ہم نے اس جرأت۔ اظہار کو دینا تھا دوام
اس لیے عمر گزاری ہے سرِ دارِ کلام
ہم نے اک تیغ کی اصنامِ تخیل کی حریف
نارِ الہام کے کنجے سے نکالی ہے ردیف
مطلع لکھا تو رگِ جاں سی سیاہی مانگی
اور مقطعے کے لیے تازہ تباہی مانگی
اپنی لکنت کو کیا حسنِ تلفظ سے گزند
کیے رکھا درِ آورد کے نخچیر کو بند
سیخِ اظہار پہ رکھا ہے صدا دل کا کباب
اور متروک کیا خود پہ ہر اک جامِ شباب
بحرِ حیرت میں اتارا ہے دفینۂ نظر
طے کیا دشتِ معانی کا سفر بارِ دگر
کئی گمنام سفرناموں کے پشتے کھولے
وقتِ اظہار رہے چپ، سرِ کاغذ بولے
کشتیاں فکر کی رکھی ہیں رواں شام و سحر
بھول کر عہدِ محبت کے جواں شام و سحر
خواہشِ دولت و عشرت کو سبوتاژ کیا
غمِ دوران کی روایت کو سبوتاژ کیا
صوت کے بد نما سورج کی تپش جسم پہ لی
اپنے ہونے کی گواہی بھی کسی اسم پہ لی
کنجِ تنہائی میں پیدا کیا ہو کا عالم
اور کیا شورشِ تفسیر کو ہر جا برہم
ہم نے اردوئے معلی کو عبادت سمجھا
کیسے اٹھتا ہے گراں بارِ طریقت، سمجھا
تب کہیں جا کہ کوئی مصرع کوئی شعر ہوا
تب کہیں جا کے سماعت کا عدو زیر ہوا
شعر بھی کیا کہ فقط دل کی تسلی کے لیے
یا یہ کہیے کہ کسی ذوقِ تجلی کے لیے
حرف و تاثیر کے مابین یہ صورت نکلی
نظم کی شکل بنی اذن کی مورت نکلی
اہلِ دنیا نے بڑی حوصلہ افزائی کی
بعض اوقات تو دشمن نے پزیرائی کی
دوست اک عمر لگا کر سخن اعجاز کیا
خوابِ تحریر کو شرمندۂ آواز کیا
پھر بھی لگتا ہے کوئی بات بیاں ہو نہ سکی
شعر نشتر نہ ہوئے، نظم کماں ہو نہ سکی
جس طرح گیسوئے خمدار سلجھنے کا نہیں
فائدہ لیلئ مصرع سے الجھنے کا نہیں