﷽
اَلحَمدُ لِلہِ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجاً وَجَعَلَ فِیهَا سِرَاجاً وَقَمَراً مُنِیراً
نظم :
حمد بے حد اُس خدائے پاک کو
کر دکھایا جس نے خلق افلاک کو
اور وہ پیدا کیے اس میں بروج
پا نہیں سکتی خرد جن کا عروج
مہر و مہ کو کر دیے جلوے عطا
منحصر جن پر ہوئے صبح و مسا
اور سوائے اِن کے کیا کیا چیزیں نادر بنائیں کہ جس کی صنعت کی باریکیاں کسی نے نہ پائیں اور اگر غور کر کے دیکھو تو کون سی شے بیکار ہے، جس شے کو سب لوگ بُرا کہتے ہیں اُس سے وہ باتیں ظہور میں آتی ہیں کہ بیان سے باہر ہیں، جیسے کہ فرقہ مستورات کا ہے کہ سب اُس کو بُرا کہتے ہیں اور موم کی ناک جانتے ہیں کہ جدھر پھیرا پھر گئی، ذرا دم دیا وہ فقرہ میں گھر گئی؛ اللہ جل شانہ کی وہ شان ہے کہ اُس میں وہ باتیں پختہ مزاجی کی پائی جاتی ہیں کہ بڑے بڑے مرد عالی حوصلہ اُ ن کی جستجو میں چکرا جاتے ہیں۔ غرض کہ جناب باری نے جو شے بنائی ہے ایسی ہی لاثانی بنائی ہے۔ اگر نظر وحدت سے دیکھو تو وہ ہی ہر شے میں موجود ہے۔ بقول میر حسن دہلوی، بیت:
نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں پر ہر ایک شے میں ہے
لیکن آنکھیں بینا چاہیے ہیں؛ ہماری آنکھیں اندھی ہیں، ہم کیا دیکھیں گے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آوے، دم نہ مارے، خاموش ہو رہے۔
نعت سرور کائنات، خلاصۂ موجودات، فخر اولین، ختم المرسلین، محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبےٰ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و اہل بیتہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، میر شمس الدین فقیر نے آپ کی شان مبارک میں کیا خوب رباعی کہی ہے۔ رباعی:
پیش از ہمہ شاہان غیور آمدہ
ہر چند کہ آخر بظہور آمدہ
اے ختم رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ
اور شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے جو قطعہ آپ کی شان مبارک میں کہا ہے وہ مقبول کبریا ہے اور پسند خواجۂ ہر دوسرا ہے۔ اُس قطعہ کو بھی واسطے برکت کلام کے تحریر کیا ہے اور خوشنودیِ آنحضرت بھی اُس سے واضح ہے۔ قطعہ :
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ
اور اس بیت سے اوصاف رسالت مآب صاف منکشف ہیں، جو سب پیغمبروں میں خوبیاں مجتمع تھیں وہ اکیلی آپ کی ذات بابرکات میں تھیں۔ بیت:
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور یہ رباعی جناب استاد جی صاحب قبلہ متخلص بہ قلقؔ نے تصنیف فرمائی ہے کہ اکثر صاحبوں کو پسند آئی ہے۔ لہذا وہ بھی لکھنے میں آئی۔ رباعی :
اے ختم رسل! تیری ثنائے بارز
کیونکر کروں میں جگر فگار عاجز
حق تو یہی ہے کہ کوئی محبوب خدا
تجھ سا نہ ہوا نہ ہے نہ ہوگا ہرگز
منقبت اصحاب کبار بزرگوار جن کے باعث آج تک دین محمدی میں رونق ہے اور قیامت تک برابر روشنی دین پیغمبر آخر الزمان میں رہے گی۔ بیت :
چراغ و مسجد و محراب و منبر
ابوبکر و عمر عثمان و حیدر
اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف قرآن شریف میں جابجا فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۂ توبہ میں جناب باری نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں یہ آیت فرمائی ہے: “ثَانِيَ اثْنَــيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا” اور سب اصحابوں کی تعریف سورۂ فتحنا میں صاف ہویدا ہے، محمد رسول اللہ سے آخر سورہ تک موجود ہے۔ جس کی صفت و ثنا اللہ جل شانہ خود فرمائے، دوسرے کی کیا اصل ہے جو زبان ہلائے۔ آفتاب و مہتاب ہیں کہ جن کی روشنی قیامت تک رہے گی۔ بارک اللہ لنا ولکم اجمعین۔ نظم :
اصحاب رسول پر تحیات و سلام
بے شبہ ہیں جو اصل فروع اسلام
اور آل یہ اس کی ہو جیو رحمت حق
جن سے ہوا کشور ہدایت کا نظام
وجہِ تالیف
احقر العباد سراپا قصور گنہگار سیہ کار امیدوار مغفرت غفار حافظ محمد امیر الدین متخلص بہ معنی بن حافظ غلام نظام الدین دہلوی غفر اللہ لنا کہتا ہے کہ دہلی میں ایک بزرگ ہمارے ہیں اور والد ماجد سے بہت محبت قلبی اور اتحا دلی رکھتے ہیں کبھی زمانۂ سابق میں یہ حکایت جو اس اجزا میں درج ہے، زبانی والد ماجد کی سُنی تھی۔ اُس کو عرصہ دراز ہوا، فی الحال جناب موصوف نے کہ شہرۂ خلق و مروت و حلم و اشفاق والطاف اُن کے کا از شرق تا غرب ہے، بہت عالی خاندان معتمد بارگاہ سلطانی پشت ہا پشت سے قلعۂ مبارک سے تعلق رہا اور دربار میں باعزت و توقیر حاضر رہتے، خطاب اور خلعت سے اکثر سرفراز ہوتے۔ چنانچہ آخر زمانہ تک برابر وہی رسوخ حاصل رہا اور فی زماننا بھی عنایت ایزدی سے حاکم وقت سے ایسی رسائی ہے کہ کسی کی بھی نہ ہوگی، جو خطاب بادشاہی ہے مجھ بسبب سہو کے یاد نہیں رہا لیکن دہلی میں کیا تمام ملکوں میں اور قلمرو انگریزی میں بخطاب نواب نبی بخش خان صاحب دور دور مشہور ہیں۔ سبحان اللہ ایسے وضع دار، عالی حوصلہ، سخاوت اور شجاعت میں یکتا، طبع حلیم، رائے سلیم، ہمت و جرأت میں لاثانی، ہمہ صفت موصوف اللہ تعالیٰ نے اُن کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف مجتمع کیے ہیں زاد اللہ قدرہ و منزلتہ ماہ محرم الحرام 1287 ہجری نبوی میں ایک خط اس مضمون کا بھیجا کہ زمانۂ سابق میں مَیں نے ایک حکایت عجیب آپ کی زبانی سُنی تھی، اگر اب آپ کو یاد ہو تو از راہ محبت دیرینہ کے نقل کرا کے بھجوا دیجیے۔ حالانکہ طبیعت جناب قبلہ و کعبہ والد ماجد کی عرصۂ دو ماہ سے عارضہ بخار وغیرہ سے علیل تھی لیکن بسبب لکھنے جناب عموی صاحب کے کہ سررشتۂ برادری کے سوا سررشتۂ محبت بھی رکھتے تھے، اُس حالت میں بھی لکھنا جناب موصوف کا بہت غنیمت سمجھ کر اس کمترین سے فرمایا کہ تو دوات و قلم لے کر میرے پاس بیٹھ۔ میں جو زبانی کہتا جاؤں، تو اُس کو لکھتا جا۔ فدوی نے بسبب محروم ہونے نوشت و خواند کے چند در چند عذر کیے کیونکہ اس عاصی کو لکھنے پڑھنے سے بہرہ نہیں اور اس نعمت عظمیٰ سے اپنی سیہ بختی کے سبب محروم ہے لیکن بسبب مُصِر ہونے جناب حضرت قبلہ گاہی صاحب کے الاَمرُ فَوقَ الاَدَب سمجھ کر دل میں اپنے خیال کیا کہ اگر تو بموجب ارشاد حضرت والد ماجد کے لکھے تو تیرا یہ سحر کلام یادگار رہے۔ یہ تصور کر کے بتاریخ یکم ماہ محرم الحرام یوم یکشنبہ 1287ھ نبوی کو بموجب ارشاد حضرت موصوف کے اس طرح سے لکھنا شروع کیا اور نام اس داستان کا قصہ مقتول جفا اور تاریخی نام فسانۂ غم آمود رکھا۔ اس سے پہلے ارباب دانش و بینش کی خدمت میں التماس ہے کہ بخدائے لایزال یہ عاجز بالکل اجہل مطلق اور پڑھنے لکھنے سے عاجز کچھ تمیز نہیں ہے لیکن بسبب فیض برکت و تاثیر صحبت حضرت جناب استاد جی صاحب کے قدرے شُد بُد اُردو میں ہو گئی ہے۔ اس کا بھی یہ حال ہے کہ خود غلط املا غلط انشا غلط لکھے تو کیا لکھے۔ دوسرے بقول کسی استاد کے الانسان مرکب من الخطاء والنسیان اگر کسی جا کوئی محاورہ خلاف روزمرہ کے ہو تو للہ عیب پوشی کو کام فرماویں اور بموجب قول سعدی علیہ الرحمہ کے کاربدبند ہوں۔ شعر :
تو نیز ار بدی بینی اندر سخن
بہ خلق جہان آفرین کارکن
اور بنظر اصلاح ملاحظہ کر کے باذوق درست کر دیں۔
داستان عجوبہ بیان
بادشاہ کا دربار میں وزیروں سے ایک امر کا سوال کرنا، تین وزیروں کا انکار، چوتھے وزیر کا اقرار کرنا
محرر داستان مرکب قلم کو میدان صفحۂ قرطاس پر اس طرح سے جولان کرتا ہے کہ سر زمین ہند میں ایک شہر تھا بارفعت و شان، بہت آباد بہشت نژاد، عمارت پختہ، دکانیں نفیس، چوپڑ کا بازار بے آزار، ہموار سڑکیں صاف بیچ میں نہر، اس میں فواروں سے پانی کا اچھلنا کیفیت دکھاتا تھا۔ دکاندار جوان جوان خوبصورت قرینے سے ہر شے کا انبار اپنے سامنے رکھے دلکش ادائے اور خوش صدائے سے بیچتے تھے۔ غرض کہ کوئی شے ایسی نہ تھی جو اُس بازار میں نہ تھی۔ ہر چیز مہیا، ناز و نعمت کا ڈھیر، جابجا رعایا مرفہ الحال و آسودہ، ہر ایک شخص بے فکر، کسی سے غرض نہ مطلب، شب و روز اپنے گھروں میں رہنا اور بغلیں بجانا۔ انتظام شہر میں ایسا کہ دیکھا نہ سُنا، رات بھر راستہ چلتا، مجال کیا جو کسی کا ایک تنکا تک چوری جاتا۔ شب بھر دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے تھے۔ چور اور چکار اپنی قسمت کو بیٹھے روتے تھے، مقدور نہ تھا کہ کسی کے مال و اسباب کو نگاہ بھر کے دیکھیں اور یہ طاقت کسی کی نہ تھی کہ کوئی ظلم و ستم کسی پر کرے۔ شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے، فرغ البالی سے سب وہاں رہتے تھے۔
والیِ ملک وہاں کا ایک بادشاہ شہنشاہ عالی مقام سلطان بخت نام، کئی سلطان تاجدار اُس کے باج گزار تھے اور تابع فرمان بڑے بڑے ذی شان تھے۔ سخاوت اور شجاعت میں یکتا اور رعب و جلال، عدل و انصاف، داد و دہش میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ خزانہ بسیار، فوج دریا موج ہزار در ہزار بلکہ بے حد و شمار تھی، کچھ شمار نہ تھا۔ ہمیشہ انتظام مالی و ملکی میں مصروف رہتا تھا اور اُس کے چار وزیر نیک تدبیر تھے، جن سے انجام کار بخوبی تمام ہوتا تھااور وہ مشہور بہ وزیر اول، وزیر دوم، وزیر سوم، وزیر چہارم تھے۔ یہ چوتھا وزیر مسمیٰ مسعود علی خان اُن تینوں وزیروں سے عقیل زیادہ تھا، جواب معقول باصواب دیتا تھا، بات سنجیدہ و پسندیدہ کہتا تھا۔ بادشاہ بھی اکثر اسی کی بات کو پسند فرماتے اور کہا مانتے تھے، اَور وزیر اسی سبب اس سے جلتے تھے۔ خصوصاً وزیر اول اس سے زیادہ حسد کرتا تھا۔
ایک روز بادشاہ نے دربار میں وزیروں سے مخاطب ہو کر یہ سوال کیا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی ہے جس میں یہ چار وصف ہوں، شکیلہ جمیلہ ایسی ہو کہ اپنا ثانی نہ رکھتی ہو اور علم موسیقی میں ایسا کمال رکھتی ہو کہ کوئی دوسرا اس کے مقابل جہاں میں نہ ہو اور علم دینی میں قابل ہو یعنی فاضل بلکہ اپنے وقت کی علامہ ہو اور صاحب عصمت ایسی ہو کہ کسی نے اُس کی پرچھائیں نہ دیکھی ہو اور نہ آواز اُس کی کسی نے سُنی ہو۔ یہ بات بادشاہ کی سُن کر وزیر اول نے دست بستہ عرض کی کہ جہاں پناہ! ایسی عورت دید ہے نہ شنید، ہم نے تو کیا کسی نے بھی ایسی عورت نہ دیکھی نہ سنی ہوگی کہ فرد واحد میں یہ چاروں صفتیں ہوں۔ کسی میں ایک صفت ہوگی اور کسی میں دو اور کسی میں تین اور کسی میں ایک بھی نہ ہوگی۔ اگر کوئی خوبصورتی میں یکتا ہوگی تو اس میں فن موسیقی نہ ہوگا اور اگر یہ دونوں وصف ہوئے تو عصمت نہ ہوگی اور اگر صاحب عصمت ہوگی تو اُسے گانے بجانے سے کیا نسبت ہے اور عالم اور فاضل راگ و مزامیر کو کب درست رکھتے ہیں، کیونکہ شرع شریف میں راگ و مزامیر قطعی حرام ہے۔ جناب عالی! یہ چاروں باتیں جو حضور نے فرمائی ہیں، اجتماعِ نقیضین ہیں، ان کا ایک جا مجتمع ہونا غیر ممکن ہے۔ پھر بادشاہ عالیجاہ نے وزیر دوم سے یہی سوال کیا۔ چنانچہ وزیر دوم نے بھی بموجب وزیر اول کے حضور اقدس میں یہی التماس کیا بلکہ وزیر اول سے کچھ زیادہ اصرار کیا۔ پھر ظل سبحانی وزیر سوم کی طرف مخاطب ہوئے اور یہی کلمہ ارشاد فرمایا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی سنی ہو تو عرض کرو۔ وزیر سوم نے عرض کی کہ جہاں پناہ! وزیر اول و وزیر دوم نے جو سرکار عالی میں التماس کیا ہے راست ہے، ذرا جھوٹ نہیں ہے۔ فی زماننا کیا بلکہ متقدمین نے بھی ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی ہوگی۔
غرض کہ ایک نے ایک کے کلام کو رونق و جِلا دی اور بہت سے دلیلیں روبرو بادشاہ کے پیش کیں تاکہ یہ بات بادشاہ کے دل سے جاتی رہے، لیکن اُس کے دل سے کب جاتی ہے۔ بعد اس گفتگو کے حضرت عالی وزیر چہارم کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تم کہو اس باب میں کیا کہتے ہو۔ اگر تم نے ایسی عورت دیکھی یا سُنی ہو تو جلد بیان کرو۔ وزیر چہارم سُن کر خاموش سر در گریبان، آنکھیں نیچی کیے بیٹھا رہا۔ کچھ جواب بادشاہ کے سوال کا نہ دیا۔ بادشاہ اس کے جواب نہ دینے سے آزردہ ہوئے اور فرمایا کہ تو نے کچھ جواب ہماری بات کا نہ دیا اور چُپ ہو رہا، جلد جواب باصواب دے۔ وزیر چہارم نے بادشاہ کی خفگی سے ڈر کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور بعد دعا اور ثنا کے یوں گویا ہوا کہ اے گردوں بارگاہ! کیا عرض کروں، خاموشی باعث شرم و حیا کی تھی، امیدوار عفو کا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ بس عبارت ہو چکی، مطلب کہہ۔ وزیر ہاتھ باندھ کر عرض کرنے لگا کہ خداوند نعمت! سنیے، اللہ تعالیٰ نے ایک سے ایک کو فوق دیا ہے، وہ جو چاہے سو کرے۔ اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں کہ فرد واحد میں یہ چاروں صفتیں ہوں۔ آپ تو بشر میں فرماتے ہیں، وہ چاہے تو حیوان مطلق کو ہمہ صفت موصوف کر دے۔ بادشہ نے کہا کہ اللہ جل شانہ کی تو ایسی ہی قدرت ہے جیسی تو بیان کرتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ لیکن یہ بتا کہ تو نے کہیں دیکھی ہے یا نہیں۔ وہ نقشہ نہ کر کہ سوال دیگر جواب دیگر۔ وزیر چہارم نے عرض کی کہ حضور اس وقت یہ بات دریافت نہ فرمائیں، تنہائی میں یہ فدوی بے کم و کاست التماس کرے گا۔ مجمع عام ہے، ابھی معاف فرمائیے۔ بادشاہ نے مجوز ہو کر فرمایا کہ ہم تو اسی وقت دریافت کریں گے، بعد استفسارِ حال دربار سے اٹھیں گے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ تریا ہٹ، بالک ہٹ، راج ہٹ یہ تینوں ہٹیں ٹالے سے نہیں ٹلتیں۔ یہ انکار کرتا تھا، اُدھر سے اصرار تھا۔ جب وزیر نے دیکھا کہ اب بے کہے گریز نہیں، التماس کیا کہ حضور والا نے جو یہ چاروں باتیں فرمائی ہیں، اکثر مستوراتوں میں سننے میں آئی ہیں۔ چنانچہ اس خانہ زاد موروثی کی جو بی بی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات میں یہ چاروں وصف عطا فرمائے ہیں۔
یہ بیان کر کے خاموش ہو رہا لیکن اس بیان سے بادشاہ کی سیری نہ ہوئی۔ پھر فرمایا کہ مفصل اس مجمل کو بیان کر تاکہ یقین کلی ہو، ورنہ دعویٰ تیرا بے جا ہے۔ وزیر دریائے حیرت میں غرق ہوا اور دل میں اپنے خیال کیا کہ اب تو دعویٰ بے جا میری زبان سے نکلا، اگر مفصل نہیں کہتا تو بادشاہ نہیں مانتا اور جو کہتا ہوں تو پاسِ حیا مانع تفصیل ہے۔ ناچار نگاہ غضب بادشاہ کی دیکھ کر خوف جان سے اس طرح زبان پر لایا کہ پیر و مرشد وہ کنیز خانہ زاد صورت میں تو ایسی حسین اور زہرہ جبین ہے اور وہ حُسنِ خداداد ہے کہ اُس کا ہمسر از قسم جن و بشر پیدا نہیں۔ حور و پری اُس کے مقابل ہوں تو سکتہ ہو، رعبِ حُسن سے منہ سے نہ بات نکلے، ششدر و حیران ہو کر اُسی کے منہ کو تکتی رہیں۔ بدر کامل اس سے شرمندہ ہے۔ آسمان کا تارا یا چودھویں رات کا چاند ہے، بلکہ اُس کے چہرہ کی چمک کے آگے وہ بھی ماندہے۔ میری زبان میں طاقت اور دہان میں طلاقت ایسی نہیں جو شمہ خوبی شکل و شمائل اُس ماہ پیکر سراسر نور انور کی بیان کر سکوں۔ بشر تو کیا ہے، باوجودیکہ فلک عینک مہر و ماہ کی شب و روز لگائے چکر کرتا پھرتا ہے، اُس نے بھی تو ایسی صورت دلچسپ نہ دیکھی ہوگی، اور حالانکہ قلم دو زبان رکھتا ہے مگر کیا مجال ہے جو ذرا تعریف اُس کے حُسن کی لکھ سکے، احاطہ تحریر و تقریر سے خوبی شکل و شمائل اُس کی مبرا ہے۔ اور علمیت کا یہ حال ہے، ادنیٰ سی صفت فضیلت کی بیان ہوتی ہے کہ جو زمانہ میں بڑے بڑے عالم و فاضل ہیں، اُن کی یہ مجال نہیں جو کسی علم میں اُس سے بحث کر سکیں۔ ایک سوال میں سب کا ناطقہ بند ہوتا ہے، تمام کتابیں منطق و نحو و صرف وغیرہ ازبر یاد ہیں۔ ماورا اِن علموں کے طب و نجوم و ریاضی و سیاق و قرآن شریف مع ہفت قرأت خوب یاد ہے، غرض ہر علم میں استاد ہے۔
اور عصمت و عفت کا یہ حال ہے کہ ایام طفولیت میں میرے ساتھ عقد ہوا تھا، اُس دن سے آج تک اپنے والدین کے گھر نہیں گئی اور جو اُس کے بھائی حقیقی میرے یہاں آئے تو اُس نے اُن سے بھی پردہ کیا، سامنے نہیں ہوئی؛ سوائے اطاعت اور خوشنودی میری کے کچھ اُس کو کام نہیں۔ اور علم موسیقی کا کیا حال بیان کروں، ذرا سی صفت یہ ہے کہ اگر اُس کے سامنے تان سین بھی ہوتے اور آواز گانے کی سنتے تو اپنی تان بھول جاتے، کان پکڑتے؛ اور جو بجو باورا ہوتا تو وہ بھی اُس کی آواز گانے بجانے کی سُن کر باولا ہو جاتا کبھی گانے کا نام نہ لیتا۔ کہاں تک تعریف کروں، ہمہ صفت موصوف ہے۔ خصوصاً جو حضور اقدس نے یہ چاروں باتیں تخصیص کی ہیں، اُن میں ایسی یکتائے زمانہ ہے، بلکہ اپنے وقت کی ہر فن میں یگانہ ہے۔
یہ کہہ کر وزیر نیک تدبیر چپ ہو رہا اور بادشاہ بھی وزیر چہارم کا جواب باصواب معقول سُن کر خاموش ہوا۔ لیکن وزیر اول بڑا حاسد تھا اور وزیر چہارم سے بسبب دانائی اُس کی کے بغض اور عداوت قلبی رکھتا تھا۔ یہ گفتگو جو بادشاہ کے سامنے وزیر چہارم سے سُنی، اور بھی جل گیا اور کمال ناراض ہو کر اپنے جی میں حسد کی راہ سے کہنے لگا کہ دیکھ تو اس کا بدلہ میں تجھ سے کیسا لیتا ہوں۔ تو نے ہم سب کو بادشاہ کے روبرو ذلیل تو کیا ہے سمجھا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا چُپ ہو کر وقت کا منتظر رہا۔
داستان نادر بیان
وزیر اول کا بادشاہ سے شکار میں کہنا اور زوجۂ وزیر چہارم کے خراب کرنے میں ترغیب دے کر چھ مہینے کی مہلت لے کر بادشاہ سے رخصت ہو کر اُس کے وطن جانا اور وہاں پہنچ کر کٹنی سے تصویریں اور نشانیاں منگا کر پھر آنا
حاکیانِ غم اندوز و راویانِ جگر سوز اس داستان کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حسب اتفاق ایک روز بادشاہ شکار کو تشریف فرما ہوئے۔ اس سواری میں سواے وزیر اول کے اور وزیر نہ تھا۔ یہی تنہا خواصی میں بیٹھا تھا اور یہ تین وزیر کاروبار مالی و ملکی میں یہاں مصروف تھے۔ اس حاسد نے جب میدان خالی پایا تو یہ جعل پھیلایا کہ راہ میں بادشاہ سے اِدھر اُدھر کا ذکر کر کے وزیر چہارم کا مذکور کر انھیں باتوں کا تذکرہ کیا۔ بادشاہ کو جب اپنی طرف متوجہ پایا تو اس طرح سے عرض کرنے لگا کہ اے خداوند نعمت! وزیر چہارم نے جو اپنی زوجہ کی اس قدر تعریف بیان کی ہے، سراسر خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کسی عورت کو اس درجہ باوفا نہیں دیکھا اور نہ زبانی کسی کی سُنا۔ اُس کی زیادہ تعریف کرنے سے فدوی کو معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اُس نے اپنی زوجہ کی عصمت بیان کی ہے، اُسی قدر وہ فاحشہ و بدکار ہوگی اور اُس کو الو کا گوشت کھلا کر اُلو بنا رکھا ہے اور یہ بھی اُس کے مکر کے دام میں پھنس کر اپنے اختیار میں نہیں رہا۔ و یا یہ کہ اُس نے ہمیں آپ کے روبرو ذلیل و شرمندہ کرنے کے واسطے یاوہ گوئی کی ہے۔ کیونکہ ہم تین وزیروں نے آپ کے سامنے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے تو کیا کسی نے بھی ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی ہوگی۔ اُس نے آپ کے سامنے ایسی تعریف بیان کی کہ ہم سب کے ہوش پرّاں ہو گئے۔ پس فدوی کو اُس کے بیان سے صاف منکشف ہوگیا کہ وہ عورت بڑی فاحشہ ہے اور یہ جھوٹا ہے۔ اگر حضور فدوی کو کچھ دنوں کی مہلت دے کر رخصت فرماویں تو یہ فدوی اُس کے وطن جا کر کل ماہیت دریافت کر آوے تو سب قلعی کھل جاوے۔ بلکہ اغلب ہے کہ یہ عاجز اُس کی زوجہ کو خراب کر آوے اور اُس کو علانیہ جھوٹھا بناوے۔ جھوٹھ بولنا معاذ اللہ منہا بڑا ہی شدید گناہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔ علی الخصوص بادشاہوں کے سامنے دروغ گوئی بہت ہی بری بات ہے۔
جب بادشاہ نے وزیر اول کا کلام بد سنا تو فرمایا کہ وزیر چہارم دروغ گو نہیں ہے۔ کیا عجب ہے جو اُس کی بی بی ایسی ہی ہو جیسی وہ بیان کرتا ہے۔ جب وزیر اول خصومت شعار نے پھر عرض کی کہ حضور کیا فرماتے ہیں، سلف سے آج تک کسی نے ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی۔ اکثر لوگوں نے مستوراتوں کا امتحان کیا ہے، کسی کو بھی خالی از کید نہیں پایا۔ چنانچہ قول کسی استاد کا ہے۔ حضور نے سنا ہوگا۔ مصر؏:
اسپ و زن و شمشیر وفادار کہ دید
بادشاہ نے فرمایا کہ یہ بھی تو قول کسی استاد کا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ کیا، ارشاد فرمائیے، تب بادشاہ نے فرمایا۔ شعر:
نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
وزیر نے بادشاہ سے یہ قول سُن کر عرض کی کہ حضور! یہ دونوں قولِ بشر ہیں جو آپ نے ارشاد فرمایا اور فدوی نے التماس کیا، لیکن مستورات کی مذمت قرآن شریف میں جناب باری نے سورۂ یوسف میں بیان فرمائی ہے۔ آیہ: اِن کیدکُن عظیم۔ یہ آیہ پڑھ کر کہا: جناب عالی یہ فرقہ ایسا ہی بُرا ہے۔ خدا سب کو اس کے مکر سے بچائے۔ بادشاہ تو یہ سن کر چپ ہوئے، لیکن یہ کمبخت بکے ہی گیا۔ چُپ نہ ہوا۔ آخر کار بادشاہ نے فرمایا کہ اگر تو اُس کی زوجہ کو خراب نہ کر سکا تو تیری کیا سزا ہو۔ اُس نے عرض کی کہ حضور! چھ مہینے کی مہلت فدوی کو دیں۔ اگر اس مدت میں مَیں اُس کی زوجہ کو جس کی وہ عصمت ازحد بیان کرتا ہے، خراب کر آیا اور وجہِ ثبوت حضور میں لایا تو وہ کاذب دروغ گو گردن مارا جاوے اور در صورتیکہ یہ فدوی اُس کو نہ خراب کر سکا اور وجہِ ثبوت سرکار عالی میں نہ لایا تو اس خانہ زاد کو آدھا زمین میں گڑا کر تیروں سے چھدوا دیجیے گا۔ بادشاہ نے فرمایا کہ تو پختہ ہو کر کہتا ہے یا یوں ہی بکتا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ حضور! فدوی سے پہلے مُچلکہ مُہری لکھوا لیجیے جب مہلت و رخصت دیجیے۔ بادشاہ نے کہا: اچھا دیکھا جائے گا۔
جب بادشاہ شکار سے پھر آئے اور کئی روز گزرے کہ اس نے تنہائی میں بادشاہ سے التماس کیا کہ عالیجاہا! فدوی سے مچلکہ مہری مع گواہان حاشیہ لکھوا لیجیے اور چھ مہینے کی مہلت دیجیے۔ بادشاہ نے پھر واسطے حجت تمام کرنے کے کہا کہ اگر تو نے وجہ ثبوت اس کے خراب کرنے کی نہ پیش کی تو یاد رکھنا، اُس وقت ذرا تامل نہ ہوگا۔ فوراً تو گردن مارا جائے گا۔ اُس نے کہا بہتر ہے۔ اور جو وجہ ثبوت پیش نظر کی جاوے تو کیا ہو؟ بادشاہ نے کہا کہ اُس صورت میں وزیر چہارم کی وہ ہی سزا ہوگی جو تیرے واسطے ٹھہری ہے۔ اُس نے دست بستہ عرض کی کہ بہتر۔ یہ کہہ کر ایک دستاویز اسی شرط کی لکھی اور ہاتھ سے انگشتری اُتار فوراً اُسی دستاویز پر مُہر کر دی اور دو چار گواہیاں اپنے عزیزوں کی حاشیہ پر لکھوا دیں۔ اور چھ مہینے کی مہلت لے کر اور سامان سفر درست کر کے روپیہ بہت سا اپنے ہمراہ لے وزیر چہارم کے وطن کو خفیہ روانہ ہوا۔ یہاں کچھ اور مشہور بہانہ ہوا۔ لیکن وزیر اول کچھ مسرور کچھ غمزدہ درگاہ جناب باری میں گریہ و زاری سے التجا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یا اللہ! میری عزت تیرے ہاتھ ہے۔ مجھے بادشاہ اور سب دربار کے روبرو ذلیل نہ کرنا۔ تیرے ہی بھروسے پر نوشتہ کر گھر سے نکل روانہ ہوا ہوں۔ یہ دعا اللہ سے مانگتا ہوا اور روپیہ محتاجوں کو بانٹتا ہوا، منزل بمنزل کوچ در کوچ مقام در مقام کرتا ہوا اور راہ خدا میں زر خطیر خیرات کرتا ہوا برابر چلا گیا۔ اللہ جل شانہ تو بڑا بے پروا ہے اور بُرے بھلے کا مواخذہ روز قیامت پر موقوف ہے۔ دنیا میں وہ حاجت روا سب کی مراد دیتا ہے۔ تضرع و زاری اور وہ خیرات سیر چشمی سے اُس کی جناب باری میں منظور ہوئی جو وہاں داخل ہوتے ہی براے نام آرزو ہواے مراد پوری ہوئی۔
جب یہ وزیر اول بیس روز کے عرصہ میں وزیر چہارم کے وطن میں داخل ہوا اور ایک مکان رفیع الشان امیروں کے قابل چاندنی چوک میں کرایہ لے کر سکونت پذیر ہوا اور اُس مکان کو فرش و شیشہ آلات وغیرہ سے بہت آراستہ کر کے پانچ چار آدمی وہاں کے رئیس خدمت کے واسطے نوکر رکھے اور صبح و شام بڑے کر و فر سے سوار ہر کر ہوا کھانے کو جایا کرتا۔ جب کئی روز اُسے وہاں گزرے پھر تو اُس نے کٹنیاں تلاش کیں اور بلوائیں۔ جو کٹنی آتی تھی اس سے پہلے جوہر فن دریافت کرتا تھا، کوئی کہتی تھی کہ میں زمین پھاڑوں اور اندر جا کر پھیر چلی آؤں اور کوئی کہتی کہ اگر حکم ہو تو آسمان کے تارے توڑ لاؤں۔ کوئی کہتی تھی کہ اگر آپ فرمائیں تو قاف سے دمِ دیگر پری لے آؤں۔ اسی طرح ہر روز ہزارہا کٹنیاں آتیں اور اپنے اپنے ہنر بیان کرتیں، لیکن اُس کے پسند نہ آتیں۔ ایک روز ایک بڑھیا دلالہ شیطان کی خالہ خدا کرے مُنہ اس کالا، سب کٹنیوں کی استاد اور بہروپیوں اور مصوروں کے کان کاٹنے والی، ہر فن میں طاق، نوشت و خواند میں بہت مشاق، بڑی شتّاہ و عیارہ و مکارہ جس سے شیطان پناہ مانگے، شبیہ کشی میں ایسی استاد کہ جس کو ایک بار دیکھے، اُس کی تصویر بعینہ ہو بہو ایسی کھینچے کہ اصل صورت میں سرمو فرق باقی نہ رہے۔ فقط بول اُٹھنے کی دیر رہے اور جس کی چاہے فوراً شکل بنجا کے بہروپ ایسا بے نظیر بدلے کہ نقل کو اصل سے فوق ہو۔ یہ آج کل جتنے بہروپیے ہیں، اُس کے چیلے چاٹے ہیں۔ اس عیارہ نے سب کے کان کاٹے ہیں۔ آسمان کو پھاڑے اور پھر تھگلی لگائے۔ خدا سب کو اُس کے جال سے بچائے۔ اس وزیر پاس آئی۔ اُس نے بموجب دستور کے اُس سے بھی ہنر دریافت کیا۔ اُس نے وہ ہوا کے گھوڑے اڑائے، بلکہ زمین آسمان کے قلابے ملائے کہ وزیر دنگ ہوگیا اور جی میں اپنے بہت خوش ہوا اور سمجھا کہ اس سے مطلب دل بخوبی حاصل ہوگا۔ پھر تو اُس کٹنی سے اُس نے کہا کہ ایک کام ہمارا ہے جو تو اُسے کر دے گی تو میں تجھ کو اتنا روپیہ دوں گا کہ تمام عمر کو بلکہ سات پشت تیری کو کافی ہوگا۔ اس نے کہا کہ بلا لوں وہ کام تو بیان کرو کیا ہے۔ تب وزیر نے اُس سے کہا کہ یہاں جو وزیر مسعود علی خاں رہتے ہیں اور قدیم سے یہیں کے رئیس ہیں، اُن کی بی بی سے بے تکلفی کی ملاقات کرا دے۔ میں فقط اُسی کے اشتیاق میں تا دیدہ مبتلا ہو ہوش و حواس کھو یہاں آیا ہوں۔ روپیہ کا اندیشہ نہیں۔ جس قدر صرف ہو، بلا سے لیکن وہ نازنین میری ہم پہلو ہو اور شب باش رہے۔ یہ میرا مطلب ہے۔ اُس نے یہ سُن کر وزیر سے کہا کہ تم نے اُس بی بی کی تصویر دیکھی ہے یا کہ کسی سے اُس کی تعریف سُنی ہے جو اس قدر مبتلا ہو کر یہاں آئے ہو۔ سب ماجرا من و عن مجھ سے بیان کر دو۔ وزیر نے اُس حرافہ سے کہا کہ تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ تو ہم سے خاطر خواہ روپیہ لے اور ہمارا کام کر۔ اُس نے بیان کیا کہ میاں! جب تک کل ماہیت دریافت نہ ہو، تو اُس کی جستجو نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر کسی سے بحث ہو گئی ہو تو نشانی وغیرہ سے بھی بات رہ جائے گی اور جو فقط اُس کے دیکھنے یا رکھنے کی تمنا ہو تو ویسی ہی جستجو کی جاوے۔ اب آپ سب حال بیان کر دیں تاکہ بخوبی تمام حسب خواش آپ کے کوشش کی جاوے۔ پھر یہ وزیر نے اُس کو جواب دیا کہ وہ وزیر اور میں ایک ہی بادشاہ کے یہاں بعہدۂ وزارت ملازم ہیں۔ ایک دن اُس وزیر نے اپنی زوجہ کی صورت و سیرت، عصمت و عفت کی تعریف حد سے زیادہ بیان کی۔ اُس دن سے میرے دل پر ایسی چوٹ سی لگی کہ بغیر دیکھے اُس کے قرار نہیں ہے۔ علاوہ اس کے میں نے اُس وزیر کی غیبت میں پادشاہ سے اقرار کیا اور مچلکہ لکھ دیا کہ میں اُس کی زوجہ کو خراب کر آؤں گا اور جو نہ خراب کر آیا تو میری گردن جلادوں سے اڑوا دیجیے گا۔ تو نے سنا اگر وہ مجھ سے ملی اور میں نے اُسے اپنے پاس شب باش کیا اور ہم بستر ہوا تو لطف زندگی ہے، ورنہ مفت میں جان جاتی ہے۔ اب جس قدر چاہے روپیہ لے اور محنت و مشقت سے جستجو کر کے اُس نازنین زہرہ جبین کو میرے پاس لا اور بے تکلف مجھ سے ملا۔ دلالہ حرافہ نے جو یہ درخواست اور روپیہ بے اندازہ کا وعدہ دینے کا سُنا، کمال خوش ہوئی اور اپنے دل میں کہنے لگی کہ مدت مدید و عرصۂ بعید کے بعد میرے مکر کے جال میں ایسا اُلو پھنسا جسے ولولۂ شیطانی کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ پھر اُس سے کہا کہ بلا لوں! اب اندیشہ نہ کر۔ یہ کون ایسا مشکل کام ہے جس کے واسطے تم گھبراتے ہو۔ شکر کرو تمھاری قسمت بہت زبردست تھی جو مجھ سی عورت ذو فنون ہر فن میں طاق سے ملاقات ہو گئی۔ اب ہر طرح خاطر جمع رکھو۔ دل محزون کو خوش و خرم رکھو۔ وزیر کی بی بی کو تم سے ملا دینا میرے نزدیک کتنی بڑی بات ہے۔ اگر آپ فرماویں تو آسمان سے زہرہ و مشتری کو ایک آن واحد میں یہاں لے آؤں۔ یہ عورت تو یہیں ہے۔ آپ دیکھیے گا میری چالاکی و استادی۔ لیکن جو آپ زر خطیر دینے کا وعدہ کرتے ہیں، اس میں فرق نہ ہو۔ وزیر نے کہا کہ یہ کیا بات ہے، جو کہا وہ جان کے ساتھ ہے۔ پہلے لے لو، بعد میرے کام میں دخل دو، لیکن بہت جلد اُس سے ملا دے۔ میری زیست اُس کے ملنے سے ہے کیونکہ میں نے بادشاہ سے چھ مہینے کی مہلت لی ہے اور مچلکہ لکھ دیا ہے۔ اُس نے یہ سُن کے کہا کہ لائیے اب تو کچھ دلوائیے۔ وزیر نے ایک ہزار روپئے کی تھیلی اُس کے آگے رکھ دی اور بہت سی چاپلوسی کی گفتگو کر کے کہا لو اب جلد جاؤ۔ وہ حرافہ ایک ہزار روپیہ کا توڑا لے کر وزیر سے رخصت ہوئی اور گھر میں جا توڑہ رکھا۔
دوسرے روز فجر کو اپنے مکان سے باہر نکلی اور وزیر مسعود علی خاں کے دروازے پر گئی تو دیکھا مکان رفیع الشان مانند قلعۂ کلان کے ہے، اور بلندی اُس کی اس قدر ہے کہ پرند جانور بھی اُس کے اوپر سے پرواز نہیں کر سکتے اور بند و بست ایسا ہے کہ ہوا بھی بار نہیں پاتی اور بے اجازت اندرون محل نہیں جا سکتی۔ چاروں طرف پہرہ چوکی کو سوار و پیدل جابجا مہیا و معین ہیں اور بہت ہوشیار ہر سمت بیٹھے رہتے ہیں۔ اور اس مکان کی سات ڈیوڑھیاں ہیں، لیکن ہر وقت دروازے بند رہتے ہیں۔ اُس بڑھیا نے قریب کے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس محل کے دروازے کیوں بند رہتے ہیں؟ اُن لوگوں نے جواب دیا کہ اس محل کا یہ دستور ہے کہ جب تک صاحب خانہ یہاں رہتے ہیں یعنی وزیر مسعود علی خان صاحب تب تک دروازے بخوبی تمام کُھلے رہتے ہیں۔ جب وہ اپنی نوکری وزارت پر جاتے ہیں، دروازے بند رہتے ہیں جیسے تم دیکھتی ہو۔ یہ سُن کر اُس نے پھر پوچھا کہ میاں آٹھ پہر میں کسی وقت بھی کھلتے ہیں یا ہر وقت یوں ہی بند رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جا اپنا کام کر۔ تجھے اس بات کے دریافت کرنے سے کیا غرض ہے۔ بڑھیا افسردہ خاطر ہو کر بولی کہ مجھے یہ تعجب ہے کہ اگر آٹھوں پہر دروازے نہیں کھلتے تو کھانے پینے کی چیز کیونکر اندر جاتی ہوگی۔ یہ بات سُن کر انھوں نے کہا کہ ان کے یہاں ایک اصیل ہے بہت امانت دار اور بڑی دیانت دار، اُس کا اُن کے یہاں بڑا اعتبار ہے۔ آٹھ پہر میں وہ نیک بخت ایک بار باہر آتی ہے۔ جو کچھ سودا سلف منگوانا منظور ہوتا ہے رَوَنّہ کے ہاتھ منگا پھر دروازے بند کرتی ہوئی اندر چلی جاتی ہے۔ جبکہ اُس علامہ نے یہ حال سُنا، طوطے عقل کے اُڑے، گم صم بکم کا نقشہ ہوا۔ مایوس ہو کر وہاں سے پھری اور سیدھی وزیر کے پاس جا کر یہ سب ماہیت بیان کر کے کہنے لگی کہ میاں بڑے مشکل کی بات ہے کہ جہاں پرند جانور کا مقدور نہ ہو کہ پر مارے، وہاں آدمی کیا کر سکے۔ وزیر نے پھر بڑھیا سے باتیں عاجزی کر کے بہت لالچ دیا اور کہا کہ جس طرح ہو سکے میرا کام کر۔ بڑھیا دام زر میں تو پھنس رہی ہی تھی، اُس سے پھر خرچ طلب کیا۔ وزیر نے پھر ایک توڑا ہزار روپیہ کا بے تامل حوالہ کر دیا اور کہا کہ لے تو اب جا اور جلد کوئی تجویز نکال۔ بڑھیا روپیہ لے کر اپنے گھر روانہ ہوئی۔ گھر جا روپیہ رکھ مکر تازہ کی فکر کرنے لگی۔ بعد تامل کے اُس قحبہ نے یہ نیا جال کیا، سننے کے قابل ہے کہ پانچ روپیہ کی مٹھائی اور دونا پھولوں کا ہمراہ اپنے لے وزیر کی ڈیوڑھی پر گئی اور پہرہ والوں سے یہ فقرہ بنا کہنے لگی کہ عرصہ بارہ برس کا ہوا، لڑکا میرا گھر سے نکل گیا تھا۔ میں نے اُس کی مفارقت میں بہت خاک چھانی اور در بدر خاک بسر دیوانی سی ماری ماری پھری اور ہزاروں منتیں مانیں۔ سیکڑوں جگہ فال کھلوائی۔ گنڈہ تعویذ حاضراتیں بہت جا کرائیں، کچھ حال نہ معلوم ہوا کہ وہ کس سمت گیا ہے۔ آخر کار میں تھک کر بیٹھ رہی اور شب و روز گریہ سے کام رکھا۔ ایک روز رات کو اُس کے تصور میں روتے روتے سو گئی تو خواب میں ایک پیر مرد بزرگ صورت نیک سیرت مجھ سے فرماتے ہیں کہ تو جو اپنے بیٹے کی مفارقت میں عمر کو ضائع کرتی پھری اور جھک مارتی رہی، کیا حاصل ہوا۔ اب تو میری بات سُن اور اُس کو عمل میں لا۔ اللہ چاہے تو تیرا لڑکا تجھ سے جلد مل جاوے۔ وہ بات یہ ہے کہ اس شہر کے جو مسعود علی خان رئیس ہیں، اُن کی بی بی بہت عابدہ زاہدہ پرہیزگار و بزرگوار گویا کہ زندہ پیر ہے۔ تُو ان کی منت مان۔ جب تیرا لڑکا تجھ سے ملے تو شیرینی اور پھول اُن کو چڑھائیو۔ یہ کہہ میرا ہاتھ پکڑ اُٹھا بٹھایا اور آپ غائب ہو گئے۔ میں نے اُس وقت یہ منت مانی کہ اے اللہ تو ایسی نیک بی بی کے صدقے سے میرے بچھڑے ہوئے لڑکے سے مجھ کو ملا دے، تو میں بموجب پیر مرد کے فرمانے کے نذر نیاز کر کے اُس بی بی زندہ پیر کو چڑھاؤں بارے قربان اپنے اللہ کے اور نثار اُس کی قدرت کے کہ اُس نے ایسی نیک بی بی کے تصدق سے مجھ دکھیا کے لڑکے کو بارہ برس کے بعد ملایا کہ وہ کل کے دن سلامتی سے مع الخیر گھر آیا۔ میں اُس سے مل کر بہت شاد، غم سے آزاد ہوئی، نامرادوں میں بامراد ہوئی۔ دور دوری ہوئی، آرزو پوری ہوئی۔ سبحان اللہ کیا کہنا ہے۔ حقیقت میں میری بی بی تو زندہ پیر ہے۔ مجھے سچ بشارت پیر مرد نے دی تھی۔ اب میں منت بڑھانے آئی ہوں۔ اس واسطے پھول مٹھائی لائی ہوں۔ اسی طرح تین روز تک برابر لاؤں گی، اُس بی بی تک تو میری رسائی کاہے کو ہوگی، لیکن تم کو مٹھائی کھلاؤں گی اور پھولوں کا دونا دروازے پر چڑھاؤں گی۔ پھر دونا دہلیز پر چڑھا، مٹھائی سب کو تقسیم کر دی اور اپنے گھر کو چلی گئی۔
دوسرے دن دروازہ محل کا موافق معمول کے کھلا اور وہ اصیل کہ حقیقت میں اصیل تھی، باہر آئی اور پھول دروازے پر پھیلے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی کہ آج یہ پھول دروازے پر کیسے پڑے ہیں، جلد بتاؤ۔ سپاہیوں نے سب داستان بڑھیا کی کہہ سنائی اور کہا کہ کل پھر آوے گی۔ اُس بڑی بی نے سپاہیوں کو بہت بُرا بھلا کہہ، غصہ میں ان کو تاکید فرمائی کہ خبردار اگر تمھیں اپنی خیریت منظور ہے تو اس بدذات کٹنی کو آتے ہی گرفتار کر لینا اور مجھے خبر کرنا۔ وہ بیشک کٹنی ہے۔ اُس حرام زادی کا اس ڈیوڑھی پر کیا کام ہے۔ اگر تم لوگوں نے اُسے قید نہ کیا تو تمھارا پیٹ چاک کرا کے بُھس بھرا دیا جاوے گا۔ سپاہی سب ڈرے اور دست بستہ ہو کر کہا کہ ہمارا کیا مقدور ہے جو ذرہ بھی تامل کریں۔ جس وقت وہ یہاں آوے گی، فوراً قید شدید کیا جاوے گا۔ آپ کا فرمانا ایسا ہے جو ہم نہ مانیں گے، اپنے اوپر خرابی لاویں گے۔ آپ خاطر جمع رکھیے۔ یہ ماما تاکید اکید کر کے اپنے معمول کے موافق دروازے بند کرتی ہوئی اندر چلی گئی۔ وہ دن بھی گزر گیا۔ رات بھی تمام ہوئی۔ دوسرے روز فجر کو وہ محل دارنی باہر آئی اور ماجرا اُسی کٹنی کا دریافت کیا، تو سب نے عرض کی کہ ابھی تک تو نہیں آئی، مگر آیا چاہتی ہے۔ یہ سُن کر وہ اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ عیارنی بالکل شیطاننی ووہی پھول اور مٹھائی لائی۔ آتے ہی اُس کے سر پر خرابی آئی کہ سپاہیوں نے جھٹ پٹ اُس کے تئیں لات اور مُکی مار مشکیں کسیں اور دست و پا میں زنجیریں اور گردن میں طوق ڈال دیا اور گھسیٹتے ہوئے ایک تاریک کوٹھری میں لے جا کر بند کر دیا۔ گو وہ بہت فریاد و بُکا سے گریہ و زاری کرتی رہی اور دہائی تہائی سیکڑوں واسطے خدا و رسول کے دے دے کہتی تھی کہ صاحبو! میرا کیا گناہ و قصور ہے اور کیا تقصیر ہے کہ جس کی یہ تعزیر ہے، لیکن کسی نے اُس کی فریاد کو نہ سنا۔ آخر اُسی تاریک کوٹھری میں گھسیٹ کر بند ہی کر دیا اور ایک رات دن بھوکی پیاسی قید شدید میں رہی۔ دوسرے دن جب وہ ضعیفہ نیک خو فرشتہ خصال موافق اپنے معمول کے ہر ایک دروازہ کھولتی باہر آئی اور جو شے بازار سے منگانی تھی رونہ کے ہاتھ منگائی اور آپ چوکی پر دروازے کی بیٹھی، اُس وقت سپاہیوں نے اس حرافہ کو مع زنجیروں کے جس طرح قید کیا تھا، روبرو اُس صاف باطنہ کے حاضر کیا اور سب نے متفق ہو کر عرض کی کہ ہم نے بموجب ارشاد آپ کے اس کو قید کیا۔ اُس کی فریاد کو نہ سُنا۔ اب یہ آپ کے سامنے موجود ہے۔ اس کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے۔ یہ کلام سُن کر اس نے اُس کو خوب طرح بغور دیکھا اور بہت سخت کلامی اُس نالائقہ کو کر کے کہا: خیر اب تو میں تجھ کو چھوڑے دیتی ہوں لیکن خبردار پھر کبھی ارادہ ادھر آنے کا نہ کرنا اور جو بار دیگر ادھر آئی اور مجھے خبر ہوئی تو خدا کی سوں، موگریوں سے تیرا سر تڑوا دوں گی۔ خبردار ہرگز ادھر نہ آنا، بلکہ منہ بھی اس طرف نہ کرنا۔ غرض کہ بہت تاکید اکید کر کے رہا کر دیا او ر سابق دستور دروازہ بند کرتی ہوئی اندر چلی گئی۔
ادھر یہ جو قید سے رہا ہوئی، سیدھی وزیر پاس گئی اور ساری کیفیت وزیر سے بیان کی اور کہا: میاں جیسی تعریف تم نے اس بی بی کی سنی تھی اس سے چار حصے وہ زیادہ ہے۔ تمھارے دیکھنے اور ملنے کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی۔ الّا میں اپنی چالاکی و استادی سے اُس کی تصویر اور نشانی لا دوں گی مگر روپیہ خرچ بہت ہوگا۔ وزیر نے افسردہ خاطری سے جواب دیا کہ جی تو یہی چاہتا ہے کہ اُس سے بے تکلفی کی ملاقات ہو، وہ معشوقہ یہیں شب باش ہو تاکہ جی کے سب ارمان نکلیں۔ اس نے کہا کہ تم تو کیا ہو، اگر فرشتہ ہو تو اُس کی بھی مجال نہیں ہے جو اُس کی پرچھائیں دیکھ سکے۔ یہ جو میں تم سے کہتی ہوں کہ تصویر و نشانی لا دوں گی، اُس کو بھی آسان نہ جاننا۔ بڑی جانکاہی اور چالاکی اور محنت و مشقت سے ہاتھ آئے گی۔ اگر میری تدبیر چلے گی تو تمھاری جان تو بچے گی۔ بادشاہ کے سامنے ذلیل تو نہ ہو گے۔ میاں جان بچے لاکھوں پائے اگر مدعا ہاتھ آوے۔ وزیر نے یہ سُن کر اپنے دل میں کہا: سچ تو کہتی ہے، اگر بات اپنی رہ جائے تو بھی غنیمت ہے۔ پھر اُس کُٹنی سے کہا کہ اچھا تو جو کہتی ہے، اُسی کی جلد تدبیر کر۔ اُس نے کہا: بہتر ہے لیکن روپیہ کچھ اور دلوائیے۔ وزیر نے پھر ایک توڑہ ہزار روپیہ کا دے دیا اور رخصت کیا۔ اس شطاح نے روپیہ لے جا کر گھر میں رکھے اور باہر جا کر اہل محلہ سے دریافت کیا کہ اُس وزیر کی بی بی کہاں کی لڑکی ہے، کون سے شہر کے اُس کے والدین رہنے والے ہیں۔ اُن لوگوں نے جواب دیا کہ پنجاب کی طرف ایک شہر ہے، نام اُس کا سیالکوٹ ہے۔ اس لڑکی کے والدین وہاں کے رہنے والے ہیں۔ وہیں سے یہ لڑکی بیاہ آئی ہے۔ جب اُسے یہ حال مفصل معلوم ہو گیا تو اُس نے سب سامان عیاری کے اپنے ساتھ لے اور کچھ خرچ زاد راہ رکھ اُسی کی طرف کو روانہ ہوئی اور چند روز میں وہاں پہنچی۔ سرا میں اُتر کر اُس کے والدین کے مکان کا پتہ دریافت کیا۔ جب مکان ملا تو اپنی محتاج کی سی صورت بنا کر اُس کی والدہ پاس جا کر نوکری کی درخواست کی۔ اُس نے اس کی صورت غریب دیکھی تو نوکر ماما گری پر رکھ لیا۔ پھر تو اُس نے ایک مہینہ وہاں رہ کر خوب طرح حال دریافت کر لیا اور اچھی طرح کل ماہیت مع صورت سیرت، خال و خط، قد و قامت، چال ڈھال،رفتار و گفتار اور احوال خانگی کلیہ دریافت کر اپنے ذہن میں رکھا اور صاحب خانہ سے کہا کہ صاحب میری طبیعت گھبراتی ہے۔ اب میں نہ رہوں گی۔ اپنے گھر جاؤں گی۔ یہ سن کر ان لوگوں نے بہت سمجھایا اور روکا کہ ابھی نہ جاؤ اور رہو، چھ سات مہینے کے بعد بطور رخصت جانا اور اپنے رہ کر تھوڑے روز پھر چلی آنا۔ ابھی تو تمھیں ایک ہی مہینہ نوکر ہوئے گزرا ہے۔ اُس نے ایک فقرہ بنا کر اُن سے بیان کیا کہ بی بی! میرا پوتا مجھ سے بہت ہلا تھا۔ اُس کی جدائی بہت شاق ہے۔ وہ بغیر میرے ہڑکتا ہوگا اور رو رو کے جان کھوتا ہوگا۔ میں کچھ ننگی بھوکی نہیں ہوں اور نوکری کی خواہش تھی۔ میں بسبب لڑائی ہونے کے بہو سے آزردہ ہو کر چلی آئی تھی۔ اب مجھ سے بغیر دیکھے پوتے کے رہا نہیں جاتا۔ فراق اُس کا میری جان لیتا ہے۔
یہ فقرہ چھوڑ اور اپنی تنخواہ ایک مہینے کی لے وہاں سے روانہ ہوئی۔ جب پانچ چار منزل وہ شہر رہا جہاں سے یہ آئی تھی، تو وہاں مقام کیا اور ایک فنس خرید کی اور بہت آدمی خدمتگار و سپاہی نوکر رکھے۔ بہروپ کے فن اور مصوری میں تو استاد تھی، ایسی صورت بے نظیر اُس کی ماں کی سی بنائی کہ بعینہ ہو بہو قد و قامت، خال و خط، صورت و سیرت، رفتار و گفتار، نشست و برخاست میں ذرہ فرق نہ رہا۔ گویا بالکل وہ ہی ہو گئی اور زیور و پوشاک ویسے ہی سے جسم آراستہ کر کے تیار ہوئی اور نوشت و خوند میں بھی طاق شہرۂ آفاق تھی، ایک خط اپنے ہاتھ سے اپنی لڑکی کو یعنی جس کی ماں بنی تھی، لکھ انھیں نوکروں میں سے ایک آدمی کے ہاتھ مکان کا پتہ بتا کر روانہ کیا۔ مضمون اُس خط کا یہ تھا کہ اے نور نظر، قوت دل و جگر، راحت جان! تیری دوری کے صدمے نے مجھے مارا، بے چین کر دیا۔ سب طرف سے تو میرے دل کو ٹھنڈک ہے لیکن تیرے فراق نے تڑپا کر قرار نہ لینے دیا۔ ہر چند میں نے تمھارے والد اور بھائیوں سے خط لکھوا کر بھیجے کہ تم چلی آؤ، صورت دکھا جاؤ، مگر تم نہ آئیں۔ جس دن سے تم بیاہی گئی ہو صورت کو ترس گئی، آنکھیں ڈھونڈتی ہیں۔ دل قبضۂ اختیار سے جاتا رہا۔ خود تمھارے پاس آنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ فلانی منزل پر مقام ہے۔ تم کو اطلاع کے واسطے خط لکھ روانہ کیا ہے تاکہ تم آگاہ ہو۔ ان شاء اللہ میں بہت عنقریب پہنچتی ہوں اور تم سے ملتی ہوں۔ یہ خط جس وقت آدمی لے کر دروازہ پر گیا تو وہاں کے سپاہیوں سے بیان کیا کہ میں خط وزیر کی خوش دامن کا لایا ہوں۔ تم مجھ کو بتاؤ کہ وزیر صاحب کہاں ہیں۔ وزیر کے آدمیوں اور سپاہیوں نے کہا کہ وزیر صاحب تو یہاں تشریف نہیں رکھتے ہیں، لیکن تمھارا اندرون محل کل پہنچے گا۔ آج کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر آؤ بیٹھو۔ کمر کھولو۔ بنیے سے جنس لاؤ، کھانا پکاؤ کھاؤ پیو۔ جب تمھارے آنے کی خبر اندر ہوگی اور خط طلب ہوگا تو بھیج دیا جائے گا۔ ناچار اُس آدمی نے وہاں مقام کیا۔ دوسرے دن جب وہ اصیل موافق وقت معینہ کے دروازہ کھولتی ہوئی باہر آئی تو معلوم ہوا کہ بیگم کے میکے سے ایک آدمی خط لے کر کل سے آیا ہوا ہے۔ تب اُس محل دار نے پہلے اندر جا کر بی بی سے بیان کیا کہ جناب آپ کے میکے سے ایک آدمی کل کے دن خط لایا ہے۔ اگر حکم ہو تو خط لے آؤں۔ یہ سُن کر اُس نے کہا کہ جا جلد لا۔ اُس نے باہر جا خط لا دیا۔ جبکہ خط اُس نے کھول کر پرھا تو معلوم ہوا کہ اماں صاحبہ تشریف فرما ہوئی ہیں۔ خط پڑھ کر کمال تردد میں ہوئی کہ وزیر تو یہاں ہیں نہیں۔ اب کیا کروں اگر بلواتی ہوں اور ملتی ہوں تو خلاف مرضیِ شوہر کے ہوتا ہے۔ بے اجازت کیونکر بلاؤں اور جو نہیں آنے دیتی ہوں تو ناراضیِ خدا اور رسول متصور ہے، کیونکہ حق والدین اور فرمانبرداریِ والدین سے خوشنودی خدا و رسول کی ہے۔ یہ تو اندیشہ میں تھی اور اُدھر سے متواتر خبریں پہنچنے لگیں کہ آج یہاں پہنچیں اور کل وہاں پہنچیں۔
غرض کہ ایک دن وقت فجر کے ایک آدمی دوڑا ہوا آیا اور بیان کیا کہ آج دریا تک آن پہنچی ہیں۔ اُس نے گھبرا کر اپنے فرزند لے پالک کو کہ اُس کے شوہر نے بھی اُسے فرزندی میں لے کر پالا و پرورش کیا تھا اور علاحدہ مکان میں بڑے کر و فر سے رہتا تھا۔ اُسی محل دارنی سے بلوا بھیجا اور ساری حقیقت اپنی والدہ کے دریا تک آنے کی زبانی اُسی ماما کے بیان کرا دی اور آپ فرمایا کہ تم کچھ آدمی ذی عزت اپنے ہمراہ لے جاؤ اور ہماری والدہ کو استقبال کر کے ہمراہ اپنے لوا لاؤ۔ اُس لڑکے نے عرض کی کہ بہتر اور جلد گھوڑے پر سوار ہو کر چند مصاحب ذی لیاقت اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوا اور دریا پر جا، اُن سے ملاقات کر، دریا سے اتروا کر ساتھ اپنے با توقیر لایا اور اُسی محل خاص میں اتروا دیا۔ پھر تو یہ جعلی ماں بیٹی سے گلے مل کر خوب روئی اور بڑی دیر تک کلیجے سے جدا نہ کیا۔ تامل کے بعد دونوں ماں بیٹیاں آپس میں مل کر باہم بیٹھیں۔ اِدھر اُدھر کی خیریت کہی سُنی۔ پھر اس جعلی ماں نے وزیر کو پوچھا، بیٹی نے جواب دیا کہ اے اماں جان! وہ تو عرصۂ قلیل سے اپنی نوکری پر گئے ہوئے ہیں۔ غرض کہ وہ دن رات کھانے پینے کی مدارات میں بسر ہوئی۔ دوسرے دن اُس جعلی ماں نے بیٹی سے کہا کہ واری! تم نے اپنی یہ کیسی صورت بنا رکھی ہے، جیسے غریب غربا میلے کچیلے کپڑے پہنے رہتے ہیں۔ تم بھی ویسی ہی معلوم ہوتی ہو۔ نہ تو زیور ڈھنگ کا ہے، نہ پوشاک۔ یہ کیا واہیات تمھارے جی میں سمایا ہے کہ نہ گھر کی خبر نہ بدن کی سُدھ۔ یہ کیا تیری بُدھ ہے۔ خدا نخواستہ ایسا کیا صدمہ تیرے دل پر ہے جس کے سبب اُداسی ہے۔ بیٹی نے جواب دیا کہ خدا نہ کرے، کوئی صدمہ تو نوج ہو اماں جان۔ خداوند کریم نے اپنے فضل و کرم سے اس عاجزہ کو سب کچھ عنایت کیا ہے۔ کسی چیز کو محتاج نہیں کیا۔ ہزار ہزار شکر و احسان ہے، لیکن میرا یہ قاعدہ ہے کہ جب وزیر گھر میں ہوتے ہیں تو میں زیور مرصع سے اور پوشاک پرتکلف سے آراستہ و پیراستہ رہتی ہوں اور مکان کی بھی آرائش جیسی چاہیے کما حقہ کرتی ہوں اور جب وہ سلامتی سے گھر میں جم ہی جم ہوتے ہیں تو سب کچھ بڑھا رکھتی ہوں، کیونکہ عورت کا لباس و زیور مرد ہی کے سامنے بہت خوب زیب دیتا ہے اور جو مرد گھر میں خدا رکھے نہ ہو تو سب ہیچ ہے۔ یہ کہہ کر اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کھڑی ہو جواہر خانہ و توشہ خانہ مع سب سامان کل دکھلا دیا اور شکر پروردگار کا بجا لا کر کہا کہ کوئی شے ایسی نہیں ہے جو میرے ہاں نہ ہو۔ یہ سب سامان نادرہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئی اور چٹ چٹ بلائیں لے کر کہنے لگی کہ اماں واری! تم کم سنی میں بیاہی گئی تھیں، سن تمیز میں مَیں نے تم کو بنے سنورے نہیں دیکھا۔ آج تم خوب غسل کر کے اپنے تئیں آراستہ کرو تو میں تمھیں بنا سنور دیکھ اپنا جی خوش کروں۔ جی تو یہی چاہتا تھا کہ میں تم دونوں کو اچھی طرح سے ایک جا خوش و خرم دیکھ کر دل شاد کروں، مگر مجبور ہوں کہ وہ گھر میں نہیں ہیں۔ تمھیں اپنی آراستگی دکھلاؤ تو آنکھوں سُکھ کلیجہ ٹھنڈک ہو۔ اُس نے چند در چند عذر کیے اور سامان دکھلانے میں مشغول ہوئی، یہاں تک سامان شیشہ آلات و اسلحہ وغیرہ دکھلایا کہ شب ہو گئی۔ رات کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں گزری۔ فجر کو پھر وہ مجوز ہوئی۔ ناچار اُس فرماں بردار نے ماں کی خوشنودی کے واسطے حمام گرم کرنے کو حکم دیا اور آپ اپنی ماں سے باتیں کرنے لگی کہ سنیے اماں جان آپ کے داماد کی دو چیزیں ایسی ہیں جس کے سبب بعد سدھارنے اُن کے کے میری تسلی بہت ہوتی ہے۔ ایک تو انگشتری خاص انھیں کے ہاتھ کی ہے۔ چلتے وقت وہ میری انگشتری آپ لے جاتے ہیں اور اپنی مجھ کو دے جاتے ہیں۔ پیچھے ان کے میں اس انگشتری کو ایک لحظہ اپنے سے جدا نہیں کرتی ہوں اور ایک بیش قبض ہے کہ وہ بادشاہ نے خلعت میں مرحمت فرمائی تھی۔ اور وزیر بھی اُس کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ بعد اُن کے سدھارنے کے وہ پیش قبض میں اپنے ساتھ لے کر رات کو سوتی ہوں جب مجھ کو نیند آتی ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک خادمہ حاضر ہوئی اور عرض کی کہ حمام تیار ہے۔ حضور تشریف لے چلیں۔ زوجۂ وزیر اُٹھی اور چاہا کہ جس طرح سے ہمیشہ تنہا جا کر نہایا کرتی تھی اُس طرح سے نہائے، مگر اُس کی ماں نے تنہا جانے نہ دیا۔ آپ بھی ہمراہ اُس کے حمام میں گئی اور مُصر ہوئی کہ بٹیا کپڑے اتارو تو میں آج بہت دنوں کے بعد تمھیں خوب مل کر نہلاؤں۔ اُس نے عرض کی کہ اے اماں جان آج تک میرے جسم پر کسی پرند جانور کی نگاہ نہیں پڑی، نہ کہ بشر۔ میری کنیزیں سب علاحدہ ہو جاتی ہیں جب میں نہاتی ہوں، آپ باہر حمام کے تشریف رکھیں، میں ابھی تو غسل کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی ہوں۔ یہ کلام بیٹی کا سُن کر جواب دیا، کہا: کیا خوب! تمھیں مجھ سے پردہ ہے۔ بھلا بیٹی تم نے جب نہ پردہ کیا اور نہ لحاظ کیا جب میں نے تمھیں نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھا اور جنی تو ننگا کُھلا میں نے تمھیں دیکھا اور دودھ پلایا، پالا پرورش کیا۔ اب جو سلامتی سے جوان ہوئیں تو ماں ہی سے شرم و لحاظ کرتی ہو۔ شاباس بچی! ہوش میں آ، دیوانی نہ بن، کپڑے اتار، جلدی کر۔ پھر تو وہ شرم کے مارے پسینے پسینے ہو گئی مگر مجبور ناچار ہو کر پوشاک اُتاری۔ اُس نے بدن ملنے کے بہانے خوب سارا تن بدن سر سے پا تک دیکھ نظروں میں جانچ لیا۔ جتنے خال بدن میں تھے، سب کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا اور نہلا دھلا کر کہا کہ لو بی بی تم اب جا کر توشہ خانہ سے پوشاک اور جواہر خانہ سے کل زیور منگا کر پہنو۔ بال سکھا تیل ڈال سر گندھوا، مسّی سرمہ سے آراستہ ہو کر مسند زریں پر بیٹھو، میں ذرا پِنڈا دھو کر ابھی آتی ہوں۔ یہ بے چاری سیدھی سادھی فریب کیا جانے۔ بموجب کہنے اسی جعلی ماں کے عمل میں لائی اور زیور اور پوشاک کے حاضر کرنے کو حکم دیا۔ اتنے میں مغلانی مُقابہ لے کر واسطے سر گوندھنے کے حاضر ہوئی۔ ادھر اُس شطاح نے جو فرصت پائی تو بالا خانہ پر جا اور وہ سب سامان عیاری و مکاری و شبیہ کشی کے اپنے ساتھ جو رکھتی تھی ایک آن واحد میں ایسی تصویر خوبرو برہنہ بدن کی بعینہ ہو بہو تیار کی کہ جس میں ذرا فرق نہ تھا۔ تصویر تیار کر پوشیدہ اپنے پاس رکھ جلدی سے وہاں آئی، جہاں وہ دل ملول سنگار میں مشغول بیٹھی تھی۔ اُس عیارہ نے جلد جلد پوشاک پرتکلف سے آراستہ اور زیور جواہر نگار سے پیراستہ کر مسند زریں پر بٹھایا اور کئی بار صدقہ ہو ہو بلائیں لیں۔ گلے سے لگایا، پیار کیا اور بہت سا روپیہ تصدق اُتار کر خیرات کیا۔ غرض کہ ایک دن رات اُس مکارہ نے وہ پوشاک و زیور اُتارنے نہ دیا۔
دوسرے روز فجر کے وقت اُس نے زبردستی پوشاک و زیور اُترا۔ اُس حرافہ نے کیا کام کیا کہ کسی بہانہ سے آنکھ بچا کر پھر بالا خانہ پر جا تصویر دوسری آراستگی کی ایسی دلچسپ تیار کی کہ جس کو فرشتے دیکھیں تو ہاروت و ماروت کے مانند فریفتہ ہو، ہوش و حواس کھو دیوانہ بن جائیں۔ تصویر اُس زہرہ جبین کی ایسی کھینچی کہ جس کی تعریف میں زبان انسان کی لال ہے۔ قلم کی کیا مجال ہے جو کچھ تعریف اُس کی تحریر کر سکے۔ ایسی لاثانی تصویریں تیار کر اپنے پاس رکھ لیں، ایک تو برہنہ بدن کی دوسری تمام پوشاک اور زیور سمیت۔ جب اُس سے فارغ ہوئی تو کئی دن کے بعد بہانہ کیا کہ اب میں زیادہ نہیں رہ سکتی کیونکہ تیرا بھتیجا مجھ سے بہت ہلا تھا کہ میرے بغیر اُسے ایک پل قرار نہ تھا۔ میرے یہاں آنے کے بعد بہت ہڑکتا ہوگا۔ مجھے تیری دوری ایسی شاق تھی کہ اُس کا بھی چلتے وقت دھیان نہ آیا۔ یہاں میں وحشت زدہ بوکھلائی ہوئی چلی آئی۔ خدا کی عنایت سے تم کو اچھی طرح خیریت سے دیکھا۔ خاطر جمع ہوئی، آنکھوں کو روشنی، دل کو ٹھنڈک حاصل ہوئی، لیکن ایک حسرت میرے دل میں باقی رہی کہ میں ایسے دنوں میں آئی کہ تمھارا شوہر گھر میں نہ تھا۔ مجھ کمبخت کو کیا خبر تھی کہ آج کل وزیر گھر میں نہیں ہے، ورنہ میں ابھی نہ آتی۔ جب وہ یہاں ہوتے، تب ہی آتی۔ میرا جی تیرے شوہر کے دیکھنے کو بہت چاہتا ہے، مگر کیا کروں مجبور ہوں کہ پوتے کی جدائی سے زیادہ نہیں رہ سکتی۔ جب تمھارے میاں گھر میں آئیں تو میری طرف سے بلائیں لے کر خیریت دریافت کر کے بہت بہت دعا کہہ دینا۔
یہ سُن کر وہ لڑکی یعنی زوجۂ وزیر کہ اسے سچ مچ اپنی ماں جانتی تھی رونے لگی اور کہنے لگی کہ اے اماں جان! آپ ابھی جانے کا ارادہ نہ کریں، آپ کو تو آئے ہوئے ابھی بہت تھوڑے دن ہوئے ہیں۔ ابھی رہیے، وہاں جا کر آپ کیا کریں گی۔ برسوں کے بعد آپ نے مجھے دیکھا۔ میں نے آپ کو دیکھا ہے۔ ابھی آپ ناحق جانے کا عزم کرتی ہیں۔ میرا دل بھی تو نگوڑا آپ کی دید سے نہیں بھرا اور نہ ابھی آپ اُن سے ملیں۔ جب وہ گھر میں آویں گے اور آپ کے آنے کی خبر سنیں گے تو میرے اوپر بہت خفا ہوں گے اور کہیں گے کہ تم نے میرے آنے تک کیوں نہ رکھا۔ جانے کیوں دیا۔ پھر بھلا میں اُن کو اس بات کا جواب کیا دوں گی۔ آپ ہر گز ابھی نہ جائیے۔ وہ بہت کہا کی لیکن یہ کب سنتی تھی۔ مطلب تو نکال ہی لیا تھا۔ پھر کیا غرض تھی جو رہتی۔ وہ بے چاری غم کی ماری ہر طرح سے سمجھاتی رہی اور روکتی رہی۔ مگر اُس نے حیلہ و حوالہ کر تیاری اپنی کر ہی دی۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ اب مانتی نہیں، مجبور ہو کر کچھ نذر کرنے کو نقد طلب کیا اور ہاتھ باندھ کر نذر دی۔ اس مکارہ نے کہا کہ بیٹا میں نقد روپیہ لے کر کیا کروں گی۔ تو جانتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے روپیہ بہت دیا ہے۔ ہاں مگر کچھ قسم ٹوم و ہتھیار وغیرہ کی ہو تو مضائقہ نہیں۔ کیونکہ تیرے بھائی بھاوج جانیں کہ ہماری بہن اور نند نے سوغات بھیجی ہے۔ اس میں البتہ تیرا نام اور میری خوشنودی کا سبب ہے۔ اگر دینا منظور ہے تو ایسی چیز دو ورنہ نقد روپیہ پیسا تو خدا نے بہت سا دیا ہے۔ یہ سُن کر وہ بے چاری بھولی بھالی دل میں سوچنے لگی کہ الٰہی اب میں ان کو کیا دوں۔ اتنے میں آپ ہی بول اٹھی کہ بٹیا میں بتاؤں جو تو دے یہ جو تیرے گلے میں چندن ہار ہے، تو اپنی بھاوج کے واسطے دے اور وہ جو پیش قبض ہے جسے تو اپنے ساتھ رات کو لے کر سوتی ہے، اپنے بھائی کو دے۔ یقین ہے کہ یہ چیزیں دیکھ وہ دونوں بہت خوش ہوں گے۔ اور یہ جو انگوٹھی چاندی کی ہے جسے تو اپنے ہاتھ میں پہنے رہتی ہے، مجھے دے کیونکہ میں تم دونوں کی نشانی براے یادگار اپنے پاس رکھوں گی۔ اور جو تیری چھوٹی بہن ہے اسے چاہے کچھ دے یا نہ دے۔ جو کچھ دے گی وہ خوش ہو جائے گی اور جو نہ دے گی تو خیر بچہ ہے یوں ہی بہل جائے گی اور وہ تو ایسی بھولی ہے کہ ایک جوڑی نورتن میں بھی خوش ہو جائے گی۔ جس کو تو پہنے ہے اس کو وہ ہی بہت ہے۔
یہ بے چاری سُن کر خاموش ہو رہی اور دل میں کہنے لگی کہ یہ چاروں چیزیں تو بہت بیش قیمت ہیں۔ میں بے اجازت اپنے شوہر کے کیوں کر دوں اور یہ بڑی قباحت ہے کہ اُس میں دو عدد خاص میرے ہیں، اگر دے دوں تو مضائقہ نہیں اور انگشتری اور پیش قبض میری نہیں ہے، دوں تو کیونکر دوں۔ اور علاوہ اس کے یہی دونوں چیزیں تو میری زیست کا سبب ہیں۔ دیتی ہوں تو میری پریشانی متصور ہے اور نہیں دیتی ہوں تو اماں جان آزردہ ہوں گی اور کہیں گی کہ میں نے اپنے منہ سے مانگیں، جس پر نہیں دیتی۔ یہ کہہ کر دونوں چیزیں گلے اور بازو سے اتار کر اپنی ماں کے سامنے رکھ دیں اور اُن دونوں کے دینے میں تامل کیا لیکن وہ عیارہ کب چھوڑتی ہے۔ یہ بات جو اس کے جی میں خلش کر رہی تھی، بشرہ سے دریافت کر کے کہنے لگی کہ بٹیا! بھاوج اور چھوٹی بہن تم کو بہت عزیز ہوئیں جو جلدی سے اپنے گلے و بازو سے اتار دونوں دے دیں اور وہ بھائی جو اللہ آمین کا ایک ہی ہے اس کو کچھ نہ دیا، وہ ناراض نہ ہوگا کہ بہن نے مجھے کچھ نہیں بھیجا اور میں نے تو کوئی ایسی چیز بڑی نہیں مانگی جس کے سبب تم پہلو تہی کرتی ہو۔ یہ کلام فریب انجام سن کر اس سے رہا نہ گیا۔ فوراً پیش قبض و انگوٹھی ہاتھ سے اُتار ماں کے حوالہ کر دی اورکچھ زر نقد بھی براے زاد راہ دیا اور ناشتہ کے واسطے کلچے وغیرہ پکوا کر ہمراہ کر دیے اور اچھا سا دن مقرر کر کے رخصت کیا اور بڑے تجمل سے دریا کے پار تک پہنچا دیا۔ بعدہ اپنے معمول کے موافق گھر میں رہنے لگی۔
یہاں کی بات تو یہاں رہی۔ اب اُس مکارہ کی حکایت سُننا چاہیے کہ اس نے وہ دونوں تصویریں اور یہ چاروں چیزیں نشانیاں لے جا کر کیا آفت برپا کی، سُننےکے قابل ہے۔ جب کہ وہ یہاں سے اس طرح سے رخصت ہوئی تو باہر جا کر سب اپنے ہمراہیوں کو انعام دے کر رخصت کیا اور آپ خوش و خرم سیدھی وزیر اول کے پاس جا دونوں تصویریں اور نشانیاں اس کو دے کر یہ زبانی کہا کہ لو میاں بڑے فریب و جانفشانی سے یہ تصویریں اور نشانیاں ہاتھ آئی ہیں۔ جیسے تم نے اُسے سُنا ہے، اُس سے وہ چار حصے زیادہ پارسا ہے۔ ایسی عورت ہمہ صفت موصوف کبھی ہم نے نہیں دیکھی سُنی تھی۔ نہ مجھ سی عورت شطاح ہر فن میں طاق ہوتی نہ تمھاری جان بچتی۔ اب یہ تصویریں اور نشانیاں لیجیے اور سدھاریے۔ وہاں پہنچ کر بادشاہ سے بیان کرنا کہ میں اس کو خراب کر آیا۔ دو مہینے تک وہ میرے پاس برابر شب باش رہی اور بر وقت چلنے کے مصور کو بلوا کر اسے برہنہ کر تصویر کھچوائی، دوسری تصویر آراستگی کی کھچوائی۔ چنانچہ یہ دونوں موجود ہیں اور یہ انگوٹھی خاص وزیر چہارم کے ہاتھ کی ہے کہ اپنی زوجہ کو نشانی دے کر آیا تھا، سو یہ میرے پاس موجود ہے۔ اور یہ پیش قبض بادشاہ نے خلعت میں وزیر چہارم کو دی تھی سو وہ بھی میرے پاس ہے اور اس کے گلے خاص کا چندن ہار اور خاص بازو کے نورتن بھی دونوں موجود ہیں۔ جب تم یہ نشانیاں مع تصویر دو گے تو فوراً بادشاہ اور اس کے شوہر کو یقین ہو جائے گا۔ یہ سب لیجیے اور میری جانفشانی پر غور کر کے بموجب وعدہ اپنے کے انعام دیجیے۔ جب کہ وزیر نے یہ چیزیں اور تصویریں موافق مطلب کے پائیں، بہت خوش ہوا اور کُٹنی کو ایک ہزار اشرفیاں اور خلعت وغیرہ انعام دے کر راضی کر کے رخصت کیا اور بعد جانے کٹنی کے نظر غور سے جو تصویروں کو دیکھا تو بس غش کر گیا۔ کہے تو کہ جیتے ہی جی مر گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو سامان سفر درست کر کے وطن کو روانہ ہوا اور منزل بہ منزل، کوچ در کوچ مقام کرتا ہوا بیس روز کے عرصہ میں دار الریاست و پایۂ وزارت خود پر جا پہنچا اور اپنے مکان میں اُتر کر بعد فارغ ہونے غسل وغیرہ کے دوسرے روز علی الصباح بادشاہ کی ملازمت کے واسطے حاضر ہوا اور قدم بوسی حاصل کر کے کاروبار اپنے پر مستعد ہوا۔ جب بادشاہ سے تنہائی میں ملاقات ہوئی تو اس نے سب حال اس طرح بیان کیا کہ غریب پرور! جو اس خانہ زاد نے حضور پر نور میں عرض کی تھی وہ ہی ظہور میں آیا کہ زوجہ وزیر چہارم کی ایسی فاحشہ و بدکار ہے کہ دوسری زمانہ میں نہ ہوگی اور یہ دروغ گو کیسی عصمت اور عفت اس کی بیان کرتا تھا۔ اب حضور اس نامعقول کو بلوا کر سزا دیں۔ بادشاہ نے پھر حال مفصل دریافت کیا اور کہا کہ جو تو وجہ ثبوت لایا ہے پیش کر۔ پھر تو وزیر اول نے دونوں تصویریں اور پیش قبض و انگشتری و چندن ہار و نورتن پیش حضور کیے اور یوں زبانی کہنے لگا کہ جناب عالی! وہ عورت اوباش فدوی کے پاس دو مہینے تک برابر شب باش رہی۔ جب چلنے لگا تو اُس سے تصویر کی درخواست کی۔ اُس نے اپنے آدمی سے مصور کو بلوا کر برہنہ ہو کر تصویر اپنی کھچوا دی اور دوسری تصویر پوشاک و زیور پہن کر کھچوا دی۔ چنانچہ یہ دونوں موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اور بروقت روانگی اپنی کے میں نے نشانی یادگاری کو مانگی تو اس نے فوراً اپنے گلے سے چندن ہار اور نورتن بازو سے اتار دیے۔ جب میں نے کہا کہ یہ دونوں چیزیں جو تم نے مجھے دی ہیں، ان کو میں ہر وقت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، کوئی چیز ایسی دو جسے میں آٹھوں پہر اپنے پاس رکھوں، ایک دم اپنے سے جدا نہ کروں، جس کے سبب دل کو تسلی رہے۔ یہ سن کر اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار دی اور یہ پیش قبض دے کر کہنے لگی کہ یہ دونوں چیزیں خاص وزیر کی ہیں۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور سب نشانیاں مع پیش قبض اپنے قبضہ میں کر رخصت ہو روانہ ہوا۔ یہ سب داستان گذشتہ عرض کر کے کہنے لگا کہ حضور خیال فرماویں اور تصور کریں کہ ایسا شخص کاذب زن مرید قابل عہدۂ وزارت کے ہے یا گردن مارنے کے خصوصاً ایسے جلیل القدر شہنشاہ کے روبرو ایسا دروغ بولنا معاذ اللہ منہا بہت ہی بُری بات ہے۔ بادشاہ کو یہ حال سُن کر اور تصویریں دیکھ کر یقین کامل ہوا اور کمال ہی غصہ آیا۔ پھر تو فوراً وزیر چہارم کو طلب فرمایا۔ جب وہ ناکردہ گناہ حاضر ہوا تو اس وقت بادشاہ غصہ میں تو بیٹھے ہی تھے۔ اس کی صورت دیکھ کر اور بھی غیظ میں آ گئے اور فرمایا کیوں جی تمھاری بی بی بڑی صاحب عصمت و عفت ہے۔ اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جی جناب عالی فدوی سے اس کی عصمت کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ حقیقت میں بڑی صاحب عصمت ہے۔ اس کا یہ کہنا اور بھی بادشاہ کو آگ لگی۔ انکھیں سُرخ ہو گئیں۔ مارے غصے کے کانپنے لگے اور اسی حالت غیظ میں فرمایا کہ تو بڑا کاذب زن مرید ہے۔ دیکھ تو یہ کس کی تصویریں ہیں اور یہ انگوٹھی اور پیش قبض کس کی ہے۔ خوب غور سے دیکھ کہ یہ وہی پیش قبض ہے یا نہیں جو میں نے تجھے خلعت میں دی تھی اور یہ چندن ہار نورتن تیری اسی زوجہ فاحشہ کے ہیں یا نہیں۔ یہ سب چیزیں اور تصویریں اسے دکھا کُل ماجرا وزیر اول کے جانے کا اور دو مہینے تک رہنے کا بیان کیا۔ وزیر چہارم یہ سن کر اور سب چیزیں کہ واقعی اسی کی تھیں دیکھ زرد ہو گیا اور شرمندگی سے سر در گریبان ہو پسینہ پسینہ ہو گیا اور خجالت سے آنکھیں اس کی اونچی نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت اس کا بس نہ چلتا تھا ورنہ اپنے تئیں فوراً ہلاک کر ڈالتا۔ منفعل و ذلیل گردن جھکائے بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے جلاد طلب کیے، حکم دیتے ہی جلاد حاضر ہوئے۔ جب بادشاہ نے جلادوں کی صورت دیکھی تو وزیر چہارم کے قتل کرنے کا حکم دیا کہ جلد اس کا سر تن سے جدا کر دو۔ وہاں تو حکم ہی کی دیر تھی۔ جھٹ پٹ اُس بے چارہ ناکردہ گناہ کی مشکیں کس کے شہر کے باہر واسطے قتل کرنے کے لے گئے۔ جبکہ قتل گاہ میں پہنچے تو حکم کے منتظر رہے۔ یہ بھی قدیم سے دستور ہے کہ جب تک تین حکم حاکم کے نہیں ہوتے قتل نہیں کرتے۔ چنانچہ یہ بھی موافق قاعدۂ قدیم کے حکم اول و دوم و سوم کے منتظر تھے۔ اتنے میں حکم اول آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حکم دوسرا آیا کہ جلد قتل کرو۔ جبکہ حکم دیگر صادر ہوا، جلادوں نے موافق رسم و قاعدہ کے کہا کہ میاں جس چیز کو تمھارا دل چاہے کھا لو پی لو یا کسی سے ملنا ہو مل ہو۔ اب تیسرے حکم کی دیر ہے۔ وزیر نے جلادوں سے کہا کہ مجھے روبرو حضور کے لے چلو تاکہ کچھ عرض کروں۔ اگر قبول ہو جاوے تو بہتر ہے۔ جلادوں نے اس کی درخواست حضور میں کہلا بھیجی۔ بادشاہ نے بموجب درخواست اس کی کے اپنے روبرو طلب کیا اور فرمایا کہ کیا کہتا ہے۔ اس نے زمین بوس ہو کر التماس کی کہ اے جہاں پناہ! امیدوار خاوندی کا ہوں کہ ایک نظر فدوی کو اس فاحشہ نالائقہ کے دیکھنے کی پروانگی ہو جائے۔ بعد اس کے حکم قتل کا صادر ہو۔ بادشاہ نے اس کی عرض کو قبول کیا اور فرمایا کہ اسی طرح مقید پابجولاں ہمراہ پہرہ چوکی کے جوان ہوں گے اور خبردار اس کو جان سے نہ مارنا۔ اس بے چارے نے سب منظور کر کے عرض کی کہ حضور جس طرح سے چاہیں بھیج دیں۔ پھر تو بادشاہ نے اس کو ایک چھکڑہ پر بٹھا اسی صورت سے قیدیوں کی طرح ہمراہ سوار و پیدل واسطے نگہبانی کے معین کر کے بہت سی تاکید کر دی کہ کسی وقت اس کو اکیلا نہ چھوڑنا اور بتاکید یہ بھی فرما دیا کہ اس کو جان سے مارنے نہ دینا۔ یہ کہہ کر رخصت کیا۔ پھر تو وہ بے چارہ مصیبت کا مارا اسی صورت سے قیدیوں کی طرح روانہ ہوا۔ یہ دنیا جاے عبرت ہے۔ اس واسطے یہ چند وصیت ہے کہ اے عزیز! دیکھ خبردار ہرگز ہرگز تو ایسا نہ کرنا جس سے ذلت اُٹھائے۔ بدنامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ خودی کو دل سے نکال، غرور و نخوت سے آپ کو سنبھال، تکبر سے بچ۔ بڑا بول مت بول۔ بادشاہ حقیقی کے روبرو عجز و انکساری سے سر جھکا۔ کسی سے کسی بات کا دعویٰ نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ تو بھی وزیر چہارم کی طرح اپنے بادشاہ حقیقی کے سامنے ذلیل و رسوا، نادم و شرمندہ ہو اور کہیں ٹھکانا نہ رہے۔ اگر وہ بادشاہ کے سامنے اپنی زوجہ کی پارسائی کا دعویٰ نہ کرتا تو کیوں ایسی رسوائی کا سزاوار ہوتا۔ دنیا دم مارنے کی جگہ نہیں۔ آٹھوں پہر جناب باری سے ڈرتا رہے اور کسی سے غرض مطلب نہ رکھے تو اچھا رہے گا۔
اخیر داستان
وزیر چہارم کا قید ہو کر وطن جانا اور زوجہ اپنی کو طلاق بائن دے کر باہر شہر کے مقیم ہونا اور فرزند متبنیٰ کو وزیر پاس بھیج کر اس کی بی بی کا سب حال دریافت کرنا۔ بعد استفسار حال آپ بیسوا بن کر بادشاہ کے سامنے جانا اور سب حال دُہرا کر وزیر اول کو اپنے سامنے قتل کرا کے پھر آپ دونوں کا اپنے اپنے ہاتھ سے مر جانا، پھر بادشاہ کا فرزند متبنیٰ اس کے کو وطن سے بلوا کر وزیر اول اپنا کرنا اور روز بروز سرفرازی بخشنا
یہاں سے راوی یہ حکایت غم اس طرح سے بیان کرتا ہے کہ یہ وزیر بلائے ناگہانی آفت آسمانی میں مبتلا لب پر نالہ و آہ کئی روز کے عرصہ میں اپنے گھر پہنچا۔ اور جاتے ہی اندرون محل سپاہیان ہمراہی در آیا اور اپنی بی بی بے خطا کو طلاق بائن دے کر اُسی وقت واپس آ کر دو کوس شہر سے باہر نکل کر مقام کیا۔ اب حال اس کی بی بی کا سنیے کہ جس وقت وزیر مسعود اس حیثیت سے اپنے گھر گیا اور طلاق دے کر چلا۔ نہ کچھ اپنی کہی اور نہ اس کی سنی، اس سبب سے وہ سراسیمہ ہو زار زار رونے پیٹنے لگی اور اپنے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا۔ کیونکہ دو طرح کا صدمہ اس کے دل پر ہوا۔ ایک تو وزیر کا اس کیفیت سے آنا دوسرے بے وجہ طلاق دینا۔ ان دونوں وجہوں سے کمال ہی حیران تھی۔ چاہتی تھی کہ چُھری مار کر مر جائیے۔ اتنے میں ایک عورت نے اٹھ کر جلد ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ مرنا تو ہر وقت ممکن ہے، لیکن پہلے یہ ماہیت تو دریافت کر لو پھر مر جانا۔ اس کے سنتے ہی اس نے اسی لے پالک لڑکے کو کہ علاحدہ مکان میں رہتا تھا، اصیل کو بھیج کر بلوا بھیجا۔ جب وہ آیا تو یہ ماجرا دیکھ کر گھبرایا اور جلدی حال دریافت کیا۔ اس کو ذرا کہنے میں تامل ہوا تو اس نے کہا کہ براے خدا جلدی مجھ سے یہ حال بیان کرو کہ یہ ماجرا کیا ہے اور کیا ایسا صدمہ ہے جس کی یہ گریہ و زاری ہے۔ جب تو اس بے چاری نے اُسی رونے کی حالت میں سب حال وزیر کا اُس کیفیت سے آنا اور بے قصور طلاق دے کر چلا جانا بیان کر کے کہا کہ بیٹا تم ابھی چلے جاؤ۔ جس طرح ہو سکے اپنے باپ کے قید ہونے کا سبب اور مجھے طلاق دینے کی وجہ اچھی طرح انھیں کے زبان سے سُن آؤ تاکہ مجھ کو حال مفصل معلوم ہو جاوے۔ وہ یہ حال سن کر گھبرایا ہوا پیدل روانہ ہوا۔ شہر کے باہر ہر ایک سے پوچھتا ہوا برابر چلا گیا۔ جب قریب دو کوس کے گیا ہوگا تو وہاں زیر درخت چند سوار اور کچھ پیدل دیکھے۔ ان سے اس نے پوچھا کہ بھائی ہمارے والد جو یہاں قید ہو کر آئے ہیں، اور وہ وزیر فلانے بادشاہ کے ہیں، کہاں ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ چھکڑے کے نیچے بیٹھے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی روتا ہوا ان کے پاس گیا اور وزیر نے باجازت سپاہیان ہمراہی اپنے پاس بلا کر گلے سے چمٹا لیا اور پیار کر کے خوب رویا۔ سپاہیوں نے کہا کہ بس رو چکے جو کچھ کہنا سننا ہو کہ سن لو اور اس لڑکے کو رخصت کرو۔ وزیر نے اول سے آخر تک سب داستان بیان کر کے کہا کہ وزیر اول مجھ سے پوشیدہ یہاں آیا اور دو مہینے تک تیری ماں کے ساتھ ہم بستر رہا اور دو تصویریں ایک برہنہ بدن کی دوسری تمام زیور و پوشاک سمیت یعنی آراستگی کی یہاں سے کھیچا کر لے گیا اور میری انگشتری اور پیش قبض اور چندن ہار اور نورتن یہ سب نشانیاں بھی اپنے ہمراہ لے جا کر بادشاہ کے سامنے مع تصویر رکھ دیں اور کُل حقیقت اس کی فاحشہ پنے کی بیان کر کے مجھے روبرو بادشاہ کے ذلیل و رسوا کیا۔ اور میرے قید ہونے اور گردن مارے جانے کا یہ سبب ہے کہ ایک دن بادشاہ نے دربار میں یہ سوال کیا تھا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی ہے کہ جس میں یہ چار صفتیں ہوں۔ ایک تو خوبصورت بہت ہو، دوسرے علم موسیقی میں کمال ہو، تیسرے قابل بلکہ قریب فضیلت ہو، چوتھے صاحب عصمت ہو۔ یہ سن کر اور وزیروں نے جواب دیا کہ جہاں پناہ جہاں میں کوئی ایسی عورت نہ ہوگی۔ الّا میری شامت جو آیا چاہیے، تو میں نے تیری ماں کی تعریف بیان کر کے عرض کی کہ یہ چاروں وصف جو حضور اقدس نے فرمائے ہیں، میری بی بی میں ہیں۔ یہ کہہ کر میں تو چپ ہو رہا۔ پھر مجھے خبر نہیں کہ کیونکر وزیر اول یہاں آیا۔ مجھے جب خبر ہوئی جبکہ وزیر مذکور یہاں سے مع وجہ ثبوت واپس جا کر بادشاہ کے روبرو سرخ رو ہوا اور مجھے بادشاہ نے بلوا کر بہت ذلیل و خوار کر کے حکم قتل کا دیا۔ دوسرے حکم پر میں نے عرض کی کہ ایک بار مجھے اجازت دیجیے تاکہ وقت اخیر میں اُس ناشدنی کمبخت کو دیکھ لوں۔ میرا ارادہ خاص یہی تھا کہ جا کر اُسے قید ہونے کی صورت دکھا کر جان سے مار ڈالوں۔ بارے اللہ نے بادشاہ کے جی میں ڈال دی جو عرض میری منظور ہوئی۔ لیکن اس شرط سے کہ جان سے اس کو نہ مارنا۔ اس سبب سے میں نے آن کر بادشاہ کی تاکید سے جان سے تو نہ مارا مگر طلاق بائنہ دے کر چلا آیا۔ اب یقین کامل ہے کہ جاتے ہی میرا سر قلم ہوگا۔ یہ سب ماہیت بیان کر کے خوب رویا اور لڑکے کو رخصت کیا۔ یہ لڑکا اپنے باپ سے رخصت ہر کر روتا ہوا اپنی ماں پاس آیا اور کل حقیقت جو وزیر سے سُن آیا تھا کہہ سنائی۔ جس وقت اس بے چاری نے یہ حال سنا، دل میں اپنے سمجھی کہ یہ سارا فتور اسی کٹنی جعلی ماں کا ہے۔ خیر اللہ کی مرضی، جو ہونا تھا ہوا۔ اس کی کیا تقصیر ہے۔ اپنی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ بدنامی و رسوائی اور خانہ بربادی ہو۔ یہ کہہ کر بعجلت تمام سب لونڈی غلام آزاد کر دیے اور نصف اسباب مع مکانات و روپیہ پیسا اللہ کی راہ میں لٹا دیا۔ اور بہت سا اسباب اور کچھ نقد و زیور اس فرزند لے پالک کو دے کر دو تین لونڈیاں معقول خوبصورت جنھیں کچھ ڈھولک و طبلہ وغیرہ بجانے کی تمیز تھی، اپنے ہمراہ لیں اور آپ زیور و پوشاک سے آراستہ ہو ہمراہ انھیں لونڈیوں کے رتھ میں سوار ہو کر جہاں اس کا شوہر وزیر تھا، روانہ ہو رات دن برابر چلی گئی۔ راستے میں ذرا نہ ٹھہری۔ اگر دس دن کی راہ تھی تو یہ پانچ ہی روز میں وہاں پہنچی اور سرا میں کوٹھا کرائے کا لے کے جا اُتری اور گانے بجانے کا چرچا شروع کر دیا۔ یہاں تک مشہور ہوئی کہ شہرہ اس کا گوش زد بادشاہ ہوا کہ ایسی ایک بیسوا خوبصورت یہاں آن کر سرا میں ٹھہری ہے کہ آج تک چشم فلک نے بھی نہ دیکھی ہوگی۔ باوجود اس نورانی صورت کے خُلق لاثانی رکھتی ہے اور ایسی خوش گلوئی سے گاتی ہے کہ تمام شہر بلکہ جن و بشر مع دیوار و در سکتہ میں رہ جاتے ہیں۔ تمام عالم اس کا تابع فرمان ہے۔ لاکھوں گانے کے مشتاق ہیں، ہزاروں دید کی آرزو میں شب و روز غلاموں کے مانند حاضر رہتے ہیں۔ صبح سے تا شام اور شام سے تا صبح مجمع عام رہتا ہے اور وہ حسن خدا داد ہے کہ اپنی صناعی پر حیران خود وہ صورت گر ہے۔ بیان نہیں ہو سکتا جیسی کہ صورت اس پری وش کی ہے اور یہ سراپا جو یہاں بیان ہوتا ہے ادنیٰ سے صفت اس کی صورت کی ہے۔ اس بیان سے وہ حوروش کئی حصہ زیادہ ہے۔ حضور سنیں۔
سراپا تصنیف مصنف
رقم اس کا اب میں سراپا کروں وہ قد نخل یکتاے باغ جمال اگر بخشے اس سرو دلجو سے فاش ادا و کرشمہ کی وہ استاد حیا اُس کی پروردۂ چشم ناز اگر دیکھ لے اس کی طرز خرام مقابل میں اس کے جو شمشاد ہو تناسب میں اعضا کے وہ بے مثال وہ سر اس کا حسن و لطافت میں غرق سیاہی سے بالوں کی ظلمات مات کہیں دیکھ ہر اک تعجب کنان عجب زلف اس کی سیہ فام تھی جبیں لوح نور اُس پہ افشاں چنی بھویں دونوں اس کی وہ مثل کمان وہ آنکھیں نشیلی وہ چتون غضب وہ آنکھوں میں پتلی کی جلوہ گری مژہ کی غضب اس کی سر تیزیاں لکھوں اس کے کانوں کی تعریف کیا نہیں جاتی خوبیِ بینی لکھی نگہ بھر کے جو دیکھے رخسار پر لب لعل کا اس کے دیکھیں جو رنگ زبس عالم لب وہ زیبندہ تھا وہ درجِ دہاں کی صفت کیا لکھے دہن تنگ وہ اس کا بے اشتباہ وہ دانت اس کے ہموار و شفاف و صاف ذقن کی صفت کیا کروں شان کی کنواں اُن کو ملتا جو یہ راہ میں نظر اس کے چہرہ پر پڑ جائے گر وہ اس شوخ کی گردن خوش نما نہ کچھ پوچھیے اس کے شانوں کی شان وہ بازو نزاکت میں خوبی بھرے جسے ہاتھ کی اُس کے ہاتھ آئے سیر غضب اُس کے وہ پنجۂ دست تھے صفائی کو اُس کی کہے کوئی کیا وہ پستان بلا اس کے معمور نور شکم اس کا مخمل سے بھی نرم تر وہ ناف اُس کی دریاے خوبی کی ناف کمر اس کی مو سے بھی باریک تر صفائی وہ زانو کی اُس کے عیاں اگر دیکھ لے تاب ساق اس کی برق وہ پاے نگاریں کرے پائمال یہ ختم سراپا یہ ہے التجا جہان میں تو معنی کی عزت کو تھام |
کہ رتبہ سخن کا دوبالا کروں کہ طوبیٰ بھی ہو دیکھ جس کو نہال صنوبر ہو اک کندۂ ناتراش اُسے دلبری کے سب انداز یاد وفا اس کی خدمت میں گرم نیاز قیامت کرے اس کو جھک کر سلام تو سب راستی اس کی برباد ہو عیاں جس سے صنع حق کا کمال کہ تھا گوے خور میں اور اس میں نہ فرق وہ مانگ اس کی اک نہر آب حیات کہ نکلی ہے بدلی میں کیا کہکشاں کہ صید دل زار کو دام تھی کسی نے بھی ایسی نہ دیکھی سنی خدنگ قضا جس کا رطب اللسان جسے دیکھے ہو اس کو حیرت عجب عیاں جیسے شیشے کے اندر پری روا جس کو عالم کی خوں ریزیاں دو کان لطافت ہے دو سمت وا کہ تھی ناک وہ شاہد حُسن کی گریں اس کی آنکھوں سے شمس و قمر تو سحر و فسوں صاف رہ جائیں دنگ عقیق یمن کا فریبندہ تھا قلم جس کے لکھنے سے عاجز رہے بمشکل تکلم کی تھی جس میں راہ چلے جس پہ ڈر کے نہ لاف و گزاف قسم کھا کے کہتا ہوں ایمان کی تو یوسف بھی گرتے اسی چاہ میں تو رہ جائے مہر اس کا منہ دیکھ کر کہ لطف صراحی کا والے گلا نشان قرار دل غمکشان درخشانی میں برق سے بھی پرے کل آئے نہ اُس کو کلائی بغیر کہ چشمک زن مہر یک دست تھے وہ شفاف سینہ تھا بلور کا کہ کوسوں مساس توہم سے دور ہوس جس کی مہ کو بھی شام و سحر دل اہل دل جس کا محو طواف بجا ہے اُسے کہیے تار نظر کہ منہ آئے آئینہ پر بے گماں تو ہو جائے بحر خجالت میں غرق دل عاشق پاے بندِ ملال کرے خیر پر خاتمہ حق مرا بحق رسول و بہ آل کرام |
بادشاہ نے جو اس کے حسن کی اس قدر تعریف سُنی اور گانے بجانے کی صفت ایسی معلوم ہوئی، کمال ہی مشتاق ہوا اور فوراً چوبدار خاص بلانے کے واسطے سرا میں بھیجا کہ جلد جا کر ہمراہ اپنے لے آ۔ جبکہ چوبدار حضور سرا میں گیا اور اُس سے کہا کہ جلد چلو، تمھیں حضور نے یاد فرمایا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ اس عاجزہ کی طرف سے بعد آداب و تسلیمات کے التماس کرنا کہ یہ لونڈی تو فقط حضور پر نور ہی کی قدم بوسی کی آرزو میں یہاں حاضر ہوئی ہے لیکن بسبب راہ دور و دراز کے تھک گئی ہے، دو چار روز کی مہلت ملے۔ جب کسل راہ سے افاقہ ہو جائے گا تو یہ فدویہ بے طلب حضور میں حاضر ہو کر آستانہ بوسی حاصل کرے گی۔ منشا اس عذر کا یہ تھا کہ میں تو دو منزلہ سہ منزلہ کرتی ہوئی جلد یہاں پہنچ گئی، لیکن وہ قیدی وزیر بھی تو آ جائے تاکہ روبرو بادشاہ کے پارسائی میری اور دروغ و بہتان وزیر اول کا اس کو معلوم ہو جائے۔ مطلب عذر کرنے میں تھا۔ غرض کہ چوبدار نے واپس آن کے اس کی عرض بارگاہ سلطانی میں گزارش کی۔ بادشاہ نے اس کا عذر منظور فرمایا۔ جب کہ پانچ روز گزر گئے اور شوہر بھی اس کا اسی صورت سے داخل شہر ہوا۔ ادھر اس کو بھی یہ خبر ہوئی کہ وہ بے چارہ وزیر قیدی آج آیا ہے، اب گردن مارا جائے گا۔ یہ سُن کر سر شوریدہ کو دُھن جلد جلد آراستہ زیور و پوشاک سے ہو اور ایک پیش قبض پوشیدہ اپنے پاس رکھ ساز و سامان گانے بجانے کا لے مع اُن لونڈیوں کے رتھ میں سوار ہو روانہ ہوئی اور قلعہ مبارک میں پہنچ کر عرض بیگی سے اپنے آنے کی اطلاع کرا دی۔ بادشاہ تو ہمہ تن گوش تھا، اسی وقت طلب کیا۔ جب کہ دیوان خاص میں یہ قریب فرش پہنچی تو مجرا گاہ میں کھڑے ہو کر اس قاعدہ سے مجرا کیا کہ تمام ارکان دولت دیکھ کے حیران ہو گئے۔ جونہی نگاہ بادشاہ کی اس کے حسن خداداد پر پڑی، بیک نگاہ ہزار جان سے فریفتہ ہو گیا، بلکہ بے حس و حرکت رہ گیا اور تمام حاضرین دربار بھی بے چین ہو گئے اور بے ساختہ درود شریف پڑھنے لگے۔ بادشاہ نے بعد سکوت کے جبراً و قہراً اپنے تئیں سنبھال آگے طلب کیا۔ جب اس نے حکم آگے آنے کا پایا تو پھر مجرا و آداب بجا لائی۔ بعدہٗ آگے بڑھی۔ اسے قاعدہ کون سکھاوے، وزیر کی بیٹی اور وزیر ہی کی بی بی، تمام آداب سلاطین یاد۔ ایسے دستور سے آداب و کورنش بجا لاتی ہوئی آگے بڑھی کہ سب ملازم دنگ ہو گئے۔ جبکہ یہ قریب تخت پہنچی تو بادشاہ نے اشارہ بیٹھنے کا کیا۔ اس نے دست بستہ عرض کی کہ لونڈی کی اتنی مجال نہیں ہے کہ ایسی گستاخی کرے۔ بادشاہ نے زبان مبارک سے بآواز بلند ارشاد فرمایا کہ ہم تمھیں اجازت دیتے ہیں کہ بیٹھ جاؤ۔ اس نے بعد دعا و ثنا کے پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور تین بار تخت کے تصدق ہو آداب و کورنش بجا لا مع اپنے ہمراہیوں کے جانب چپ بیٹھ گئی اور عرض کی کہ جو ارشاد ہو، یہ کنیز خاص تعمیل حکم بجا لائے۔ بادشاہ تو محو دیدار تھا۔ اُسی کو دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کا کہنا نہ سُنا۔ اس نے مکرر عرض کی تو بادشاہ نے فرمایا کہ شہرہ تمھارے گانے کا تمام شہر میں بہت ہے۔ ہم بھی مشتاق ہیں کچھ گائیے۔ ہمیں سنائیے۔ اس نے سرِ بندگی جھکایا اور عرض کی کہ بہتر ہے جو اس خانہ زاد کو یاد ہے سناتی ہے۔ لیکن اور جو امیر و وزیر ملازم سرکاری ہوں، ان کو بھی طلب فرما لیجیے۔ حسب اتفاق یہاں اس فدویہ کا آنا ہوگیا ہے کوئی محروم نہ رہے۔ بادشاہ نے چوبدار جابجا بھیج کر سب کو بلوا لیا۔ جب سب حاضر ہو چکے اور اس نے دیکھا کہ اب سب حاضر ہیں، لیکن ایک وہی وزیر مصیبت کا مبتلا جو کہ اس کا شوہر تھا، نہیں ہے۔ اس نے پھر عرض کی کہ جناب عالی! فدویہ نے سنا ہے کہ حضور کسی وزیر سے ناراض ہیں اور وہ مقید ہے۔ یہ لونڈی امیدوار خاوندی کی ہے کہ آج ایک لحظہ کے واسطے اسے بھی یاد فرماویں تو بعید از بندہ نوازی نہ ہوگا۔ بادشاہ نے بخاطر اس کے تامل کے بعد یاد فرمایا۔ جب وہ بے چارہ قیدیوں کی طرح پابجولاں پہرہ چوکی ہمراہ حاضر ہو کر علاحدہ دربار کے کھڑا ہوا تو بادشاہ نے فرمایا کہ اب سب دربار میں حاضر ہیں، کوئی غیر حاضر نہیں ہے۔ اگر تمھارا جی چاہے تو کچھ گاؤ۔ پھر تو اس نے بموجب ارشاد بادشاہ سُر سازوں کے ملائے اور اس ڈھنگ سے گانا شروع کیا کہ تمام دیوار و در وجد میں آ کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور سب حاضرین دربار بھی دنگ تھے۔ سکتے کے سے ڈھنگ تھے اور بادشاہ کا تو یہ عالم تھا کہ حیرت میں آ اسی کے منہ کو تکتا تھا۔ کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔ کسی کے لب پر آہ تھی اور کسی کے لب پر واہ واہ تھی۔ کیا بیان کروں جو اس وقت وہاں سماں بندھا تھا۔ کسی میں ہوش و حواس نہ تھے۔ بادشاہ کو جب ذرا ہوش آیا تو بے ساختہ منہ سے نکلا کہ مانگ کیا مانگتی ہے، جو مانگے گی وہی پائے گی۔ اس نے دست بستہ عرض کی کہ حضور کا دیا لونڈی کے پاس سب کچھ موجود ہے۔ یہ کہہ کر پھر گانے لگی۔ یہاں تک گائی کہ سب مُرغ بسمل کی طرح دربار میں لوٹنے لگے۔ اس میں دوبارہ بادشاہ نے فرمایا کہ مانگ کیا مانگتی ہے، جو مانگے گی وہی تجھ کو دوں گا۔ اگر تو میری تمام سلطنت مانگے گی تو یہ تخت یک لخت تجھ کو حوالہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہو کے گوشہ گیر ہو رہوں گا۔ اس نے یہ سن کر ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ اے جہاں پناہ! یہ تخت سلطنت اللہ تعالیٰ حضور کو مبارک رکھے۔ میرے پاس حضور کی بدولت بہت کچھ موجود ہے۔ یہ خانہ زاد فقط حضور کی قدم بوسی کی تمنا و آرزوے ملازمت میں حاضر ہوئی ہے۔ کچھ مال و زر کی خواہش میں نہیں حاضر ہوئی۔ یہ عرض کر کے پھر تو اس طرح جی کھول کر گائی کہ آسمان سے زہرہ و مشتری اس کے گانے کی آواز سن کر بے چین ہو گئیں اور تمام فرشتے مع جن و پری و جانور و چرند و پرند اس کی آواز سے غش ہو کر جہاں کے تہاں گر پڑے۔ آدمیوں کا تو کیا مذکور ہے، اور تمام دربار مع بادشاہ بے ہوش تھا۔ کچھ خبر نہ تھی ہر ایک اپنے اپنے حال میں مبتلا بر لب نالہ و آہ، کوئی منہ پر مُہر سکوت لگا مانند تصویر کے نقش بدیوار بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ غرض کہ تمام اہل دربار مع حضرت عالی عجیب کیفیت میں تھے، جب اس نے دیکھا کہ سب کا حال ابتر ہے۔ خاموش ہو رہی۔
ایک گھنٹہ پختہ میں بادشاہ و رؤساے دربار کو ذرا اس حال سے افاقہ ہوا مگر سب کے سب مردہ تھے، نام کو زندہ تھے۔ بادشاہ نے اُسی بے خودی کے حال میں بقسم فرمایا کہ جو تو مانگے گی فوراً تجھ کو دوں گا۔ تامل نہ کروں گا۔ اگر تو میری جان تک مانگے تو بھی دریغ نہ کروں گا۔ جلد مانگ کیا مانگتی ہے۔ حسب طلب بلکہ طلب سے زیادہ پائی گی۔ جب کہ اس نے دیکھا کہ تین بار بادشاہ یہی کلمہ فرما چکے ہیں۔ اب بے تامل مطلب دل کہا چاہیے۔ پھر تو فوراً وہ ادب آموز کھڑی ہو کر زمین بوس ہوئی اور ہاتھ باندھ کر یوں عرض کرنے لگی کہ اللہ حضور کو ساتھ اس جاہ و حشم کے تا ابد سلامت و برقرار رکھے۔ زر و جواہر، مال و ملک کی یہ کنیز بھوکی و محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بدولت بہت کچھ دیا ہے۔ لیکن یہ خانہ زاد داد خواہ ہے، حضور اقدس میں نالشی آئی ہے، جور و ظلم کی ستائی ہے، جب یہ صورت پُر کدورت سرکار کے دیکھنے میں آئی ہے۔ بادشاہ نے یہ کلمہ سن کر فرمایا کہ کیا کہتی ہے، کس نے تیرے اوپر ظلم و ستم کیا۔ جلد بیان کر۔ ابھی تو تو اپنی خواہش کے موافق داد کو پہنچتی ہے۔ جلد کہہ۔ اس نے دست بستہ عرض کی کہ یہ جو وزیر اول سرکاری ہے، اس نے عاجزہ کو دو مہینے تک ہم بستر کیا اور ایک حبہ نہیں دیا۔ دو سو دینار سُرخ روزینہ قرار پایا تھا۔ دو مہینے تک آج کل کرتا رہا۔ آخر کار یہاں چلا آیا۔ امیدوار خاوندی کی ہوں کہ وزیر مذکور سے دو سو دینار سرخ کے حساب سے دو مہینے کی خرچی لونڈی کو دلا ملے۔ یہ سُن کر پادشاہ نے وزیر اول کی طرف نظر غضب سے دیکھ کر کہا کیوں یہ کیا کہتی ہے۔ حرام کاری ظلم کے ساتھ، اگر تو اپنی خیر چاہتا ہے تو ابھی اس کے کُل دینار دے کر راضی نامہ داخل حضور کر۔ ورنہ پیٹ چاک کرا کر بُھس بھروا دوں گا۔ وزیر اول نے جب یہ سُنا سفید ہوگیا اور کہنے لگا کہ پیر و مرشد! فدوی نے کبھی آج کے سوا اس کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ رکھنا اور ہاتھ لگانا کیسا؟ پہلے حضور یہ تو ثبوت کر لیں بعد حکم راضی نامہ کا صادر کریں۔ میں جانتا ہی نہیں کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے۔ بادشاہ نے پھر اس عورت کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تو نے سُنا وزیر کیا کہتا ہے۔ اس نے عرض کی کہ جناب عالی یہ جھوٹا ہے۔ لونڈی سچ عرض کرتی ہے۔ غرض کہ اسی طرح دیر تک آپس میں رد و بدل رہی۔ آخر کو اس عورت نے عرض کی کہ حضور اس کا فیصلہ اس طرح پر نہ ہوگا کہ یہ تو مکرتا ہے اور میں اقرار کرتی ہوں۔ اب ایک مچلکہ اس مضمون کا اس سےلکھوا لیا جائے کہ یہ لونڈی اگر وجہ ثبوت کما حقہ پہنچاوے تو تیری کیا سزا ہو۔ یہ سُن کر وزیر اول بعجلت تمام پہلے ہی سے بول اٹھا کہ جناب عالی اس نے کیا خوب بات کہی ہے۔ میں ابھی نوشتہ لکھے دیتا ہوں کہ سوائے آج کے جو کبھی میں نے اس عورت کو دیکھا ہو توپ سے باندھ کر فدوی کو اُڑوا دیجیے گا۔ ہم بستر ہونا اور ہاتھ لگانا کیسا ہوتا ہے۔ بادشاہ نے اسی شرط کا مچلکہ لکھا لیا۔ جب نوشتہ ہو چکا تو اس عورت نے عرض کی کہ حضور میں اس نے مچلکہ لکھ دیا ہے۔ اب حضور وہ تصویریں جو یہ مردود وزیر چہارم کی زوجہ کی لایا تھا، اس کے خراب کرنے کا روبرو آپ کے اقرار کیا تھا، منگائی جاویں اور ملاحظہ فرمایا جاوے۔ یہ سن کر وزیر اول تو سرنگوں ہوا اور بادشاہ نے وہ دونوں تصویریں طلب کی۔ جبکہ تصویریں روبرو آئیں تو بادشاہ نے شبیہ ملائی، پھر تو سر مو فرق اس کی صورت میں اور تصویروں میں نہ پایا۔ درحقیقت تصویریں اسی کی تو تھیں۔ فرق کیا ہوتا۔ جب تو بادشاہ کو یقین کامل ہوا کہ یہی وزیر چہارم کی زوجہ ہے۔ اور وزیر اول سے کہا کہ تو جو یہ تصویریں لایا تھا اور اس کے خراب کرنے کا اقرار ہمارے سامنے کرتا تھا اور اب تو کہتا ہے کہ میں نے کبھی اس عورت کو نہیں دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے۔ یا تو اب تو اقرار کر یا انکار کر۔ اب جاے غور ہے کہ وزیر کو بڑی مشکل ہوئی۔ اگر اقرار کرتا ہے تو مچلکہ دوم سے مارا جاتا ہے جو کہ اس عوت کے سامنے لکھا اور جو انکار کرتا ہے تو مچلکہ اول سے مارا جاتا ہے جو کہ بادشاہ کے سامنے وزیر چہارم کی بی بی کے خراب کرنے کے باب میں لکھا تھا اور چھ مہینے کی مہلت لی تھی۔ وہ مثل ہوئی کہ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ آخر کار وزیر اول نے انکار ہی کیا کہ میں نے اس عورت کو کبھی سواے آج کے نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تو نے اس عورت کو کبھی نہیں دیکھا تو یہ تصویریں کس کی ہیں۔ سچ بتا کیونکر ہاتھ لگیں، یہ سن کر اس عورت نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور! یہ داستان لونڈی سے سنیے۔ جب بادشاہ مخاطب ہوئے تو اس نے اول سے آخر تک اپنی ماں کا آنا اور مجوز ہو کر اپنے ہاتھ سے نہلانا اور بعد نہلانے کے بہ منت پوشاک و زیور پہنانا اور وقت رخصت کے اپنے منہ سے چندن ہار و نورتن و انگوٹھی و پیش قبض مانگنا اور بمشکل اپنا دینا اور زاد راہ خرچ دے کر رخصت کرنا، سب بیان کر کے کہا کہ جب تو میں حقیقت میں اپنی ماں جانتی تھی کیونکہ صورت سیرت میں سرِ مو فرق نہ تھا۔ لیکن اب مجھے یقین ہوا کہ وہ کٹنی تھی جو میری ماں کی صورت بن کے آئی اور میری اوپر ایسی خرابی لائی، جو یہ کنیز اس حیثیت سے حضور تک آئی اور اس نے مجھے نہلانے کے بہانے برہنہ کیا تاکہ تصویر برہنہ بدن کی کھینچے، بعد اس کے پوشاک و زیور بمنت پہنایا کہ تصویر دیگر آراستگی کی کھینچے۔ چنانچہ یہ دونوں تصویریں حضور عالی میں یہ بد ذات لایا تھا، موجود ہیں اور اب فدویہ کو یقین کامل ہے کہ میرا چندن ہار و نورتن و انگوٹھی و پیش قبض بھی اُس دلالۂ نابکارہ اس کی خالہ نے اسی کو دی ہوں گی اور یہ ہمراہ ان تصویروں کے یہاں لایا ہوگا۔ یہ سب ماہیت کہہ کر عرض کی کہ حضور خیال فرماویں کہ میری کس قدر ہتک عزت و بے حرمتی اس بد ذات نے بے سبب کی اور ناحق آبرو لی۔ اب فدویہ کو جب چین ہو کہ اس بدذات خصومت شعار کی بوٹیاں کٹوا کر چیل و کوؤں کو کھلوائی جاویں، جب میں اپنی داد کو پہنچوں کیونکہ اس کمبخت ناہجار نے میری خانہ بربادی مفت میں کی۔ مجھے دونوں جہاں سے کھو دیا۔ بادشاہ اور تمام اہل دربار یہ حقیقت سن کر وزیر اول کو بہت لعنت و ملامت کرنے لگے اور پھر بادشاہ نے اسی وقت وزیر اول کی مشکیں بندھوا کر حکم دیا کہ جلد اس کے اعضا اعضا کی بوٹیاں جدا کر کے چیلوں کو کھلوا دو اور وزیر چہارم کی بیڑیاں کٹوا کر باعزت جلد حضور میں حاضر کرو۔ یہ حکم سُنتے ہی اہالی و موالی وزیر اول کو سب لعنت و ملامت تو کر ہی رہے تھے، فوراً گردن میں ہاتھ ڈال کر کشاں کشاں دربار سے باہر لے جا کر وزیر اول کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کر قتل گاہ میں لے جا کر سارے بدن کا قیمہ کر کتوں اور کوؤں کو کھلا دیا۔ وہاں تو یہ کاروائی ہوئی اور یہاں بادشاہ نے یہ حکم دیا کہ وزیر اول کا کُل اسباب و املاک وغیرہ قرق کر کے قلمبند کر لو۔
جب کہ اس عورت نے وزیر کو کہ جس کے سبب سے ذلت و بدنامی اٹھائی تھی قتل کرا لیا اور اس کا شوہر بھی قید سے رہا ہو کر قریب تخت آ کھڑا ہوا، اس نے عرض کی کہ اللہ حضور کو ساتھ اس عدل و انصاف کے سلامت رکھے۔ اس عاجزہ نے قرار واقعی اپنی داد پائی۔ یہ کہہ اور وہی پیش قبض جو کہ اپنے ساتھ لائی تھی، جلد میان سے نکال اپنے پیٹ میں مار جان بحق تسلیم ہوئی۔ بادشاہ اور تمام حاضرین دربار یہ ماجرا دیکھ دست تاسف مل ہی رہے تھے کہ اُدھر اُس کے شوہر نے یہ سب باتیں اپنے کانوں سے سُنیں اور یہ سانحہ عظیم اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تاب نہ رہی، مجنون وار و بے قرار دوڑ کر اُس کشتۂ جور و ستم کے قریب آ وہی پیش قبض خون آلودہ جس سے اُس ماہ پیکر کی جان قبض ہوئی تھی، ہاتھ میں اُٹھا اپنے پیٹ میں مار اُسی مجروح صاحب عصمت پر اپنے گوہر جان کو نثار کیا اور گردن میں ہاتھ ڈال وہ عاشق صادق اپنے معشوق باوفا سے ہم آغوش ہو ٹھنڈا ہوگیا۔ بادشاہ اور تمام حاضرین دربار کو یہ حادثہ جانکاہ دیکھ کمال ہی صدمۂ عظیم ہوا۔ چنانچہ بادشاہ مع سب ملازم بڑی دیر تک گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ جس وقت دربار میں یہ سانحہ عظیم ہوا تھا، گویا ایک ہنگامۂ محشر بپا تھا۔ آخر کار بادشاہ اور سب اہل دربار نے چارہ اس کا کچھ نہ دیکھا۔ مشیت ایزدی سمجھ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو رہے اور سب ارکان سلطنت تو وہاں مجتمع تھے ان دونوں کشتوں کی لاشیں علاحدہ کرنے لگے لیکن وہ ایسی چسپیدہ نہ تھیں جو الگ ہو جاتیں۔ ہر چند سب نے زور کیا اور بہت سی تدبیریں کیں، مگر کوئی تدبیر پیش نہ گئی۔ ناچار وہ سب مجبور ہوئے اور یہی تجویز ٹھہری کہ ان دونوں کو ایک ہی کفن میں لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کر دو۔ پھر تو ان دونوں کو ایک ہی کفن میں لپیٹا اور لاشوں کو صندوق میں رکھا اور سب نے لباس سیاہ ماتمی پہنا اور بڑے تزک سے زیر شامیانہ تابوت اور گرد خلقت کا انبوہ سب روتے پیٹتے جنازہ لے چلے۔ جب بازار میں جنازہ پہنچا، پھر تو جتنے بازاری اہل حرفہ تھے سب دکانیں بند کر اسی کے ساتھ روتے ہوئے چلے۔ یہ کثرت آدمیوں کی ہوئی کہ ہاتھ لگانا مشکل تھا، کندھا دینا کیسا۔ آہستہ آہستہ جنازہ لیے باہر شہر کے گئے اور ایک باغ بہت آراستہ و پیراستہ وزیر چہارم کا قریب موتی جھیل کے تھا، بہ تجویز ارباب دانش اسی میں دفن کیا اور مٹی دینے کے بعد فاتحہ پڑھ کے سب کے سب رنجیدہ واپس آئے لیکن شہر میں ہر جگہ یہی افسانہ تھا۔ تاسف میں یگانہ و بیگانہ، جہاں سُنو انھیں دونوں کا ذکر تھا۔
جب تیسرے دن فاتحہ سوم سے فارغ ہوئے، سب نے پوشاک ماتمی اتاری اور دربار میں سب حاضر ہوئے اور اسی روز بادشاہ نے دربار عام میں ایک شخص معتمد کو ارشاد فرمایا کہ تم وزیر چہارم کے وطن جاؤ اور جو کوئی اس کے وارثوں میں بیٹا بھانجا بھتیجا، تم کو ملے اس کو میرے پاس باعزت و توقیر ہمراہ اپنے لاؤ۔ یہ فرما کر سواری و خرچ معقول ہمراہ اس کے کر کے رخصت کیا۔ بعد اس کے ان عورتوں کو جو کہ وزیر چہارم کی زوجہ کے ساتھ ساز بجاتی تھیں، بہت آبرو سے بلوا کر اپنے یہاں رکھا اور مفصل حال ان سے دریافت کیا۔ پھر تو اُن عورتوں نے اپنی بی بی کی پارسائی کا اور اُس کٹنی کا آنا اور جو حال وہاں گزرا تھا اس چرب زبانی سے بیان کیا کہ بادشاہ کو اور ساکنان محل کو کمال ہی تاسف ہوا اور کہا کہ ناحق یہ دونوں مفت میں ضائع ہوئے۔ افسوس صد افسوس! بادشاہ نے دوسرے روز حکم دیا کہ ان دونوں کشتوں کے مدفن کی جگہ عالی عمارت سے ایک مقبرہ تیار ہو۔ ادھر یہ حکم صادر ہوا اور ادھر حکم پاتے ہیں اس باغ میں مدد جاری ہو گئی۔ اس عرصہ میں وہ فرستادۂ حضور اس کے وطن میں پہنچا اور تلاش کیا تو وہی لڑکا متبنیٰ وزیر چہارم کا ملا۔ تو اس لڑکے نے پہلے وہاں کی کیفیت کلیہ اس شخص سے دریافت کی کہ ان دونوں پر کیا گزرا۔ جب اس نے دربار کا حال اور وزیر اول کا قتل ہونا اور ان دونوں کا اپنے اپنے ہاتھ سے مر جانا اور بادشا ہ کا رنجیدہ ہونا سب بیان کر کے کہا کہ بادشاہ نے آپ کے واسطے سواری بھیجی ہے اور بلایا ہے۔ اب آپ جلد تیاری کر کے میرے ساتھ چلیے۔ اُس لڑکے نے جب کہ ان دونوں کا مر جانا سُنا، بہت رنجیدہ ہوا اور اس شخص سے کہا کہ بھائی تم دو چار روز یہاں مقام کرو، میں ان دونوں مرحوموں کی جب تک فاتحہ نہ کر لوں گا، نہ چلوں گا۔ آخر کار وہ شخص دو دن وہاں مقیم رہا۔ جب کہ یہ فاتحہ سے فارغ ہوا، یعنی کھانا وغیرہ بہ افراط پکوا کر تمام شہر و برادری میں تقسیم کر چکا، پھر اپنے چلنے کا سامان کیا۔ یہ لڑکا تو بہت لئیق تھا، صبحت یافتہ وزیر تھا کئی کشتیاں جواہرات وغیرہ کی واسطے نذر گزراننے بادشاہ کے ہمراہ لیں اور اسی آدمی کے ساتھ روانہ ہوا۔ راستہ میں وہاں کے بادشاہ اور اہل دربار کا طریقہ دریافت کرتا ہوا برابر چلا گیا۔ جب چند روزوں میں ہمراہ اسی شخص کے داخل شہر ہوا، بارگاہ سلطانی میں عین دربار کے وقت حاضر ہو کر مجراگاہ میں کھڑا ہوا۔ جب بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو یہ موافق قاعدہ کے آداب و کورنش بجا لایا اور ہاتھ باندھ کر روبرو کھڑا رہا۔ پھر تو بادشاہ نے دریافت کیا کہ یہ نیا شخص کون ہے اور کیوں کھڑا ہے۔ اس عرصہ میں اس شخص نے جو کہ اس کو لینے گیا تھا، آداب بجا لا کر التماس کیا کہ حضور یہ لڑکا وزیر چہارم مغفور کا ہے۔ فدوی اسے اس کے وطن سے بہ ایماے حضور اپنے ہمراہ لایا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے بہت مہربانی سے فرمایا کہ اے فرزند ارجمند! آگے آؤ۔ اس نے پھر آداب و تسلیمات بجا لا کر آگے بڑھ کے زمین بوس ہو وہ کشتیاں جواہرات کی جو کہ اپنے ہمراہ لایا تھا، نذر گزرانیں۔ بادشاہ اس کی لیاقت سے بہت خوش ہوا اور بہ دل نذر اس کی قبول فرمائی اور بہت تشفی و تسلی اس کی کر کے دست شفقت اس کے سر پر رکھا اور کمال دلجوئی سے دریافت کیا کہ اے فرزند! وزیر مسعود علی خاں تمھارے رشتہ میں کون تھے؟ اس نے دست بستہ عرض کی کہ عالیجاہا! یہ خانہ زاد متبنیٰ و پروردہ اسی مغفور کا ہے اور رشتہ میں اس عاصی کے وہ حقیقی چچا ہوتے تھے۔ اپنی فرزندی میں لے کر پرورش کیا تھا۔ یہ سن کر بادشاہ بہت شاد ہوئے اور خلعت دربار عام میں وزیر اول کا اس لڑکے کو مرحمت فرمایا اور قلمدان خاص عنایت کر وزیر کلاں اپنا کیا۔ اس لڑکے نے پھر آداب بجا لا کے نذر دی۔ بادشاہ نے نذر اس کی لے کر وزیر اول مقتول کا کُل اسباب مع ہاتھی گھوڑے، باغ و املاک وغیرہ جو کہ قرق ہوا تھا، اسی کو ہبہ کر دیا اور ایک مکان عالی شان وسیع بلند جو بیچ شہر کے واقع تھا، اس کے رہنےکو عطا فرمایا۔ یہ لڑکا بہت خوش و خرم عہدۂ وزارت لے اسی مکان میں سکونت پذیر ہوا اور وہ عورتیں جو کہ اس کی ماں کے ساتھ آئی تھیں باجازت بادشاہ اس کے یہاں چلی آئیں۔ اور ہر روز فجر کو وقت دربار کے حاضر ہوتا اور کام وزارت کا اس حُسن لیاقت سے انجام دیتا کہ بادشاہ بہت خوش ہوتے۔ یہاں تک کہ اور وزیر سب نظری ہوئے۔ کل امور کا اسی سے تعلق ہوا۔ مالی و ملکی کام سب اسی کے سپرد ہوئے۔ اس عرصہ میں وہ مقبرہ بھی عالی عمارت سے تیار ہوا، پھر تو اس دھوم سے عرس ہوا اور یہ کثرت آدمیوں کی ہوئی کہ میلہ پھول والوں کا اس کے آگے جھمیلا معلوم ہوتا تھا۔ بادشاہ اور وزیر بلکہ تمام شہر وہاں مجتمع ہوئے اور قرآن خوانی کے بعد شیرینی و کھانا وغیرہ تقسیم ہوا۔ آئندہ ہر سال یہی طور رہا۔ اسی طرح کثرت سے عُرس ہوا کیا۔ غرض اس سے یہ تھی کہ ان دونوں کا نام قیامت تک زبان زد خلق خدا رہے۔ جو دنیا سے ثابت قدم جاتے ہیں وہ کسی حال سے مریں، اسی طرح شہرت پاتے ہیں۔ یہ داستان تو تمام ہوئی لیکن کہنے کو ایک بات باقی رہی۔ حالانکہ یہ واہیات سی نقل ہے لیکن غور سے دیکھو تو اصل ہے۔ کیونکہ مطلب سے خالی لا اُبالی نہیں ہے۔ خیال کر کے دیکھو تو یہ دنیا جاے حذر ہے۔ مرنے کے بعد بازپرس کا خطر ہے۔ آٹھوں پہر خوف و رجا میں رہے۔ زمانہ کے نیک و بد سے تعلق نہ رکھے تو تو کچھ بچاؤ کی صورت ہے، ورنہ سراسر ضرر ہے۔ مرنا سب کو ہے۔ موت ہر وقت موجود ہے۔ مرنے سے پہلے مر جائے، جیتے جی جی سے گذر جاے، بموجب قول کسی استاد کے ؎
اس طرح جی کہ بعد مرنے کے
یاد کوئی تو گاہ گاہ کرے
کل مَن علیها فانٍ و یبقیٰ وجهُ ربك ذو الجلال والإکرام۔ شعر :
بڑی فکر رہتی تھی ہر صبح و شام
ہوا فضل حق سے یہ قصہ تمام
مدح جناب استاد جی صاحب
جب یہ قصہ تمام ہوا تو عاصی اپنے اُستاد پاس واسطے اصلاح کے لے گیا۔ وہ استاد حقیقت میں نادر زمانہ ہیں، خلق و حلم و مروت میں یگانہ ہیں۔ شاعر بے بدل نظم و نثر میں بے مثل بڑی بڑی کتابیں ازبر یاد ہیں۔ قصبۂ کدورہ میں از کہ تا مہ سب کے استاد ہیں، شعر وہ پُر مضمون بارعایت فرماتے ہیں کہ بشر سن کے تڑپ جاتے ہیں۔ مولوی جامی صاحب و یا میر تقی ظہوری و نظیری ہوتے تو وہ بھی آپ کی فصاحت کلام بلاغت نظام سن کر سن ہو جاتے۔ کبھی شعر گوئی کا دم نہ بھرتے۔ ایسے استاد کامل ہر علم میں طاق شہرۂ آفاق اس جوار میں کیا دور دور چشم بد دور لاجواب ہیں بلکہ انتخاب ہیں، میسر نہیں ہوتے۔ وہ دروازہ کیا ہے باب فیض ہے، صبح سے شام تک فیض جاری ہے۔ صدہا آدمی ہر روز آج تک درس پاتے ہیں۔ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس ریاست بادنے میں آپ ہی کی ذات بابرکات سے علم پھیلا ہے اور بہت سے شاگرد آپ کے صاحب دیوان ہیں۔ آپ کا تو کیا کہنا ہے، تاریخیں تطابق قاعدہ زبر و بینات میں ایسی تصنیف کیں کہ جس کا جواب نہیں اور دو دیوان بڑے بڑے ضحامت کے اور کئی مثنویاں نظم کیں۔ اور ایک فسانہ وہ رنگین عبارت کا تصنیف فرمایا کہ دیکھنے سے تعلق ہے۔ منجملہ ان کے ایک مثنوی مہر و مشتری کے افسانہ کی مسمیٰ بہ بہار منظوم دہلی میں شاہدرے کے مطبع میں چھپ چکی ہے۔ اور بہت سی رباعی وغیرہ تصنیف فرمائی ہیں۔ چونکہ زمانہ سفلہ پرور ہے اور کمینہ پرست قدردان علم دنیا سے اٹھ گئے ہیں، جو ایسے استاد یہاں بے قدری سے تشریف فرما ہیں۔ اور بسبب معذور ہو جانے بینائی کے اب کہیں جا بھی نہیں سکتے ورنہ آپ جہاں تشریف فرما ہوں، وہاں کے لوگ سب اپنی آنکھوں پر بٹھاویں۔ کبھی اپنے دم سے ایک دم جدا نہ کریں۔ لیکن اب کہیں جانے کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔ قلم آپ کی تعریف لکھنے سے عاجز ہے اور زبان اس بیان سے قاصر ہے۔ عابد زاہد عالم فاضل حضرت جناب میر امجد علی صاحب، اور تخلص آپ کا دور دور مشہور زبان زد بہ قلق ہے، آپ نے بسبب شاگرد نوازی و محبت قدیمانہ کے کہ ہمارے بزرگوں سے واسطہ و رابطہ ہے، زیور اصلاح سے مرصع کر دیا اور دو قطعہ تاریخیں ارشاد فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دین و دنیا میں خوش و خرم رکھے اور جتنے دوست و آشنا ہیں اور جن سے آج کل زیادہ ارتباط ہے، الٰہی تو ان سب کو شاد رکھ۔ خصوصاً شیخ امام الدین پسر شیخ امام بخش نبیرۂ شیخ فجو صاحب مرحوم کہ قدیم الایام سے ہمارا ان کا ایک ہی واسطہ ہے اور شب و روز ایک جگہ بزرگوں سے رہنے کا اتفاق ہے۔ جوان صالح نیک بخت اور فن بانک میں بھی اس عاصی کے شاگرد ہیں۔ سواے اس کے محبت بھی دلی ہے۔ ایک ہی جا نشست و برخاست ہے۔ جب کہ مجمع احباب میں یہ کتاب پڑھی گئی تو سب کے سب بہت دل شاد ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سب دوستوں کو ہمیشہ خوش و خُرم رکھے اور خاتمہ بخیر ہو۔ بہ طفیل رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے۔ آمین ثم آمین!
قطعہ تاریخ طبع زاد جناب استاد جی صاحب قبلہ و کعبہ حضرت استاد میر امجد علی صاحب متخلص بہ قلق
لکھا افسانہ امیر الدین نے
جب با مداد مداد مشک بیز
اس میں دکھلائے فصاحت کے سبب
جوہر ذہن رسا و فکر تیز
فیض رخشانی معنی سے ہوئے
فقرے فقرے اُس کے نور نجم ریز
تو ہوا طبع قلق سے اس کا سال
ہے پے ہر دل فسانہ درد خیز
ولہ:
|
تلمیذ جو میرے وہ امیر الدین ہیں
نیکو سیر و شرافت حفظ نصیب
اردوے فصیح و دلکشا میں جس وقت
اک لکھ چکے داستان دلچسپ و غریب
تحسین کی صدا بلند ہر سمت سے کی
تھے جتنے سخن سرا بعید اور قریب
تاریخ کہی قلق نے خوش ہو کے یہی
برہم زن صبر و تاب افسانہ عجیب
قطعۂ تاریخ طبع زاد جناب منشی محمد اسحاق صاحب شاگرد رشید جناب سید امجد علی صاحب متخلص بہ اسحاق طبع موزوں و خوش فکر و صاحب دیوان ہیں
|
قصہ تزویر کا و ہ حافظ معنی نے لکھا
جس کے مضمون سے ہر ایک کا دل چور ہے بس
سال تالیف بھی اسحٰق تو یہ ہی لکھ دے
قصہ کیا معنی کا پر معنی و پر زور ہے بس
ایضاً:
|
حافظ میر دین جو اک افسانہ لکھ چکے
آیا پسند سب کو کہا خوش ہو واہ واہ
سال اس کا فی البدیہ یہ اسحٰق نے لکھا
وہ تینوں جو موے ہوا قصہ تمام آہ
تاریخ طبع زاد منشی محمد امیر الدین صاحب خلف اکبر جناب منشی محمد اسحٰق صاحب جوان صالح و نیک بخت ہیں متخلص بہ فرحت تلمیذ جناب میر امجد علی صاحب
|
ہوا جب یہ قصہ تمام و کمال
اور اس کی عبارت کو سب نے سُنا
لکھا سال فرحت نے فوراً یہی
ہوئی نثر کی اوج زیب انتہا
قطعۂ تاریخ
طبع زاد منشی محمد صادق حسین نبیرۂ جناب قبلہ و کعبہ منشی محمد نادر حسین خان صاحب کہ شہرۂ تحریر و تقریر جناب موصوف کا دور دور ہے اور حقیقت میں منشی بے بدل ہیں۔ اس زمانہ میں انتخاب و لاجواب ہیں۔ صاحب کشف اوقات، بہت درست متقی و پرہیزگار، بزرگ صورت نیک سیرت، عابد و زاہد، معدن جود و سخا، منبع اشفاق و کرم متخلص بہ ہاشم اور تخلص منشی محمد صادق حسین کا وصفی تاریخیں اور غزلیں وغیرہ فارسی میں کہی ہیں۔
ہم صوری و ہم معنوی تاریخ ختم این کتیب
با یک ہزار و ہشت صد و ہفتاد آمد در حسیب
ولہ:
|
ببین فرزانہ آن حافظ امیر الدین کہ در عالم
بفن نکتہ سنجی با سمر گشتہ کمال او
ز طرح سحر پردازی رقم زد قصۂ نادر
کہ مطبوع خلائق گشت طرز بے مثال او
شکستہ خار در دل نغمہ پردازان گلشن را
نواے عندلیب خامۂ رنگین مقال او
خرد در صورت و معنی چنین گفتہ کہ اے وصفی
بود سبع و ہزار و دو صد و ہشتاد سال او
تاریخ طبع زاد مصنف مسمیٰ حافظ امیر الدین متخلص بمعنی تلمیذ جناب میر امجد علی صاحب
|
جو معنی میں نا آشناے معانی
رقم کر چکا قصہ اک عاشقانہ
تو فی الفور سال اس کا آیا یہ لب پر
دو مظلوم کا ہے یہ جادو فسانہ
ایضاً:
|
فضل خالق سے قصۂ پر زور
ماہ اول میں جب تمام ہوا
سال معنی نے یہ لکھا فوراً
بس اجی نسخہ اب تمام ہوا
ایضاً:
|
جب فسانہ کیا یہ میں نے تمام
اور دل کو بہت یہ بھایا جی
دل سے معنی لکھا یہ فوراً سال
قصہ پُر زور خوب لکھا جی