چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایامِ گل
کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے