یونان کے ایک عقل مند کا قصہ مشہور ہے۔ وہ کہیں چلا جا رہا تھا کہ دیکھتا ہے سرِ بازار ایک شخص دوسرے کو پیٹ رہا ہے اور دوسرا نہایت بردباری سے برداشت کیے جاتا ہے۔ ہمارا فلسفی بھی لوگوں میں کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے لگا۔ ایک شخص بولا، "مار کھانے والا کس قدر دانا شخص ہے کہ اس کمینے کو پلٹ کر جواب تک نہیں دیتا۔ اگر یہ بھی اس جاہل سے منہ ماری کرتا تو دونوں میں کیا فرق رہ جاتا؟”
ہمارے فلسفی سے رہا نہ گیا۔ کہنے لگا، "یہ شخص ہرگز ہرگز دانا نہیں۔ اگر دانا ہوتا تو آج اس حال کو نہ پہنچتا۔”
صاحبو، بات یہی ہے۔ دانا لوگ اور دانا قومیں پیش بندی کے عادی ہوتے ہیں۔پانی سر سے گزرنے کا انتظار نہیں کرتے۔ بند باندھتے ہیں۔ پل باندھتے ہیں۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھتے ہیں اس سے پہلے کہ چوہوں کے مزار آثارِ قدیمہ والوں کے حوالے ہو جائیں۔ لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان کا بھلا دانائی سے کیا واسطہ؟ ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں؟
ان دنوں تعلیم اور ڈگریوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ نظامِ تعلیم کاروبارِ تعلیم بن گیا ہے۔تعلیم اور پیٹ کا یہ معاشقہ ایک ڈیڑھ صدی سے زیادہ پرانا نہیں۔مگر زمانے کی بھیڑچال نے اسے یوں عام کر دیا ہے کہ بھیڑوں کی لاج بھی نہیں رکھی۔
پرائمری اور مڈل سطح کی تعلیم وحشیانہ اصلاحات کی زد میں ہے۔ آئے دن پالیسیاں بدلتی ہیں۔ نصاب بدلتا ہے۔ میڈیم بدلتا ہے۔ گھروں سے بلا بلا کر بلکہ اٹھا اٹھا کر بچوں کو علم سے لتھیڑا جاتا ہے۔ کیسا؟
سکولوں اور کالجوں میں زمانے کی نیرنگیوں کے جلوے ہیں۔ تبدیلی آ گئی ہے۔ کیا بتائیں؟ کون نہیں جانتا؟
یونیورسٹیوں نے ایک اور قدم مستقبل کے روشن خلاؤں میں رکھ دیا ہے۔ ملک کی اہم جامعات میں ہفتہ اتوار کو بھی کلاسیں شروع کر دی گئی ہیں اور رنگ برنگی ڈگریاں اور بھی رنگ برنگے طالبعلموں میں تقسیم کی جارہی ہیں۔ مہینے میں آٹھ دن کی حاضری اور خرچہ پانی دو سال تک دینے کے بعد آپ اپنے پسندیدہ مضمون کے ماسٹر قرار دے دیے جائیں گے۔ اور کیا چاہیے؟
مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ اتنے سارے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات اپنے اتنے سارے علم کا آخر کریں گے کیا؟
پہلے حال یہ ہے کہ ایم فل لوگ پرائمری ٹیچری کے لیے اپلائی کرتے ہیں اور اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ اب آپ بھی پڑھ لکھ کر آ جائیں گے تو حکومت بیچاری بال (آپ کے) نہیں نوچے گی تو کیا کرے گی؟ آپ الگ ڈگریاں جلائیں گے۔ بیوی بچوں کو پھینکنے کے لیے دریا ڈھونڈتے پھریں گے۔ ساس سسر کی جان کے لاگو ہوں گے۔ خود کشیاں کریں گے۔ اماں ابا آپ کی میت اور اپنے لاکھوں کے نقصان کو روئیں گے۔ بہن بھائی قرض لے کر قبر کھدوائیں گے۔ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا!
زندگی کے لیے تو نہ آپ نے پڑھا نہ کسی نے پڑھایا۔ نوکری البتہ مطلوب و مقصودِ مومن تھی۔ سو وہ کہاں سے ملے گی؟ یہ تو سوچا ہی نہیں۔ کسی نے بھی!
لیکن یہ سوچنا کس نے تھا؟ آپ نے، جو اس بھیڑ چال میں اندھا دھند قدم مارتے رہے؟ مستقبل کے روشن خلاؤں کی جانب؟ خلاؤں میں قدم نہیں جمتے صاحب۔ آپ کو سوچنا چاہیے تھا۔ یونیورسٹیوں کو سوچنا چاہیے تھا؟ جو دھڑا دھڑ مہارت کے جعلی سرٹیفیکیٹ تقسیم کر کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکا دے رہی تھیں کہ اب تم علامہ ہو گئے؟ جا، تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا! شاید انھیں بھی ایک نظر کیمپس سے باہر دیکھ لینا چاہیے تھا۔ کشمکشِ دہر سے آزادی دوسرے درجے کے اساتذہ سے دو دن پڑھ کر نہیں ملتی۔
کیا حکومت کو سوچنا چاہیے تھا؟ جو خدا اور خدائی کی عدالتوں میں شاید ریاست کے ایک دریا کے کنارے پیاسے مرتے ہوئے کتے کی بابت بھی جواب دہ ہے؟ کیا اسے دیکھنا چاہیے تھا کہ کاروبارِ تعلیم کی رسد طلب سے سیکڑوں گنا بڑھ گئی ہے؟ ضرور سوچنا چاہیے تھا۔ خرگوشنی کے بچوں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہوئی "تعلیم” کا سدِ باب کرنا چاہیے تھا یا پھر نوکریوں کے دروازے کھولنے چاہیے تھے۔ زیادہ حدِ ادب۔
وقت گیا گزرا ضرور ہے، مگر ابھی گزرا نہیں ہے، صاحبو۔ سعدیؔ کا شعر ہے:
صدائے تیشہ کہ بر سنگ می خورد دگر است
خبر بگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است
تیشے کی جو صدا پتھر سے ٹکرانے پہ آتی ہے وہ اور ہے۔ خبر لو کہ یہ تیشے اور جگر کی آواز ہے۔
صاحبو، اپنے حال کی خبر لو، خاک ہونے سے پہلے۔ یہ علم کا شور نہیں ہے۔ کاروبار کا زور ہے۔ پتھر پہ چوٹ نہیں پڑ رہی۔ تمھارے جگر پہ وار ہو رہا ہے۔لحظہ بھر ٹھہرو اور غور کرو۔ مستقبل پہ نظر کرو۔ اس حال کو نہ پہنچو کہ مار کھانے کے سوا چارہ نہ رہے۔ اور دانش مند تمھیں پٹتا دیکھ کر منہ پھیر لیں۔ علموں بس کریں او یار!