بدل یہ سرد سبھاؤ، بڑا اندھیرا ہے
مرے لہو کے الاؤ، بڑا اندھیر ہے
نمودِ شعر کی، افکارِ نو کی، جدت کی
ابھی نہ بات چلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
بنامِ نور و تجلی، بشوقِ نظر و نگاہ
بھلے ہمیں کو جلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
فضائے مکتبِ عالم ہے تا بہ حد تاریک
مئے شعور پلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
وہ داستانِ تجلی، وہ طور کا قصہ
جو ہو سکے تو سناؤ، بڑ اندھیرا ہے
ہزیمتوں کے مقابل چراغ سا کوئی سر
سناں کی نوک پہ لاؤ، بڑا اندھیرا
چراغِ آخرِ شب ہی نہ ہو طوالتِ شب
چراغِ شب کو بجھاؤ، بڑا اندھیرا ہے
بدن کے حجلۂ زرتار سے کوئی مصرع
مثالِ شمع اٹھاؤ، بڑا اندھیرا ہے