دو ہزار بارہ تیرہ کی بات ہے۔ میں لاہور میں ایک عزیز کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک سہ پہر ہم لوگ ذرا ہوا خوری کے لیے نکلے اور کہیں بھیڑ میں چپکے سے میرا بٹوا اور فون کسی نے اڑا لیا۔
واپس پہنچے تو ایک بزرگ نے روداد سن کر کہا، "رہے نا پینڈو کے پینڈو۔ اپنی چیزیں سنبھال کر چلا کرو۔”
شاید وہ پہلا دن تھا جب مجھے احساس ہوا کہ دیہاتی ہونا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔
میں نے کہا، "جی، واقعی۔ ہمارے ہاں کوئی یوں کسی کی جیب میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ زندگی کامل بے فکری میں گزرتی ہے۔ کوئی واردات ہو بھی جائے تو اکثر پتا ہوتا ہے کہ کس ناہنجار کی حرکت ہے۔ دھماکے نہیں ہوتے ہمارے ہاں۔ سڑکوں پر بیل گاڑیاں، گدھا گاڑیاں اور سائیکلیں ٹکرا ٹکرا کر لاشیں نہیں بچھاتیں۔ دودھ اچھا خاصا خالص مل جاتا ہے۔ پھل، سبزی، گھی اور آٹا بھی۔ پانی بالکل مفت ہے، وہ بھی تازہ، ٹھنڈا، میٹھا اور صاف شفاف۔ لوگ الرجی اور ڈپریشن وغیرہ کا نام سنے بغیر ہی سو سو سال جی جاتے ہیں۔ سپیرے بین بجا کر سانپ پکڑ لیتے ہیں اور فقیر کی پھونک سے روگی بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو باپ دادا کے باپ دادا کے نام اور کارنامے سب معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے ہی نہیں، دوسروں کے بھی۔ آدمی لنگڑاتے ہوئے ایک گلی پار نہیں کر سکتا۔ لوگ رک رک کر اور روک روک کر مار ڈالتے ہیں۔ کیا ہوا، بھائی؟ کہاں جا رہے ہو؟ چھوڑ آؤں؟”
مگر یہ پرانی بات ہے۔ ان دس برسوں میں میرا چھوٹا سا قصبہ بھی شہر بننے کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ بہت کچھ دھیرے دھیرے ویسا ہی ہوتا جا رہا ہے جیسا لاہور اور کراچی میں ہوتا ہے۔ اور میرے لوگ اس ترقی پر بہت خوش ہیں۔ پینڈو کہیں کے!