جمتی نہیں ہماری نگر میں کسی کے ساتھ
تم نے بنا رکھی ہے ولیکن سبھی کے ساتھ
میرا لہو فقط یہ حقیقت جلاتی ہے
جیون گُزارنا ہے تمہاری کمی کے ساتھ
ذہنی دباؤ کا یہی انجامِ خیر تھا
آنسو بھی پھُوٹنے لگے میرے ہنسی کے ساتھ
اک عُمر میری مانگ میں سجتی رہی ہے خاک
نسبت ہے میرے سر کو تمہاری گلی کے ساتھ
وہ شخص میرے پہلو میں سجتا ہے اس طرح
جچتا ہے پھول جیسے حسیں تر کلی کے ساتھ
یہ اور بات دل پہ قیامت گُزر گئی
اُس کو روانہ کر دِیا ہم نے خوشی کے ساتھ
ممکن ہے ٹوٹ جائے تعلق حیاؔ وہ جلد
ہم دونوں جو نبھا رہے ہیں بد دلی کے ساتھ