دل میں اور نگاہوں میں
تم ہو سب پناہوں میں
کائنات ماپیں گے
بھر کے تم کو بانہوں میں
تم مکیں ہو دل کے اور
مل رہے ہو راہوں میں
مجھ فقیر کا چرچا
ہو رہا ہے شاہوں میں
درج اسمِ قاتل ہے
قتل کے گواہوں میں
خود میں بھی نہیں شامل
اپنے خیر خواہوں میں
بے اثر نہ رہ جائیں
سوز لاؤ آہوں میں
نیند لے گئی ہم کو
تیری خواب گاہوں میں
کل کے چور بیٹھے ہیں
آج خانقاہوں میں