صبح بابرکت بھی ہے فیاض بھی
رزق جب بٹتا ہے مخلوقات میں
مائدہ بھی ہے
من و سلویٰ بھی ہے
اور کچرا گھر کا توشہ دان بھی
دیکھتی کیا ہے نگاہِ کم نصیب
خطِ غربت سے کہیں نیچے غریب
پانچ چھے بچے کھڑے ہیں کچرا گھر کے ڈھیر پر
بدبوئیں ہیں گندگی ہے ہر طرف
پھر بھی ان کا رزق ہے ان کا ہدف
چند باسی نان ان کو کیا ملے
اس خوشی میں کھل گئے
سب کے سب پژمردہ چہرے
دیدنی ہے زرد پھولوں پر بہار
حمد ہے پروردگار!
عین اسی لمحے نمازی مرکزی مسجد سے نکلے
ایک انبوہِ علیینِ صفا
پیش منظر پر اچانک آ گیا
دوڑ پڑتے ہیں وہ گھبرائے ہوئے
جیسے چوری کر رہے ہوں زندگی کی اک سویر
آہ یہ انبوہِ آدم
آہ یہ کوڑے کا ڈھیر