں گے؛ سیر و شکار، کل سلطنت کے کاروبار سر انجام ہوتے رہیں گے۔
دیکھو! جو بیگماتیں سیر میں نہیں آئیں انھوں نے اپنے چھوٹوں کو قلاقند، موتی پاک، لڈو کی ہنڈیاں آٹے سے منہ بند کرکے چٹھیاں لگا اور بٹووں میں اشرفیاں روپے ڈال چوبداروں اور خواصوں کے ساتھ بہنگیوں میں بھیجیں۔ سب نے پانچ پانچ، چار چار، دو دو روپے چوبدار اور خواصوں کو انعام کے دیے اور ان کے لیے سوغاتیں یہاں سے بھیجیں۔
لو صاحب پھول والوں کی سیر ہوچکی۔
بادشاہ کا جنازہ
قدیم سے یہ بات مشہور ہے کہ جو کوئی بادشاہ مر جاتا تھا تو اس کے مرنے کی کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے؛یہ کہہ دیتے تھے کہ آج گھی کا کُپّا لُنڈھ گیا؛ نہلا دھلا کفنا کر چپ چپاتے قلعے کے طلاقی دروازے سے اس کا جنازہ دفن کرنے بھیج دیتے تھے۔ نوبت نقارے الٹے اور کڑاھیاں چولھوں پر سے اتار دیتے تھے۔ سب رسمیں خوشی کی موقوف ہو جاتی تھیں۔ دوسرے بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی شادیانے بجنے لگتے، سلامی کی توپیں چلنے لگتیں۔ بعضے یہ بھی کہتے ہیں کہ بادشاہ کے جنازے کو تخت کے آگے لا کے رکھتے تھے؛ دوسرا بادشاہ جو کوئی ہوتا تھا اس کے منہ پر پاؤں رکھ کر تخت پر بیٹھتا تھا۔ اکبر شاہ کے وقت سے یہ رسم موقوف ہو گئی تھی۔
ولی عہد کا جنازہ
دیکھو! نالکی میں جنازے کا صندوق ہے۔ سر سے پاؤں تک تمامی نالکی پر لپٹی ہوئی ہے۔ بیٹے، پوتے، امیر امرا نالکی کے ساتھ ساتھ منہ پر رومال رکھے، آنکھوں سے آنسو زار و قطار بہاتے، کس غم کی حالت میں ادب سے چلے جاتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے دل بھرے آتے ہیں، کلیجے منہ کو آتے ہیں۔ آگے آگے خاصے گھوڑے، سپاہیوں کے تُمن الٹی بندوقیں کندھوں پر رکھے تاشہ مرفہ الٹا کیے، پیچھے ہاتھی، ہاتھیوں پر شیرمالیں، روپے اٹھنیاں، چونیاں، دوانیاں اور ٹکے خیرات کے رکھے ہوئے چلے آتے ہیں۔ سارے شہر کی خلقت دیکھنے کو امنڈی چلی آتی ہے۔ عورت و مرد بے اختیار دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔ جامع مسجد میں جنازہ آیا، حوض پر جنازے کی نالکی رکھی گئی۔ ہزاروں آدمی جمع ہو گئے۔ سب نے جنازے کی نماز پڑھی۔ وہاں سے شہر کے باہر جنازہ آیا، سب جلوس رخصت ہوا، خاص خاص لوگ جنازے کے ساتھ گئے۔ حضرت خواجہ صاحب کی درگاہ میں جنازہ دفن کیا۔ شیرمالیں، اٹھنیاں، چونیاں، دوانیاِں اور ٹکے محتاجوں کو بانٹے، خادموں کو روپے دیے، فاتحہ پڑھی، قبر پر دو شالہ ڈالا، ایک حافظ قرآن شریف پڑھنے کو، ایک پہرہ حفاظت کو مقرر کرکے سب رخصت ہوئے، بادشاہ کے ہاں سے برداشت اور حاضری کا معمول مرحمت ہوا۔
پھول
دیکھو! دوسرے یا تیسرے دن صبح کو پھولوں کی تیاری ہوئی۔ اچھے سے اچھا کھانا پک رہا ہے، ڈھیر سے الائچی دانے آئے، سب لوگ جمع ہوئے۔ ایک ایک سیپارہ قرآن شریف کا سب نے پڑھ کے سارا قرآن پورا کیا۔ الائچی دانوں کے ایک ایک دانے پر مل کے ستر ہزار دفعہ کلمہ پڑھا، پھر ختم ہوا؛ قرآن شریف اور کلموں کا ثواب مرحوم کی ارواح کو بخشا۔ الائچی دانے سب کو بٹ گئے، بہت سا کھانا اور جوڑا دو شالہ اللہ کے نام دیا۔ اپنے اپنے مقدور کے موافق عزیز اقرباؤں نے حاضری کے روپے دیے؛ دسترخوان بچھا، سب نے کھانا کھایا، رخصت ہوئے۔
اندر محل میں بادشاہ آئے؛ بہو، بیٹوں، داماد، بیٹیوں کو سوگ اتروانے کے دو شالے، بیویوں کو رنڈسالے مرحمت فرمائے۔ اس وقت کا کہرام دیکھو، کلیجا پھٹا جاتا ہے، بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے۔ ہائے ان کی سب امیدیں خاک میں مل گئیں، ساری حسرتیں دل کی دل ہی میں رہ گئیں۔ حضور بھی آب دیدہ ہوئے اور بہت سی تسلی و تشفی کی اور فرمایا: “امّا صبر کرو، صبر کرو؛ رونے پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں۔ تقدیر الٰہی میں کسی کو دم مارنے کی جائے نہیں۔ صبر کے سوا یہاں اور کچھ علاج نہیں”۔
نویں دن دسویں کی فاتحہ، انیسویں دن بیسویں کی فاتحہ ہوئی؛ ایک ایک جوڑا دوشالے سمیت اور بہت سی باقرخانیاں اور میٹھے کی طشتریاں اللہ کے نام دیں اور دو دو باقر خانیاں ایک ایک میٹھے کی طشتری سب کو نام بنام تقسیم ہوئیں۔ آٹھ سات دن پہلے بانس کی کھپچیوں کی کھانچیوں میں سات سات طرح کی مٹھائیاں طشتریوں میں لگا بسمے کے چھپے ہوئے لال جُھنّی کے کسنے کس، تورے پوش ڈال بہنگیوں میں لگا لگا کے چوبداروں کے ہاتھ نام بنام سب کے ہاں پہنچیں۔ جب کھانچیاں بٹ چکیں، چالیسویں کی تاریخ مقرر کرکے سفید کاغذ پر رقعے لکھوا کر کنبے میں بھیجے۔ میر عمارت کو قبر کی تیاری کا حکم ہوا؛ اس نے پہلے قبر کا کڑا کھلوایا، گلاب کیوڑے کے شیشے اور عطر اندر ڈال کر اوپر پکی قبر بنوا، اوپر سنگ مرمر کا تعویذ کھڑا فرش لگا کے قبر تیار کر دی۔ انتالیسویں دن رات کو بہت سا کھانا پکا، سب کنبے کے لوگ اکٹھے ہوئے۔ دیکھو جس جائے انتقال ہوا تھا وہاں ایک کھانے کا تورہ اور جوڑا، دوشالہ، جانماز، تسبیح، مسواک، کنگھا، جوتی، کشتی میں لگا کے اور تانبے کے برتن غوری، رکابی، طشتری، قفلی، بادیہ، کٹورہ، سفل دان، پتیلا، پتیلی، لگن، لگنی، سینی، چمچہ، کفگیر، تھالی، سرپوش، چلمچی، آفتابہ، بیسن دانی وغیرہ رکھے گئے اور دو لال سبز طوغیں سوا من چربی کی سرہانے روشن ہوئیں۔ رات بھر رونا پیٹنا رہا، صبح کو سب قبر پر آئے۔ کمخابی شامیانہ چاندی کی چوبوں پر قبر کے اوپر کھڑا ہوا، اس کے گرد پھولوں کا چھپرکھٹ بنا، بیچ میں کمخاب کا قبر پوش، پھولوں کی چادر ڈالی، سرہانے کھانے کا تورہ اور برتن رکھے۔ لوبان، اگر روشن ہوا، جوڑا قبر کو پہنایا، پائنتی جوتی رکھی۔ زنانہ ہوا، بیگماتیں آئیں، خوب روئیں پیٹیں۔ باہر ختم ہوا، الائچی دانے ختم کے سب کو بٹے، پھر قوالی ہوئی۔ قوالی کے بعد سب نے کھانا کھایا، اللہ کے نام بٹوایا۔ تیسرے پہر کو پھر ختم ہوا۔ وہ تورہ، جوڑا، برتن وغیرہ سب خادموں کو دیے، اپنے گھر آئے۔ سہ ماہی، چھ ماہی کی فاتحہ وہی دسویں بیسویں کی طرح ہوئیں۔ برسی کی فاتحہ میں تورہ، جوڑا، برتن وغیرہ مرنے کی جائے نہیں رکھے گئے اور نہ وہ طوغیں روشن ہوئیں، باقی رسمیں چالیسویں کی طرح ہوئیں۔ پہلے سال جو مُردے کی فاتحہ ہوتی ہے اسے برسی کہتے ہیں، اس کے بعد پھر جو ہر سال برسویں دن فاتحہ ہوگی وہ دیسہ کہلاتا ہے۔ بزرگوں اور بادشاہوں کے دیسے کو عرس کہتے ہیں۔
تقریظ
عالی جناب معلیٰ القاب صاحب عالم و عالمیان شاہ زادہ
مرزا محمد سلیمان شاہ صاحب گورگانی، سرپرست خاندان تیموریہ
میں نے اس کتاب موسوم بہ “بزم آخر” کو جس میں ہمارے دو آخری بزرگوں کا طریق معاشرت لکھا ہے، ملاحظہ کیا۔ چونکہ یہ کتاب ہمارے قدیم متوسّل منشی فیض الدین نے جو قلعے میں پرورش پا کر چھوٹے سے بڑے ہوئے اور نیز صاحب عالم بہادر یعنی حضرت والد مغفور کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رہے، لکھی ہے۔ اس لیے میں تصدیق کرتا ہوں کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ ٹھیک و درست ہے۔ مولف نے صاحب مطبع ارمغانِ دہلی واقع ترکمان دروازہ کی فرمائش سے اس کتاب کو لکھا اور نہایت دلچسپی کے ساتھ لکھا۔
دستخط خاص شاہزادہ صاحب موصوف الصدر
پانزدہم فروری ١٨٨٥ء
فرہنگ
اس فرہنگ میں الفاظ کے معنی وہی دیے گئے ہیں جن معنوں میں یہ الفاظ اس کتاب میں استعمال ہوئے ہیں۔
الف
ازار میں ڈال کر پہننا | خیال میں نہ لانا، ڈر نہ ماننا |
آب حیات | اکبر بادشاہ نے اپنے پینے کے پانی کا نام آب حیات رکھا تھا؛ اس کے بعد سے بادشاہوں کے پانی کو آب حیات کہنے لگے |
آب دار | بادشاہوں اور امیروں کے ہاں کا وہ شخص جس کو پانی رکھنے اور پلانے کی خدمت سپرد ہو۔ |
آب رواں | ایک قسم کا باریک کپڑا |
اٹھوائی کھٹوائی لے کر پڑنا | غصے کا غم کے باعث الگ پڑ رہنا۔ ناراض و متنفر ہو کر الگ چارپائی پر جا پڑنا |
اچپل | شوخ، چنچل |
اچرج | انوکھا |
آداب گاہ | وہ مقام جہاں کھڑے ہو کر بادشاہ کو سلام کیا جاتا ہے۔ |
اردا بیگنی | وہ مردانہ لباس کی ہتھیار بند عورت جو شاہی محلوں میں پہرا چوکی دیتی اور حکم احکام پہنچاتی ہے۔ سپاہی عورت۔ |
اڑنگ بڑنگ آفتابی | ماہی مراتب میں چاندی سونے کا ایک دائرہ ہوتا ہے جس میں ایک ڈنڈی لگی ہوتی ہے۔ بادشاہوں کے جلوس میں سواری کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا سایہ چتر کی طرح سر پر پڑتا ہے۔ |
الش | کھانے پینے کی چیز جو امیروں یا بزرگوں کے آگے سے بچی ہو۔ |
اکلیل | تاج |
الفن | ایک قسم کی پتنگ جس میں الفی کنکوے کی طرح پٹی لگی ہوتی ہے، |
امک ڈھمک | یہ وہ۔ ایرا غیرا، حقارت فلاں کی جگہ بولتے ہیں۔ |
امرپساں | آموں کے درختوں کا جھنڈ، آم کا باغ |
آنا کانی دینا | سن کر ٹال دینا، اس کان سننا اس کان اڑا دینا |
انی سار ہووے | ہضم نہ ہووے، دستوں کی راہ نکلے، کٹ کٹ کر نکلے |
انگوچھا | وہ چھوٹا سا کپرا جسے ہندو رومال یا ٹنکی کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ |
انوٹ | وضع، چھب، انداز |
اوڑا پڑنا | کال پڑنا، غارت ہونا |
اونچہ | پلنگ کی زریں چادر جو پلنگ پوش کے نیچے نمائش کے لئے بچھائی جاتی ہے۔ |
اولا | ایک قسم کا شکر کا بنا ہوا گولا |
آش | شوربا، حریرہ |
اگرتی | کشمشی رنگ سے ملتا ہوا |
اکسا | ایک زیور کا نام جو بازو پر باندھا جاتا ہے؛ اس میں ایک بڑا نگینہ جڑا جاتا ہے |
ب
باگا | خلعت |
بتاشہ | آم کی قسم |
بخشی | سپہ سالار، تنخواہ بانٹے والا افسر |
بدھنی | مٹی کا ٹونٹی دار لوٹا |
بڑھئی روٹی | روٹی جس میں دال یا قیمہ بھر کر پکائیں، خواہ کڑاہی میں تل لیں۔ |
بڑ بڑیڑوں | مرے ہوئے بزرگوں |
بسرام | چین، امن، سکھ |
بھاون | دل پسند، مرغوب |
بہارنا | صاف کرنا |
بھج بند | بازو بند (ایک زیور) |
بگلا | سفید رنگ کی پتنگ |
بِھرّی ہونا | دوڑ کر چلے جانا |
بورانی | دہی کا رائتا |
بھوڈل | ابرک |
بھیلسہ | ایک مقا م کا نام جہاں کا تمباکو مشہور ہے۔ اسی نسبت سے تمباکو کا دوسرا نام بھیلسہ پڑگیا ہے۔ |
بھنگی | ایک قسم کی ٹولی جس کے ذریعے سے کہار اسباب وغیرہ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ |
بلکنا | رونا، بھڑکنا |
بھنبھنی | جھلک، نشان |
بیرا، کھیری | عداوت، دشمنی |
بیلا | خیرات، دریا کے کنارے کا جنگل |
بیلے کا ہاتھی | وہ ہاتھی جس پر بیٹھ کر خیرات تقسیم کی جائے |
بھور بھٹی | نور کا تڑکا، گجر دم |
بینی پاک | ناک پوچھنے کا رومال |
بیوی زن | پاک دامن عورت |
بقچہ یا بغچہ | کپڑے رکھنے کی گٹھری، پٹلیا |
بِھنڈا | تمباکو کا ڈلا |
بَھنڈا | ایک قسم کا حقہ |
بابر لیٹ
بابن لیٹ |
ایک قسم کا باریک جالی کا کپڑا |
بھنکار | مکھیوں کا بھن بھن کرنا |
بدھی | پھولوں کا ہار |
بناؤ | سجاوٹ، آراستگی |
پ
پاکھر | لوہے کا ساز جو لڑائی کے وقت گھوڑے کو پہناتے ہیں۔ |
پاؤں پاک | پاؤں پوچھنے والا |
پائنچے پھڑکانا | اتراتے ہوئے چلنا |
پٹم | اندھا |
پٹکا | رومال یا پٹی جو کمر سے باندھتے ہیں۔ |
پراوتوں | بے اولادے |
پرتلا | کمر کی وہ پیٹی جس میں تلوار لٹکتی ہے |
پوزی | گھوڑے کا پیش بند |
پچیسی | ایک قسم کا کھیل جو چوسر کی طرح کوڑیوں سے کھیلا جاتا ہے۔ |
پنجی | وہ لوہے کا پنجہ جس میں پانچ فتیلے لگا کر روشن کریں |
پھپھڑ دلالے | دکھاوے کی خوشامد کرنا، جھوٹی محبت جتانا |
پھپھڑا جلاتی | خیر خواہی کرتی |
پریوں دار | پتنگ کی ایک قسم |
پھلاسڑوں میں آنا | پھسلاوے میں آنا، کسی کے دھوکے میں آنا |
پھیاں پھیاں | ننھی ننھی بوندیں |
پھٹکی | وہ گتھی جو دودھ یا دہی میں پڑ جاتی ہے |
پھیٹے | وہ سفید یا رنگین کپڑے کی پٹی جو پیر یا درویش سر پر باندھتے ہیں |
پھوٹ | پھٹے منہ، لعنت ہے، جب کوئی شخص کسی بات کا خلاف طبع یا ناموزوں جواب دیتا ہے تو از روئے تنفر اس کے جواب میں یہ لفظ زبان پر آتا ہے۔ |
پھول | مردوں کی تیسرے یا پانچویں دن کی فاتحہ |
پیمک | کلابتونی لیس |
پیٹھی | مونگ یا ماش کی دال کی پسی ہوئی لبدی جو پوریوں اور روٹی میں بھری جاتی ہے۔ |
پن بھتا | پتلے چاول یا وہ پتلی دال جس میں چاول یا روٹی ڈال کر کھائیں۔ |
ت
تاش – تشت | ایک قسم کازری کپڑا |
تاشا | نام ایک باجے کا جس کو گلے میں ڈال کر بجاتے ہیں |
تبرید | ٹھنڈائی، وہ شربت یا دوا جو تپ کے اول یا مسہل کے بعد دی جاتی ہے۔ |
تپک | توپ کی تصغیر، گول کبھا |
ترئی | بگل |
تیلنگا | وہ انگریزی سپاہی جسے انگریزی پوشاک پہنائی جاتی ہے۔ چونکہ ابتدا میں انگریزوں نے مقام تلنگانہ میں فوج بھرتی کرکے اس کو انگریزی لباس پہنایا تھا اس وجہ سے انگریزی پیادہ سپاہ کا یہ لقب ہے۔ |
تمامی | ایک قسم کا زری کپڑا |
تمن | رسالہ، پٹن، ایک سکہ |
تخت رواں | وہ تخت جس پر بادشاہ سوار ہو کر نکلتا تھا، ہوادار |
تورہ | مختلف اقسام کے لذیذ کھانے جو نو خوانوں میں لگا کر بڑے تکلف کے ساتھ تقریبات میں تقسیم ہوتے تھے۔ |
توڑا | سونے یا چاندی کی زنجیر یا لڑیاں جو زنجیر |
توشہ خانہ | یہ لفظ توشک خانے سے اردو میں بنایا گیا ہے؛ وہ مکان جس میں امیروں کی پوشاک اور لباس رہتا ہے۔ |
تہ پوشی | زنانہ پاجامہ، ساڑی کے نیچے پہننے کا پیٹی کوٹ |
توس دان | کارتوس رکھنے کا بکس جو سپاہیوں کی کمر سے بندھا رہتا ہے |
تھوتھائے | منہ بنائے، تیوری چڑھائے |
تصرفی | وہ کھانا جو نوکروں چاکروں کے واسطے تیار ہو، خاصہ کے خلاف |
تھئی تھئی | ناچنے گانے کی آواز |
تال | پیتل کی چھوٹی چھوٹی کٹوریاں جو طبلے یا ڈھولک کے ساتھ بجاتے ہیں |
تکسا | پیدا شدہ، جیسے حرامی، تکا |
ترکنیاں | وہ عورت جو بادشاہوں کے محل میں پہرہ دے |
توئی | ایک قسم کے کپڑے کی زریں بیل |
تکلے سے بل نکالنا | ساری کجی نکالنا، خوب سیدھا بنانا، ساری شرارت دور کرنا |
ٹ
ٹاٹ کی انگیا سونجھ کا بخیہ | (مثل) جیسی چیز ویسا ہی اس کا لازمہ، پیوند میں پیوند |
ٹھاٹر | جال، ٹٹی، ڈھانچ |
ٹھٹھولیاں | ہنسی مذاق |
ٹھمکیاں | جھٹکے |
ٹھنٹھانا | پکتے وقت برتنوں کے آپس میں بجنے کی آواز |
ٹھپا | ایک قسم کا گوٹا، لیس |
ج
جاہی جوہی | ایک قسم کی آتشبازی، ایک قسم کا خوشبودار پھول، عورتوں کی زبانوں پر جائی جوہی ہے۔ |
جامدانی | ایک خاص قسم کا پھول دار کڑھا ہوا کپڑا، شیشے یا ابرک کی چھوٹی صندوقچی جس میں بچے محرم میں کھانے والا گوٹہ بھرکر رکھا کرتے تھے۔ |
جریب | وہ چاندی کا خول چڑھی ہوئی لکڑی جو بادشاہوں کے چوب داروں کے پاس ہوتی ہے۔ |
جسولنی | (صحیح – لیسولنی) چوبدارنی، لیساول کی تانیث، وہ عورتیں جو شاہی محل میں خبر پہنچاتی ہیں |
جھاڑ کا کانٹا | لڑاکا، وہ شخص جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو |
جہاں نما | شاہی خیمہ و خرگاہ |
جھیٹا | بھوت پریت کا سایہ یا جن و جادو کا اثر |
جھنی | دور دور بنا ہوا کپڑا |
جیگڑ جیگھڑ | ٹھلیا، پانی کا گھڑا |
جھیگڑ بھری جانا | بیگمات میں دستور تھا جب ان کے ہاں کوئی روزہ رکھتا تھا یا بیاہ ہوتا تھا تو کوری ٹھیلیا میں شربت اور بدھنی میں دودھ بھر کر سہرا باندھتی تھیں اور اس پر اللہ میاں کی نیاز دلاتی تھیں۔ |
جیغہ | ایک مرصع زیور جو پگڑی پر باندھا جاتا ہے |
جریب | عصا، لاٹھی |
جالے لینا | مارے مارے پھرنا، بےکار کام کرنا |
چ
چاب | پہلے جب کوئی عزیز سفر سے واپس آتا تھا کنبے والے دھوئے تل، چاول اور شکر سینیوں میں لگا کر بھیجتے تھے اور اس کو چاب کہتے تھے۔ |
چار ابرو کا صفایا کرنا | قلندر کی صورت بننا، دونوں بھویں اور دونوں طرف کی مونچھیں مونڈوانا |
چپی والی | پاؤں دبانے والی |
چٹکی | پاؤں کا ایک زیور جو انگوٹھے میں پہنا جاتا ہے |
چراغی | مزار پر چراغ جلانے کا نذرانہ |
چارقب | ایک قسم کی ولایتی پوشاک |
چون بردار | جوتیاں اٹھانے والا |
چوراسی | ایک قسم کے گھینگرو جو پاؤں کی چھاگل میں ہوتے ہیں۔ |
چلمچی | منہ دھونے کا تشت، اس کو سلفچی بھی کہتے ہیں |
چلاؤ | بغیر گوشت اور زعفران کا پلاؤ |
چہچہاتا | نہایت شوخ اور سرخ رنگ |
چونڈا | عورتوں کے سر کے بال جو وہ سر کے پیچھے سے لا کر ماتھے پر باندھ دیتی ہیں، سر کے پچھلی طرف بالوں کا باندھنا |
چھلاوا | وہ فاسفورس یعنی پرانی ہڈیوں کا روشن مادہ جو اکثر برسات میں پانی کے قریب یا پرانے قبرستان میں رات کے وقت چمکا ہوا دکھائی دیتا اور اپنی لطافت کے باعث ہوا کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے، بلکہ جب کوئی آدمی اس کے پاس سے نکل جاتا ہے تو اس ہوا کے خلا میں جو اس کے چلنے میں پیدا ہوتی ہے وہ ساتھ ساتھ چلا آتا ہے، جاہل لوگ اسی کو بھوت پریت خیال کرکے ڈر جاتے ہیں۔ |
چلونوں | چلمنیں |
چکھوتیاں | چتورپن، کھانوں کا چکھنا |
چوغان | چوگان بازی، ایک قسم کا گیند بلا |
چھوچھو | بچوں کی چھی چھی اور پوتڑے دھونے والی عورت |
چھوچھکا | جھاڑ پھونک |
چھیتی چھیتا | چاہیتی، پیاری |
چوکی | نوبت بجانے والوں کا وقت، پاسبانی |
چھڑے | پاؤں کا زیور، تن تنہا |
چھائیں پھوئیں | نوج، خدا نہ کرے |
چولی | ایک قسم کا ریشمی کپڑا |
چیل کا موت | نایاب چیز، وہ چیزجس کا حاصل ہونا امکان سے باہر ہو |
چھیلب دار | وہ گویے جو جھانجن دار دائروں پر گاتے ہیں |
چوکھڑوں | چوکھولٹی طشتریاں |
چیکن | بےگریبان کی لٹکتی آستینوں کی ایک قسم کی قبا جس کو عہدہ دار لوگ زمانہ شاہی میں پہنا کرتے تھے۔ |
چھٹکنا | پھیلنا |
چھڑی | گوکھرواور چٹکی وغیرہ کو سیدھا کرٹانکنا |
ح
حباب | ایک زیور کا نام جو ہاتھ میں پہنا جاتا ہے، روشنی کے باریک شیشے کے کنول، پانی کا بلبلا |
حاضری | وہ کھانا جو مردے کے وارثوں کو بعد دفنِ میت بھیجتے ہیں۔ |
حبشنیاں | شاہی محل کی چوکیدارنیاں |
حویں | بیویاں، لونڈیاں باندیاں |
حف | اردو میں صرف نظر کے ساتھ مستعمل ہے، حف نظر عورتیں جب کسی چیز کی تعریف کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ حف نظر یعنی نظر بد نہ لگے۔ |
خ
خاصہ | امرا اور سلاطین کا کھانا |
خمرے | ایک قسم کے مسلمان فقیر جو اکثر میلوں تماشوں میں مانگتے پھرتے تھے |
خمریاں | خمروں کی عورتیں جو میلوں ٹھیلوں میں گار مانگتی ہیں |
خواجہ | خواجہ سرا |
خردہ | ریزگاری |
د
دال چھو ہونا | دو پتنگوں کا باہم لپٹ کر زمین پر گر پڑنا |
درگور | دعائے بد اور کلمہ تنفر، قبر میں جائے، مرے اور غارت ہو |
دس گھرا | ایک قسم کا کھیل جس کو لڑکیاں کھیلتی ہیں۔ اس کے دونوں طرف دس دس گھر ہوتے ہیں |
ددا | بچوں کو پالنے اور رکھنے والی باندی |
دست بقچہ | چھوٹی سی بقچی جو ہر وقت ساتھ رہے |
دادا پیش گیر | چھوٹا سا نمگیرا جو پلنگ کے آگے لگایا جاتا ہے |
دلمہ | ایک قسم کا سالن جو بینگن اور گاجرمیں قیمہ اور پنیر بھر کر پکاتے ہیں |
دغدغا | ایک قسم کی چھوٹی قندیل، کنول |
دمچی | ساو کا وہ تسمہ جو گھوڑے کی دم کے نیچے رہتا ہے |
دوبازو | دو رنگے بازوؤں کا پتنگ |
دو پلکا | سفید و سیاہ بازوؤں کا پتنگ |
دوزخ کا کندہ | دوزخی، جہنمی |
دھماکا | ہاتھی پر لادنے کی توپ |
دہیری | پیری، جب کوئی پتنگ کی بازی میں شکست مان لیتا اور لڑانے سے انکار کرتا ہے تو کہتے ہیں دہیری ہے۔ |
دوپہر بجی | دن کے بارہ بجے |
دوغ | چھاچھ، مکھن نکلا ہوا دودھ |
دلائی | دوہر، بغیر روئی کی دھری چادر |
دیسا | برسی، سالانہ فاتحہ |
دیدوں میں رائی لون | لون اور رائی آنکھوں کے حق میں مضر ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کرے دشمن کی آنکھیں پھوٹیں۔ چشم بد دور کی جگہ یہ محاورہ بولتے ہیں۔ |
دفعہ دار | جماعت کا سردار، سپاہیوں کا افسر |
دوپیازہ | ایک قسم کا سالن جس میں دو دفعہ پیاز ڈالتے ہیں۔ تھوڑی تلی ہوئی تھوڑی سادی |
دربہشت | ایک قسم کی مٹھائی |
دوہتر | ایک قسم کا موٹا چھدرا کپڑا |
دھیے بجانا | غل شور مچانا، واویلا کرنا |
ڈ
ڈھلیٹ | ڈھال باندھنے والا، مسلح سپاہی |
ڈالی ڈالی کا گھلا ہی پیوندی ہے | آڑو بیچنے کی آواز |
ر
راؤٹی | ایک قسم کا چھوٹا خیمہ، چھول داری |
رسی | سانپ، دلی کی بیگمات رات کے وقت سانپ کو رسی کہتی تھیں اور اس کا نام نہیں لیتی تھیں۔ |
رسول شاہی | ایک قسم کے آزاد فقیر جو ڈاڑھی میں صرف ٹھوڑی کے نیچے بال رکھتے تھے |
رنڈ سالا | وہ جوڑا جو بیوہ عورت کو اس کے میکے والوں کی طرف سے رانڈ ہوجانے کے وقت پہنایا جائے۔ |
روزہ اچھلنا | روزے کی حالت میں غصے ہونا |
رائیتا | ایک قسم کا بنا ہوا دہی جس میں ابالا ہوا کدو یا ککڑی ڈالیں |
روشن چوکی | باجے والے جو بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے تھے |
رساں رساں | آہستہ آہستہ |
ز
زانو پوش | زانو پر ڈالنے کا رومال |
زلہ ربا | خوشہ چیں، فائدہ اٹھانے والا |
زنبور | چھوٹی توپ جو اکثر اونٹوں پر لدی ہوتی تھی اور بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چھوٹتی جاتی تھی |
زنبورجی | توپچی، زنبور چلانے والا |
زنبق | نرگس کی قسم کا سفید رنگ کا پھول |
زناخی | قلعے کی بیگمات کا خطاب، مثلا سہیلی بہنیلی |
زیر پائی | ایک خاص قسم کی زنانی جوتی |
س
ست نجا | سات قسم کا ملا ہوا اناج |
سٹک | چھوٹا بیچوان |
سراسری | عورتوں کا ماتھے پر پہننے کا ایک خاص قسم کا زیور |
سرپینچ | پگڑی، دستار، پگڑی کے اوپر کا چھوٹا کپڑا، نیز ایک زیور جو پگڑی کے اوپر باندھتے تھے۔ |
سرانچھ سوانچہ | چھوٹا خیمہ، قنات |
سرتی | تیز، چالاک، ہوشیار عورت |
سرخرو جونڈا ایمان اہونڈا | ظاہر میں ایمان اور باطن میں بے ایمان |
سرڈولی پاؤں کہار | (کہاوت) اگر کوئی عورت بغیر سواری یا بے سازوسامان کے کسی کے گھر چلی جائے تو اس موقع پر عورتیں یہ کہاوت بولتی ہیں۔ |
سرگالہ منہ بالا | (کہاوت) بڑھاپے میں بچوں کی سی باتیں |
سگدے مارنا | جگہ جگہ دوڑتے اور اچھلتے پھرنا |
سفل دان | ہڈی وغیرہ رکھنے کا برتن |
سنگوتی | جانور کے سینگوں کا چھوٹا غلاف یا خول |
سمرن | مالا جو بطور تسبیح کے اہل ہنود ہاتھ میں رکھتے ہیں، ایک قسم کا زیور |
سوزنی | وہ دوہرا کپڑا جس پر سوتی سے باریک کام کیا گیا ہو۔ ایک قسم کا مشہور بچھونا جو سوت سے کڑھا ہوتا ہے۔ |
سوتی | ایک قسم کا گلاب |
سلیم شاہی جوتی | ایک قسم کے سلمے کی دلتی والی خوبصورت اور نازک جوتی |
سریت | وہ لونڈی جسے اپنے تصرف میں لائیں |
سلاطین | شاہی خاندان کے بھائی بند |
سیاہ لچھے ہیں ہاتھوں کے | سیاہ شہتوت بیچنے کی آواز |
سائیں سائیں کرنا | سناٹا ہوجانا |
سومونڈی | نگوڑی ناٹھی |
سینگ کٹا کر بچھڑوں میں ملنا | بوڑھا ہو کو بچوں کی سی باتیں کرنا |
ساون بھادوں | وہ مکان جس کے ارد گرد اریک جالیاں لگی ہوں اور جس میں نظر کے ٹکرانے سے بارش کی سی کیفیت معلوم ہو |
ش
شبو | ایک قسم کا سفید پھول جس کی خوشبو نہایت بھینی ہوتی ہے اور رات کو نکلتی ہے |
شدا – شدہ | علم، نشان، وہ جھنڈا جو شہدائے کربلا کی یادگار میں محرم میں تعزیوں کے ساتھ نکالتے ہیں |
شقہ | رقعہ، فرمان شاہی، کاغذ کا ٹکڑا |
شولہ شلہ | ایک قسم کا کھانا جو چاول کو گوشت کے شوربے میں بطور ہریسہ نہایت گلا کر پکاتے ہیں |
شیطان اچھلا | شرارت سوجھی |
شیطان کے کان بہرے | جس وقت کوئی بری خبر عورتیں سنتی ہیں تو کہتی ہیں۔ مفہوم اس کا یہ ہوتا ہے کہ خدا اس خبر کو جھوٹ کرے |
شیطان چڑھنا | غصہ چڑھنا، بدی پر اتر آنا |
ص
صحنک | رکابی، چھوٹا طباق۔ (۲) حضرت فاطمہ کی نیاز اور اس نیاز کے کھانے کو بھی صحنک کہتے ہیں۔ اس نیاز میں پاک دامن اور سادات کی عورتیں شریک ہوتی ہیں۔ |
ط
طبل کا ہاتھی | وہ ہاتھی جس پر جلوس میں نقارہ رکھا ہوتا ہے |
طلوغ | فوج کا نشان، ایک قسم کی بڑی شمع |
طاہری | آلو پا پلاؤ |
طائفہ | رنڈی اور اس کے ساتھی، ناچنے والوں کا گروہ |
طرہ | مقیش کے تاروں کا گچھا |
ع
عرض بیگی | وہ شخص جو لوگوں کی درخواستیں بادشاہ کے حضور پیش کرے |
عماری | ہاتھی کا ہودہ جو بیٹھنے کے واسطے اس کی پیٹھ پر رکھتے ہیں اس کے موجد کا نام عمار تھا، اس وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔ |
عملہ، نعلہ، پوزک، رکاب حاضر | (۱)ملازمان، (۲) صوبہ دار |
علامہ | چالاک و بیباک، شوخ چشم عورت |
عقل کے ناخن لو | سمجھ کے بات کرو، ہوش میں آؤ |
غ
غث کے غث | لوگوں کا ہجوم، اژدہام |
غیبانی | پوشیدہ کار کرنے والی، ایک قسم کا گالی جیسے قحبہ، قطامہ |
غاشیہ | وہ کپڑا جو چار جامے کے اوپر ڈالتے ہیں
|
ف
فتیل سوز | شمع دان |
فقیر بیک | محرم کے مہینے میں حضرت اما حسین کا فقیر بننا |
ق
قلانہ | وہ بادشاہی سپاہی جو لال انگرکھے، کالی پگڑی، کالے دوپٹے کی وردی سے شیر دہاں چھوٹے چھوٹے چاندی کے سونٹے ساتھ لیے ہوئے بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے اور خلاف آداب شاہی کوئی امر ہونے پر لوگوں کو مار بیٹھتے تھے، یہ لوگ پہرا چوکی دینے کا کام بھی کرتے تھے۔ |
قطامہ | بیسوا، کٹنی، ہوس پرست عورت، (۲) ایک نہایت فاحشہ عورت کا نام جو ابن ملجم سے سازش رکھتی تھی اور آل رسول کی نہایت دشمن تھی۔ عجب نہیں جو عورتیں بحالت خفگی اسی عورت سے منسوب کر کر عام عورتوں کو اسی وجہ سے کہ دیتی ہیں۔ |
قلما قنی | اردا بیگنی، وہ عورت جو ہتھیاروں سے مسلح ہو کر امیروں کے گھر کا پہرا دے |
قور خانہ | سلاح خانہ، میگزین، وہ جگہ جہاں ہتھیار رکھتے ہیں |
قبولی | چنے کی دال کا پلاؤ |
قیطون | ایک قسم کی زری اور ریشم کی بٹی ڈوری |
ک
کٹم کٹا | مار پیٹ |
کچکونڈرے | کچے کپے موٹے موٹے روٹ |
کاکریزی | سپاہی مائل اودا رنگ |
کالڑا | وہ پتنگ جس کے اوپر کا حصہ سیاہ ہو |
کرامات | بادشاہ کا خطاب، جیسے خداوند، نعمت، صاحب عالم |
کیر کری تاش | ایک قسم کا ریشمی کپڑا جس کا تانا ریشم اور بانا بادلے کا ہوتا ہے |
کسنا | کھانوں کے خانوں کو ڈھکنے کا ڈوری دار غلاف |
کف پائی | ایک قسم کا بھڈی ایڑی کی جوتی |
کفش | نعل دار جوتی |
کھجور چھڑی | ایک قسم کا ریشمی کپڑا جس پر کھجور کی ٹہنیوں سے مشابہ چھڑیاں بنی ہوتی ہیں |
کڑکیت | بادشاہ کی سواری کے آگے آگے تعریفی یا رزمیہ داستانیں گا کر سنانے والے |
کلاوہ | زرد و سرخ گنڈے دار رنگا ہوا کچا سوت جو محرم میں بچوں کو پہنایا جاتا ہے اور ملا سیانے اس کا گنڈا بناتے ہیں۔ |
کلامہ | وہ پتنگ جس کے نیچے کا حصہ کالا ہو |
کل چڑا | ایک قسم کا پتنگ |
کل سری | ایک قسم کی بگل |
ککڑ والے | بازار میں حقہ پلانے والے |
کلیجہ جلی | وہ نکل جس کا بیچ کالا ہو |
کلھیاری | زبان دراز اور جھگڑالو عورت |
کلبوت | قالب |
کلب | قلب، یعنی منہ دل |
کنیانا | کترانا، پتنگ کا ایک طرف ہو جھکنا |
کمائے | داؤ پینچ |
کھچم | کراری بوریاں، پاپڑ، مٹھریاں |
کونا کھدرا
کونا کھترا |
بل، سوراخ، گوشہ |
کایا | اصلیت، ماہیت |
کلیجی پھیپھڑا | بے میل، ایک قسم کی پھبتی ہے جو بے میل سیاہی اور سرخی پر کہی جاتی ہے |
کھانجی | برتنوں کو رکھنے یا ان پر ڈھکنے کی ٹوکری |
کمیدان | کپتان کا ماتحت عہدہ دار |
کار چوب | ایک قسم کا کشیدہ جو لکڑی کے چوکھٹے پر پھیلا کر کاڑھتے ہیں |
کلسی | کلفی |
کھیت کرنا | چاند کا نکلنا |
کوس کوس کے ڈھیر کرنا | پیٹ بھر کے بددعا دینا |
کہہ سکونی | ایک قسم کی پہیلی |
کان دبا کے | چپکے، بے چوں و چرا |
کلجبھی | وہ عورت جس کی بد گوئی اثر کر جائے، کالی زبان والی |
کمری | ایک قسم کی جاکٹ |
کد کڑے لگانا | خوب اچلنا کودنا |
کڑا | وہ چھت جو محض اینٹ چونے سے بنی ہو اور کڑیوں کو اس میں دخل نہ ہو |
کام چور نوالے حاضر | (مثل) وہ شخص جو کام کے وقت ٹل جائے اور کھانے کے وقت موجود ہو |
کھلی | ہنسی، ٹھٹھا |
گ
گاڑی بھر راستہ | اتنا راستہ جس میں سے گاڑی نکل جائے، تھوڑا سا راستہ |
گاؤ دیدہ | ایک قسم کی میدے کی خمیری روٹی جو بیل کی آنکھ سے مشابہ ہوتی ہے |
گجباگ | آنکس جس سے ہاتھی کو ہانکتے ہیں |
گاؤ زبان | ایک قسم کا چھوٹا پراٹھا جو تنور میں مثل شیرمال کے پکایا جاتا ہے۔ |
گسرنٹ | ایک کپڑے کا نام |
گشتی دست بقچہ | سفری بوغبند |
گل تکیہ | گال کے نیچے رکھنے کا تکیہ |
گلگلی | نرم، لچکدار |
گنڈا | نیلے سوت کا کلاوہ (۲) کوڑیوں اور گھنگھروؤں وغیرہ کا حلقہ جو جانوروں کے گلے میں باندھتے ہیں۔ |
گوشوارہ | ایک قسم کی زر دوزی کی پیٹی جو زیبائش کے لیے دستار میں باندھی جاتی ہے۔ |
گولنداز | توپ چلانے والا، توپچی |
گد بد | تلے اوپر |
گوڑی | وہ مال جو بے محنت و مشقت حاصل ہو۔ |
گلشن | جالی دار باریک کپڑا |
گلبدن | ایک قسم کا ریشمی دھاری دار کپڑا |
گوکھرو | مقیش وغیرہ کا تکونٹھا موڑا ہوا گوٹا |
گھیتلی جوتی | ایک قسم کی جوتی جو آگے سے مڑی ہوتی ہے اور جس میں نعل نہیں ہوتے |
گوٹا | وہ مسالہ جو محرم میں مسلمانوں کے ہاں پانی کی جگہ کھایا جاتا ہے اور اس میں دھنیا، الائچی اور کھوپرا وغیرہ ملا ہوتا ہے۔ |
ل
للو پتو کرنا | خوشامد کرنا |
لل دمی | پتنگ جس کی دم سرخ کاغذ کی ہوتی ہے |
لمہکا | پتلا گوٹا، دنک، زریں جھنڈا |
لوز | ایک قسم کی شیرنی |
لونگ چڑے | ایک خاص قسم کے کباب جو بیسن ملا کر بنائے جاتے ہیں |
م
مانی | گھر میں کام کاج کرنے والی عورت |
مرداری | چھپکلی |
مال زادی | بازاری عورت |
مانڈا | ایک قسم کی نہایت پتلی اور بڑی روٹی جو میدے میں گھی ملا کر تنور میں پکائی جاتی ہے |
ماہی پشت | ایک قسم کا کارچوب جو پشت ماہی سے مشابہ ہوتا ہے۔ |
ماہی مراتب | وہ اعزازی نشان جو بہ شکل سیارات بادشاہوں کی سواری کے آگے آگے ہاتھیوں پر چلتے ہیں |
مامور | بند |
مبرور | پاک، مقدس |
متصدی | منشی، پیشکار |
مجرا | ادب کے ساتھ کسی کو سلام کرنا، بادشاہوں اور رقاصوں کا گانا |
مردھا | بادشاہی پیادہ جو جریب لے کر چلتا ہے |
مد پانتی | چنبیلی کا پھول |
مقراضی حلوا | وہ حلوا جو تراش کر کھایا جائے |
مچنگڑ | موٹا سا روٹ |
ملک ملک کر | مٹک مٹک کر |
منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت | بہت بوڑھا |
موتی پاک | ایک قسم کی مٹھائی، ایک زیور کا نام |
منہ تھپتھپانا | نیچے کا ہونٹ لٹکا لینا اور ناراض ہونا، آزردگی کی صورت بنانا |
مہابلی | طاقت والا، اکبر بادشاہ کا لقب |
میر عدل | چیف جج |
من و سلوی | ایک قسم کا نفیس کھانا جو مرغ کے گوشت کا پکتا ہے |
میر توزک | جلوس کو ترتیب دینے والا افسر |
میدنی | میوات اور پورب سے دیہاتی زائرین کا قافلہ |
متنجن | ایک قسم کا میٹھا اور نمکین پلاؤ جس میں کچھ ترشی بھی ہوتی ہے |
مزعفر | زعفران میں رنگے ہوئے میٹھے چاولوں کا پلاؤ |
میل کا بیل بنانا | بات کا بتنگڑ بنانا |
مشروع | ایک قسم کا کپڑا جس کا عورتیں پائجامہ پہنتی ہیں |
مسی کی دھڑی | مسی کی تہ جو عورتیں ہونٹوں پر جماتی ہیں |
منت | نذر، نیاز، مانی ہوئی بات |
مٹکنا | چھوٹا اورخوبصورت |
مٹھیاں | ایک قسم کا زیور جو قلم کی طرح ہوتا ہے اور اس میں عورتیں تعویذ رکھ کر بازوؤں پر باندھتی ہیں۔ |
مقیشی | سونے چاندی کے تاروں کا |
ن
نام قماش | ایک قسم کی بہت پتلی اور خستہ روٹی جو آٹا، پانی اور تھوڑی سی شکر ملا کر پکاتے ہیں |
نان تنکی | پتلی اور بڑی روٹی |
ناظر | محل کا داروغہ، محرروں کا سردار |
ناموس | زنان خانہ |
نجیب | بزرگ، شریف، (۲) نیلی وردی والے دربان |
نمیش | دودھ کے جھاگ جو دلی میں دولت کی چاٹ کے نام سے مشہور تھے اور سردیوں میں صبح کے وقت بکتی تھی |
نعمت خانہ | ایک قسم کا چوبی خانے دار ظرف جس میں کھانے کی چیزیں رکھتے ہیں، نیز وہ مکان جس میں دعوت کا سامان رکھا ہو۔ |
نوبت | نقارہ، دمامہ |
نکتوڑے | نخرے |
نواڑے | پانی کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں، ڈونگے |
نوٹنکی | سانگ، ایک قسم کا ناچ گانا جس میں ڈراما کھیلا جاتا ہے |
نیگڈمبر | بادشاہ کے بیٹھنے کے لیے دو برجیوں والی عماری، جو ہاتھی پر لگی ہوئی ہوتی ہے |
نین متنی | ہر بات پر رونے بسورنے والی |
نورمحلی پلاؤ | ایجاد نور جہاں |
نرگسی پلاؤ | ایک قسم کا پلاؤ جس میں ابلے ہوئے انڈے کوفتوں میں ملے ہوئے پڑے ہوتے ہیں |
نقیب | چوبدار جو امیروں، بادشاہوں کی سواری کے آگے آگے آواز نکالتا ہے |
نشان | جھنڈا، علم |
نانکی | ایک قسم کی کھلی سواری جس میں امرا کی خواتین سوار ہوتی تھیں |
نافرمانی رنگ | گل نافرمان جیسا رنگ جو اودا ہوتا ہے |
نورتن | ایک قسم کے جڑاؤ کا زیور کا نام جس میں نو قیمتی نگ ہوتے ہیں |
نشانچی | علم بردار |
نک سے سک ٹھیک | سر سے پاؤں تک خوشنما |
و
وردی | صبح شام کی نوبت جو امرا کے دروازے پر بجتی رہتی ہے۔ سپاہیوں کا ایک مخصوص اور متعین لباس |
ہ
ہڑیاں | مٹی کے گھروندے جن میں ایک دالان اور کوٹھری بنی ہوتی ہے اور اس میں بچے گڑیاں رکھتے ہیں |
ہدڑا | براحال، بری گت |
ہری دوب | ایک قسم کی عمدہ اور باریک گھاس |
ہڑیں | ایک قسم کی سونے چاندی اور ریشم کے تاروں اور سوت کی لمبی گھنڈی جو ہڑ کی شکل کی ہوتی ہے |
ہزارہ | پانی کا فوارہ، ایک قسم کا گیندے کا پھول |
ہوادار | تام جھام، بادشاہ کی سواری کا وہ تخت جسے کہار اٹھا کر چلتے ہیں |
ہلسانا | بہکانا، اکسانا، شوق دلانا |
ہیکل | گھوڑے کے گلے کا زیور |
ہمیں ہے ہے کرکے پبٹے | ہمیں مرا ہو دیکھے |
ہنڈ کلہیا | لڑکیوں کا کھانا پکانے کا کھیل |
ہپا | بچوں کاکھانا پکانے والی عورت |
ہاتھوں چھاؤں کرنا | نہایت حفاظت سے رکھنا |
ہزاری بزاری | خاص و عام، ادنی و اعلی |
ی
یاقوتی | ایک قسم کی مٹھائی جو کھیر کی طرح ہوتی ہے۔ ایک قسم کی عمدہ غذا |
[1]۔ مکھیوں کے لیے لکڑی کا کٹگھڑ کھڑا کرتے تھے، اس پر مہین پردہ ڈالتے تھے۔ (مصنف)
[2]۔ دن کے بارہ بجے۔
[3]۔ صحیح فتیلہ سوز
[4]۔ مہاوت
[5]۔ بادشاہ بیگم
[6]۔ نقارہ
[7]۔ خیرات
[8]۔ سانپ
[9]۔ جواب لونڈی
[10]۔ جواب بیگم صاحب
[11]۔ پاجامے
[12]۔ ایک قسم کا پلنگ پوش ہوتا ہے۔
[13]۔ وزیر
[14]۔ وزیر
[15]۔ بخشی
[16]۔ ناظر
[17]۔ وکیل
[18]۔ وکیل
[19]۔ ہاتھی کا نام
[20]۔ ہاتھی کا نام
[21]۔ ہاتھی کا نام
[22]۔ بادشاہ کے پیر
[23]۔ فقیروں
[24]۔ بستی قطب الدین بختیار کاکی
[25]۔ عمامہ، دستار، مگر خادم لوگ ایک دس بارہ گرہ کا کپڑے کا ٹکڑا سر سے لپیٹ دیتے ہیں۔ (مصنف)
[26]۔ آپس میں مل گئے۔
[27]۔ جھنڈا
[28]۔ گوٹا کناری
[29]۔ خیمہ سرگاہ
[30]۔ کھاؤ
[31]۔ سواریاں
[32]۔ عزت دار
[33]۔ گاؤں
[34]۔ شعبدہ بازی
[35]۔ قلب
[36]۔ فرقہ فقیر