لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہتاقبالؔ
دیباچہ
“طاہرہ دیوی شیرازی کا یہ دوسرا افسانہ ہے جو نگار میں شائع ہو رہا ہے۔ آپ نسباً ہندو اور ازدواجاً مسلمان ہیں لیکن اعتقاد کے لحاظ سے بالکل میرے خیالات کی ہمنوا ہیں۔ یہ افسانہ فن کے لحاظ سے اردو میں اس ارتقائی درجہ کی چیز ہے جہاں مردوں کا دماغ بھی مشکل ہی سے پہنچ سکتا ہے، چہ جائیکہ عورتیں۔ طاہرہ دیوی نہ صرف فارسی بلکہ فرانسیسی زبان کی بھی ماہر ہیں اور غالباً یہیں سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ ان کی افسانہ نگاری میں یہ رنگ کہاں سے آیا۔ زبان کی صفائی و شگفتگی کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بنگال کی ایک ہندو خاتون اتنی صاف اور صحیح اردو لکھنے میں کیونکر کامیاب ہو سکیں۔”
یہ ہیں وہ الفاظ جو علامہ نیاز فتحپوری نے کچھ میری شخصیت اور میرے ایک افسانے کے متعلق جو نگار بابت جولائی 34ء میں شائع ہوا تھا، قلمبند فرمائے۔ جب میں نے ان سطور کا مطالعہ کیا تو میری مسرت کی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ نیاز جیسے بلند پایہ ادیب کی یہ راے میرے لیے نہ صرف باعثِ عزت ہے بلکہ مجھ جیسی ایک مبتدی کی ان سے ہمت افزائی بھی ہوتی ہے۔
اردو میں لکھنے سے قبل ہندی، بنگالی یا انگریزی میں خصوصاً اور فارسی یا فرانسیسی میں محض “تذکرۃً” میں نے جو کچھ تحریر کیا، وہ خارج از بحث ہے۔ تاہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ان زبانوں کے ذریعے میں نے قلم پر قدرت حاصل کر لی تو صحافت اردو میں شہرت پانا میرے لیے بہت آسان ہو گیا۔ چنانچہ ادیب فاضل کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ اس بساطِ ادب پر بھی کچھ مہرے چلنے چاہئیں۔ اور خدا کے فضل سے میں ایک حد تک اپنی آرزوؤں کی تکمیل میں کامیاب ہو گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اچانک علیل ہو جانے کے باعث بعض مدیران رسائل کی فرمائشات کما حقہ پوری نہ کر سکی۔ پھر بھی فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ اس وقت ہندوستان کے تمام بلند پایہ جرائد میں بالواسطہ یا بلاواسطہ میرے افسانے شائع ہو چکے ہیں۔
پیشِ نظر مجموعے میں چند فسانے طبع زاد ہیں اور باقی ماخوذ یا ترجمہ۔ میں نے ترجمہ کرتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھا ہے کہ اصل افسانے کی خوبیاں برقرار رہیں۔ چنانچہ ادبی دنیا کے سالنامے میں بطور تعارف لائق مدیر کے یہ الفاظ خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
“جنابہ طاہرہ دیوی صاحبہ کے “خوابِ رنگین” کے متعلق یہ عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر آج موپساں زندہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ کر سکتا کہ ترجمہ کون سا ہے اور اصل کون سا۔”
میں نے ایران کے دورانِ قیام میں فرانسیسی ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا۔ اس وقت کے کچھ نقوش دل و دماغ پر مرتسم رہ گئے تھے۔ ہندوستان آنے کے بعد ان کو اردو کے سانچوں میں ڈھالا تو ان کی ہیئت مختلف ہو گئی۔ بعض جگہ پلاٹ کے اندر بھی اہم تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں جس کے باعث ان کو اچھی طرح پہچاننا بھی دشوار ہے کہ وہ اس “آواگون” سے قبل کس صورت میں تھے۔
اس مجموعے کو مرتب کرنے سے قبل تمام افسانوں پر ایک سرسری نظر ڈال لی گئی ہے۔ “دختر کفش دوز” کو علامہ نیاز نے بہت ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کیا تھا جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ میں خود سمجھ سکی۔ اب میں نے اس کو اصل مسودے کے مطابق چھپوا دیا ہے کیونکہ میں اس قطع و برید سے متفق نہیں ہوں۔ اگر نیاز صاحب کا اعتراض یہ ہو کہ اس میں بصورت موجودہ عریانی بہت ہے تو میں کہوں گی کہ عریانی ہی آرٹ کی معراج ہے، لہذا اس سے احتراز کرنا مناسب نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین اسے بہت ہی زیادہ پسند فرمائیں گے۔ کیونکہ نگار میں شائع ہونے کے بعد خود میں نے پانچ چھ مختلف رسائل میں اس کو چھپا ہوا دیکھا۔ اگرچہ ان مدیران کی یہ جرات قابل اعتراض ہے کہ بغیر حوالے کے اس کو نقل کر لیا اور مجھے اطلاع تک نہیں دی، تاہم اس سے افسانہ کی مقبولیت کا اندزاہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض دوسرے افسانے بھی کئی دیگر رسائل میں نقل کیے گئے۔ میں علامہ نیاز کی حد درجہ شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے ہمیشہ میری اعانت فرمائی۔ “سکون کی جستجو” کو انھوں نے خاص طور پر پسند کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ میں نے اس افسانے کے اندر جس اعلیٰ پیرایہ میں تجزیۂ نفسی (PSYCHO-ANALYSIS) کیا ہے ادبِ اردو میں اس کی کوئی مثال ملنی محال ہے۔
“بنگالی ادب” سے متعلق مضمون کو ان اوراق میں شامل کرنا نہیں چاہیے تھا لیکن چونکہ اس میں ایک خاتون کی افسانوی زندگی کو بے نقاب کیا ہے نیز اس کی رومانوی شاعری کے چند نمونے پیش کیے ہیں، اس لیے اس مجموعہ میں اس کو جگہ دینا کچھ غیر موزوں نہیں ہے۔ سُربالا دیوی سے مجھے اس قدر محبت ہے کہ اپنے اکثر افسانوں میں عموماً ہیروئن کا نام یہی تجویز کرتی ہوں۔ “نصف ایکٹ کا ڈراما” ایک ہلکا سا طنز ہے ان حاملانِ ادب کی طرزِ نگارش پر جو ایک ایکٹ کے ڈرامے اتنے مختصر لکھتے ہیں کہ اگر ان کو تمثیل کیا جائے تو مشکل سے پانچ منٹ درکار ہوں گے اور اس طرح ڈراما کا مقصد خبط کر کے اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہیں۔
اکثر اصحاب جن کو میرے افسانے پسند ہیں، خطوط کے ذریعہ میری شخصیت کے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ مگر میں مفصل حالات قلمبند کرنے سے اجتناب کرتی رہی اور یہی مناسب بھی تھا۔ کیونکہ میری زندگی بجاے خود ایک افسانہ ہے۔ اس وقت مختصراً صرف اتنا عرض کروں گی کہ ارض بنگال میرا عزیز وطن ہے اور جیسا کہ علامہ نیاز نے لکھا ہے میں نسبتاً ہندو ہوں۔ زندگی کی ابتدائی منزلیں جس المناک ماحول میں گذاریں، اس کے تصور ہی سے انقباضِ روح ہونے لگتا ہے۔ بعد ازاں اگر شانتی نکیتن میرے لیے گہوارۂ تربیت نہ بنتا تو نہ مجھے نگار خانۂ ادب میں اپنے نقوش کی نمائش کا موقع ملتا اور نہ میری روح مسرت و شادمانی کی فضا میں سانس لیتی۔ فارغ التحصیل ہونے اور منزلِ شباب میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلا دل جس نے میرے نغمۂ محبت کے جواب میں محبت کا گیت گایا ایک مسلمان دل تھا اور اس لیے میں ازدواجاً مسلمان ہوں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد 31ء میں عہدۂ سفارت پر فائز ہو کر جب میرے عزیز شوہر کو ایران جانا پڑا تو میں بھی ساتھ گئی۔ چنانچہ وہاں فارسی اور فرانسیسی کا کافی مطالعہ کرنے کا موقع مل گیا اور اس وقت بھی شاید اسی زرّیں فضا میں سانس لیتی ہوتی جو صدیاں گذر جانے کے باوجود ابھی تک بادۂ حافظ کی سرمستیوں سے معمور ہے۔ لیکن رفیقِ زندگی کی بے وقت موت نے مجھے واپس وطن بھیج دیا۔ یہی المِ حیات مستقل طور پر میرے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ اگر ادبی انہماک ایک حد تک باعثِ تسکین نہ ہوتا تو یقیناً پیمانۂ زیست کبھی کا چھلک چکا ہوتا۔
دارجلنگ طاہرہ دیوی شیرازی
19 جولائی 35ء
دختر کفش دوز
وہ ہنوز اپنے بسترِ استراحت پر دراز تھی ایک نیم عریاں عالم میں۔ گردن شانے تک کھلی ہوئی تھی اور دونوں شانے نصف سینے تک برہنہ تھے۔ لبوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں برقِ تبسم۔ نرم مخملی تکیہ میں اس کے سر سے نشیب پیدا ہو گیا تھا۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔ شاید کوئی خواب دیکھا ہوگا۔
وہ کوشش کر رہی تھی کہ اس کی تعبیر معلوم کرے۔ دائیں ہاتھ کی نازک انگلیاں مسہری کے آبنوسی کٹہرے پر مشق موسیقی کرنے میں مصروف تھیں۔ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کچھ گنگنا بھی رہی ہے؛ بہت مدھم سروں میں، صرف اپنے ہی نفس کو محظوظ کرنے کے لیے۔
گنگنانا کیا ہے؟
جذباتِ جنسی کے ایک نا قابلِ بیان ہیجان کی پر جوش اور کیفیتِ شباب سے لبریز شعاؤں میں گھر کر تاثراتِ قلب کو نہایت لطیف مگر مبہم پیرایہ میں ظاہر کرنے کی کوشش کا اصطلاحی نام۔ عہدِ شباب اور نسائیت، ناممکن ہے کہ ان دونوں کا اجتماع ایک ہی پیکر میں ہو جائے اور فضا نغموں سے معمور نہ ہو۔ اس کا دوسرا ہاتھ عطریت سے لبریز سیاہ بالوں میں چھپا ہوا تھا۔ ان بالوں میں جن کی حقیقت کو دنیا آج تک نہ سمجھ سکی۔ نہ صرف مَیں بلکہ کرّۂ ارض کا ہر متنفس صحیح طور پر یہ بتا دینے سے قاصر ہے کہ وہ کسی سوختہ جگر شاعر کے قلبِ حزیں کا دودِ عنبریں تھا یا کسی بلبلِ دام در گرفتہ کا ایک یاس آمیز نغمۂ متشکل جو اس کے کاسۂ سر سے مَس ہو کر پہلے تو منجمد ہوا اور پھر تار تار ہو کر گداز سینے اور بلوریں شانوں پر اس طرح منتشر ہونے لگا گویا تخلیق کی ساعتوں سے قبل ہی اس کی قسمت میں اضطرابِ پیہم رقم کر دیا گیا تھا۔
حریری چادر اور وہ بھی شبنمی رنگ کی، نہ اتنی دبیز ہو سکتی ہے اور نہ اس قدر غیر شفاف کہ کسی کے سینہ پر پڑ جانے کے بعد میناے شباب کی خمار آگیں کیفیات کو اپنے اندر مستور کر لے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک تقویٰ شکنی کی حد تک برہنہ تھی۔ ہاں برہنہ! کیونکہ جالی دار مہین چولی اور مختصر زیر جامہ میں اتنی صلاحیت کہاں سے آ سکتی ہے کہ وہ اچھی طرح پردہ پوشی کر سکے، اور خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ اس لباس کا رنگ بھی اس نوعیت کا ہو کہ بلوری جسم کی نقرئیت کے ساتھ وصل ہو کر اسی میں مدغم ہو جائے۔ تاہ مسہری کے چاروں طرف پیازی ریشم کے زرکار پردے آویزاں تھے۔ اس لیے نا ممکن تھا کہ ان کو اٹھائے بغیر کسی کی مشتاق نگاہیں اس مرکز حسن و جمال سے کما حقہ اکتسابِ نور کر سکیں۔
اس نے جمائی لیتے ہوئے ان لبوں کو وا کیا جن کا خطِ اتصال اس وقت تک ناممکن التعین تھا۔ بازوؤں کو بھی زحمتِ جنبش دی اور کچھ ایسی ادا کے ساتھ ان کو اٹھایا کہ ان کے درمیان پیدا ہونے والی قوس ہلالِ عید سے خراجِ تحسین طلب کرنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک خمار باقی تھا، کیونکہ اپنی دوسری سالگرہ کا جشن منانے کے سلسلے میں وہ کافی رات گذر جانے کے بعد مصروف خواب ہوئی تھی۔ دوسری سالگرہ اس لیے کہ محل کی چاردیواری میں آئے اس کو دو ہی سال گذرے تھے۔ یوں اس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی مگر ابتدائی سولہ برس ایک ایسی فضا میں گذرے تھے جہاں فکر معاش سے تنگ آ کر قلبِ انسانی میں خود کشی کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے۔ جشنِ سالگرہ کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
قدرت کے بھی نرالے کھیل ہیں۔ وہ زلفیں جو دو سال قبل کبھی شرمندۂ روغنیات بھی نہ ہوئی تھیں، مختلف الالوان پھولوں کی نگہت بار آغوش میں آسودگی حاصل کرنے لگیں۔ وہ سر جس کی آرائش کے لیے ایک سفید دھجی بھی نصیب نہ ہوئی تھی، زریں و منور تاج سے مزّین ہونے لگا۔ اس کا وہ جسم جو ہمیشہ پھونس اور خس و خوشاک کے سخت بستر پر لیٹنے کا عادی تھا اس طرح کہ ہر کروٹ کے ساتھ دس بیس تنکے بدن میں چبھ جاتے اور اسے خبر تک نہ ہوتی، مخمل و کمخواب کے نرم و نازک گدیلوں پر لطفِ خواب حاصل کرنے لگا؛ اس طرح کہ اگر اعضا کی غیر ارادی جنبشوں سے بستر پر ایک سلوٹ بھی پڑ جاتی تو اسے چین نہ آتا تاوقتیکہ اسے درست و ہموار نہ کر دیتی۔ اس کا معدہ جو مکروہ اپلوں کی مضمحل آنچ پر سِکی ہوئی دبیز روٹیوں کو آسانی سے قبول کر لیتا تھا، اس قدر نزاکت پسند ہو گیا کہ اگر دودھ کو بھی چبا کر نہ پیا جاتا تو سوے ہضمی کی شکایت پیدا ہو جاتی۔ وہ پہلے ایک مفلوک الحال ہستی کی صرف لخت جگر تھی اور اب ایک صاحب ریاست نواب کی منظور نظر سے بھی کچھ زیادہ۔ بوسیدہ اور متعفن جھونپڑے میں دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر اسے قصر شاہی کی چار دیواری میں آ کر ملی۔ اس لیے اس کا دماغ تحت الثراے سے فلک الافلاک پر پہنچ گیا تھا۔
انگڑائی لیتے وقت اس نے اپنے جسم کو سمیٹتے ہوئے کچھ اس طرح سانس لیا کہ حریری چادر کے پلّو ایک طرف کھسک گئے اور گداز سینے کی وہ “عریانیاں” بھی بالکل بے نقاب ہو گئیں جن کو کبھی مستور نہ رکھنے کی نیت سے سرسری طور پر “محرم نشین” کر دیا تھا۔ نور کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی ان مرمریں چڑیوں نے اپنے شبنمی نشیمنوں سے سر نکال لیے جن کا محض ایک جلوۂ بے محابا، صرف ایک گریز پا جھلک زاہدِ خلوت نشین پر خدا جانے کون سی کیفیت طاری کر دیتی ہے جس کے زیرِ اثر تھوڑی دیر کے لیے محراب و منبر سے لے کر تسبیح کے دانوں تک زہد و اتقا کی ہر شے رقص کرتی ہوئی اس کی نگاہ کے سامنے سے گذر جاتی ہے اور ہوش آنے پر اولین فرصت میں وہ یہ سوچنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا حیات انسانی کا منتہاے مقصود صرف عبادت ہی ہے یا کچھ اور بھی؟ اگر اس وقت وہ اپنا عکس کسی آئینے میں دیکھ لیتی تو ناممکن تھا کہ جوشِ سرمستی سے خود اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون شراب نہ بن جاتا۔
کیا وہ حسین تھی؟
یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔ اگر وہ حسین نہ ہوتی تو محلوں کی رنگین فضا میں سانس لینے والا نواب سرسوتی ندی کے کنارے ماہی گیروں کی بستی میں جا کر کبھی گوارا نہ کرتا کہ ایک دختر کفش دوز کو حاصل کرنے کے لیے اس کراہیت آمیز ماحول میں رہ کر زندگی کے چار دن بسر کرے۔ اس کے اپنے محل میں علاوہ مہ جبین بیگمات کے سینکڑوں پری تمثال کنیزیں اس کی نفسانی خواہشات کو تسکین دینے کے لیے موجود تھیں۔ اور اس سوال کا جواب کہ “وہ کون سی ادا تھی جس نے نواب کے دل کو موہ لیا؟” صرف نواب ہی دے سکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر جوانی کے ساتھ معصومیت بھی ہو یعنی نشۂ شباب میں چور ہو جانے کے بعد بھی خود عورت کے دل میں غرور شباب پیدا نہ ہو تو اس کی ہر ادا ہلاکت آفریں حد تک دلربا بن جاتی ہے۔ وہ تصنع اور بناوٹ سے قطعی معرا گاؤں کے سادہ ماحول میں پل کر جوان ہوئی تھی، اس لیے نہیں جانتی تھی کہ نسوانی اعضا کی ساخت میں کچھ ایسے ہتھیار پوشیدہ ہوتے ہیں جن کو ساتھ لے کر شہر پناہ کو عبور کیے بغیر قلعہ فتح کر لینا ممکن ہے۔ چنانچہ جب پہلی بار نواب نے اس کی نور منجمد سے تراشی ہوئی کلائی کو زور سے بھینچتے ہوئے ظاہری تحکمانہ لیجے میں کہا: “مچھلی پکڑنے کا یہ سامان ساحل تک لے چلو”، تو وہ مطلق نہ سمجھ سکی کہ اس جذبۂ فشار کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
مردانہ جذبات کی تابش نسوانی اثمار خام کو بہت جلد پکا کر رسیلا کر دیتی ہے۔ محل کی فضا میں آنے سے قبل اس دیہاتی دوشیزہ کے سینہ کے ابھار کو اتنی سرفرازی بھی نصیب نہ ہوئی تھی کہ گرفت میں لینے سے مٹھی بھر جاتی، یا دو چار ہی مرتبہ تبادلۂ صہبا کر لینے کے بعد یہ کیفیت ہو گئی کہ اگر ان میناے شباب کا ایک جلوۂ مسکّر اقصائے عالم پر چھا کے فضا میں ممتزج ہو جاتا تو بلا مبالغہ اسرافیل بھی ایک بار جھوم کر اپنا صور سنبھال لیتا، اس خیال سے کہ شاید قیامت کے لمحے نزدیک آ پہنچے ہیں۔
اس نے سیاہ لانبی زلفوں کو جو منتشر ہو جانے کے لیے ہی سنواری گئی تھیں، اپنی مرمریں انگلیوں کے شانے سے درست کیا اور کسی قدر کسمساتے ہوئے کروٹ لی۔ اس کی نظر کے سامنے خوب صورت تاروں کا پنجرہ دریچہ کی محراب میں لٹک رہا تھا جس کے اندر امریکہ کی سب سے زیادہ خوشنما اور نایاب چڑیا کو حبس دوام کی سزا دی گئی تھی۔ اس نے مسہری پر لیٹے لیٹے ایک فلسفی کی طرح غور کرنا شروع کر دیا۔ اس نے چڑیا کی زندگی کا موازنہ خود اپنی ہستی سے کیا۔ کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ دونوں کے لیے بہترین سامان خور و نوش، بہترین آسائش اور خدمت کے لیے بہترین ملازم موجود تھے۔ رہنے کی چار دیواری بھی دونوں کے لیے نہایت خوش نما اور قابلِ دید تھی۔ مگر آزادی، اُف! آزادی کا فقدان تھا۔ محل میں آنے سے قبل دیہات کی سادی فضا میں صبح سے شام تک اس کا شغل حیات ایک غیر معین و بے ترتیب لائحۂ عمل کے ماتحت ہوتا تھا۔ کسی دن وہ مچھلیاں پکڑنے ندی کے کنارے چلی جاتی اور دن بھر جال لیے کنارے پر بیٹھی رہتی۔ یا کشتی پر سوار ہو کر ساحل سے کچھ دور جا نکلتی۔ گھاٹ کے قریب گھٹنے ٹکا کر سطح آب پر چھا جاتی۔ میلے کچیلے ہاتھوں کی اوک سے پانی پینا اس کا معمول تھا۔ وہ خود بانسری بجانے سے ناواقف تھی لیکن جب گاؤں کے دوسرے لڑکے مچھلیاں پکڑتے وقت سرود نَے چھیڑتے تو وہ مست و بے خود ہو کر پانی میں انگلیاں تر کر کے ساحل کے قریب اگنے والی گھاس پر چھینٹے دینے لگتی۔ گھر کا ایندھن ختم ہونے لگتا تو وہ بانس کی ٹوکری یا ٹین کا تسلہ لے کر مویشیوں کے پیچھے پیچھے جاتی اور صبح سے شام تک اتنا گوبر سمیٹ لیتی کہ اس کے اپلے کئی ہفتے تک کافی ہو جاتے۔ اگر کسی روز اس کے باپ کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے کچے سوت کو بٹ دیتی۔ اس نے پرانی جوتیوں میں معمولی سلائی کر دینی بھی سیکھ لی تھی۔ کشتی میں سیر کرنے والے لوگوں کے بوٹوں پر پالش کرنا خاص طور پر اسی کے ذمہ تھا۔ اس کا باپ ذات کا ماہی گیر، لیکن پیشہ کے لحاظ سے موچی تھا۔
گاؤں میں اس کی بہت سی سہیلیاں تھیں جن کے ساتھ برسات کا تمام موسم وہ جھولا جھول کر گذارتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر پیا کو یاد کرتی، لیکن نہیں جانتی تھی کہ پیا کس کو کہتے ہیں۔ وہ پریم کی بنسی بڑے شوق سے سنتی مگر اس جذبہ سے ناواقف تھی، کیونکہ پریم کے لفظ سے اس کے کان آشنا تھے مگر لب نا آشنا۔ موسم گرما میں تمازت آفتاب سے اس کے بوسیدہ کپڑے پسینہ میں شرابور ہو جاتے مگر محل میں استعمال ہونے والے روغن و عطریات کے مقابلہ میں پسینہ کی وہ مہک اسے زیادہ مرغوب تھی۔ وہ کج فہم اور ناقص العقل ہونے کے باوجود اس رمز کو سمجھتی تھی کہ عطر پھولوں سے کشید کیا جاتا ہے اور پسینہ خود انسان کے جسم کا فشردہ ہوتا ہے۔
محل میں اس کو کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی لیکن اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ پانی کے دو گھونٹ بھی پیے تو کنیز کے ہاتھوں سے اور وہ بھی چاندی کے کٹورے میں۔ اس کی روح تڑپتی تھی اُپلوں کی آنچ پر سکی ہوئی جو اور جوار کی گدری روٹیوں کے ساتھ تیل میں بھنا ہوا سرسوں کا ساگ کھانے کے لیے؛ اور محل میں اسے مرغ و مزعفر، متنجن و بریانی اور قورمہ و پلاؤ ملتا تھا۔ آم اسے مرغوب تھے مگر اس طرح چوسنا چاہتی تھی کہ رس ان کے اندر سے ٹپک ٹپک کر تمام کرتے کو بھنکا دے اور وہ خود ندی کے کنارے بیٹھ کر اپنے ہی ہاتھوں اسے دھو کر صاف کرے۔ محل میں چینی کی خوشنما قابوں کے اندر نہایت پُر تکلف طریقے پر لنگڑے، مالدے اور سفیدے کی قاشیں اس کے سامنے آتیں، وہ خور و نوش سے فارغ ہو جاتی تو کنیزیں سلفچی، آفتابہ اور تولیے لیے آ موجود ہوتیں۔ وہ چاہتی تھی کہ جنگلی گلاب توڑتے وقت اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائے محض اس لیے کہ کوئی سہیلی قریب آ کر اتنا پوچھ لے کہ “تکلیف زیادہ تو نہیں ہوئی” اور وہ ہنس کر “نہیں” کہہ دے۔ بر خلاف اس کے محل کی چاردیواری میں سونے سے قبل اس کو اپنی سیج صدہا قسم کے پھولوں سے مزین ملتی اور اسے یہ سن کر افسوس ہوتا کہ ایک بوڑھے مالی نے ان کو چنا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ گرمی کی سہانی راتوں میں نیند کا لطف اسی وقت آ سکتا ہے جب مچھر خوب کاٹیں اور انسان بیدار ہو ہو کر سو جائے۔ کیونکہ اس انقطاعِ تسلسل میں غیر ارادی طور پر علاحدہ ہو جانے والی بانہوں کو ایک بار پھر کسی کی گردن میں حمائل ہو جانے کا موقع مل جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دو مختلف الجنس ہستیوں کا درمیانی بعد بھی قرب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں مسہری کے ریشمی زرّیں پردے ایک بُھنگے کو بھی قریب نہ پھٹکنے دیتے۔ اور اسی لیے وہ بیدار نہ ہوتی تا وقتیکہ افق مشرق کی دیوی اپنی نرم و نازک اور زرکار انگلیوں سے بند پپوٹوں کو گُدگدا کر غنچۂ نرگس کو شگفتہ نہ کر دیتی۔ یہ ضرور ہے کہ محل میں آنے کے بعد سے اس کی طبیعت کسی قدر نفاست پسند، آرام طلب اور عیش پرست ہو گئی تھی اور نزاکت اس درجہ تجاوز کر گئی تھی کہ حنا ملے جانے کی تکلیف سے ہاتھ لال ہو جاتے تھے۔ مگر اقتضائے فطرت اُس کو اِس ماحول سے مانوس نہ ہونے دیتا تھا۔
بڑی بحث و تمحیص کے بعد اس نے نواب سے اجازت حاصل کر لی تھی کہ ہمیشہ سالگرہ کے دوسرے دن وہ دیہاتی روایات کو قائم رکھنے کے لیے اپنی سابقہ طرزِ معاشرت کا اعادہ کیا کرے گی۔ چنانچہ آج سالگرہ کا دوسرا دن تھا اور اسی لیے صبح کا سورج زیادہ درخشانی کے ساتھ طلوع ہوا تھا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ محل کے شاہانہ ماحول میں گاؤں کی بے تکلف زندگی کے سادہ مناظر کس طرح پیش کیے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر بہت زیادہ مسرور تھی، اس قدر مسرور کہ جوشِ مسرت میں اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا اور اسی نیم عریاں حالت میں ریشمی پردوں کو حقارت سے جھٹکتے ہوئے مسہری سے نیچے اتر آئی۔ قد آدم شیشے میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ اس کے بعض وہ اعضا بھی دوسروں کے واسطے جنت نگاہ بن جانے کے لیے برہنہ تھے جن کو وہ خود اپنی آنکھ سے دیکھنا گوارا نہ کرتی تھی۔ اور اس خیال کے ساتھ کہ وہ نواب کے حکم کے مطابق اس کے جذبات میں ہر وقت ایک ہیجان قائم رکھنے کی خاطر نیم عریاں حالت میں رہتی ہے، اس پر شرم و حیا کا پسینہ آ گیا اور وہ محجوب و منفعل ہو کر جلدی سے ملحقہ کمرے میں روپوش ہو گئی۔
اس نے سیٹی بجاتے ہوئے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور غیر ارادی طور پر کچھ سوچتا ہوا دریچہ کے قریب پہنچ گیا۔ اس کی متجسس نظریں صحنِ چمن میں کسی کو دیکھ لینے کے لیے بے تاب تھیں۔ اس وقت وہ خود خاص مشرقی طرز کی پوشاک میں ملبوس تھا لیکن کمرے کا باقی ماحول مغرب کی حیا سوز تہذیب کے زیرِ اثر عمیق ترین عریانیات کا مخرب الاخلاق مجموعہ تھا۔ بالکل برہنہ عورتوں کے فوٹو اور تصاویر سے دیواروں کو زینت دی گئی تھی۔ یونانی صنمیات کی روایاتِ قدیم کو مادی شکل میں پیش کرنے والے مرمریں و بلوریں مجسمے طاقوں اور میزوں پر سجے ہوئے تھے، جن میں عشق و محبت کے دیوتا حسن و جمال کی دیویوں کے ساتھ مصروفِ اختلاط تھے۔ خلوت کی بعض رنگینیوں کو جو صرف خلوت ہی میں رنگین و لطیف معلوم ہوتی ہیں جلوت میں کچھ اس قدر عریاں طریقہ پر پیش کیا گیا تھا کہ ان کا عملی پہلو اختیار کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن نفسِ انسانی پر اس کیفیت کا طاری ہو جانا یقینی تھا۔ گویا وہ تراشے ہوئے لیموں تھے جن کو زبان سے چکھے بغیر کام و دہن ان کی ترشی سے لذت یاب ہونے لگتے ہیں۔ فرش پر بچھے ہوئے قالین بھی عریانی کے بے مثل نمونے تھے۔ مثلاً ایک قالین پر دکھایا گیا تھا کہ زہرہ بام فلک پر آسودۂ خواب ہے اس طرح کہ عالم رویا میں کسی سے ہم آغوش ہو جانے کی کشمکش میں وہ تمام اعضاے حسن برہنہ ہو گئے تھے جن کو صرف ایک نظر دیکھ لینے سے عابد تہجد گزار کو بھی دوبارہ غسل و وضو کی حاجت لاحق ہو سکتی ہے۔ ایک کونے میں کیوپڈ کو دکھایا گیا تھا جو کمان کا چلّہ چڑھائے یہ سوچ رہا تھا کہ تیر کس ڈھب سے چلایا جائے کہ زہرہ کا دل نشانہ بن سکے۔ اسی کے پسِ منظر میں صبح کی دیوی آرورا ایک عالم بے خودی میں جلوہ فگن تھی۔ مسہری کے ریشمی پردوں پر بھی زرکار نقاشی پیش کی گئی تھی۔ اس کا وہ حصہ جو بستر پر دروازے ہو جانے کے بعد نظر کے سامنے رہتا ہے، خاص طور پر قابل دید تھا۔
کہا جا سکتا ہے کہ اس کا وہ تقویٰ شکن منظر کوک شاستر کے تمام مصوَّر صفحات پر سبقت لے گیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس فضاے شباب میں چمکنے والا ہر ستارہ اس قدر ہیجان انگیز اور مستی میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک عصمت مآب دوشیزہ بھی ان جلووں میں گھر جانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اپنی نسائیت کو خیرباد کہہ کر لڑکی سے عورت بن جانے کے لیے مجبور ہو جاتی۔
نواب ابھی اپنے خیالات ہی میں محو تھا کہ دروازے پر لٹکنے والے پردے میں جھنکار پیدا ہوئی کیونکہ اسے بلور کی مختلف مچھلیوں اور موتیوں کو منسلک کر کے تیار کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نسوانی قدموں کی ہلکی چاپ نے مدھم سروں کا نغمہ منتشر کر دیا۔ ایک کنیز اندر داخل ہوئی لیکن کچھ اس ادا کے ساتھ کہ یہ معلوم ہوا گویا طاق میں رکھی ہوئی کسی چینی کی مورت میں جان پڑ جانے کے باعث حرکت پذیری کی قوت پیدا ہو گئی ہے۔ وہ بھی سر سے کمر تک سواے دو مقامات کے بالکل برہنہ تھی، اور اگر اس وقت بجاے دن کے رات ہوتی تو شاید انھیں بھی عریاں کر دیا جاتا۔ روزِ روشن میں ان کو محض اس لیے مستور رکھا جاتا ہے مبادا درختوں کی ڈالیوں پر چہچہانے والے طوطوں میں سے کسی کی نگاہ پڑ جائے اور وہ ان کو کتر لینے کے لیے آمادہ ہو جائے کیونکہ ایک نوحیز لڑکی کی ملکیت میں کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جن پر سیب اور رنگترہ کا دھوکا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ تھالی میں رکھ کر جامِ شراب کیوں لائی تھی جب کہ خود اس کی آنکھیں مینا بدوش تھیں۔
نواب نے کوئی لفظ کہے بغیر اس آتشِ سیال سے اپنی تشنگی بجھائی۔ تاہم لبوں کی تر دامنی کو خشک کرنے کے لیے کنیز کے سُرخ اطلسی رخسار سے صاف کر لیا۔ وہ لجاتے ہوئے آداب بجا لائی اور جلدی سے اس طرح چلی گئی گویا آئی ہی نہیں تھی۔
نواب کو پل پل کی خبر مل رہی تھی۔ کنیزیں آتی تھیں اور کہہ جاتی تھیں کہ اب محل کی چار دیواری میں دیہاتی طرزِ زندگی کا کون سا نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بستر سے اٹھنے کے بعد بیگم سب سے پہلے اس تالاب پر گئی جس میں شوقین مزاج نواب نے پانی کے مختلف جانور پال رکھے تھے۔ رنگ برنگ کی خوبصورت مچھلیاں، راج ہنس، مرغابیاں، قازیں، بطخیں اور خدا جانے کیا کیا۔ اس نے عنبریں بالوں کی عطریت، رخساروں پر ملے ہوئے غازہ کی خوشبو، پھولوں کے گجروں میں بسی ہوئی مرمریں گردن کی مہک، لبِ لعلیں پر جمی ہوئی مسّی کی دھڑی، نرگسی آنکھوں میں تڑپنے والی سرمہ دنبالہ دار کی ہلکی سی لہر، صندل بھری مانگ کی گلنار رنگینی، مصنوعی خال کی شرمگیں ملاحت اور غرض یہ کہ ہر وہ چیز جس سے تزئین جمال ہوئی تھی ملتانی مٹی اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کے ذریعہ ارادتاً دور کر دیا۔ گدلے مکروہ پانی میں جس کی غلاظت فضا کو بھی متعفن کیے دیتی تھی، اس نے غسل کیا۔ وہ خود ایک بنت البحر بن کر جل پریوں کے ساتھ کھیلنے لگی، اس نے مچھلیوں کو پکڑا اور چھوڑ دیا۔ کبھی راج ہنس کو سر پر بٹھا لیتی اور کبھی مرغابی کو شانہ پر جگہ دیتی۔ اس کے مست قہقہوں سے تمام فضا معمور تھی۔ اس نے پانی کے چھینٹے دے دے کر قازوں کو ستایا اور خوب دل لگی کرتی رہی۔ پھر تالاب سے ملحق جھاڑیوں کے کنج عزلت میں چھپ کر اس نے کھدر اور گاڑھے کا لباس پہنا۔ خودرو پودوں سے ہر قسم کے پھول توڑے اور ہار بنا کر گلے میں ڈال لیا۔ اب اس کی کلائیوں میں بجاے طلائی پٹریوں اور منقش کنگنوں کے صرف کانچ کی چوڑیاں تھیں۔ اس نے دیسی چمڑے کا گنواری جوتا پہنا اور پانی کا گھڑا سر پر رکھ کر چل پڑی۔ اپنے شاہی کمرے کی طرف نہیں ایک دربان کے جھونپڑے کی جانب جس کو عارضی طور پر خالی کرا لیا تھا۔ وہاں جا کر وہ چکی میں جوار پیسنے بیٹھ گئی۔ اور اس انہماک میں خدا جانے کیا گاتی رہی۔
اُپلوں کی آنچ پر تین چار گدری روٹیاں پکائیں۔ جب کہ اس دوران میں پالک کا ساگ سرسوں کے تیل میں الگ بھنتا رہا۔ اس نے کھانا کھا کر مٹی کے آبخورے سے پانی پیا اور تنکوں کے سخت بستر پر تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئی۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن، اپنی سکھیوں، اپنی بھینسوں اور گاؤں میں پلے ہوئے کتوں کو یاد کر کے اس نے رونا شروع کر دیا اور اس کے آنسو آنچل میں جذب ہوتے چلے گئے۔
نواب کو جب ان باتوں کی خبر ملتی تو وہ دل ہی دل میں افسردہ ہوتا، وہ پشیمان ہو رہا تھا کہ ایک دیہاتی لڑکی کو محل میں لا کر کیوں رکھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ خود اپنی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ٹاٹ کا پیوند ٹاٹ ہی میں اچھا رہتا ہے۔ گندے پانی میں پرورش پانے والی مچھلی صاف ستھرے آب زم زم میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ سرسوتی ندی کے کنارے اس حسین دوشیزہ کو دیکھ کر اس نے خیال کیا تھا کہ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ گُدڑی میں لعل کو چھپا کر رکھ دیا۔ در آں حالیکہ وہ طلائی زنجیر میں منسلک ہو کر گلے کا ہار بن جانے کے قابل ہے۔ اس کو اپنے محل میں لا کر وہ خوش ہوا تھا کہ قدرت کی ایک زبردست غلطی پر تصحیح کر دی ہے۔ یہ قدرت کی کج فہمی تھی کہ وہ خوب و زِشت میں امتیاز نہ کر سکی۔ اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ کونسی چیز کس جگہ کے لائق ہے۔ لیکن تلخ تجربہ حاصل کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ خود اس سے ایک حماقت سرزد ہو گئی ہے۔ اب وہ سمجھا کہ انگارے جو یاقوت کی طرح چمکتے ہیں، دراصل یاقوت نہیں ہوتے۔ اور یہ کہ خوبصورت خوشنما سانپوں میں زہریلا مادہ ہوتا ہے۔ اس نے خیال کیا تھا کہ محل کی رنگین فضا میں اس دیہاتی لڑکی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ یہ درست نکلا۔ لیکن اس کی چند عادتوں میں تبدیلی واقع ہوئی، فطرت یکسر نہ بدل سکی اور آخر کار ثابت ہو گیا کہ شیر کا بچہ انسان کی گود میں پل جانے کے بعد انسان سے کتنا ہی مانوس کیوں نہ ہو جائے اپنی بہیمانہ خصلت کو نہیں چھوڑ سکتا۔
وہ تصورات کی دنیا میں واقعات گذشتہ کا مطالعہ کرنے لگا۔ وہ ایک روز اپنے مصاحبوں کے ساتھ مچھلی کا شکار کھیلنے گیا تھا۔ سرسوتی ندی کے کنارے اسے کشتی میں ایک نوحیز لڑکی نظر آئی، پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں وہ ایسی معلوم ہوتی تھی گویا سیاہ بدلیوں میں سے چاند جھانک رہا ہے۔ اس نے چار روز کے لیے لڑکی کو اپنی خدمت پر مامور کر لیا لیکن وہ پھولوں کو صرف آنکھ سے دیکھ لینے کا قائل نہیں تھا، گل چینی کی آرزو بھی دل میں پیدا ہو گئی۔ چنانچہ چلتے وقت اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ غالباً بڈھا باپ اس ظلم و ستم کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتا مگر پانچ سو روپے کی کثیر رقم نے اس کی زبان بند کر دی۔ دولت ناممکن باتوں کو بھی ممکن کر دکھاتی ہے۔
دختر کفش روز جب شاہی محل میں آئی تو کئی روز تک ہر شے کو تعجب کی نگاہوں سے تکتی رہی۔ عرصہ تک اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کپڑوں کے اندر سورج کی کرنوں جیسی چمک کس طرح پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اس قدر ہلکے اور مہین کیوں ہوتے ہیں کہ پورے تھان کو مٹھی میں لے لینا ممکن ہے۔ وہ صرف پکی اینٹ سے پاؤں مانجھنے کی عادی تھی۔ کنیزوں نے اسفنج کے ٹکڑے اور ربڑ کے جھانوے دیے تو حیران رہ گئی کہ یہ کس لیے ہیں۔ اور اگر بروقت اسے منع نہ کر دیا جاتا تو شاید وہ گلگونہ یا غازہ کی ایک انگلی بھر کر منہ میں رکھ لیتی، یہ سمجھ کر کہ یہ بھی کوئی کھانے کی شے ہے۔ اس نے صرف بانسری کے نغمے سنے تھے۔ ہارمونیم، ستار اور رباب سے اس کے کان نا آشنا تھے۔ ناچ کا مفہوم اس کے ذہن میں صرف اس قدر تھا کہ کچھ عورتیں ایک حلقہ میں کھڑی ہو کر اور گھونگھٹ نکال کر اپنے جسم کو ایک مخصوص طریقہ پر جنبش دیں، کبھی ان کا سر آگے کی طرف جھکے اور کبھی پشت کی جانب۔ بعض دفعہ پاؤں زمین پر زور سے مارا جائے اور بعض دفعہ ہلکا۔ محل کی بزمِ نشاط میں اس نے دیکھا کہ صرف ایک نوجوان عورت مجمع کے سامنے اس طرح رقص کرتی ہے کہ اکثر اس کا سینہ کمر تک اور ٹانگیں بالائی سرے تک برہنہ ہوتی ہیں۔ وہ بے حیائی کے اس منظر کو دیکھ کر ابتدا میں خود شرما جاتی تھی۔ وہ بمشکل سمجھ سکی کہ آخر ناچ میں اس چیز پر کیوں زور دیا جاتا ہے کہ چھاتیاں اور کولہے بھی اپنی اپنی جگہ رقص کریں، آنکھیں مٹکیں، اور رخسار تھرکیں۔ مختلف قسم کے نِرت دیکھ کر اس نے خیال کیا کہ غالباً رقاصہ ہوا کے سمندر میں تیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے دیہاتی گیتوں میں کوئی لفظ ایسا نہیں تھا جو جذبات میں ہیجان پیدا کر کے انسان کو گناہ کی ترغیب دے۔ بر خلاف اس کے یہاں شعر کا ہر مصرع بذاتِ خود ایک دفترِ معصیت تھا۔
نواب اپنے خیالات میں محو تھا اور ابھی کسی نتیجہ پر نہ پہنچا تھا کہ آئندہ اس دیہاتی لڑکی کے ساتھ کس قسم کا طرزِ عمل اختیار کیا جائے، کہ اسے اطلاع ملی کہ ہر ہائنیس گوبر کا ڈھیر سامنے رکھے اُپلے تھاپ رہی ہیں۔ آتشِ غضب اس کے سینے میں بھڑک اٹھی اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس کم نصیب چماری کو محل کی چار دیواری سے نکال دیا جائے۔
وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور دربان کے جھونپڑے کی طرف چل دیا۔
قریب پہنچ کر اس نے دیکھا کہ محل میں رہنے والی بیگم نے گاڑھے کا لباس زیب تن کر رکھا ہے، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی ہیں اور دونوں کلائیاں نجاست سے آلودہ ہیں۔ اسے آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی اور کسی قدر جھک کر بولی “آئیے! بابو جی!”
اس نے سنا تھا کہ امیر آدمیوں سے “بابو جی” کہہ کر بات کرتے ہیں۔ اور اسی لیے گاؤں کا ہر شخص تحصیل دار کو “بڑے بابو” اور نائب تحصیل دار کو “چھوٹے بابو” کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔ اگرچہ وہ کنیزوں کی زبان سے نواب کی شان میں بڑے بڑے القاب سن چکی تھی اور خود بھی ان ذی وقار لفظوں سے اس کو یاد کر چکی تھی۔ مگر دیہاتی معاشرت کا خیال کر کے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ نواب کو بھی بابو جی ہی کہا جائے۔
اپنے ہی جملے پر جو خود اس کے خیال کے مطابق بالکل انوکھا تھا، وہ مسکرائی اور یہاں تک مسکرائی کہ کھل کھلا کر ہنسنے لگی۔ ایک عورت اور خاص طور پر فضاے شباب میں سانس لینے والی عورت کا تبسم جب بڑھتے بڑھتے دلفریب مگر مدھم قہقہے کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو بلا مبالغہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے گویا ساغر و مینا کے باہم ٹکرانے سے جلترنگ کی ایک خاص نوع کا نغمہ پیدا ہو رہا ہے جس کے ترنم میں قلقلِ مینا کا بھی تھوڑا سا حصہ شامل ہے۔
“بابو جی” اس نے مسکراتے ہوئے دوبارہ کہا۔ “میں نے تمھارے جوتوں کو صاف کر کے چمکا دیا ہے۔ اپنے نوکر کو بھیج کر منگا لو۔” نواب نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ پانچ سات جوڑے جوتیوں کے رکھے تھے۔ اس کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ یہ اس کی شانِ امارت کی زبردست توہین تھی کہ ایک عورت جو اس کی زینتِ آغوش بن چکی ہے ایسے ذلیل کام کرے۔ مگر کیا کہہ سکتا تھا، حماقت اپنی ہی تھی۔
اس نے انتہائی ضبط سے کام لے کر چند طلائی سکے اپنی جیب سے نکالے اور محل میں بیگم بن کر رہنے والی دختر کفش روز کے سامنے زمین پر ڈال دیے۔ پھر کہا:
“یہ جوتیاں صاف کرنے کی اجرت ہے۔ اسے اٹھا لو اور ہمیشہ کے لیے اس ریاست کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ تم امیرانہ زندگی بسر کرنے کی اہل نہیں ہو۔ تم کو اجازت ہے اپنے گاؤں میں ماں باپ کے پاس واپس جا سکتی ہو۔ شاہی خزانہ سے ہر ماہ تمھاری مالی امداد ہوتی رہے گی۔”
آسمان سے ٹوٹے ہوئے ایک تارے کی طرح جس کو یکایک نور و ضیا سے محروم کر دیا گیا ہو، وہ حیران و ششدر ایک عجیب اضطراری کیفیت کے ماتحت کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور یہ سوچنے لگی کہ جو کچھ سنا وہ فریبِ سماعت تو نہیں ہے۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ جاہ و ثروت کی دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے کہ صنفِ نازک کے جسم سے دو سال تک لطف اندوز ہونے کے بعد ہار کے باسی پھولوں کی طرح اسے بھی ٹھکرا دیا جائے۔ یہ مانا کہ وہ اپنی نزاکت و رعنائی کے لحاظ سے پھول کی مانند ہے، اس کا حسن ماہِ تاباں کی طرح سریع الزوال ہے لیکن اس کے جذباتِ قلب؟
اس کا چہرہ شدتِ غیظ و غضب سے سرخ ہو گیا، انتہائی غصے کے باعث اس کا تمام بدن کپکپانے لگا۔ تیوری کے بل بتا رہے تھے کہ وہ دنیا کو فنا کر دینے کی قوت اپنے اندر بیدار کر رہی ہے۔ وہ نواب کی طرف بڑھی کچھ ایسے انداز سے گویا اسے اٹھا کر زمین پر پٹک دے گی اور اگر اس طرح بھی آتشِ انتقام سرد نہ ہوئی تو اسے ٹھکرا دے گی، کچل دے گی، پامال کر دے گی۔ لیکن اچانک پیدا ہو جانے والے کسی خیال سے وہ جھجک کر رہ گئی۔ اور جس طرح تند و تیز آندھی کے خاتمہ پر اکثر مینہ برسنے لگتا ہے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آہ! بے کس عورت کی مجبوریاں صرف قطرہ ہاے اشک کے سوگوار دامن میں پناہ لیتی ہیں۔
سنجوگ
سُربالا مالن کی بیٹی جھونپڑوں میں پلی تھی۔ اس نے کبھی محلوں کا خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ پھولوں کی سیج پر سونے میں کیا مزہ آتا ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتی تھی کہ گلے میں پھولوں کے گجرے سے کس قسم کا لطف حاصل ہو سکتا ہے۔ حالانکہ دوسروں کی سیجوں کے لیے پھول توڑنا اور دوسروں کے گلے کے لیے گجرے تیار کرنا اس کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ غنچہ و گل کی نگہت و صباحت میں اس نے اپنی زندگی کے سترہ سال گذار دیے تھے اور گذشتہ دس سال میں اس نے جتنے کنٹھے گوندھے غالباً ان کا شمار بھی مشکل تھا۔ یقیناً اس کے ہاتھوں توڑے ہوئے پھولوں کی تعداد رات کو آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی تعداد سے بڑھ گئی ہوگی۔ لیکن اس نے اپنی ذات کے لیے کبھی ایک بھی ہار بنانے کی جرات نہ کی، مرجھائے ہوئے پھولوں تک کو سونگھنا اس کے لیے حرام تھا کیونکہ وہ کنواری تھی۔ ابھی اس کا بیاہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے سہاگ کی رات آنے سے قبل پرانے لوگوں کی بنائی ہوئی رسوم کے مطابق اپنے آپ کو تمام عمدہ چیزوں سے محروم رکھنا اس کا فرض تھا۔ تاہم وہ پھولوں کی خوشبو سے ناواقف نہیں تھی۔ کیونکہ روزانہ جب باغیچے میں جاتی تو ہوا کے خوشگوار جھونکوں میں ملی ہوئی پھولوں کی مہک از خود ناک میں پہنچ کر مشامِ جان بن جاتی تھی۔ گویا وہ آسمانی ستاروں کی چمکدار گیندوں کو صرف دور سے دیکھتی تھی، ان سے کھیلتی نہیں تھی۔
علی الصبح چمن میں جانا اس کا معمول تھا۔ وہ رات بھر میں کھلے ہوئے ہر قسم کے تمام پھول توڑ لیتی۔ کچھ گجروں کے لیے، کچھ گلدستوں کے لیے، کچھ منتشر حالت میں فروخت کرنے کے لیے۔ چمن سے واپس آ کر وہ اپنے اور باپ کے لیے کھانا تیار کرتی کیونکہ ماں مر چکی تھی اور داسی رکھنے کا مقدور نہیں تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ سوئی تاگہ لے کر بیٹھ جاتی اور سہ پہر تک پھولوں کی ترتیب میں محو رہتی۔ شام ہوتے ہی اس سامانِ تزئین کو ٹوکری میں لگا کر وہ چوک چلی جاتی۔ اور شاید ہی کوئی دن ایسا منحوس ہوتا ہوگا کہ اس کا سب سامان فروخت نہ ہوتا ہو۔ بھلا کس طرح ممکن تھا کہ وہ اپنے سریلے ترنم میں پھولوں کی آواز لگائے اور جانے والوں کی توجہ اس کی طرف مبذول نہ ہو۔ بعض لوگ تو صرف اس لیے پھول خرید لیا کرتے تھے کہ بیچنے والی ایک عورت ہے اور وہ بھی نو شگفتہ غنچے کی طرح نوخیز۔ نسائیت میں یوں ہی کیا کم جاذبئیت ہوتی ہے کہ عالم شباب سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔ ان کیفیات میں ایک ہی بار جلوہ نمائی سے کچھ دیر کے لیے سنگین بت میں بھی ہم آغوشی کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے پجاری کے قدموں میں گر کر پاؤں چوم لوں۔
چوک سے واپس آ کر وہ پھر دوزخِ شکم کی آسودگی کے لیے کھانا تیار کرنے میں مشغول ہو جاتی۔ اکثر وہ سوچا کرتی کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ چکی کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوما جائے اور کبھی کوئی تبدیلی نہ ہو۔ وہ سونے کے لیے لیٹتی تو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر عمدہ بستر بھی نہ ہوتا تھا۔ تاہم اسے جلدی ہی نیند آ جاتی تھی۔ کیونکہ غیر ارادی طور پر پھولوں میں بسے ہوئے دامن اس کے دماغ کو معطّر کر دیا کرتے تھے۔ غنچوں کی نگہت میں رہتے رہتے وہ خود ایک غنچہ بن گئی تھی۔ لیکن گُل چیں کے دستبُرد سے محفوظ۔
(2)
ایک روز شام کے وقت وہ حسب معمول پھول بیچنے گئی۔ اس دن یا تو مانگ ہی زیادہ تھی یا خود اس کے اترے ہوئے چہرے کی بڑھی ہوئی رعنائیوں نے لوگوں کو گرویدہ کر لیا۔ بہرحال خلافِ توقع سب سامان بہت جلد فروخت ہو گیا۔ صرف ایک مختصر سا ہار باقی تھا۔ اس نے خیال کیا کہ ایک گاہک کے انتظار میں وقت گنوانا اچھا نہیں۔ آج کی اجرت بھی روز کی نسبت زیادہ ہو گئی ہے۔ بہتر ہے کہ یہ بچا ہوا کنٹھا مندر میں جا کر دیوی کے گلے میں ڈال دوں۔ پوجا کیے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں۔ وہ جلدی ہی اس فیصلہ پر پہنچ گئی۔ لہذا دیوی کے چرنوں میں خراج پیش کرنے کی نیت سے چوک کے شور و غوغا کو چھوڑ کر اس نے پُر سکوت مندر کی راہ لی۔
ابھی وہ راستہ ہی میں تھی کہ ایک شخص نے اسے ٹوکا۔ سربالا اسے جانتی تھی۔ وہ غیر تھا مگر اپنوں سے زیادہ۔ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے تھے، ایک ہی باغیچہ میں ایک ہی فضا میں۔ منوہر ٹھیکیدار کا لڑکا تھا، امیر تھا۔ اسے بھی سربالا سے محبت تھی لیکن اس نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اس بات کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا کہ ایک مالن کی لڑکی کو شریکِ حیات بنایا جائے۔ وہ رسم و رواج کے مطابق رشتہ جوڑے بغیر اسے اپنا بنا لینے کا آرزو مند تھا۔ لیکن سُربالا اسے کیوں گوارا کرتی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک دفعہ لغزش ہو جانے کے بعد زندگی ہمیشہ کے لیے لائقِ نفریں ہو جائے گی۔
کچھ عرصہ ہوا منوہر کی شادی ہو چکی تھی۔ سُربالا کو اس حقیقت کا علم تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا۔ ایسی باتیں پوشیدہ نہیں رہ سکتیں۔ اس لیے اگر منوہر صرف اپنی ذات کے لیے ہار کی فرمائش کرتا تو وہ کبھی دریغ نہ کرتی۔ بلکہ اگر پھول نہ ہوتے تو اسی وقت چمن میں گل چینی کے لیے جاتی اور پھول کھلے ہوئے نہ ہوتے تو وہ اپنے قلب کی تپش سے، اپنے تنفس کے جھونکوں سے، اپنے آنسوؤں کی طراوت سے اور سب سے زیادہ اپنے حسن کی گرمی سے ان کو قبل از وقت شگفتہ کر دیتی۔ یا آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو نوچ لیتی۔ یا اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کو منجمد کرتی اور گلاب کی پتیوں کی شکل میں کاٹ کر تاگے میں پرو لیتی۔ وہ کبھی گوارا نہ کرتی کہ منوہر کا دل میلا ہو، اسے رنج پہنچے۔ لیکن اب جانتی تھی کہ وہ پھولوں کا ہار کس ہستی کے لیے طلب کر رہا ہے۔ آتشِ رقابت اس کے سینہ میں بھڑک اٹھی، اس نے تہیہ کر لیا کہ پھولوں کو مسل کر پھینک دوں گی لیکن اس کو نہیں دوں گی۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔ وجہ بھی معقول تھی اس نے کہا:
“میں نیت کر چکی ہوں کہ یہ ہار دیوی کے گلے میں پہناؤں گی۔ اس لیے مجبور ہوں، تمھیں نہیں دے سکتی۔ کسی اور جگہ سے لے لو۔”
منوہر نے کہا: “سُربالا! تمھیں ہار دینا ہوگا۔ میں بھی اپنی دیوی ہی کے لیے مانگ رہا ہوں۔ میری دیوی تمھاری دیوی سے زیادہ سندر ہے۔”
ان الفاظ سے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار منوہر کو نام لے کر مخاطب کیا: “منوہر! اپنی دیوی کے گلے میں جوتیوں کا ہار پہنا دو۔ اس سے کہنا پھول بکنے بند ہو گئے۔ چمن میں خزاں آ گئی۔” یہ کہہ کر اس نے منوہر کا ہاتھ جھٹک دیا اور بظاہر مسکراتی ہوئی چل پڑی۔ لیکن چند ہی قدم کے بعد اپنے دامن میں آنسو جذب کرنے کی خاطر رکنا پڑا۔
(3)
وہ مندر کے دروازے پر پہنچی۔ اندر داخل ہوئی اور با دلِ نخواستہ ہار دیوی کے گلے میں ڈال دیا۔ اس نے پوری طرح پوجا کی رسم بھی ادا نہیں کی۔ اس کا دل تو آنسو بہانے کے لیے بے تاب تھا۔ وہ جلدی ہی باہر آ کر گھر چلی گئی۔
اس نے صبح کی بچی ہوئی باسی روٹی اپنے باپ کو کھلا دی، خود کچھ نہ کھایا۔ باپ کے پوچھنے پر بہانہ کر دیا کہ میری طبیعت خراب ہے، سر میں درد ہو رہا ہے۔ ایک یہی عذر ایسا ہے جس کو سننے والے جلدی تسلیم کر لیتے ہیں کیونکہ کسی قسم کا درد دکھائی نہیں دیتا۔
وہ سونے کے لیے چارپائی پر لیٹی تو برابر روتی رہی۔ کسی کروٹ چین نہیں آتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے منوہر کی بے وفائی پر اس قدر آنسو بہائے۔ اس کا دل بھرا چلا آتا تھا۔ وہ چپکے چپکے رو رہی تھی کہ کہیں باپ کو خبر نہ ہو جائے۔ کئی بار بے اختیاری کے عالم میں چیخ نکل جانے کے قریب تھی کہ اس نے ضبط سے کام لے کر اسے روک لیا۔ لیکن متلاطم سمندر کی طغیانی کہیں لکڑی کا بند لگانے سے روکی جا سکتی ہے۔ ایک زبردست سیلابِ گریہ تھا جو اسے جھونپڑی سے بہا کر ایک ایسے ساحل پر لے جانا چاہتا تھا جہاں سہارا دینے کے لیے منوہر کا ہاتھ ہو۔ اس کے رُبابِ حیات میں ترنم ریزیاں بیدار ہو رہی تھیں۔ زندگی کے تاروں میں لرزش تھی۔ کائنات کا ہر ذرہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ جب تک وہ ناشنیدہ نغمے جو اب تک بیرونِ ساز نہیں ہوئے فضا میں منتشر نہیں ہوں گے، تجھے کامل سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ بے قراریاں بڑھتی گئیں۔ اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر ہی اندر دل کو مسوس رہا ہے۔
وہ پشیمان تھی کہ اس نے منوہر کو ہار کیوں نہ دے دیا۔ فرمائش کرنے والا تو وہی تھا۔ اس سے کیا غرض کہ وہ کس کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کبھی کسی گاہک سے نہیں پوچھا تھا کہ تم پھول کیوں خرید رہے ہو۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا مصرف مختلف ہے۔ کوئی قبر پر چڑھاتا ہے تو کوئی مندر میں دیوی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ کوئی دوا بنانے کے لیے آگ پر رکھتا ہے اور کوئی لطفِ خواب حاصل کرنے کے لیے سیج پر بچھاتا ہے۔ کاش! آج اس کے دل میں پوجا کا خیال پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ وہ منوہر کو بالکل اجنبی سمجھتی اور ہار اس کے ہاتھ فروخت کر دیتی۔ یا ان سب سے زیادہ یہ کہ باغیچہ میں کوئی پھول نہ کھلا ہوتا تو بہتر تھا۔ وہ گھر سے نہ نکلتی، باہر ہی نہ جاتی، منوہر اسے نہ ملتا لیکن جو ہونا تھا سو ہو چکا۔
جوشِ اضطراب سے اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے لگے جو انسان کو لامذہب اور بے دین کر دیتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ پتھر کی بے جان دیوی پر پھول چڑھانا بالکل حماقت ہے جبکہ اس میں احساس کا مادہ ہوتا ہی نہیں۔ اس کے چہرے پر ناک ہوتی ہے مگر سونگھنے کی قوت نہیں۔ لہذا چنبیلی کی کلیاں ہوں یا دھتورے کے پھول، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔ اور پھر اس کو جاندار انسان سے زیادہ رتبہ کیوں دیا جائے۔ کسی تصویر کے نقوش جو نتیجہ ہیں مصور کی رعنائیِ خیال کا، کبھی اپنے نقّاش سے زیادہ فضیلت حاصل نہیں کر سکتے۔ لہذا مندر میں پوجا پاٹ سب لغو چیز ہے، انسان کو انسان ہی کی عبادت کرنی چاہیے۔
اس نے ایک فلسفی کی طرح یہ بھی سوچا کہ اگر منوہر بے وفا ہے تو ہوا کرے، میں اس جیسی کیوں بنوں۔ چاند سورج چھپنے کے بعد دوبارہ نکل آتے ہیں۔ ممکن ہے منوہر کا پھرا ہوا دل بھی کچھ عرصہ بعد میری طرف مائل ہو جائے۔ ہاے افسوس! گل چینی کرتے زمانہ گذر گیا۔ میری آنکھوں نے خزاں کے بعد بہار دیکھی مگر اس سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔
(4)
اس کا اضطراب بڑھتا گیا حتیٰ کہ اس نے محسوس کر لیا کہ اگر اس احمقانہ غلطی کا رد عمل نہ کیا گیا تو زندگی یقیناً دوبھر ہو جائے گی اور صبح پکڑنی مشکل ہو جائے گی۔ لہذا وہ چارپائی سے اٹھی لیکن اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ سانس روکے ہوئے، آہستہ قدم، دامن کو نہایت احتیاط سے اٹھا کر مبادا کسی چیز کے ساتھ الجھ کر کھٹکا پیدا نہ کردے۔ وہ باہر آ گئی۔ چاند کی روشنی زمین پر چھٹکی ہوئی تھی پھر بھی ہو کا عالم تھا۔ کوچہ و بازار میں بالکل سناٹا تھا، فضاے بسیط بالکل ساکت و خاموش، کائنات کا ہر ذرہ محوِ خواب تھا۔ بارہ بجے کا عمل۔ وہ تن تنہا ڈری ہوئی، سہمی ہوئی مندر کی جانب چل پڑی۔ اس نے خیال کیا کہ اگر اس سنسان میں کوئی بدمعاش، خبیث انسان اس کو سرِ بازار دیکھ لے بالکل بے باکانہ طور پر آدھی رات کے وقت جاتا ہوا اور دست درازی کر بیٹھے تو عزت بچانی مشکل ہو جائے گی۔ نیند کے ماتے اس کی چیخ پکار کو نہ سن سکیں گے۔ اس کے تمام جسم میں تھرتھری پیدا ہو گئی۔ شرم و حیا سے پسینہ آ گیا۔ رُک گئی، کچھ سوچا، پھر چل پڑی۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ اگر آج کی رات اپنے ہاتھ کےتوڑے ہوئے پھول بلکہ وہی پھول جو مندر کی چار دیواری میں دیوی کے گلے میں ڈال دیے ہیں، منوہر کی پُر شباب خلوت میں نہ پہنچا سکی تو ہمیشہ کے لیے گُل چینی ترک کر دوں گی۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ قرب و جوار کی کسی چیز پر نظر ڈالنی نہیں چاہتی تھی۔ اُس نے اپنے جسم کی تمام قوت ٹانگوں میں مجتمع کر دی اور ایسے تیز قدموں کے ساتھ جس کو دوڑے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، وہ گرتی پڑتی مندر کے دروازے تک پہنچ ہی گئی۔
(5)
کواڑ بند تھے لیکن اچھی طرح نہیں۔ کیونکہ اندر جلنے والے چراغ کی مدھم روشنی جِھری میں سے ہو کر باہر آ رہی تھی اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کنڈی کھلی ہوئی ہے۔ اور کنڈی لگانے سے فائدہ بھی کیا تھا۔ وہ سومناتھ کا مندر تو تھا ہی نہیں جس میں جواہرات کے بُت تھے۔ وہاں کی کل کائنات کی قیمتِ اصلی ان کو چُرا کر لے جانے والے کی مزدوری سے بھی زیادہ نہ ہوتی۔ ایسی صورت میں کس سلطانِ غزنی کا ڈر تھا کہ اس مذہبی متاعِ خاص کی رکھوالی کی جاتی۔ دروازے کے قریب نگہبان پجاری کی چارپائی تھی، مگر وہ بے خبر محوِ خواب تھا۔
سُربالا کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے سوچا اگر یہ مذہبی پیشوا بیدار ہو گیا تو اپنی بریت میں کس حیلے سے کام لوں۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ پوجا کا بہانہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ آدھی رات آ چکی تھی اور اس وقت دیوتا اور دیویاں بھی سو جاتی ہیں۔ نذر کون قبول کرے۔ وہ سچ بات بھی بیان نہیں کر سکتی تھی، کیونکہ وہ بوڑھا جس کے جذبات فنا ہو چکے تھے یہ تسلیم کرنے سے معذور تھا کہ جب محبت دل میں گھر کر لیتی ہے تو آنکھوں پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے اور ایسی صورت میں سواے مسلکِ عشق کے مذہب و ملت کا کوئی آئین نظر میں نہیں جچتا۔ ہزاروں دلیلیں اور سینکڑوں نظریے سُن لینے کے بعد بھی وہ یہ نہ مانتا کہ محبت کی خاطر مقدس معبد میں کسی قسم کی چوری جائز ہو سکتی ہے۔ تاہم سُربالا نے پس و پیش میں زیادہ وقت نہیں گذارا اور دور اندیشی کی تمام احتیاطوں کو بالائے طاق رکھ کر دروازے کو کھولنے کی غرض سے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ کواڑ پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ سر چکرا رہا تھا اور دماغ اسی کیفیت میں مبتلا تھا جو تیز جھولے میں سے گر جانے کے بعد طاری ہو جاتی ہے۔ اس نے لبوں پر زبان پھیر کر سانس کو سنبھالا اور دو چار بار پلکوں کو جلدی جلدی جھپکا کر قوتِ بینائی میں وہ لوچ پیدا کر لیا جس سے انسان معمول سے زیادہ دیکھنے لگتا ہے۔ اس نے ہاتھ کے دباؤ میں اضافہ کیا اور اس کے ساتھ ہی جِھری میں بتدریج فصل پیدا ہونے لگا۔ اس کا دل چور تھا۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ میں ایک جرم کا ارتکاب کر رہی ہوں جو دنیا والوں کی نگاہ میں نا قابلِ معافی ہے۔ لیکن محبت کی خاطر جس کی دنیا میں ہر مجلس قانون ساز کے آئین بدل جاتے ہیں، سب کچھ روا ہے۔
دروازہ کھل گیا۔ لیکن اس قدر آہستہ گویا وہ کُھلا ہی نہیں۔ وہ اندر داخل ہو گئی ایک غیر مرئی سایہ کی طرح۔ مدھم روشنی تھی، چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی۔ کڑوے تیل کا دیا جل رہا تھا اور اس کی لو کے ارتعاش پیہم کے باعث پتھر کی مورت سے لے کر چھت میں آویزاں گجر تک ہر چیز کا سایہ سامنے کی دیواروں پر رقص کر رہا تھا۔ اس نے ان میں سے کسی چیز پر نگاہ نہیں ڈالی۔ اس وقت افسانوی رنگ سے زیادہ اس پر ذاتی جذبات کا بھوت سوار تھا۔
اس نے ادھر اُدھر نگاہ ڈالی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھی اور مورت کے بالکل قریب جا کر اس نے پُر سکوت لہجہ میں کہا:
“دیوی! میں قربان، تو اپنے گلے کا ہار مجھے دے دے۔ میں یہ اپنے محبوب کو پیش کروں گی۔ اور ہاں اے پتھر کی بے جان مورت!” اس نے مستفسرانہ لہجہ میں کہا: “کیا کبھی تجھ کو بھی کسی سے محبت ہوئی ہے۔ لیکن نہیں، میں بھولی۔ تیرے پاس تو وہ دل و دماغ ہی نہیں ہیں جن پر محبت کے نقوش ثبت ہو سکتے ہیں۔ تیرا جسم تو پتھر کا ہے، سخت پتھر کا۔” گویا اس نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا۔
(6)
وہ سیڑھی پر چڑھ گئی اور اپنا دایاں ہاتھ مورت کی طرف بڑھا دیا۔ اس کی انگلیاں جو باوجود موسمِ گرما کے سخت سرد ہو رہی تھیں، ہار کے پھولوں سے مَس ہوئیں۔ فوراً قوتِ برق کی سی ایک تیز لہر سر کی چوٹی سے پاؤں کی ایڑھی تک تمام جسم میں جسم کے ہر رونگٹے میں ایک ارتعاش پیدا کر گئی اور جس طرح ساحلِ دریا پر کھڑے ہو کر پانی کی روانی کو دیر تک دیکھتے رہنے سے چکر آنے لگتے ہیں، وہی کیفیت اس پر بھی طاری ہو گئی۔ اگر اس وقت وہ ہوشیاری سے کام لے کر مورت کے آگے بڑھا ہوا ہاتھ نہ پکڑ لیتی تو یقیناً توازن کے بگڑ جانے کے باعث نیچے گر پڑتی۔ اس وقت خدا جانے کیا حشر ہوتا، کیونکہ لازمی امر تھا کہ اس دھماکے سے نگہبان پجاری کی آنکھ کھل جاتی اور پھر سارا حال بھی منکشف ہو جاتا۔
اس نے سوچا کہ یہ ارادہ ترک کر کے واپس چلا جانا چاہیے۔ لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ کہ تمام محنت اکارت جاتی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے وہی بے چینی، وہی جان لیوا اضطراب، بھلا وہ کب ساتھ چھوڑے گا۔ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ لہذا اس نے اپنی ہمت بلند کی۔ استقلال سے کام لیا۔ اور اس طرح جیسے بلی چوہے پر جھپٹا مارتی ہے، اس نے دیوی کے گلے میں سے اپنا پیش کیا ہوا ہار اتار لیا۔
اب دوسری مہم مندر سے باہر جانے کی تھی۔ اس نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ آنکھوں کی آخری سوئیاں نکالنے میں غفلت ہو جائے اور حصولِ مقاصد سے محروم رہ جاؤں۔ لیکن خود ہی عقائد کی غیر مدلّل قوت کو بروے کار لا کر اس نے خیال کیا کہ جس پرمیشور نے یہاں تک پہنچنے میں کامیابی دی ہے وہی میری دلی آرزو کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دے گا۔ عقائد خواہ کتنے ہی ناقص اور غیر بنیادی کیوں نہ ہوں، وقت پر عزم کو راسخ کرنے کے لیے کام آ ہی جاتے ہیں۔ بھلا سوچنے کی بات ہے، اگر کوئی شخص سُربالا سے سوال کرتا کہ کیا پرمیشور ہی چوریاں کراتا ہے تو اس کے پاس اپنی ناقص منطق کا کیا جواب ہوتا۔
چنانچہ اندر داخل ہوتے وقت اس نے جس احتیاط سے کام لیا تھا، اسی طرح آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر دبے پاؤں باہر نکل گئی۔ اور صبح ہونے کے بعد بھی پجاری کے فرشتوں کو علم نہ ہوا کہ رات کے وقت مندر میں چوری ہو گئی ہے۔ کیونکہ پھولوں کا معمولی ہار کچھ ایسی زیادہ وقعت نہیں رکھتا کہ اس کی غیر موجودگی کسی کی نظر میں کھٹکے۔
(7)
وہ ایک بار پھر ڈرتی سہمتی اسی راستہ سے واپس پلٹی جس پر سے خوف و ہراس کے عالم میں گذری تھی۔ اس کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ بدن کے ایک ایک عضو میں کپکپی تھی۔ وہ اپنے جھونپڑے کے سامنے سے ہو کر منوہر کے مکان پر پہنچی کیونکہ وہ زیادہ دور نہیں تھا۔ ہر قدم پر ہیجان جذبات میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ جب اس نے دروازے کی جھری کے قریب آنکھ کی اور جھانک کر صحن میں دیکھا تو اس کے جوش میں کبھی نہ ساکن ہونے والے سیماب کی طرح ایک جان سوز تڑپ پیدا ہو گئی۔ شاید وہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب میں بھی جوان ہو گئی ہوں۔
اس نے دیکھا کہ منوہر اپنی شریک حیات کے گلے میں بانہیں ڈالے محوِ خواب ہے۔ اس نے ایک لمحہ کے لیے سوچا کہ اب کیا تدبیر کرنی چاہیے۔ دستک دے کر انھیں بیدار کر دینا نہ صرف زبردست حماقت بلکہ ایک حد تک غیر موزوں امر بھی ہے۔ اور بغیر تکمیلِ مقصد کے واپس چلے جانا گویا ہلاکت آرزو اور پامالیِ تمنا کے مترادف تھا جس میں شکستگیِ جذبات کی تھوڑی سی تلخی بھی شامل ہو اور یہ کوئی شخص بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ لہذا اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں تھی کہ باہر سے کھڑے ہو کر ہار کو صحن میں اس طرح پھینکے کہ وہ منوہر کے اوپر جا پڑے۔ لیکن اندیشہ تھا کہ اندازہ ٹھیک نہ ہو اور وہ کسی دوسری طرف جا گرے، یا ممکن ہے بالا خانہ کی چھت پر جا پڑے۔ وہ سوچتی رہی، سوچتی رہی یہاں تک کہ مرغانِ سحر کے چہچہے اسے سنائی دینے لگے۔ صبح کی سفیدی نمودار ہونے والی تھی۔ وہ گھبرا گئی، پریشان ہوئی۔ اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگی کہ تمام وقت سوچنے ہی میں گذار دیا۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ تھوڑی دیر میں لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو جائے گی۔
اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور ہاتھ بڑھا کر دیوار کے اوپر سے ہار صحن میں پھینک دیا۔ اس کے گرنے کی آواز سنائی دی لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں۔ وہ اب بالکل ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی۔ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔ اس کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ کہیں پتا جی بیدار نہ ہو جائیں۔ اگر انھوں نے دیکھ لیا کہ سربالا کی چارپائی خالی ہے تو صدہا قسم کے شکوک ان کے دل میں پیدا ہو جائیں گے۔ کبھی خیال کریں گے کہ لڑکی آوارہ ہو گئی ہے، کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ کبھی سوچیں گے کہ شاید پریشانیوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی، قریب کی ندی میں جا کر ڈوب مری۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئے گی کہ وہ محبت بھرے دل کے ساتھ بارگاہِ عشق میں اپنا پہلا خراج پیش کرنے گئی ہے۔ کیونکہ انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کے حافظہ کی کمزوری رفتہ رفتہ سابقہ رنگینیوں کے نقوش کو لوحِ قلب سے مٹاتی جاتی ہے۔
وہ ہانپتی کانپتی اپنے جھونپڑے میں پہنچی اور اطمینان کا سانس لیا یہ دیکھ کر کہ ابھی بوڑھا باپ بیدار نہیں ہوا ہے۔ اس نے جلدی سے منہ دھویا، آنکھیں صاف کیں تاکہ بے خوابی کے باعث ان کے اندر نمودار ہو جانے والے سُرخ ڈورے غمازی نہ کرنے لگیں۔
اس کام سے فارغ ہو کر اس نے اپنی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی چمن میں چلی گئی۔ نہیں معلوم فریبِ نظر تھا یا کیا۔ آج کائنات کا ایک ایک ذرہ اسے درخشاں نظر آ رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا گذشتہ رات ہی سے موسمِ بہار شروع ہوا ہے اور اس سے قبل خزاں تھی۔ اس نے دیکھا کہ غنچے غیر معمولی طور پر زیادہ متبسّم ہیں، شاید اس کی کامرانی پر ہنس ہنس کر مبارکباد دے رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کے پروں میں قوس قزح کا رنگ بھر گیا تھا اور بازوؤں میں بجلی کی سی قوت پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ بادلوں سے ترکیب پانے والے پہاڑوں کی وادیوں میں فرشتے رقص کرتے اور گاتے دکھائی دیے۔ وہ کبھی کبھی کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس وقت میرا ہی وجود اس آسمانی مخلوق کے لیے موضوع رقص و موسیقی بنا ہوا ہے۔ لیکن آخر یہ تمام تغیّر نظامِ قدرت میں کس وجہ سے ہے اور کائنات کے ذرے کس کے دل کی دھڑکن اور کس کی ضرباتِ نبض کے ساتھ ہم آہنگ ہو جانے کے لیے بے تاب ہیں؟
قبل اس کے کہ اس کا ذہن ان سوالات کے جواب کی تحقیق کرے، شرم کا پسینہ اس کے چہرے پر نمودار ہو گیا۔ لجاتے ہوئے اس نے اپنا دامن سنبھالا اور گلاب کی پتیوں کو چٹکی میں مسلتی رہ گئی۔ افسوس ہے کہ اس فضاے نگہت و صباحت میں اس رنگِ رُخ کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہاں کوئی اتنا بھی نہیں تھا کہ اگر اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائے تو اس تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کر کے اظہارِ ہمدردی کرنے لگے۔
(8)
شام کے وقت حسبِ معمول وہ گجرے وغیرہ لے کر چوک گئی۔ لیکن آج شاید سُرمہ در گلو تھی، اس کی آواز ہی نہ نکلتی تھی۔ اور اگر نکلتی بھی تو اس پرندہ کی طرح جو یکایک اسیرِ دام ہو جانے کے باعث چہچہانا بھول گیا ہو۔ اس نے گاہکوں کے ساتھ بے التفاتی برتی۔ وہ معمولی ہار کی قیمت اس قدر زیادہ بتاتی کہ لوگ بگڑ کر چلے جاتے۔ دو ایک منچلے نوجوانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پھولوں کا مول کر رہی ہو یا خود اپنے حسن کا۔ اور اگر سُربالا اپنے خیالات میں محو نہ ہوتی تو یقیناً یہ ناشائستہ الفاظ اسے برہم کر دیتے۔
وقت گذرتا گیا اور ایک پیسے کی بھی بونی نہ ہوئی۔ لیکن اس نے واپس جانے کا نام نہ لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کی منتظر ہے۔ اور یہ تھی بھی حقیقت، کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد منوہر آن پہنچا۔ اسے دیکھ کر سُربالا نے زمین پر ٹوکری رکھ دی اور خود اس طرح علاحدہ کھڑی ہو گئی گویا نظر بچا کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ منوہر نے ایک گجرا اٹھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں اس طرح آنکھیں ڈال کر گھورا کہ سُربالا کی نوکِ مژگاں پر جمے ہوئے آنسو جو نہیں معلوم کب تڑپ کر باہر نکل آئے تھے، ضبط کی تاب نہ لا سکے۔ اس نے یہ سب کچھ دیکھا مگر ظاہر کیا گویا کچھ نہیں دیکھا۔ اور بے شک مصلحت اسی میں تھی۔ کیونکہ اگر وہ معمولی طور پر اتنا ہی پوچھ لیتا کہ “سُربالا! تم کیوں رونے لگیں؟” تو نہیں کہا جا سکتا کہ خود اس کے جذبات کی بر انگیختی اس کے نظامِ ہستی میں کس قسم کی تبدیلی پیدا کر دیتی۔
منوہر نے گجرا ٹوکری میں رکھ دیا اور کسی قدر طنز کے ساتھ کہا:
“اونھ! یہ تو کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ رات ہم سو رہے تھے تو کسی آسمانی دیوی نے ہمارے اوپر ہار ڈال دیا۔ وہ اتنا عمدہ اور اتنا اچھا تھا کہ تعریف نہیں کی جا سکتی۔ سمجھیں سُربالا؟ مجھے یقین ہے کہ آج بھی کوئی دیوی ہار پھینک جائے گی۔ لہذا میں تم سے کیوں خریدوں؟ ٹھیک ہے نا؟”
سُربالا کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، سواے اس کے کہ اپنے آنسوؤں کی جھڑی میں ایک مصنوعی تبسّم کی جھلک پیدا کر دے۔
منوہر چلا گیا اور وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ کر بھی کیا سکتی تھی۔ نسائیت مانع تھی۔ اتنی ہمت نہ تھی کہ بھاگ کراس سے کہتی کہ “رات کو ہار پھینکنے والی دیوی میں ہی ہوں”۔ چند منٹ تک وہ گُم سُم بنی کھڑی رہی اور اس کے بعد واپس لوٹ گئی۔ حسبِ معمول باپ نے پوچھا کہ پھول کتنے بیچے ہیں۔ اس نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے فوراً کہہ دیا کہ سب بک گئے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کو پہلے ہی سے باغیچہ میں ایک محفوظ جگہ چھپا آئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ باپ تو روپے پیسے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ وہ خود ہی ہر قسم کے آمد و خرچ کی مختار تھی۔ اگر وہ یہ کہہ دیتی کہ آج چوک پر پھول کی ایک پتی بھی فروخت نہیں ہوئی تو بہت ممکن تھا کہ دوسرے دن وہ اسے نہ جانے دیتا، اس خیال سے کہ اب پھولوں کی مانگ کم ہو گئی ہے۔
(9)
رات کے خاموش لمحے گذرتے چلے جا رہے تھے مگر سُربالا کو کسی عنوان نیند نہ آتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود اس ہی کی مرضی نہیں ہے کہ آنکھ لگے۔ وہ بیدار رہنا چاہتی تھی۔ وہ ایک مخصوص وقت کی منتظر تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ منوہر کے قول کے مطابق میں آج پھر ایک دیوی بن کر چین سے سونے والوں پر پھولوں کی بارش کروں گی۔ چنانچہ جب بارہ بجے کے گھنٹے کی بھیانک آواز نے رات کے طلسمِ سکوت کو توڑا تو وہ فوراً اپنی چارپائی سے کھڑی ہو گئی۔ باپ کے خراٹوں کی تیز آواز آسودگیِ خواب کا تسلی بخش ثبوت تھی اور ظاہر تھا کہ بازاروں میں آمد و رفت کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہوگا۔
وہ سب سے پہلے باغیچہ میں گئی اور وہاں پوشیدہ ٹوکری میں سے چند گجرے نکال کر دامن میں چھپا لیے۔ وہ کچھ دیر ٹھٹکی، ٹہری اور گہرا سانس لے کر ہر چیز پر مسرت کی نظر ڈالی، پھر چل پڑی۔ کچھ ایسے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ گویا ایک مخصوص منزلِ مقصود اس کی نظر کے سامنے نہیں ہے۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نبض تیز تر تھی۔
وہ چوروں کی طرح چھپتی چھپاتی اور گلیوں میں دکانوں کے ساتھ لگے ہوئے تختوں کے نیچے سونے والے کتوں سے کتراتی، منوہر کے مکان کے قریب پہنچ گئی۔ پہلے سوچا کہ ہاتھ بڑھا کر گجرے پھینک دوں، مگر فوراً خیال آیا کہ جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ منوہر کس شان سے سو رہا ہے۔ چنانچہ اس ارادے کے ساتھ وہ دو قدم اور آگے بڑھی، چاہتی تھی کہ جھری میں سے جھانکے کہ اچانک کواڑ کھل گئے۔ منوہر اُس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ سر سے پاؤں تک کپکپا اٹھی، روئیں روئیں میں تھرتھری تھی۔ دل کی دھڑکن میں اختلاج کی حد تک اضافہ ہو گیا۔ ہر شے اس کی نگاہ میں رقص کرتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ پاؤں شل ہو گئے۔ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں اور ہاتھ آنچل سنبھالنے میں مصروف تھے۔ چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔
آخر منوہر نے طلسمِ سکوت کو توڑا:
“سُربالا! کیا تم میرے پاس آئی ہو؟ مجھ سے کوئی ضروری کام ہے؟ اور یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے؟”
یہ کہہ کر اس نے ساری کے نیچے سے سُربالا کا وہ ہاتھ پکڑ لیا جس میں گجرے تھے اور انھیں دیکھ کر اظہارِ تنفّر کے ساتھ کہا:
“میں تو آج ایک بھی پھول نہیں خریدوں گا، اگر خریدنے ہوتے تو چوک پر ہی لے لیتا۔ ہاں اگر تم بطور تحفہ پیش کرو تو میں قبول کر سکتا ہوں۔”
سُربالا کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور اگر منوہر نہ سنبھالتا تو یقیناً سب پھول زمین پر گر جاتے۔ لیکن وہ منہ سے نہ بولی۔ اس کی زبان بند ہو گئی تھی۔ اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھر منوہر بولا: “سُربالا! اندر آ جاؤ۔ دہلیز پر کھڑے رہنا مناسب نہیں ہے۔ میری بیوی میکے چلی گئی ہے، آج گھر میں کوئی نہیں ہے۔”
پہلے تو وہ اندر جانے کے لیے تیار ہو گئی مگر یہ سن کر کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، پھر ٹھٹک کر رہ گئی۔ “گھر میں کوئی نہیں ہے” ایک تیز اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ یہ جملہ اس کی زبان سے صداے بازگشت کی طرح نکل گیا۔
“آ بھی جاؤ، کیا حرج ہے۔ تمھاری موجودگی اس تنہائی کو دور کر دے گی۔”
یہ کہہ کر اس نے سربالا کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گیا۔ وہ اس طرح چل رہی تھی گویا اس میں جان ہی نہیں ہے، بلکہ بجلی کی قوت لوہے کی مشین کو چلا رہی ہے۔ صحن میں پلنگ بچا ہوا تھا لیکن چادر پر ایک بھی شکن نہیں تھی جس سے ظاہر تھا کہ اس وقت تک کوئی اس پر نہیں لیٹا۔ وہ چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ مگر منوہر نے گھسیٹ کر اپنے قریب بٹھا لیا۔
“مجھے معاف کر دو سُربالا! میری غلطی تھی کہ میں نے تمھاری محبت کو ٹھکرا دیا۔ لیکن کل سے محسوس کر رہا ہوں کہ تمناؤں میں تجدید ہو رہی ہے۔ اب تم میری ہو اور میں تمھارا۔ لو میرے ہاتھ سے یہ کنٹھا پہن لو۔”
“نہیں نہیں، میں ہرگز نہیں پہنوں گی۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ پھول صرف سہاگنوں کے لیے ہوتے ہیں اور میری ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ میں کس طرح پہن لوں۔ کیا تم نہیں جانتے؟”
“میں جانتا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں لیکن غالباً تم یہ نہیں جانتیں کہ آج کی رات تمھارے لیے سہاگ ہی کی رات ہے۔ اس لیے اپنے پریمی کے ہاتھ سے پھول پہننے میں تامّل نہ کرو۔”
(10)
منوہر نے پھونک مار کر چراغ گل کر دیا۔ اس کی رہی سہی مدھم روشنی بھی غائب ہو گئی۔ سُربالا کو پہلے تو یقین نہ آتا تھا لیکن نمودِ سحر سے قبل اسے بھی تسلیم کر لینا پڑا کہ بے شک وہ رات اس کے لیے سہاگ کی پہلی رات تھی۔
خواب رنگیں
(مکتوب جو ایک خودکشی کرنے والے کی نعش کے ساتھ ملا)
محترمہ!
آپ کا خیال ہے کہ میں اس موضوع پر اپنی راے کا اظہار کرنے میں چرب زبانی سے کام لے رہا ہوں یا بالکل جھوٹ بول رہا ہوں۔ آپ یقین نہیں کر سکتیں کہ دنیا میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو تمام عرصۂ حیات میں کبھی مبتلاے محبت نہیں ہوا۔ تاہم میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی محبت نہیں کی۔ اس کی وجہ؟ درحقیقت میں خود بھی نہیں جانتا۔ میں نے کبھی اپنے دل کو اپنی عقل و دانش کے مقابلے میں تیز رفتاری کا موقع نہیں دیا اور نہ کبھی ایک عورت کی محبت میں اس جنون کی حد تک گرویدہ ہوا کہ اپنی خودی کو اس کے حلقۂ دام میں محصور کر لوں۔ آپ کی صنف کے کسی فرد کو اتنی قدرت حاصل نہیں ہوئی کہ اس نے مجھ کو رلایا ہو یا مبتلاے رنج و آلام کیا ہو۔ میں نہ ان راتوں سے آشنا رہا جن کی بیداریوں میں اختر شماری کی جاتی ہے اور نہ اس نمود سحر سے واقف ہوں جس کی خوشگوار فضا میں محرومِ لذتِ کام و دہن رہنا پڑتا ہے۔ امید و بیم میرے لیے الفاظ بے معنی ہیں۔ کیونکہ میں نے کبھی محبت نہیں کی۔
اکثر میں خود متعجب ہوتا ہوں کہ آخر میرے ساتھ ایسا اتفاق کیوں نہیں ہوا۔ اس کا تسلی بخش جواب صرف ایک ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ میں عورت کی ذہنیت سمجھنے میں اتنا اچھا نقاد ہو گیا ہوں کہ کسی شخصیت سے اثر پذیر ہو کر مرعوب نہیں ہو سکتا۔ محترمہ! میری اس صاف گوئی پر اظہارِ برہمی نہ کریں۔ آپ جانتی ہیں کہ ہر متنفس کی ایک مادی شخصیت ہوتی ہے اور دوسری روحانی۔ اور لازمی طور پر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی سے صادق اور پُر خلوص محبت کرنے کے لیے محبوب کی ذات میں ان دونوں شخصیت کا باہمی اجتماع اور ہم آہنگ ہونا اشد ضروری ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ حسن امتزاج شاذ و نادر ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات آپ دیکھیں گی کہ ایک عورت ظاہری اعتبار سے پیکر حسن و جمال اور مجسمۂ شباب و رعنائی ہے لیکن بلحاظ فطرت و ذہنیت ایک قابلِ نفریں دختر اہرمن۔ اور کبھی یہ بھی مشاہدہ میں آئے گا کہ ایک عورت اخلاق برگزیدہ و اوصاف حمیدہ کی تقدس مآب دیوی کہلائے جانے کے لائق ہے لیکن جسمانی موزونیت کے لحاظ سے اس کی کوئی خوبی کسی کو اپنی طرف مائل کر لینے کے لیے مقناطیسی کشش نہیں رکھتی۔
محبت کرنے کے لیے مرد کو اندھا ہو جانا ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ صرف جذبہ الوہیّت کے ساتھ اندھا دھند محبت کے جال میں جا گرے اور محبوبہ کے نقائص و عیوب کی طرف سے آنکھوں پر پٹی باندھ لے۔ وہ اس کے ساتھ دورانِ گفتگو میں سنجیدہ موضوع کو زیرِ بحث نہ لائے۔ وہ اس کے نازک لبوں پر صرف مہرِ الفت ثبت کرے اور اسے اپنا بنا لے۔ محبوبہ کی ہرزہ کاریاں اور خیالاتِ باطلہ اس کی نظر میں ایسے معلوم ہوں گویا یہی شانِ حسن اور اقتضاے جمال ہیں۔ خیر! میں اس کور چشمی کا طالب نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان سے لے کر کائنات کے ذروں تک ہر شے کو حقائق کی روشنی میں دیکھوں، نہ کہ اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کے مطابق۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حسین و جمیل لڑکیاں ہی خلافِ توقع بے مہر و وفا ثابت ہوتی ہیں۔ برخلاف اس کے سادہ لوح ہستیاں کبھی مایوس نہیں کرتیں کیونکہ ان سے کسی چیز کی توقع ہی نہیں کی جاتی۔
تاہم عرصہ دراز ہوا۔ مجھے یقین واثق ہو گیا تھا کہ میں گرفتارِ محبت ہوں۔ صرف ایک ساعت کے لیے۔ محض ایک خوشگوار رات میں لیکن سب سے زیادہ فضا اور ماحول میری گرفتاری میں مُمِدّ و معاون تھے۔ مجھے یقین ہے کہ واقعات کی تفصیل سن کر آپ بھی اس ضمن میں میری ہی ہم خیال ہو جائیں گی۔ اچھا سنیے۔
ایک روز شام کے وقت ایک حسین دوشیزہ سے میری ملاقات ہوئی۔ عالی حوصلگی اور جدّت طرازی اس کی فطرت میں داخل تھی۔ لہذا اس نے تجویز پیش کی کہ ہم دونوں تمام شب دریا کی پرسکون سطح پر ایک سفینہ کے آغوش میں بسر کریں۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میں گھر کی چاردیواری میں شب بیداری کو ترجیح دیتا۔ مجھے یہ زیادہ مرغوب ہے۔ تاہم محض دل بستگی کے طور پر میں نے سفینہ میں بیٹھنے کی دعوت قبول کر لی۔
جون کا مہینہ، تقویٰ شکن سہانی رات، خوشگوار چھٹکی ہوئی چاندنی، باد صرصر کے لطیف جھونکے۔ ہم تقریباً دس بجے روانہ ہوئے۔ میں کسی قدر کبیدہ خاطر تھا لیکن میری شریکِ سفر جوش مسرت میں جھوم رہی تھی۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ چپّو اٹھا لیے اور روانگی عمل میں آ گئی۔ دل فریب نظارہ تھا، دریا میں کہیں کہیں خشکی کے ٹیلے ابھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے، ان پر درختوں کی ہریاول اور ان میں قمری و عنادل کے روح پرور چہچہے؛ پانی کی روانی آہستہ آہستہ ہم کو بہاتی رہی۔ ساحل کے قریب دلدل میں مینڈک ٹرّا رہے تھے۔ جھاڑیوں میں ہوا مدھم سروں کا راگ گاتی معلوم ہوتی تھی۔ ہم دونوں پر سہانی رات کی لطیف اور خوشگوار رعنائیوں کا اثر طاری ہوتا گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ صرف ایسے وقت میں زندہ رہنا حقیقی زندگی کے مترادف ہے اور وہ بھی ایک نوخیز، پُر شباب، حسین و جمیل دوشیزہ کے پہلو میں۔
نقرئی چاندنی کی مستی و سرشاری اور اپنی ہم جلیس کے انتہائی قرب کے احساس سے میری رگوں میں تلاطم جذبات اور جوشش ترنگ کی سیمابی کیفیت پیدا ہو گئی۔
“ہم کو اسی طرح بہتے رہنا چاہیے۔” اس نے کہا۔ “آؤ میرے پاس بیٹھ جاؤ اور چپّو ہاتھ سے رکھ دو۔”
میں نے ارشاد کی تعمیل کی۔ اس وقت میں اس کے ہر حکم کو دائرۂ عمل میں لانے کے لیے تیار تھا۔ اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: “مجھے کچھ اشعار سناؤ۔”
میں نے حیل و حجت کرنی چاہی لیکن اس کے اصرار نے مجبور کر دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہر اس شے کو حاصل کرنے پر تُلی ہوئی تھی جس کے ذریعے ہیجانِ جذبات ممکن ہو۔ سہانی رات، نقرئی چاندنی، پُرسکون سطح آب، فضاے شعر وسخن اور ایک جوان مرد اس کے پہلو میں۔ محض ستانے کی غرض سے میں نے غلط سروں میں گانا شروع کر دیا اور اشعار بھی فارسی کے منتخب کیے جن کا سمجھنا اس کے لیے کسی قدر دشوار تھا لیکن مجھے سخت تعجب ہوا جب میری بے ہودگی پر ملامت کرنے کی بجاے وہ فہیمانہ طور پر اپنے سر کو جنبش دیتی رہی۔ گویا خوب سمجھ کر داد دے رہی ہے اور ساتھ ہی دبی زبان سے کہا: “یہ الفاظ صداقت سے کس قدر لبریز ہیں۔”
میں ورطۂ استعجاب میں غرق تھا۔ حقیقتاً اتنی سمجھدار عورتیں کہاں ہیں۔ ہمارا چھوٹا سفینہ پانی پر چھائے ہوئے درختوں کے سایہ میں گذر رہا تھا۔ میں نے اپنی ہم جلیس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی آغوش میں لے لیا اور آہستہ آہستہ اپنے لبوں کو اس کی پیشانی تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن فوری غصہ کے ساتھ اس نے جواب دیا:
“بس مجھے تنہا چھوڑ دو، تم ہر ایک چیز میں بے لطفی پیدا کر رہے ہو۔”
میں نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کو منا لوں لیکن اس نے علاحدہ ہو جانے کے لیے بہت جد و جہد کی اور پانی پر چھائے ہوئے درخت کی ایک شاخ کو اس قدر گھبراہٹ کے ساتھ پکڑا کہ مجھے گمان ہوا بس اب سفینہ الٹ جائے گا اور ہم دونوں پانی میں جا گریں گے۔ اس نے کہا:
“اگر تم پانی میں گر پڑے تو یہ سزا تمھارے لیے مناسب ہوگی۔ مرد کس قدر اجڈ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ چاہتے ہیں کہ شکستِ خواب کر کے دوسری ہستی کو بیدار کر دیا جائے۔ اور ہاں تم تو ابھی مجھ کو کچھ اشعار سنا رہے تھے۔”
اس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ میں خاموش تھا۔ پھر اس نے کہا: “ہمیں کچھ اور دور چلنا چاہیے۔”
میں نے خیال کرنا شروع کیا کہ واقعات غیر موزوں سے ہوتے جا رہے ہیں اور یہ فکر بھی دامن گیر ہوئی کہ تمام رات اسی طرح ضائع ہوگی۔ میری ہم جلیس نے مجھ سے کہا:
“میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں۔”
“بہتر۔” میں نے جواب دیا۔ “بشرطیکہ میں اسے پورا کر سکوں۔”
“اچھا وعدہ کرو کہ تم بالکل خاموش اور نیک بنے رہو گے۔ اگر میں تم کو اجازت دوں۔”
“کیا؟”
“اگر میں تم کو اجازت دوں میرے قریب پہلو میں لیٹ جاؤ سفینہ کے زیریں حصہ میں۔ اور میری طرح آسمان پر چمکنے والے ستاروں کا مشاہدہ کرتے رہو۔”
میں نے محسوس کیا کہ صورت حال مضحکہ خیز ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی جواب دیا:
“بہتر جو آپ کی مرضی ہو۔”
“تمھیں معلوم ہونا چاہیے” اس نے وضاحت کی۔ “تم کو ہرگز اجازت نہیں ہوگی مجھے چھونے کی، مجھے پیار کرنے کی۔۔۔یا۔۔۔یا۔۔۔یا مجھے چھیڑنے کی، مجھے ستانے کی۔”
“میں وعدہ کرتا ہوں۔”
“اور اگر تم نے ذرا بھی حرکت کی تو میں سفینہ کو الٹ دوں گی۔”
کس قدر واہیات بات تھی۔ ہم قریب لیٹے رہے۔ سفینہ کی خفیف جنبشوں کا ترنم اور وہ نغمۂ حیات جو ساحل کی طرف سے مدھم سروں میں سنائی دے رہا تھا، ہمارے لیے لوری بن کر رہ گیا۔ اور عین اس لمحہ اپنی تمام زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے محبت کرنے کی آرزو میرے دل میں پیدا ہو گئی۔ میں نے چاہا کہ اپنے وجود مطلق کے اسرار و رموز کو کسی پر منکشف کر دوں اور بطور خراج اسے پیش کر دوں اپنے تخیل کا پرتو، اپنے جسم کی موزونیت، اپنے قلب کی پر خلوص تپش، اپنی حیات کی سر مستیاں اور ہر وہ چیز جو مجھ سے متعلق ہو۔
اچانک میری ہم جلیس نے خواب کی سی دنیا میں ایک ایسی آواز میں جو بہت دور سے آ رہی ہو، مدھم سروں میں کہا:
“ہم کہاں ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے ہم کرہ ارض کی کشش ثقل سے نکل چکے ہیں۔ سرحد ادراک سے بھی پرے ہیں۔ کتنا پُر لطف سماں ہے۔ آہ! کاش! تم مجھ سے تھوڑی ہی سی محبت کرتے۔”
میرے دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیا اور میں کوئی جواب نہ دے سکا۔ معلوم ہوتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ ایسا ہو گیا ہے۔ پھر بھی میرے اندر کوئی رکیک جذبہ بیدار نہیں ہوا۔ میں نے صرف محسوس کیا کہ میں کامل سکون کی دنیا میں ہوں اسی مقام پر، اس حسینہ کے پہلو میں۔ اور بس یہ احساس ہی میرے لیے کافی تھا۔ اسی طرح ہم بہت دیر تک لیٹے رہے، بہت دیر تک، جنبش کیے بغیر۔ ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ میں ہاتھ لے لیا دلنوازانہ طریقہ پر، خاموشی کے ساتھ۔ کوئی نا معلوم قوت ہم پر حاوی تھی غیر محسوس طریقہ پر۔ ہمارے درمیان ایک رشتہ قائم ہو گیا پُر اسرار، الوہیانہ، تعجب انگیز۔ آخر وہ کیا تھا۔ شاید اسی کا نام محبت ہو۔
سکوتِ شب کا طلسم صبح کاذب کی نمود سے ٹوٹ گیا۔ تقریباً تین بجے کا عمل ہوگا سفینہ کسی شے سے ٹکرایا۔ وہ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ میں بحرِ تحیر میں غرق ہو گیا۔ آسمان کی تمام سطح سرخ گلابی اور عبیر آلود ہونے لگی۔ بادل کے شگافوں میں سے نورِ سحر پھوٹنے لگا۔ دریا کا پانی خوننابہ بن گیا اور اس کے دونوں ساحل آتش گرفتہ معلوم ہونے لگے۔
میں اپنی ہم جلیس کی طرف جھک گیا تاکہ اس دلفریب منظرِ نور و ضیا سے لطف اندوزی حاصل کرنے میں اسے بھی شریک کر لوں لیکن مجھ سے یہ نہ ہو سکا۔ بلکہ میں خود اس کے پرتوِ جمال کی آئینہ سامانی میں محو ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ وہ بھی شفق کی طرح گل تمثال تھی۔ اس کے رخسار، اس کے لب، اس کا تبسم، اس کا لباس۔ وہ پھولوں کی شہزادی معلوم ہوتی تھی، اور عین اس وقت میں اسے “صبح کی دیوی” سمجھنے لگا۔
وہ نزاکت کے ساتھ اٹھی اور اپنے لب مجھے پیش کر دیے۔ میں اس کی طرف بڑھا، پیش قدمی اور انبساط کے کیفِ ارتعاش میں ڈوبا ہوا، گویا میں ایک آستانۂ قدوسی کا بوسہ لینے والا تھا۔ ایک ایسے خواب کا بوسہ لینے والا جو پیکر نسائی میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اس نے مجھ سے کہا:
“آہ! میرے محبوب! تمھارے ریشمی بالوں میں ایک کیڑا الجھ رہا ہے۔”
شاید اس کے تبسم کی یہی وجہ تھی۔ میں نے اپنے سر پر ایک ضرب سی محسوس کی اور ایسا معلوم ہوا گویا نمود سحر سے قبل ہی فضا کی تمام رعنائیاں دور ہو گئی ہیں اور طلسم خواب کے ٹوٹتے ہی میں اس دنیاے آب و گِل میں آ گیا ہوں اور بس۔
یہ محض ابلہی اور طفل تسلی ہے جو چاہو سمجھو لیکن یہی وہ معمولی سی بات ہے جو انسان کو دل برداشتہ کر دیتی ہے اور سب سے زیادہ دلربا ہستی سے متنّفر۔
بہرحال اس دن سے آج تک میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔
افسانہائے عشق
قالب انساں ازل میں عشق کی خاطر بنا
اس نشیلی مے کے لائق بس یہی پیمانہ تھا
انسان کی تخلیق میں علاوہ ان عناصر اربعہ کے جن کا تجزیہ کیمیاوی طریقہ پر کیا گیا ہے، محبت کا عنصر بھی شامل ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی میں یہ جز کم ہے کسی میں زیادہ۔ بعض میں نشو و نما پانے سے قبل فنا ہو جاتا ہے اور بعض میں نشو و نما پا کر اس قدر زیادتی حاصل کرتا ہے کہ دوسرے عناصر بھی اس سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت انسان کو ایک ایسا درجۂ امتیاز حاصل ہو جاتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس دنیاے آب و گل کو ٹھکرا کر ایک جدید نظامِ کائنات قائم کر دے۔
بہت عرصہ ہوا عہدِ طفلی کا ذکر ہے ایک رات میں نے دادا جان سے کہا: “دادا ابا! کوئی کہانی سناؤ۔”
پہلے انھوں نے ٹال دینا چاہا مگر میرے اصرار پر کہنے لگے:
“اچھا سنو۔ کوہ قاف کی پریوں میں ایک پری تھی جس کا نام نیلم پری تھا۔ ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کو نکلی، دور ہوا میں اڑتے اڑتے اپنے پرستان کی حد سے باہر نکل گئی۔ اچانک اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی اور ایک شاہزادہ کو دیکھا جو جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ پری نے پہلی مرتبہ انسان کی شکل دیکھی تھی، وہ اسے دیکھتے ہی عاشق ہو گئی اور اپنی سہیلیوں سے کہا: کسی طرح اس آدم زاد کو بے ہوش کر کے میرے محل میں لے چلو۔ چنانچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
یہاں تک کہ نیند آنے سے قبل کہانی ختم ہو گئی۔
چند سال بعد میں مدرسے کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ ایک ہم جماعت نے کھڑے ہو کر کتاب کھولی اور پڑھنا شروع کیا:
“حاتم نے منیر شامی کو بہت کچھ دلاسہ دے کر کہا کہ تمھارے جذباتِ محبت نے میرے دل پر بہت اثر کیا۔ خدا کرے تمھاری دلی مراد پوری ہو۔ میں انتہائی کوشش کروں گا کہ حسن بانو کے تمام سوالات کا جواب دے کر تمھارے ساتھ اس کی شادی کرا دوں۔ میری واپسی تک۔۔۔۔۔”
حتیٰ کہ وقت ختم ہو گیا مگر قصہ کی تکمیل نہ ہوئی۔ اس لیے باقی حصہ دوسرے دن کے لیے ملتوی کر دیا۔
مدرسہ کی تعلیم کے بعد کالج کا زمانہ آیا۔ اب خیالات میں کسی قدر زیادہ پختگی اور مطالعہ میں وسعت پیدا ہو چلی تھی۔ بزمِ ادب کا سالانہ جلسہ ہوا۔ ناظم مجلس نے زبردستی میرا نام بھی مقررین کی فہرست میں شامل کر دیا۔ “فلسفۂ محبت” پر اظہار خیال کرنے کی فرمائش ہوئی۔ میں نے شاعرانہ موشگافیوں سے قطعاً خالی الذہن ہو کر نہایت محققانہ طریقہ پر ایسی موثر تقریر کی کہ سامعین عش عش کرنے لگے۔ میں نے فلاسفۂ یونان کے خیالات زریں بھی پیش کیے اور حکماے عرب کے غیر فانی اقوال کا حوالہ بھی دیا تاکہ بیان میں زیادہ زور پیدا ہو جائے۔ لیکن جب میں اس نقطہ پر پہنچا کہ “محبت کیوں ہو جاتی ہے؟” تو میرے حواس گم ہو گئے۔ اس تنقیح کے جواب کو فلسفہ کی روشنی میں، جس کے مہمل نظریے عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، پیش کرنا تضییع اوقات تھا اور اگر میں یہ کہہ دیتا کہ اس کا جواب صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب کہ قسام ازل کی طرف سے زبان کو بینائی یا آنکھوں کو گویائی ان قوتوں کے علاوہ نصیب ہو جائے جو پہلے سے ان کو ودیعت کی جا چکی ہیں تو شاید لوگ اسے بھی شاعری سمجھتے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے۔
ایک سہانی رات تھی، تھیٹر ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا تھا، تل دھرنے کی جگہ نہ تھی کہ یکایک موسیقی کی ایک دلنواز لَے کے ساتھ پردے اٹھے اور لیلیٰ مجنوں کا ڈراما شروع ہو گیا۔ ہندوستان کی ایک مایہ ناز ایکٹرس ہیروئن کا پارٹ کر رہی تھی۔ زمانۂ مکتب سے آغاز محبت، جذبات صادق کی بتدریج ترقی، اضطراب مسلسل کی دائمی سکون کوشی، والدین کی ضد، عزیز اقارب کے ظلم و ستم، رسم و رواج کی پابندیاں، آرزوؤں کی پامالی، خون کے آنسو، فراق کے صدمے، جنگل کی لامتناہی وسعتوں میں وحشی جانوروں کے ساتھ بود و باش اور آخرکار ناکامیِ عشق کا المناک انجام۔ غرض یہ کہ صبح کاذب کے نمودار ہونے سے قبل سب کچھ ہوا اور ہو کر رہ گیا۔
ایک روز بیٹھے بیٹھے جی میں آئی کہ لاؤ ہم بھی کوئی افسانہ لکھیں۔ سینکڑوں ناولوں کا مطالعہ کیا تھا، انگریزی رسائل میں بے شمار افسانے پڑھے تھے، کچھ خیال کہیں سے لیا کچھ کہیں سے، یہاں تک کہ ایک نیا پلاٹ تیار ہو گیا۔ “افسانۂ محبت” اس کا عنوان قائم کیا، حسن و جمال کی نیرنگیوں سے قطعی ناواقف، عشق و محبت کے سحرِ حلال سے نا آشناے محض، لوگوں سے سنا تھا، کتابوں میں پڑھا تھا کہ ایک کیفیت کا نام ہے اور دوسرا حشر جذبات کا۔ انھی سُنی سنائی، پڑھی پڑھائی باتوں کا اعادہ اپنے الفاظ میں کر دیا، افسانہ مکمل ہو چکا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ شاعر تلمیذ الرحمٰن ہوتا ہے اور شاعری ایک ودیعتِ خاص ہے جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی، لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، طبیعت موزوں ہونی چاہیے۔ کچھ عرصہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کیا اور پھر حسن و عشق، گل و بلبل، آہ و فغاں، شمع و پروانہ، وصل و ہجر، شراب و ساقی وغیرہ کو دیگر الفاظ کے امتزاج سے مختلف پیرایہ میں بیان کرنا شروع کر دیا۔ اب مجھ ہی کو دیکھ لیجیے کہ دل کے معمولی جوش و ولولے کی بنا پر شاعر بن بیٹھے، خواہ جذبات کے ماتحت کسی حسینہ کی طرف دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ہو مگر اس فن لطیف کے طفیل نت نئے معشوق زینت آغوش ہونے لگے۔
مناظرِ قدرت کی نقاشی میری زندگی کا بہترین مشغلہ بن گئی تھی۔ ایک روز بارش کے اختتام پر جب کہ باد و باراں کا طوفان مضمحل ہو کر سکون و طمانیت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں دریا کے کنارے ٹہلنے چل دیا۔ خیال تھا کہ ضرور کوئی دلفریب منظر فردوسِ نگاہ بن جائے گا اور موے قلم کے وسیلہ سے اس کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر لوں گا۔ ابھی چند لمحے بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ فضا میں نغمے منتشر ہو کر ایک تموّج پید اکرنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ ایک حسینہ ہاتھ میں بربط لیے ساحل کے قریب بیٹھی گا رہی ہے۔ موسیقی کا یہ کمال کہ سننے والوں کی روح بھی ان لطیف ترانوں پر تصدّق ہو جانے کے لیے ایک بار تڑپ اٹھے۔ وہ سامعہ نواز آواز سن کر اس روز زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہوا کہ ساز کے مہین تاروں کو بھی صنفِ نازک کے لحن عبودیت سے اکتسابِ ترنم کا شرف حاصل ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنے راگ کی مقناطیسی قوت سے پانی کی روانی کو مسخر کر کے منجمد کر دے۔ یا پھر یہ ہو کہ دریا کے عمق میں سونے والی جل پریاں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر بشکل حباب آب رواں کی چادر سیماب پر ابھر آئیں اور اگر یہ بھی کافی نہ ہو تو کم از کم کششِ ثقل زمین کی طبقات سے نکل کر خود اس کے وجود محترم میں جذب ہو جائے تاکہ کائنات کا ہر ذرہ اس کو مرکز تصور کر کے فضا میں رقص کرتا ہوا اس کے فلک پیما قدموں میں آ گرے۔
ابتدائی دورِ حیات کا بیشتر حصہ چچا زاد بہن جمیلہ کے ساتھ گذرا تھا مگر اس زمانہ میں نہ اس کے اعضا کے اندر کچھ کشش و جاذبیت ہی مستور تھی نہ میرے جسم میں ایک دوسری شے کی جانب کھچ جانے کی صلاحیت۔ ہاں آٹھ سال کی طویل مدت کے بعد چچا پنشن لے کر کلکتہ سے وطن واپس آئے تو اس کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ حسن کی صحیح کیفیات نہ آج تک شرمندۂ الفاظ ہوئی ہیں نہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے میں بھی یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کی وہ کون سی ادا تھی جس نے بیک نظر میرے دل کو موہ لیا۔ یہ سچ ہے کہ محبت کا تعلق نفس سے نہیں بلکہ صرف دل سے ہے مگر بیداری جذبات کے بغیر اس منزل میں گامزن ہو جانا غیر ممکن ہے۔
اس کی آنکھوں کی وحشت اور انداز جنوں سے ظاہر تھا کہ وہ کسی شے کی تلاش میں خود اپنی ہستی کو گم کر دینا چاہتی ہے۔ افق رُخ پر پھیل جانے والی شفق غمازی کر رہی تھی کہ اس کی رگوں میں دوڑنے والے خون کے اندر سیمابی کیفیت پیدا ہو چلی ہے۔ ہیجان تنفس سے سینہ کی سطح کا نشیب و فراز صاف بتا رہا تھا کہ اس کے میناے شباب دوسری صنف کے ساتھ تبادلۂ صہبا کے لیے بے تاب ہیں۔
پہلی ہی ملاقات میں اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ ایسی بے گانگی سے دیکھا گویا اس سے قبل شناسائی ہی نہیں تھی، مگر بے گانگی کی یہ ادا ہی ایک ایسی ادا ہے جو بسا اوقات ایک شرح بسیط بن جاتی ہے اور تکلم خاموش سے وہ راز سنا دیا جاتا ہے جس کی سماعت صرف لبوں کے ذریعہ ممکن ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے میرا سب کچھ چھین کر لے گئی۔ مگر ایک ایسی شے دے گئی جو اس سے قبل میرے پاس نہیں تھی۔
غنیمت ہے کہ خود والد صاحب ہی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میری شادی جمیلہ کے ساتھ ہو جائے تو بہتر ہے۔ چچا کے سامنے تجویز پیش کی گئی، جو انھوں نے فوراً منظور کر لی اور ہم دونوں نے عشق کے دیوتا کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہماری داستانِ محبت کو ایک المیہ رومان میں تبدیل نہیں کیا۔
بہت زمانہ گذر گیا، پرسوں رات کا ذکر ہے کہ اظہر میرا پیارا پوتا میرے پاس آیا اور کہنے لگا: “دادا کوئی کہانی سناؤ۔” مجھ میں ضعیفی کے باعث زیادہ دیر بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس لیے پہلے تو ٹال دینا چاہا مگر اس کے اصرار پر میں نے کہا:
“اچھا سنو! کوہ قاف کی پریوں میں ایک پری تھی جس کا نام نیلم پری تھا۔ ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کے لیے نکلی اور ہوا میں اڑتے اڑتے اپنے پرستان کی حد سے باہر نکل گئی۔ اچانک اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی اور ایک شاہزادہ کو دیکھا جو جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ پری نے پہلی مرتبہ انسان کی شکل دیکھی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی عاشق ہو گئی اور اپنی سہیلیوں سے کہا: کسی طرح اس آدم زاد کو بے ہوش کر کے میرے محل میں لے چلو، چنانچہ۔۔۔۔۔۔”
یہاں تک کہ نیند آنے سے قبل کہانی ختم ہو گئی۔
غلط فہمی
پندرہ سال کا طویل عرصہ، قید با مشقت اور وہ بھی وطنِ مالوف سے کوسوں دور، ایک غیر مہذب جزیرہ میں جہاں غم خواری کے لیے نہ دوست احباب تھے، نہ ہمدردی کے لیے عزیز و اقارب۔ پھر اس تمام دوران میں یہ حقیقت اس کے لیے سوہانِ روح بنی رہی کہ جس جرم کی پاداش میں اس کو جلا وطن کیا گیا وہ محض الزام ہے۔ وہ بالکل بے قصور تھا۔ صرف واقعات نے ایسی صورت اختیار کی کہ عدالت اس کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے مجبور ہو گئی۔ قید و بند کی طویل مدت میں اس نے بارہا ارادہ کیا کہ خودکشی کرے۔ کیونکہ ایسی بد رنگ و بے لطف زندگی سے مر جانا بہتر تھا، لیکن امید کی ایک ہلکی سی جھلک اس کو اپنے ارادوں سے باز رکھتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ معینہ وقت گذر جانے کے بعد وہ اپنے عزیز و اقارب میں جا ملے گا۔ مسلسل غم و اندوہ نے اس کے خد و خال کو بالکل مضمحل کر دیا تھا۔ نا موافق آب و ہوا سے اس کی صحت بھی خراب ہو چکی تھی۔ بالوں کا سفید ہو جانا لازمی تھا۔ آنکھوں کی بصارت بھی کسی قدر کم ہو گئی تھی۔ دو چار دانت شکستہ ہو چکے تھے۔ کمزوری کا یہ عالم کہ قدم اٹھاتے ہوئے ٹانگیں لڑکھڑاتی تھیں۔
قید سے رہائی حاصل کرنے کے بعد وہ سیدھا اپنے وطن گیا۔ اسے گلی کوچے یاد تھے۔ اپنا مکان بھی یاد تھا۔ لیکن تلاش کرنے کی زحمت اٹھانی پڑی کیونکہ شہر کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ عمارتیں نئی شان کی تھیں۔ بازاروں کی رونق بڑھ گئی تھی۔ کسی کسی گلی کا نام بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ تاہم وہ دریافت کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔ سڑک پر کھڑے ہو کر اس نے اپنے مکان پر نگاہ ڈالی۔ دیواروں کی شکستگی اور دروازوں کی بوسیدگی میں اسے سینکڑوں افسانے پنہاں نظر ائے۔ اس نے زینہ کی سیڑھیوں کو دیکھا جس پر اپنے مضبوط قدم رکھ کر وہ ہزاروں بار اترا چڑھا تھا۔ لیکن آج اوپر جاتے ہوئے اس کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اب بھی اس کی شریکِ حیات اسی چار دیواری میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے یا نہیں۔ وہ جھجک رہا تھا کہ کہیں غیر کا گھر نہ ہو۔
وہ کھڑا سوچتا رہا۔ آواز دے تو کس کو دے۔ وطن کو خیرباد کہتے وقت اس نے اپنی آرزوؤں کا ثمرہ صرف ایک شیر خوار لڑکی کی شکل میں چھوڑا تھا۔ چند راہ گیروں سے کچھ دریافت بھی کیا مگر مطلب برآری نہ ہو سکی۔ کسی نے ٹال دیا اور کسی نے غیر تسلی بخش جواب دیا۔ مایوس ہو کر اسے کہیں اور چلا جانا چاہیے تھا مگر ایک نا معلوم کشش اسے کھینچ رہی تھی۔ آخر وہ جرات کر کے زینہ چڑھ گیا اس خیال سے کہ اگر جگہ غلط بھی ہوئی تو زیادہ سے زیادہ معافی مانگ لے گا۔ اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔ کوئی سختی کے ساتھ اس سے باز پُرس نہ کرتا۔
اوپر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔ ایک تو مکروہ صورت اور پھر مداخلت بے جا۔ ہر شخص کو تھوڑی دیر کے واسطے خوف زدہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس نے دیکھا ایک عورت سہم کر ایک مرد سے چمٹ گئی ہے۔ گھر میں تیسرا متنفس کوئی نہیں تھا۔ وہ زیادہ قریب پہنچ گیا اور خوب غور سے دیکھنے کے بعد پہچان لیا کہ عورت سواے کملا کے کوئی نہیں۔ لیکن وہ حیران تھا کہ اس کے خد و خال میں فرق کیوں نہیں آیا۔ وہ اسی طرح شگفتہ و شاداب اور خرم و شاد تھی۔ عہدِ شباب کی رنگینیاں ابھی تک اس کے اعضا سے نمایاں تھیں۔ برخلاف اس کے وہ خود بوڑھا ہو چکا تھا۔ اپنی بیوی کو ایک غیر شخص کے ساتھ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ مگر انتقام لینے کی قوت اس کے اعضا سے مفقود ہو چکی تھی۔ وہ خود لڑکھڑا کر گر پڑا۔
اس کی نگاہیں عورت پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک فلسفی کی طرح گذشتہ واقعاتِ زندگی پر غور کرنے لگا۔ وہ کملا کو الفت و محبت کی دیوی سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ تصنع سے کام لیتی تھی۔ عورت بہت زیادہ بے وفا ہوتی ہے۔ اور ہرجائی ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے جذبات کے سامنے مذہبی عقائد کی بھی قدر نہیں کرتی۔ اسے تعجب ہو رہا تھا کہ ہندو دھرم کی پیرو ہوتے ہوئے اس نے کس طرح گوارا کر لیا کہ ایک شخص کی ہو جانے کے بعد پھر کسی دوسرے شخص کی ہو جائے۔
دل ہی دل میں وہ اس کو برا بھلا کہتا رہا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اٹھ کر اس کے بال نوچ لے اور مارتے مارتے اس کا تمام جسم سوجا دے۔ وہ خود بھی پشیمان تھا کہ مسلسل پندرہ برس مسموم فضا میں تکالیف برداشت کرنے کے بعد رہائی حاصل کی تو ایسی جگہ کیوں آیا جہاں اس کی روح کے لیے مزید سامانِ رنج و الم موجود تھا۔
اس پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔
عورت نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: “یہ کوئی بدمعاش ہے یا نشہ کی حالت میں، اسے باہر نکال دو۔”
مرد نے جواب دیا: “نہیں کچھ بیمار معلوم ہوتا ہے ہمیں سخت دل نہ بننا چاہیے۔” اور یہ کہہ کر وہ بڈھے کی طرف چلا تاکہ اسے ہوش میں لے آئے۔
کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں اور غصہ کے ساتھ عورت کو گھورتے ہوئے کہا: “مجھے پہچان میں کون ہوں۔ بے وفا عورت! تو اتنی جلدی بھول گئی۔ دیکھ میں تیرا شوہر ہوں۔”
عورت نے حیرت و استعجاب میں کہا: “شوہر؟ نہیں بالکل غلط۔ میں نہیں جانتی کہ تم کون ہو۔ میں نے اس سے پہلے تم کو کبھی نہیں دیکھا۔”
بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: “اچھا تو بتا اگر تو کملا نہیں ہے تو پھر کون ہے؟”
“کملا، کملا۔ نہیں نہیں میں کملا نہیں ہوں۔ لیکن تم کون ہو جلدی بتاؤ۔ کیا تم قیدی تھے؟ پندرہ برس بعد واپس آئے ہو؟”
“ہاں! پندرہ برس بعد۔ آخر کار تم نے مجھے پہچان لیا۔ اب سے پندرہ برس پہلے یہ مکان میرا تھا۔ یہاں کی ہر چیز میری ملکیت تھی۔ میرا ہر حکم یہاں ایک اٹل قانون تھا۔ میں یہاں کے در و دیوار سے مانوس ہوں۔ سامنے کے برآمدہ میں مَیں ہر صبح گیتا پڑھتا تھا اور تم قریب بیٹھ کر سنتی تھیں۔ اسی کمرے کے اندر میں نے اور تم نے پریم کا پہلا گیت گایا اور آج تم مجھ سے ناواقفیت کا اظہار کر رہی ہو۔ میری ایک چھوٹی بچی تھی، بتاؤ کملا وہ کہاں ہے؟”
اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ وہ دوڑ کر بوڑھے سے لپٹ گئی
“پتا جی! میرے پتا جی! وہ چھوٹی بچی میں خود ہوں۔”
وہ کملا نہیں تھی۔ کملا اس کی ماں کا نام تھا جو مر چکی تھی۔ دونوں کے خد و خال میں بے حد مشابہت تھی۔ یکساں آنکھ، ناک، ہونٹ اور تمام چہرہ ایک دوسرے سے ملتا جلتا تھا۔ سرِ مو فرق نہیں تھا۔ رہا عمر کا سوال، سو بصارت کے ساتھ بوڑھے کی قوتِ امتیاز میں بھی کچھ فرق آ گیا تھا۔ کملا کو وہ شباب کے عالم میں چھوڑ گیا تھا۔ وہی صورت اس کی آنکھوں میں پھر رہی تھی۔ اس لیے اگر وہ ہر نوجوان خوبصورت عورت کو کملا کہہ اٹھتا تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس طویل عرصہ میں بیٹی نے ماں کی جگہ لے لی ہوگی۔
آخرکار بوڑھے نے اطمینان کے ساتھ تین سسکیاں لیتے ہوئے اپنی بیٹی کی آغوش میں جان دے دی، اس بیٹی کی آغوش میں جس کو چند لمحے پیشتر خود اپنی شریکِ حیات سمجھ رہا تھا اور برہم تھا کہ وہ ایک غیر شخص کے ساتھ کیوں زندگی بسر کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ غیر شخص نہیں، اس کا شوہر تھا۔
بازی گر
رالفو مصری بازی گر کا نام ہر شخص کی زبان پر تھا۔ تمام شہر میں اس کے کمالات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ضعیف الاعتقاد لوگ تو اس کے بعض کرتبوں کو معجزات سے تعبیر کرنے لگے تھے۔ عقل میں نہ آنے والی باتیں ہمیشہ تحیر خیز ثابت ہوتی ہیں اور یقیناً کمال اسی چیز کا نام ہے کہ ایک مرتبہ اصحاب عقل و دانش بھی اپنے دل سے یہ سوال کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں کہ “ایسا ہونا ممکن ہے؟” بعض نقادوں کی راے تھی کہ وہ علمِ تنویم کا ماہر ہے اور محض اپنی قوتِ مقناطیسی سے کام لے کر ناظرین کے احساسات کو عارضی طور پر مسحور کر دیتا ہے، اس طرح کہ ہر شخص کو وہی چیز نظر آتی ہے اور وہی آواز سنائی دیتی ہے جس کا تصور وہ خود اپنے ذہن میں کر لے۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی ہو مگر یہ واقعہ ہے کہ گذشتہ ہفتہ کی رات مَیں اور کرشن بھی دم بخود رہ گئے۔
ہم دونوں دوست جب تماشا گاہ میں داخل ہوئے تو اسٹیج کے سامنے رنگین پردہ آویزاں تھا کیونکہ وقتِ معیّنہ میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ تمام نشستیں بھر چکی تھیں اور کہیں تل رکھنے کو جگہ باقی نہ تھی۔ پھر بھی شائقین کا سلسلہ کسی طرح ختم نہ ہوتا تھا۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے موسیقی کی ایک دلنواز لے کے ساتھ پردہ اٹھا۔ بوڑھا رالفو اپنے مخصوص لباس میں نقرئی اور طلائی تمغے آویزاں کیے ہماری نظر کے سامنے تھا۔ مختصر الفاظ میں اس نے تمام ناظرین کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور اس رات کا لائحۂ عمل بتا کر پسِ پردہ چلا گیا۔
دوسرا پردہ اٹھا اور اس کے کمالات کی نمائش شروع ہو گئی۔ تمام کام وہ خود کرتا تھا۔ صرف دو خواتین معمولی معاونین کی حیثیت سے شریک عمل تھیں۔ ہر کھیل کے بعد ایک منٹ کے لیے پردہ گرتا اور پھر اٹھ جاتا۔ پہلا شعبدہ ختم ہونے کے بعد ہم نے راے قائم کی کہ شاید یہ اس بازی گر کا شاہکار ہے۔ مگر ہمیشہ دوسرے شعبدہ نے ہماری توقع کو بدل دیا۔
تمام فضا خاموش تھی اور ہر شخص پر ایک سکوت طاری تھا۔
تفصیل اگرچہ خالی از دلچسپی نہیں مگر دقت طلب ضرور ہے۔ تاہم آخری شعبدہ کو جو بلاشبہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے نظر انداز کر دینا نا ممکن ہے۔ اس شعبدہ کو “نقاب پوش نشانہ باز” کے نام سے موسوم کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس قسم کے کھیل سینکڑوں مرتبہ مشاہدہ میں آئے مگر اس قدر مہارت کے ساتھ کبھی دیکھنے نصیب نہیں ہوئے۔ کرشن تو اس درجہ متاثر ہوا کہ انتہاے استعجاب کے باعث دیر تک اس کی زبان کو جنبش نہ ہو سکی۔
پردہ اٹھنے پر ہم نے دیکھا کہ لکڑی کا ایک قدِ آدم تختہ سیدھا کھڑا ہے اور اس کے بالکل قریب ایک خاتون دونوں ہاتھوں کو افقی حالت میں پھیلائے کھڑی مسکرا رہی ہو۔ ایک دوسری خاتون نے اسٹیج پر آ کر رالفو کی آنکھوں پر موم جامہ کی پٹیاں اس کثرت سے لپیٹ دیں کہ دکھائی دینے کا کوئی امکان نہ رہا۔ پھر اس بازی گر نے کمر میں کسی ہوئی پیٹی میں سے چھریاں نکالیں اور تختہ کی طرف رُخ کیے بغیر نشانے مارنے شروع کیے۔ ہر بار چھری ایک مخصوص جگہ لگتی اور نرم تختے میں پیوست ہو جاتی۔ حتیٰ کہ اس خاتون کا سر ان کے درمیان محصور ہو گیا۔ اس تمام دوران میں اس نے ایک دفعہ بھی تختے کی طرف اپنے چہرے کا رُخ نہیں کیا اور نہ ایک جگہ ساکن رہا بلکہ ادھر ادھر ٹہل کر چھریاں پھینکتا رہا۔ اس کے بعد ایک دوسری عورت نے آ کر ان موم بتیوں کو روشن کر دیا جو ایستادہ خاتون کے جسم سے بالکل قریب تختے کے چاروں طرف ترتیب سے لگی ہوئی تھیں۔ بازی گر نے پستول نکالا اور بدستور اپنی شان استغنا کے ساتھ کلائی کو نصف دائرے کی شکل میں گھماتے ہوئے فائر کرنے شروع کر دیے۔ پستول کی ہر آواز کے ساتھ ایک بتی گُل ہو جاتی۔ یہاں تک کہ ایک بھی باقی نہ رہی۔
پردہ گر گیا۔
اختتام سے قبل رالفو نے دوبارہ منظرِ عام پر آ کر محض سر کی ایک خفیف جنبش سے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
دوسرے دن کرشن نے کہا کہ تماشا ایک بار پھر دیکھا جائے اور ساتھ ہی مُصر ہوا کہ وقتِ معیّنہ سے ایک گھنٹہ قبل چل کر اس بوڑھے بازی گر سے ملاقات بھی کی جائے۔ میرا بھی دل للچایا کہ ایسے شخص سے ضرور گفتگو کرنی چاہیے۔ لہذا ہم دونوں بہت پہلے تھیٹر پہنچ گئے کیونکہ رالفو اسی جگہ ایک کوٹھی میں مقیم تھا۔
ملازم کے ہاتھ کارڈ اندر بھیجے گئے جس کے جواب میں ہم کو اندر طلب کر لیا گیا۔ ہمارے داخل ہونے پر رالفو نے کرسی پر سے اٹھ کر استقبال کیا اور کرسیاں پیش کیں۔
کرشن نے بیٹھتے ہوئے کہا:
“میں آپ کے کمالات کی خوبیوں کو شرمندۂ الفاظ کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ گذشتہ رات ہم دونوں موجود تھے اور آپ نے محسوس کر لیا ہوگا کہ ہال کی فضا کا سکوت اور حاضرین کا استعجاب کیا معنی رکھتا تھا۔ فن کی صحیح تعریف کرنا ارباب فن کا حصہ ہے، عام لوگ محض اظہارِ پسندیدگی کر سکتے ہیں۔ آپ کی شریک کار خاتون بھی ہر لحاظ سے تعریف کی مستحق ہے۔ ایک خطرناک ماحول میں کھڑے ہو کر مسکرانا بڑے دل و جگر کا کام ہے۔ کیونکہ بازی گر کو کتنی ہی مہارت ہو جائے مگر یہ امر قرین قیاس ہے کہ ہاتھ کی خفیف لغزش معمول کی زندگی کو ختم کر دے۔”
رالفو خاموش تھا اور اس کے چہرے سے حزن و ملال کے آثار ہویدا تھے۔ کرشن کی بات ختم ہونے پر اس نے کہا:
“آپ نے جس قدر تعریف و توصیف کی وہ جناب کا حسنِ ظن ہے، میں اس کا مستحق نہیں ہوں۔ بہر حال اس عزت افزائی کا شکریہ۔ اب جبکہ آپ اظہارِ ہمدردی کر رہے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے دل کی درد بھری داستان آپ کے گوش گزار کر دوں تاکہ ان آلام کا بوجھ کسی حد تک کم ہو جائے جو عرصۂ دراز سے میری روح پر مسلط ہیں۔ زندگی میں پہلی بار میرا یہ راز آپ پر منکشف ہوگا لیکن بالکل رازدارانہ طریقے پر۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس کو اپنے ہی تک محدود رکھیں۔ آپ کو اور شاید کسی کو بھی یہ علم نہیں ہے کہ وہ خاتون جو تختے کے قریب کھڑی ہوتی ہے خود میری شریک حیات ہے اور میں یہ کھیل صرف اس کی جان لینے کی غرض سے کرتا ہوں لیکن آج تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ قصہ بہت طویل ہے، میں مختصراً عرض کروں گا۔ آج سے پانچ سال قبل میں ایک عظیم الشان سرکس کا مالک تھا، سینکڑوں کھلاڑی ملازم تھے۔ ہم شہر در شہر ملک بہ ملک اپنے کمالات دکھا کر دولت جمع کرتے پھرتے تھے۔ پانچ سال ہوئے فرانس میں ہمارا قیام تھا۔ ایک روز حسب معمول کھیل سے فارغ ہو کر تبدیل لباس کی غرض سے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا، اُف! کس زبان سے کن الفاظ میں کہوں۔ میں نے دیکھا کہ میری بیوی ایک غیر شخص کے ساتھ ہم آغوش ہے۔ چونکہ میں یہ چاہتا تھا کہ ان کو اس امر کی خبر نہ ہو کہ میں ان کی پوشیدہ سیاہ کاری سے واقف ہو گیا ہوں، اس لیے فوراً الٹے پاؤں باہر آ گیا۔ مگر معلوم نہیں کہ کس طرح میری بیوی کو اس کا علم ہو گیا، تاہم وہ خائف نہیں ہوئی۔ وہ ہمیشہ سے دلیر ہے اور کسی بات کو مطلق اہمیت نہیں دیتی۔ میں نے اس روز سے آج تک اس کے سامنے اس موضوع پر گفتگو نہیں کی اور نہ اپنے طرزِ عمل میں کسی قسم کی تبدیلی کی۔ البتہ ایک زبردست مگر خاموش انتقام کی تیاری شروع کر دی۔ میں نے اپنی بڑھی ہوئی شہرت کو اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دیا۔ تمام کھلاڑیوں کو برطرف کر کے سرکس کے شیرازے کو بکھیر دیا۔ اب ہم صرف تین آدمی مَیں، میری بیوی اور ایک قابل اعتماد ملازمہ تمام کھیل پیش کرتے ہیں۔ اس سانحے سے قبل ایک جاپانی خاتون تختے کے سامنے کھڑے ہو کر اس خدمت کو انجام دیتی تھی جو اب میری بیوی کے ذمہ ہے۔ میں اس روز سے کوشش کر رہا ہوں کہ اپنی بے وفا رفیقہ کو کھیل کے دوران میں تماش بین حضرات کی نگاہ کے سامنے منظرِ عوام پر ہلاک کر کے جذبۂ انتقام کو سرد کر لوں۔ میں صدہا ذرائع سے اس کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہوں مگر یہ مجھے منظور نہیں۔ صرف یہی طریقہ پسند ہے۔ تعجب ہے کہ مصمم ارادہ کر لینے کے باوجود آج تک مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہو سکی۔ میں دانستہ طور پر اپنے ہاتھوں کو خلافِ اصول گھما کر چھری پھینکنے اور غیر معیّنہ اوقات میں پستول کی لبلبی دبانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر بے سود۔ کہنہ مشقی کے باعث میرے تمام اعضا لوہے کی مشین کی طرح بے خطا کام کرتے ہیں۔ میری دیرینہ مہارت اس درجۂ کمال تک پہنچ گئی ہے جب عامل سے لغزش ہونے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ شاید آپ یقین نہ کریں گے ایک دن جان بوجھ کر میں نے اپنا ہاتھ جلا لیا۔ محض اس خیال سے کہ شاید اس کی سوزش و تکلیف سے غلطی کرنے کا موقع مل جائے۔ ایک دن سخت بخار کی حالت میں مَیں نے اپنا کھیل جاری رکھا مگر افسوس ہے کہ میں اپنے ارادے میں ہنوز کامیاب نہ ہو سکا۔ غلطی کرنا اب میرے لیے قطعی نا ممکن ہو گیا ہے۔ میری اس کمزوری کو میری بیوی خوب سمجھتی ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتی ہے کہ مجھے اپنے اعضا پر قدرت حاصل نہیں۔ آپ نے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ایک خطرناک ماحول میں کھڑے ہو کر مسکرانا بڑے دل و جگر کا کام ہے۔ لیکن وہ صرف آپ کے نزدیک خطرناک ہے۔ میری بیوی اس کو بچوں کا کھیل تصور کرتی ہے۔ اس کا تبسم بھی مصنوعی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص ایک ہی کیفیت کے ماتحت ایک لمحے سے زیادہ نہیں مسکرا سکتا۔ اس کے تبسم میں ایک طنز پنہاں ہے جو میرے لیے سوہانِ روح ہے۔ میں غم و الم کی زندگی بسر کر کے خود اپنی ہستی کو تباہ و برباد کر رہا ہوں۔ در آں حالیکہ اس بے وفا کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ کیا آپ دونوں میں سے کوئی صاحب ایسی تدبیر بتا سکتے ہیں جس پر عمل کرنے سے میری مہارت کو ترقیِ معکوس حاصل ہو سکے۔ میرا فن انحطاط کے تمام مدارج طے کر کے ایسے نقطے پر آ جائے جہاں سواے لغزش کے اور کچھ نہیں ہوتا۔”
“خدا آپ پر رحم کرے۔” میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ “بہتر ہے کہ آپ اس ارادے ہی کو اپنے دل سے ترک کر دیں۔ اتنی طویل مدت میں تو آتش انتقام ویسے بھی سرد پڑ جانی چاہیے تھی۔”
“بے شک!”، اس نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ “یہ ایک نظریہ ہے کہ اسے سرد پڑ جانا چاہیے تھا لیکن عملی دنیا میں اگر ایسا نہ ہو تب؟”
میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔
کرشن نے کچھ دیر سکوت کے بعد کہا:
“اچھا! آپ اپنی شریک حیات سے چند لمحے ملاقات کرنے کا موقع دیجیے، ممکن ہے اس کو دیکھ کر ہم کوئی مفید مطلب مشورہ دے سکیں۔”
رالفو نے کچھ ایسے انداز سے آمادگی ظاہر کی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود اس چیز کا آرزومند تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں ایک دروازے کے قریب بلا کر کہا:
“دیکھیے! اسٹیج کے عقبی حصہ میں اس وقت بھی وہ اسی انداز سے کھڑی ہے۔ اس کا معمول ہے کہ کھیل شروع ہونے سے قبل وہ اپنے مخصوص طرزِ عمل کی مشق دہرا لیتی ہے تاکہ کھڑے ہونے میں خود اس سے غلطی نہ ہو جائے۔”
پھر اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہا:
“زنوبیہ! دو شریف آدمی تم سے نیاز حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ چند لمحے کے لیے یہاں آ جاؤ۔” اس کا رخ ہماری طرف تھا۔ وہ اسی بے پناہ شان استغنا کے ساتھ اپنے نقرئی بازوؤں کو افقی حالت میں پھیلائے کھڑی مسکراتی رہی اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا۔
یکایک میرا دوست ایک قدم آگے بڑھا اور پھر فوراً ہی پیچھے ہٹ کر پُر غضب نگاہوں سے بازی گر کو گھورتے ہوئے کہنے لگا:
“تم مکار ہو۔ تم نے ایک گھنٹے تک اپنے فرضی افسانے سے ہمیں دھوکا میں رکھا۔ دیکھو! تمھاری بیوی کے دائیں پاؤں پر ایک چھوٹا سا سانپ چڑھ رہا ہے اور اسے خبر نہیں۔ علاوہ ازیں کھڑکیوں سے آنے والی ہوا کے باعث دروازوں کے پردے، چھت گیری کا کاغذ اور گلدستہ کی پتیاں وغیرہ جنبش میں ہیں۔ مگر تمھاری بیوی کا ملبوس حرکت نہیں کرتا۔ یقیناً وہ کوئی زندہ عورت نہیں ہے بلکہ مجسمۂ غیر ذی حیات ہے۔”
رالفو کے چہرے کا حزن و ملال فوراً مسرت و انبساط میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے کہا:
“آخرکار آپ حقیقت کی تہ کو پہنچ گئے۔ اچھا! آج رات آپ دونوں اسٹیج کے ایک پوشیدہ مقام پر بیٹھ کر ہمارے کمالات دیکھیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر چیز میں حقیقت کا شائبہ کس قدر کم ہے اور جس چیز کو آپ کمال فن سمجھتے ہیں وہ فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن آپ یہ راز کسی پر ظاہر نہ کریں ورنہ ہماری شہرت خاک میں مل جائے گی۔ میری بیوی کے متعلق آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ محض افسانہ ہے جو میرے دماغ نے عین اسی وقت تخلیق کیا تھا۔ میں آپ کو مغالطہ میں مبتلا کر کے آپ کے استعجاب کو بڑھانا چاہتا تھا تاکہ آج رات جب آپ دوبارہ تماشا دیکھیں تو ایک دوسری نوع کے تاثرات آپ پر طاری ہو جائیں۔”
سکون کی جستجو
گلفام کی بابت سب کو یقین ہو چلا تھا کہ اب اس کی زندگی کے دن پورے ہو گئے ہیں اور اس دنیا میں وہ صرف چند دن کا مہمان ہے۔ اصطبل میں تھان کے سامنے لیٹے لیٹے اس کو کامل ایک ہفتہ گذر چکا تھا۔ مالک بھی اس کی خراب حالت کو دیکھتے دیکھتے تنگ آ گیا تھا۔ کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ گولی کا نشانہ بنا کر اس کی تکلیفوں کو ختم کر دے مگر دیرینہ رفاقت کا احساس اسے ہر مرتبہ باز رکھتا تھا۔ وہ روز اس خیال سے خاموش ہو جاتا کہ آج نہیں تو کل ضرور مر جائے گا۔ مرتے ہوئے کو مارنے سے کیا فائدہ؟
اس کی چاروں ٹانگیں بے کار ہو چکی تھیں، رانوں تک کا گوشت سڑ چکا تھا۔ جب ان میں کیڑے کلبلاتے تو درد کی شدت سے وہ بھیانک آواز میں ہنہنانے لگتا۔ اکثر رات کے وقت اس کے کراہنے کی آواز سے سوتے ہوئے لوگوں کی نیند خراب ہو جاتی۔ مالک جھنجھلا کر پستول لے کے اٹھتا مگر طویلہ تک جا کر رہ جاتا۔ اسے اندر جاتے ہوئے بھی کراہت معلوم ہوتی تھی۔ وہاں کی تمام فضا زخموں کی عُفُونت سے نا قابل برداشت ہو گئی تھی۔ وہ صرف جھانک کر دیکھتا اور واپس لوٹ آتا۔ دل ہی دل میں راے قائم کرتا کہ کل صبح تک ضرور مر جائے گا۔
گھر کے پلے ہوئے شکاری کتے اس کے پاس آتے، زخموں کو سونگھتے اور ان پر پیشاب کر کے غریب بے زبان جانور کو تکلیف پہنچا جاتے۔ کبھی کبھی بکرے کے سینگ بھی اس کی مجروح کھال پر عملِ جراحی کی مشق کرتے مگر وہ انتقام لینے سے قاصر تھا۔رات کے وقت چوہے نکل کر اس کے کان کاٹتے، گردن پر چڑھتے مگر اس میں اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ دم ہلا کر ان کو بھگا دیتا۔ وہ خاموش لیٹا ہوا اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں پوری کرتا رہتا۔ مہترانی بھی اس جگہ کو صاف کرتے وقت ناک بھوں چڑھاتی۔ وہ کوستی کہ یہ کمبخت مر کیوں نہیں جاتا کہ پاپ کٹے۔ وہ لید اٹھانے سے پہلے ایک لات اس کی پیٹھ پر جڑ دیتی۔ دوسرے گھوڑوں سے بچی ہوئی گھاس اسے کھانے کے لیے ملتی تھی اور وہ بھی بہت قلیل مقدار میں۔ وہ اسے بھی نہ کھا سکتا تھا۔ طویل بیماری سے اس کی بھوک پیاس بند ہو گئی تھی۔
اس کے لیے تمام دنیا ایک اصطبل میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ایک ہی حالت میں لیٹے لیٹے جب اعضا تھک جاتے اور بدن میں شدید درد ہونے لگتا تو وہ کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ کروٹ بدل لیتا تاکہ عارضی طور پر کچھ سکون حاصل ہو جائے اور بس۔ قرب و جوار کے شریر بچے دور کھڑے ہو کر اسے پتھر اور مٹی کے ڈھیلے مارتے۔ بعض بے رحم لڑکے پچکاریوں میں سرد پانی بھر بھر کر اس کی طرف پھینکتے جس سے اس کے زخموں میں مرچیں سی لگنے لگتیں۔ وہ درد بھری آواز سے ہنہناتا اور خاموش ہو جاتا۔ بچے خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور ہنستے ہوئے چلے جاتے۔ اس کی بے بسی کی حالت پر کسی کو رحم نہ آتا تھا۔
موسم سرما کی ایک رات تھی، نصف سے زیادہ حصہ گذر چکا تھا۔ اس کے زخموں کی تکلیف حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ اس کے دل میں مصائب و آلام کے خلاف جہاد کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اپنی تمام پس ماندہ قوتوں کو جمع کر کے اس نے آخری کوشش کی اور کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ کھڑا ہو گیا مگر اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ جسم کا ایک ایک حصہ بید کی طرح کانپ رہا تھا۔ اس کا بھاری جسم ان نحیف ٹانگوں کے لیے ایک بارِ گراں تھا مگر پوری ہمت سے کام لے کر اس نے بمشکل توازن کا قائم رکھا۔
سب سے پہلے اس کی نظر ناند پر پڑی جس میں کئی دن کی سوکھی ہوئی گھاس کا تھوڑا سا ڈھیر پڑا تھا۔ اس کے سینہ پر سانپ سا لوٹ گیا جب اس نے خیال کیا کہ مالک اب اس کی خوراک کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اس کے سامنے وہ منظر آ گیا جب گھوڑ دوڑ کے میدان میں پہلی بار وہ اول نمبر آیا تھا۔ واپسی کے وقت ایک عروسِ نو کی طرح اس کی گردن پھولوں کے گجروں سے لدی ہوئی تھی۔ اس روز خود مالک نے اپنے ہاتھوں سے اس کی مالش کی تھی اور کئی روز تک صبح و شام بالٹی بھر کر دودھ جلیبیاں اسے کھلائی گئی تھیں۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے خیال کیا کہ انسان بہت قدر ناشناس اور خود غرض ہے۔ وہ پھولوں سے لطف اندوز ہو لینے کے بعد انھیں مسل کر پھینک دیتا ہے۔ مگر جلدی ہی اس نے اپنی راے تبدیل کر لی کہ شاید اس مخلوق کا یہی دستور ہو کہ ہر چیز کو برت لینے کے بعد نظر سے گرا دیا جائے۔
پھر اس کی نگاہ لکڑی کے کھونٹے پر پڑی جس کے ساتھ کبھی آہنی زنجیروں کے ذریعے اس کو باندھا جاتا تھا۔ مگر اب وہاں سن کی معمولی رسی بھی نہیں تھی کیونکہ کسی شخص کو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ گلفام میں چپکے سے بھاگ جانے کی ہمت ہے۔ اپنی اس بے بسی کی حالت پر اس کے آنسو نکل پڑے۔ اتنے ہی میں ایک چوہے نے بل سے سر نکال کر اپنے تیز دانت دکھائے گویا وہ اسے کاٹ کھانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ گلفام نے چاہا کہ سُم کی ایک ضرب سے اس چھوٹے سے جانور کی ہڈی پسلی ایک کر دے۔ مگر فوراً رک گیا کہ مبادا اس کشمش میں جسمانی توازن بگڑ جائے اور اسی جگہ گر پڑے جہاں کئی دن سے بے یار و مددگار پڑا تھا۔ اس نے آخری بار اس چاردیواری پر حسرت کی نگاہ ڈالی جس کے اندر زندگی کا بیشتر حصہ گذارا تھا اور لرزتے ہوئے پاؤں کو جنبش دے کر چلنے لگا۔ اس کے دونوں کولھے نجاست میں لتھڑے ہوئے تھے اور جگہ جگہ جسم پر مٹی جم کر خشک ہو گئی تھی۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
طویلہ سے نکل کر وہ سائیس کی کوٹھری کے قریب سے گذرا جو دروازے بند کیے دنیا و مافیہا سے بے خبر گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ رُک کر ہنہنایا گویا اپنے ان داتا کو آخری بار الوداع کہہ رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اب میں زندہ واپس نہیں آؤں گا۔
اس نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ چاند اپنے پورے شباب پر تھا۔ ستارے جگمگا رہے تھے۔ موسم سرما میں چلنے والی ہوا کے جھونکے اعضا کو مفلوج کر دینے کی حد تک سرد تھے۔ یقیناً اس کا جسم ٹھٹھر کر رہ جاتا اگر زندہ رہنے کی آخری کشمکش کے جوش نے اس کے اندر حرارت نہ پیدا کر دی ہوتی۔ چاندنی رات میں اس سنسان مقام پر کھڑے ہو کر اس نے تصور کی آنکھ سے اپنے عہد شباب کو دیکھا۔ ایک دن وہ جوان تھا اور چست و چالاک۔ اس کی رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا۔
اس کے جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی مگر سریع الزوال۔ چار ہی قدم چلنے سے اس کا سانس پھولنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ باغیچہ میں سے گذرا جہاں اس کے مالک نے مختلف الالوان پھولوں کے پودے لگا رکھے تھے۔ اس نے چاہا کہ اپنے سُموں سے سب کو روند کر فنا کر دے اور اس طرح اپنے جوشِ انتقام کو سرد کر لے۔
“مگر کیا فائدہ؟”
اس سوال کے پیدا ہوتے ہی اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
باغیچہ کے ایک کونے میں مالی کی کٹیا تھی۔ وہ رک گیا اور پھونس کی دیوار کے قریب اپنی آنکھ لگا کر ایک روزن سے جھانکا۔ بوڑھا بے خبر سو رہا تھا۔ اس نے ارادہ کیا کہ اسے بیدار کر کے کہے:
“اے پندرہ روپے کے ملازم! اب تو مجھے ہری گھاس نہیں دیتا۔ میں مالک سے تیری شکایت کر دوں گا۔”
مگر خود اسی کے قلب سے ایک درد بھری صدا نکلی:
“اے بے وقوف! خود تیرا مالک تیری فکر نہیں کرتا۔ اسے تیری پروا نہیں۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تو کل کا مرتا آج ہی مر جائے۔ وہ تیری فریاد کو کن کانوں سے سُنے گا؟”
چند قدم چلنے کے بعد باغیچہ کی حد ختم ہو گئی۔ خاردار تاروں کی باڑھ لگی ہوئی تھی۔ وہ رُک گیا۔ تار زیادہ اونچے نہیں تھے۔ مشکل سے ڈیڑھ فٹ ہوں گے، کھیل کے میدان میں وہ چار چار فٹ بلند جنگلے پر سے بآسانی چھلانگ مارتا جاتا تھا۔ مگر اب ٹانگوں میں سکت باقی نہیں تھی۔ چھلانگ مارنا تو درکنار راستہ چلنا بھی دوبھر تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر جسم کمزور کیوں ہو جاتا ہے؟ بدن کی طاقت کہاں چلی جاتی ہے؟ مگر یہ ایک مشکل مسئلہ تھا جس کو سمجھنے سے اس کی عقل حیوانی قاصر تھی۔
اس نے مناسب نہ سمجھا کہ ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک کھڑا رہے۔ اس خیال سے کہ کہیں جسم کی تھوڑی بہت گرمی زائل ہو کر سردی کا احساس نہ پید اکر دے، وہ پھر چل پڑا۔ حالانکہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی کمزور ٹانگیں اس کو کہاں لیے جا رہی ہیں۔ کوئی مخصوص منزلِ مقصود اس کی نظر کے سامنے نہیں تھی۔ وہ کاروان سے الگ ہو کر بھٹکنے والے مسافر کی طرح تھا جس کا ہر قدم لا علمی میں کبھی منزل کی طرف اٹھ جاتا ہے اور کبھی منزل سے دور۔
وہ جنگلے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا کہ شاید کہیں یہ سلسلہ ختم ہو جائے یا ایسا مقام آ جائے جس کو عبور کر لینا اس کے امکان میں ہو۔ وہ چلا جا رہا تھا اور بے خبر تھا کہ کائناتِ عالم کا ہر ذرہ اس کے تاثراتِ قلب کا دقیق مطالعہ کر کے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جانا چاہتا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ ہر شے کا غیر مرئی دل جذباتِ ہمدردی سے مغلوب ہو کر اس کے لیے دھڑک رہا ہے۔
اتفاقاً ایک جگہ تار ٹوٹ جانے سے باڑھ میں ایسی جگہ بن گئی تھی جہاں سے گذر کر باغیچہ کے باہر نکل جانا اس کے لیے آسان تھا۔ وہ خوش ہوا کہ اب آزادی کی فضا میں پہنچ کر سانس لوں گا مگر عین اس وقت بنگلہ کی طرف سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سہم کر کھڑا ہو گیا۔ افشاے راز کے خوف سے اس کا تمام جسم لرزنے لگا۔ اس نے زمین کی طرف دیکھا جس کی سطح پر پڑنے والا سایہ بھی کانپ رہا تھا۔ پھر اس کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھی۔ چاند پوری طرح روشنی پھیلا رہا تھا۔ اس نے آرزو کی کہ کاش آج کے دن یہ قندیلِ فلک گُل ہو جاتی تو بہتر تھا۔ مگر کسی کی آرزو کے مطابق نوامیسِ قدرت میں تغیر نہیں ہوتا۔ اس کے قوانین اٹل ہیں۔ اسے یقین ہو گیا کہ کتے کی آواز سے تمام چوکیدار بیدار ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ کوئی چور بنگلہ کی حدود میں گھس آیا ہے۔ بے شک وہ چور بھی تھا۔ کم از کم اس کا دل چور تھا۔
اس نے اپنے ضمیر کی آواز صاف طور پر سنی۔ وہ چوروں کی طرح دبے پاؤں اپنے مالک کے گھر سے فرار ہو رہا تھا۔ لازمی بات تھی کہ چاند کی روشنی میں چوکیدار اس کو باڑھ کے قریب کھڑا دیکھ لیں گے اور پکڑ کر واپس لے جائیں گے۔ تیز دوڑ جانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ اس نے گذشتہ واقعات پر غور کر کے سوچا کہ کیا دوبارہ اسی مسموم فضا میں زندگی بسر کرنی پڑے گی جہاں رہتے رہتے اس کی طبیعت اکتا چکی ہے۔ پھر وہی زندگی؟ جس سے مر جانا بہتر ہے۔
اس نے بنگلے کی طرف دیکھا، کوئی چیز سایہ کی طرح حرکت کر رہی تھی۔ ایک چوکیدار بیدار ہو چکا تھا۔ اس نے اچھی طرح پہچان لیا۔ یکایک روشنی نمودار ہوئی اور اس کی شعاع سب طرف چکر لگا کے اس کے جسم پر پڑنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انتہاے یاس میں آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن جب خلافِ توقع چند لمحے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ روشنی مفقود ہو چکی تھی اور صرف ایک کتا اس کے قریب کھڑا دُم ہلا رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ چوکیدار نے ارادتاً اس کی طرف سے لاپروائی اختیار کر لی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح یہ بلا دور ہو جائے۔ زخموں کی افراط کے باعث گُلفام کی کھال بھی اس لائق نہیں تھی کہ اس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ پھر اسے کون پکڑتا۔ اس خطرناک مستقبل سے بچ جانا ہی اس کے لیے باعثِ مسرت بن سکتا تھا۔ مگر اس امر کا احساس کہ اب اس کی ہستی کو ایک بے کار شے تصور کر کے نظر سے گرا دیا گیا ہے اس کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔
اب اس کی ٹانگوں میں کوئی تکلیف باقی نہیں رہی۔ اس کے زخموں کی چپک بند ہو گئی۔ اصطبل کی مسموم فضا کا خیال بھی اس کے ذہن سے اتر گیا۔ مگر اس کی روح کو ایک ایسی اذیت پہنچنے لگی جو دنیا کے تمام مصائب و آلام سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کوئی آئے اور اس کو دوبارہ جا کر اسی گندی اور مسموم فضا میں ہمیشہ کے لیے قید کر دے۔ یہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دنیا کی کوئی ہستی اس کو نظر حقارت سے دیکھے۔ وہ کھڑا دیکھتا رہا کہ اب کوئی آتا ہے، اب کوئی آتا ہے۔ مگر نہیں کسی کو آنا تھا نہ آیا۔ اس کی امیدیں پامال ہو گئیں۔ فضا میں کسی کا سایہ حرکت پذیر نہ ہوا۔ وہ خود اپنی ٹانگوں سے چل کر واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی خودداری مانع تھی۔ ترک کیے ہوئے راستے پر خود اپنی ہی مرضی سے گامزن ہو کر ہار مان لینا اس کی شان کے خلاف تھا۔ اس کے پندار میں وہ ایک ایسا اعتراف جرم تھا جس کا عملی پہلو بذاتِ خود ایک زبردست جُرم ہے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنی ہستی کو اور زیادہ گناہ آلود کرے۔ اس لیے با دلِ نخواستہ وہ آگے بڑھ جانے کے لیے مڑا۔ مگر عین اس وقت اس کی نگاہ کتّے پر پڑی۔ حالانکہ وہ کافی دیر سے اس کے قریب کھڑا دم ہلا رہا تھا۔ وہ پھر ٹھٹک گیا۔ اس نے پہچان لیا، وہ موتی تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست رہ چکے تھے۔ مگر اس وقت اس کا دماغ جس کا توازن حوادث زندگی سے بگڑ چکا تھا، یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ دیرینہ دوست مصیبت کے وقت بھی کام آتا ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں کہ خود اس کے قویٰ اس کے احکام سے انحراف کرنے لگے تھے، یہ کس طرح توقع کی جا سکتی تھی کہ ایک غیر جنس ہستی اس کا ساتھ دے گی۔ اس نے سوچا:
“کاش میرا وجود ازلی تخلیق کی ساعتوں کا رہین منت نہ بنتا۔ میری ماں مجھ کو جننے سے قبل مر جاتی۔”
اس نے اپنی گردن جھکا کر تھوتھنی موتی کے قریب کی۔ گویا وہ اس کے کان میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نطق سے محروم ہونے کے باعث کچھ نہ کہہ سکا اور اس مجبوری کے عالم میں اس کے تمام جذبات “معنیِ بے لفظ” بن کر رہ گئے۔ موتی جھکا اور گلفام کے سُموں کو چاٹنے لگا۔ اس بے زبان کے پاس بھی اظہار ہمدردی کے لیے اس سے زیادہ بہتر ذریعہ نہیں تھا۔ محبت بھرے دل کی سچی باتیں زبان سے ادا نہیں کی جا سکتیں اور شرمندۂ الفاظ بنے بغیر حسّاس قلب کے کانوں سے سن لینی ممکن ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مطلب سمجھ گئے۔ موتی نے راہبری کی اور مظلوم و بے کس گلفام اس کے ساتھ ہو گیا۔
صبح کی سپیدی نمودار ہونے سے قبل وہ بمشکل ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ گلفام کے لیے آگے قدم اٹھانا دوبھر ہو گیا۔ اس کا سانس بہت تیزی سے چل رہا تھا۔ تمام جسم میں تھرتھری پیدا ہو گئی تھی۔ ٹانگوں پر کافی دیر زیادہ زور پڑنے کے باعث زخموں کے اندر سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا اور اس طرح اس کی رگوں میں سے نکلے ہوئے عزیز خون نے زمین پر ایسے نقوش پیدا کر دیے کہ اگر کوئی تعاقب کرنا چاہے تو آسانی سے سراغ ملتا چلا جائے۔ اس نے حسرت سے اپنی ٹانگوں کو دیکھا، ان ٹانگوں کو جن کی طاقت اس کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں کامیاب بنا دیتی تھی مگر آج اس کے جسمِ زار کو بھی گھسیٹنے سے معذور تھیں۔ اپنی عظمت رفتہ کا خیال کر کے وہ رونکھاسا ہو گیا۔ اس کی کمر سینکڑوں زخموں سے داغ دار تھی اور جگہ جگہ نجاست لتھڑی ہوئی تھی۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل اس پر نمدے کس کر سواری لینا انسان کے لیے باعثِ فخر تھا۔
اس نے دو روز سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا۔ اس لیے حلق میں کانٹے سے پڑنے لگے۔ کچھ نہ کھانے کی وجہ سے نقاہت بڑھ رہی تھی۔ زخموں کی تکلیف سے جسم نڈھال تھا۔ زندہ رہنے کی تمنا میں مزید کشمکش کرنا اس کی طاقت سے باہر ہو گیا۔ اس کی ٹانگیں لڑکھڑائیں، آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ وہ گر پڑا، لڑکھڑا کر گر پڑا۔ زمین بالکل پتھریلی تھی۔ چھوٹے چھوٹے سنگریزے اس کے زخموں میں گھس گئے۔ وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔ مگر کوئی نہیں تھا جو ایک چُمکاری دے کر اس کے درد میں کمی کرنے کی کوشش کرتا۔ اس نے دو چار لاتیں ماریں کہ شاید اس طرح بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے مگر الٹا اثر ہوا۔ قریب کی خاردار جھاڑیاں اس کے زخموں پر نشتر زنی کرنے لگیں اور پسلیوں سے لگا ہوا پیٹ لوہار کی دھونکنی کی طرح زور زور چلنے لگا۔ اس کا سانس اکھڑ گیا۔ دونوں نتھنے خون آلود جھاگ سے بھر گئے۔ اس کا ہنہنانا بھی ایک بھیانک شور میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اس کے کراہنے کی آواز سن کر کس کے دل میں رحم پیدا ہوتا جب کہ وہاں کوئی متنفس موجود نہیں تھا۔ اس کی تمام گریہ و زاری صدا بصحرا تھی۔ اس کی آہ و بکا کو صرف ان طیور نے سنا جو قریب کے ایک پرانے درخت پر اپنے اپنے گھونسلوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ مگر اس کے آنے ہی سے قبل اس کی بے جا اور غیر متوقع مداخلت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اڑ چکے تھے۔ اب صرف اسی مرنے والے کی جانکنی کی آہیں خاموش فضا کے طلسم سکوت کو توڑ رہی تھیں۔ یا کبھی کبھی موتی کے بھونکنے کی آواز سنائی دے جاتی تھی جو انتہائی بے چینی کے ساتھ اپنے قریب الموت رفیق کے جسم زار پر تھوتھنی رگڑ رگڑ کر اظہارِ ہمدردی کر رہا تھا۔
وہ بار بار اس کی ایال اپنے منہ میں پکڑ پکڑ کر گھسیٹتا۔ اس کے سُموں پر اپنے پنجے مارتا۔ مگر مرنے والا گلفام نہیں سمجھ سکا کہ اس کا دوست اسے کہاں چلنے کے لیے آمادہ کر رہا ہے۔ اگر موتی میں سمجھ ہوتی اور اس کی پتلی ٹانگیں اس بارِ گراں کی حامل بننے کی اہل ہو سکتیں تو وہ یقیناً گلفام کو اپنی کمر پر لاد کر ایک ایسی فضا میں لے جاتا جہاں کوئی اس کے زخموں کو مندمل کر دیتا۔ وہ اس کو انسانوں کی دنیا سے نکال کر معصوم فرشتوں کی نگری میں پہنچا دیتا جس جگہ ہر دھڑکنے والے دل میں سچی اور بے لوث محبت کا دریا لہریں مارتا ہے۔ جس مقام پر سانس لینے والا ہر متنفس پژمردہ پھولوں کی بھی اتنی ہی قدر کرتا ہے جتنی ان کی حالتِ شگفتگی میں۔
سورج کافی طلوع ہو چکا تھا۔ کسان جھونپڑوں سے نکل نکل کر کھیتوں کی طرف جانے شروع ہو گئے۔ مویشیوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی صدا سنائی دینے لگی۔ کسی دور کے کھیت سے درانتی کی آواز بھی سنائی دی۔ شاید چنے کی فصل تیار ہو گئی تھی۔ گلفام زمین پر سُم رگڑنے لگا۔ اس نے زور سے لاتیں چلائیں۔ ہنہنانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی دیہاتی کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لے۔ یہ لوگ بہت نیک اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ مگر اس کی فریاد کسی کے کان تک نہ پہنچی۔ موتی بھی اپنے دوست کا منشا سمجھ کر چلانے لگا اور اتنے زور سے بھونکا کہ قرب و جوار کے دوسرے کتے بھی اس کے ہم آہنگ ہو گئے۔ کتوں کی فطرت ہے کہ اپنے ہم جنس کی آواز سن کر خواہ مخواہ چلانے لگتے ہیں گویا انھیں بھی اس کے ساتھ ہمدردی ہے۔ مگر کتوں کی زبان کو بھی کسان نہ سمجھ سکے۔ کھیت پک چکے تھے اس لیے وہ اپنے کام میں پورے انہماک کے ساتھ غرق تھے۔
گلفام اپنے خیالات میں محو ہو گیا۔
ایک خواب بیداری کے عالم میں کوٹھی کا منظر اس کی نگاہ کے سامنے تھا۔ تخیل کی آنکھ سے اس نے دیکھا کہ مالک اور گھر کے دوسرے لوگ بیدار ہو گئے ہیں۔ ملازم اپنے فرائض کی انجام دہی میں کمر بستہ ہیں۔ سائیس سے گلفام کی حالت دریافت کی جا رہی ہے۔ وہ اطلاع دیتا ہے کہ رات کے سکوت میں وہ کہیں بھاگ گیا۔ مالک “خس کم جہاں پاک” کہہ کر قہقہہ لگاتا ہے اور سائیس کو ہدایت کرتا ہے کہ بہت جلد مہترانی کو بلا کر اصطبل صاف کرا دے اور اس میں گندھک روشن کر دے تاکہ عفونت کم ہو جائے۔ اس میں سفیدی کرانے کا بھی حکم دیا جاتا ہے تاکہ اس میں آئندہ بندھنے والے گھوڑوں پر برا اثر نہ پڑے۔
گلفام چونک پڑا۔ اس کے زخمی سینے سے ایک آہ سرد نکلی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھائیں اور بادل کی چادروں میں موت کے فرشتے کو تلاش کرنے لگا۔ وہ زندگی سے تنگ آ گیا تھا۔ اسے مر جانے کی آرزو تھی۔
موتی بھاگ کر قریب کے ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں کھڑے ہو کر خوب چلایا۔ مگر بے سود۔ اس بستی کے تمام لوگ کم از کم اس دن کے لیے بہرے ہو گئے تھے۔ اس کی فریاد کو نہ سن سکے۔ وہ جلدی سے واپس آ گیا۔ اس خیال سے کہ تنہائی کے نا خوشگوار لمحات میں مرنے والے دوست کو کوئی غیر معمولی صدمہ نہ پہنچ جائے۔ اس نے دیکھا کہ گلفام کے منہ پر مکھیاں بھنکنے لگی تھیں۔ اس کی زبان جبڑے کے باہر لٹک رہی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی مگر بے نور تھیں۔ مکھیاں زخموں پر بیٹھتیں تو بدن میں تھرتھری پیدا نہ ہوتی تھی۔ اب اس کا جسم بالکل بے حس ہو چکا تھا۔
اس کی روح کبھی کی نکل چکی تھی۔ مگر موتی کو یقین نہ آیا کہ گلفام مر گیا ہے۔ وہ سمجھا کہ انتہائی کمزوری کے باعث غنودگی طاری ہو گئی ہے۔ اس لیے وہ خود بھی خاموش ہو کر زمین پر پنجے ٹکا کر بیٹھ گیا اور ایک فلسفی کی طرح زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔
“کائناتِ عالم کی تخلیق سے خدا کا منشاے حقیقی کیا ہے؟ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کس وجہ سے دیا گیا؟ دیگر حیوانات نطق سے کیوں محروم رکھے گئے؟ مسرت و انبساط کے ساتھ مصائب و آلام کو وابستہ کر کے زندگی کو تباہ کر دینا کس مصلحت کی بنا پر ہے؟ ایسی ہستیوں کو موت جلد کیوں نہیں آ جاتی جو خود اپنی زندگی سے بیزار ہوں؟”
یہ اور اسی قسم کے سینکڑوں سوالات تھے جو یکے بعد دیگرے موتی کے دل میں پیدا ہوئے۔ مگر اس کی عقلِ نا رسا کسی ایک رمز کی بھی عقدہ کشائی نہ کر سکی۔ حتیٰ کہ آفتاب غروب ہونے کے قریب ہو گیا اور موتی کی توقع کے مطابق گلفام کو ہوش نہ آیا۔
وہ ابدی نیند سو رہا تھا۔
مقدّس معصیت
اسے کس قدر فخر تھا اپنے زہد و اتقا پر۔ کتنا ناز کرتا تھا اپنی تقدیس و طہارت پر۔ سمجھتا تھا کہ دنیا سے منہ موڑ کر جنگل میں آ جانے سے اس نے نفس پر فتح حاصل کر لی ہے۔ وہ خوش تھا کہ دنیا کی معصیت سے بچ نکلا ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ میں نے سرابِ زندگی کو بے نقاب کر کے ان حقیقتوں کو معلوم کر لیا ہے جو خوب و زِشت میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اب میں نسوانی فطرت کی کی سحرکاریوں، حسن و جمال کی فتنہ سامانیوں، عشق و محبت کی کرشمہ سازیوں اور ان سب سے زیادہ شباب کے بوجھ سے دبے ہوئے ایک پیکرِ مخمور کی تقویٰ شکن انگڑائیوں کی دسترس سے کوسوں دور ایک ایسی معصوم فضا میں پہنچ گیا ہوں جہاں صرف الوہیت رقص کرتی ہے تقدس کی لَے پر، جہاں مخلوقِ سماوی کے نغمے بیدار ہوتے ہیں تاروں کی جھلملاتی آغوش میں۔
وہ راہب تھا ایک تارک الدنیا راہب۔
نمودِ سحر سے وہ چڑیوں کے دلفریب چہچہوں، آب رواں کی رقیق راگنیوں اور بادِ صبا کے نرم جھونکوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اس برگذیدہ ہستی کی حمد و ثنا میں محو ہو جاتا جس نے، خود اس کے اعتقاد کے مطابق، اسے صرف اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا تھا۔ وہ گھنٹوں سجدۂ شکر میں پڑا رہتا۔ مالا جپتے جپتے دھوپ ڈھل جاتی اور رات کی تاریکیاں حسب معمول کائنات کے ذروں پر پھیل جاتیں۔ خودرو درختوں کے بد ذائقہ پھل اور بہتے ہوئے دریا کا کثیف پانی ہی اس کے کام و دہن کی لذت کے لیے کافی تھا۔
ایک روز حسبِ معمول وہ ساحل کے قریب بیٹھا عبادت میں مشغول تھا کہ اسے لہروں کے شگافوں میں ایک زرنگار سفینہ نمودار ہوتا دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کی نظریں جم گئیں اور جم کر اس مرکز پر قائم ہو گئیں جو نسوانی رعنائیوں کا حامل تھا۔ دریا کی ہر موج کے ساتھ سفینہ قریب آتا گیا۔ یہاں تک کہ ساحل کے پاس آ کر ٹہر گیا۔
اس کے اعضا پر لباس یا تو تھا ہی نہیں اور اگر تھا تو محض براے نام۔ اس قدر باریک اور ایسے رنگ کا جو اعضا کی لحمیت سے وصل ہو کر جلد میں مدغم ہو جاتا ہے اور اسی کا ایک جز معلوم ہونے لگتا ہے۔
سفینہ کے ٹہر جانے پر اس نے ایک رباب اٹھا لیا۔ نازک انگلیوں میں جنبش ہوئی اور فضا میں تاروں کی جھنکار سے ایک مترنم تموّج کا تلاطم برپا ہونے لگا۔ پھر لبوں کی شگفتگی سے ان نغموں کو سنا دیا جو اس وقت تک رباب کے تاروں سے بھی بیدار نہ ہو سکے تھے۔ راگ کے زیر و بم کے ساتھ شباب و رعنائی کے حامل سینۂ عریاں میں بھی ایسا نشیب و فراز پیدا ہوتا گویا وہ خود ایک زندہ ساز ہے جو آرزومند ہے صرف ایک مضراب کا۔ گاتے گاتے اسی پر ایک محویت طاری ہونے لگی۔ اور در حقیقت اس وقت موسیقی کا یہی اعجاز ہونا چاہیے تھا کہ خود مغنیہ وجد میں آ جاتی۔
راہب نے سب کچھ سنا اور سنتے سنتے اسے اپنے جسم میں وہ تھرتھری محسوس ہونے لگی جو خون میں سرعت رفتار پیدا ہو جانے کے بعد نمایاں ہوتی ہے۔
اسے یقین ہو چلا کہ اگر ماحول بدستور رہا تو آج عمر دراز کا تمام زہد و اتقا اس حسینہ کے قدموں میں ڈال دینا پڑے گا۔ اس لیے پوری احتیاط کے ساتھ وہ اس طرح پنبہ بگوش ہو گیا کہ بیرونی صدا تو درکنار اس کے قلب کی دھڑکن بھی اس کی سماعت پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ لیکن اس کی آنکھیں، وہ غیر ارادی طور ہر اسی مرکز پر جمی رہیں۔
نغموں کو دوبارہ آسودۂ خواب کر کے وہ ساحل پر اس طرح اتر آئی گویا برق کی ایک لہر ہے جس کا اضطراب متشکل ہو گیا ہے۔ وہ رقص کے انداز میں کمر کے اندر بل ڈال کر اس طرح کھڑی ہو گئی گویا کالی ناگنوں کو لہرانے کی تعلیم دے رہی ہے۔ پھر ہاتھوں کو شانوں کے متوازی کر کے ساعدِ سیمیں میں خفیف حرکت شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی بائیں ٹانگ میں تھوڑا سا خم ڈال کر پاؤں کی انگلیوں سے کسی ناشنیدہ نغمے کے سروں پر تال دینے لگی۔ اس طرح کہ کائنات کے ذروں سے ہم آہنگ ہو کر بدن کا ہر رونگٹا گنگنانے لگا۔ بکھرے ہوئے بال اور منتشر ہو گئے۔ ابھرے ہوئے میناے شباب کو کچھ اور سرفرازی نصیب ہوئی۔ آنکھیں تھرکنے لگیں، بھویں مٹکنے لگیں اور بحیثیت مجموعی اس کے تمام جسم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو طوفانی سمندر میں موجوں کے ہچکولوں پہ ڈگمگاتی ہوئی کشتی پر ہوتی ہے۔ پھر وہ رقصِ طاؤس کے انداز میں پشت کی جانب جھکی اور اتنی جھکی کہ سر زمین سے آ لگا۔
اس وقت اس کے جسم کا وہ مخصوص حصہ مکمل عریانی کے عالم میں راہب کی آنکھوں کے سامنے تھا جس کے معکوس ساغروں میں خون بھی شراب معلوم ہونے لگتا ہے۔
راہب کو اندیشہ ہوا کہ مبادا تابِ ضبط نہ رہے اس لیے اس نے منہ موڑ کر آنکھیں بھی بند کر لیں لیکن دل و دماغ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ کیونکہ پیشانی پر پڑنے والے بلوں اور اندازِ نشست سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ منتظر ہے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اب عورت کے پاس وہ کون سا حربہ باقی ہے جس کے ذریعے اس کی اہرمنی قوتیں بروے کار آ سکتی ہیں۔
کچھ دیر سکوت طاری رہا۔
حسینہ کشتی کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔ راہب نے ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ آنکھیں اس طرح کھولنی شروع کیں گویا نسیمِ صبح کے لطیف جھونکوں اور قطرہ ہاے شبنم کی صباحت سے دو غنچے بتدریج شگفتہ ہو رہے ہیں۔
یہ دیکھ کر کہ وہ کشتی میں بیٹھ کر چلے جانے کا ارادہ کر رہی ہے، وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ شیطانی وسوسوں سے نجات مل گئی۔ لیکن عین اس وقت جب کہ وہ سُکّان کو پکڑ کر اندر بیٹھ جانے کی آمادگی ظاہر کر رہی تھی، اس نے ارادتاً اپنا توازن بگاڑ دیا اور پانی میں جا پڑی۔ اپنے ہاتھوں کی بے قاعدہ جنبشوں اور ہر ابھار کے ساتھ ہلکی چیخ سے اس نے راہب کو محسوس کرا دیا کہ وہ تیرنا نہیں جانتی۔
راہب نے کچھ دیر اس کو بغور دیکھا لیکن پھر یقین ہو گیا کہ ایک انسانی ہستی خطرہ میں ہے۔ اس لیے فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور بے تحاشا دریا میں کود پڑا۔ چند لمحے بعد حسینہ بے ہوشی کے عالم میں اس کی آغوش میں تھی اور وہ اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ اس کے آنسو بھی بہہ رہے ہیں، اس کا دل ہل گیا۔
اُف! حسین آنکھیں اور اشک آلود۔
جوشِ ہمدردی میں اس نے حسینہ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور خاکستری لبوں سے اس کے پپوٹوں پر گرم بوسے ثبت کر کے آنسوؤں کو خشک کر دینا چاہا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور اپنی اس کامیابی پر مسکرانے لگی۔
اپنی جان کو مصیبت میں پھنسا کر اور اشکوں کے تقاطر سے فریب دے کر دوسروں کی ہمدردی حاصل کر لینا صنفِ نازک کا وہ آخری اور کامیاب حربہ ہے جس کے مقابلے میں تیر و تفنگ کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔
نمودِ سحر سے قبل اس خوابِ بیداری کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔ مناظرِ قدرت کی کیفیات بدستور تھیں۔ لیکن خلافِ معمول دیکھا گیا کہ راہب جنگل کے گوشۂ اعتکاف کو چھوڑ کر شہر کے ہنگاموں کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اس پر روشن ہو چکی تھی کہ صنفِ نازک سے منہ موڑ کر تارک الدنیا ہو جانا ایک ایسا تقدس ہے جو اپنی مذموم نوعیت کے لحاظ سے ایک زبردست معصیت ہے۔
جھوٹ
(1)
جس طرح زرگر کو پیتل کے زیور پر ملمع کرنے کے لیے خالص سونا بھی درکار ہوتا ہے اسی طرح ایک دروغ گو کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جھوٹ کو نبھانے کے لیے انتہائی صداقت سے کام لے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو جھوٹ میں کوئی ندرت پیدا نہیں ہوتی۔ قوتِ بیان کا اعجازِ کمال یہ ہونا چاہیے کہ جھوٹی بات کو بھی سننے والے سچ اور صداقت سے لبریز تسلیم کر لیں۔ خواہ یہ اثر ہنگامی ہو اور بعد میں قدرت کے زبردست جھوٹ یعنی سراب کی طرح اصل حقیقت منکشف ہی کیوں نہ ہو جائے۔ عام طور پر اس فن لطیف کو مذموم سمجھا جاتا ہے اور دروغ گو کے لیے نہ صرف مذہب و ملّت کی طرف سے سزا مقرر ہے بلکہ سوسائٹی بھی اسے مطعون کرتی ہے حالانکہ روزمرہ کی زندگی میں اور زندگی کے ہر شغل میں ہم اس کا ارتکاب کرتے ہیں اور محسوس نہیں کرتے کہ غیر ارادی طور پر ہم ایک جرم کے مرتکب ہو گئے۔
اسلاف کو اور ان کے کارناموں کو بہتر بتانا اور مقابلتاً اپنے اپ کو حقیر و کم مایہ سمجھنا کیا درحقیقت اعماقِ قلب سے نکلی ہوئی ایک آواز ہوتی ہے یا محض لبوں کی جنبش ان الفاظ کو ادا کرتی ہے؟ کسی کی جھوٹ بات سن کر اخلاقاً اعتراض نہ کرنا بلکہ سکوت سے کام لینا کیا ایک خاموش جھوٹ نہیں ہے؟ اور کیا صداقت اسی کا نام ہے کہ مرگِ دشمن کی خبر سن کر محض اس لیے اظہارِ افسوس کیا جائے کہ اب وہ مر گیا ہے یا بادشاہِ وقت کی قصیدہ خوانی کی جائے صرف اس خوف سے کہ اس کا عتاب نازل نہ ہونے لگے۔
ایران کے دوران قیام کا ذکر ہے کہ مجھے اہلِ تشیع کی ایک مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملا اور وہاں شامل ہونے سے قبل مجھے بتایا گیا کہ سوز خوانی کے وقت خوب رونا چاہیے۔ اگر گریہ و زاری ممکن نہ ہو تو کم از کم رونی صورت بنا لینی چاہیے۔ اگر آنسو نہ نکل سکیں تو منہ پر رومال رکھ کر ایسی آواز نکالی جائے جو آہ و بکا کے وقت ممکن ہے۔ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی اور زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ مذہب یا بالفاظ دیگر مفتیانِ مذہب ہمیں جھوٹ بولنا بھی سکھاتے ہیں۔ اور جب بہ نظر غائر مطالعہ کیا تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ ہر مذہب کی سینکڑوں باتیں مجموعۂ کذب و بطل ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر کسی بے سر و پا قصّے کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے جس سے قارئین کی توجہ کسی مذہبی واقعہ کی طرف مبذول ہو جائے تو بلاشبہ وہ بے بنیاد قصہ بیک جنبشِ قلم صداقت سے لبریز ایک حقیقت بن جائے گا۔
اس خیال کے پیدا ہوتے ہی مجھے ایک فرانسیسی افسانہ یاد آ گیا جو پیرس کے ایک ظریف اخبار میں شائع ہوا تھا۔ میں نے قند مکرّر کے طور پر دوبارہ اس کا مطالعہ کیا۔
(2)
“موسم بہار کی ایک خوشگوار شام تھی اور ہمارا جہاز سمندر کی پُرسکون لہروں پر آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ میں اپنی شریکِ حیات کے ساتھ عرشۂ جہاز پر کھڑا اس بحرِ ناپیدا کنار کا نظارہ کر رہا تھا۔ مسرت و شادمانی سے ہمارے چہرے نو شگفتہ پھول کی طرح پُر رونق تھے۔ خاص طور پر مجھے یہ خوشی تھی کہ ایک طویل سفر کے بعد اپنے وطن مالوف کی طرف مراجعت عمل میں آرہی تھی۔ میرا تخیل ہوا کے تیز جھونکوں سے زیادہ سریع الرفتار تھا مگر افسوس ان لمحاتِ مسرت کے عین دوران میں اچانک روزا کے سینہ میں درد اٹھا۔ اس قدر خوفناک درد کہ جہاز کے کپتان سے لے کر معمولی ملاح تک سب پریشان ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا لیکن مطلق سمجھ میں نہ آیا کہ درد کا سبب کیا ہے۔ تکلیف بڑھتی گئی اور میری یہ کیفیت تھی کہ اس کی ہر آہ کے ساتھ سینہ پر ایک کاری ضرب لگتی اور میں دل مسوس کر رہ جاتا لیکن اس سے کیا ہو سکتا تھا۔ روزا کے درد میں کمی نہ ہوئی۔ میں زار و قطار رونے لگا مگر قدرت کی ظالم دیوی کو بالکل ترس نہ آیا۔ نصف شب کے قریب اس کا اضطراب سکون پذیر ہوا لیکن تندرستی کی صورت میں نہیں بلکہ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ قلب کی حرکت بند ہو گئی ہے اور اس کا جسدِ خاکی ایک محروم روح نعش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مجھ پر گویا بجلی گر پڑی۔ میرے لیے دنیا اندھیری تھی۔ وطن سے کوسوں دور پانی کی موجوں پر بہتے ہوئے جہاز میں عرصۂ دراز کی شریکِ حیات کا یکایک مر جانا جس قدر اندوہ ناک ہو سکتا ہے، اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔
جہاز کے آئین کی رُو سے کپتان نے حکم دیا کہ بہت جلد متوفّیہ کی تجہیز و تکفین کر دی جائے تاکہ اصول کے مطابق نعش سمندر میں پھینک دی جائے۔ زیادہ عرصہ اس کو جہاز میں رکھنا خلافِ قاعدہ ہے۔ ہر چند میں نے استدعا کی کہ بندرگاہ پہنچنے تک کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں اپنی شریکِ حیات کو زمین میں دفن کر کے ایک یادگار قائم کر سکوں۔ لیکن کپتان نے میری بات نہ مانی اور اسی پر مصر رہا کہ نعش پانی میں ڈال دی جائے۔ مجبوراً با دلِ نخواستہ میں نے نعش کو اس کے بہترین لباس میں لپیٹ کر ایک اونی کمبل میں باندھ دیا۔ دستور کے مطابق کچھ وزنی پتھر بھی ساتھ رکھ دیے تاکہ نعش جلدی ڈوب جائے لیکن جب لوگ اسے پانی میں ڈالنے لگے تو ضبط و تحمّل کی باگ میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور میں نے تہیہ کر لیا کہ اس کے بعد زندہ رہنا فضول ہے۔ موت کا سبب یکساں نہ سہی۔ تاہم مٹی دونوں کی ایک ہی طرح ٹھکانے لگ جائے تو بہتر ہے۔ اس لیے فوراً چھلانگ مار کر نعش ہی کے ساتھ میں خود بھی پانی کی موجوں پر جا گرا۔ وزن زیادہ ہونے کے باعث وہ بڑی سرعت سے تہ میں بیٹھتی جا رہی تھی۔ اس لیے میں نے زبردست تعاقب سے کام لیا اور اسے پکڑنے کی کوشش برابر جاری رکھی۔ اچانک میرا سر کسی شے سے ٹکرایا اور میں نے محسوس کیا کہ کسی محدود جگہ میں گھر گیا ہوں بلکہ مقید ہوں کیونکہ اب میں پانی کی موجوں کی بجاے ایک ایسے مقام پر تھا جہاں معمولی نمی تھی۔ ورنہ زیادہ تر نشیب و فراز کی سی بنجر زمین معلوم ہوتی تھی۔ سخت اندھیرا تھا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی، سانس بھی کسی قدر گُھٹ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے ہمت سے کام لیا اور ادھر اُدھر ہاتھ بڑھا کر ٹٹولنا شروع کیا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ جگہ کس قسم کی ہے کہ اچانک میں نے اسی کمبل کو محسوس کیا جس میں روزا کی نعش لپیٹی گئی تھی۔ مجھے ایک گونہ اطمینان ہو گیا کہ خیر اس کے قریب ہوں۔ انجام جو ہو سو ہو۔
میں اس کے پاس بیٹھ کر خود اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ یکایک روشنی کی ایک شعاع ایک سمت سے نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کچھ شور سنائی دیا۔ اس وقت بچشمِ خود میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں ہوں۔ اس وقت مجھے آسمانی جھلک بھی نظر آئی جس سے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ مچھلی سانس لینے کے لیے سطح پر آئی ہے۔ کچھ دیر بعد پھر اندھیرا ہو گیا۔ وہی اندھیرا اور میں افسردہ و غمگین اپنی شریک حیات کی نعش سے لپٹ کر رونے لگا۔
مجھے محسوس ہوا کہ اس مردہ جسم میں خفیف سی حرکت ہو رہی ہے۔ پہلے گمان ہوا کہ یہ اپنے واہمہ کا کرشمہ ہے۔ لیکن جب وہ جنبش بڑھتی گئی تو مجھے یقین ہونے لگا کہ روزا مری نہیں تھی بلکہ صرف سکتہ ہو گیا تھا اور اب وہ دوبارہ ہوش میں آ رہی ہے۔ میرا یقین واثق ہو گیا جب ایک نحیف آواز “میں کہاں ہوں؟” مجھے سنائی دی۔ میں نے کہا “روزا تم میرے قریب ہو، ڈرو مت۔”
اس سے قبل میں مر جانا چاہتا تھا لیکن اب زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہونے لگی۔ لیکن کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ میری جیب میں ایک چاقو ہے، اس سے کام لینا چاہیے۔ فوراً اسے نکالا اور سب سے پہلے اس رسی کو کاٹا جس نے روزا کو جھٹک رکھا تھا۔ وہ بالکل آزاد ہو گئی اور زندہ بھی۔ میں نے جوشِ محبت میں اس کو سینہ سے لگا لیا اور اس کے لبوں کو جن میں دورانِ خون کے شروع ہو جانے سے حرارت پیدا ہو چلی تھی۔ بے تابی کے ساتھ چومنے لگا۔ تاہم میں نے اس کو یہ نہیں بتایا کہ ہم ایک خطرناک قید خانہ میں بند ہیں۔
معمولی چاقو سے مچھلی کے جسم کو چیر کر باہر نکل آنا غیر ممکن سی بات تھی۔ کیونکہ ظاہر تھا کہ اس کا گوشت نہایت فربہ اور کھال دبیز ہوگی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے دل کو زخمی کر کے اسے ہلاک کر دیا جائے اور پھر باہر نکلنے کی تدبیر کی جائے۔ لیکن دل کہاں اور کس جگہ ہے؟ یہ معلوم کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ اس قدر وسیع اور تاریک جگہ میں یہ پتہ نہ لگ سکا کہ بایاں پہلو کون سا ہے۔ لہذا میں نے محض اندازہ سے کام لے کر تلوار کے سے ہاتھ چلانے شروع کر دیے اس خیال سے کہ کوئی نہ کوئی ضرب تو کاری لگ ہی جائے گی۔ میرا کوئی وار خالی نہیں گیا۔ مگر پھر بھی بے سود۔ میرے قویٰ مضمحل ہو گئے۔ پسینے کے باعث برا حال تھا۔ علاوہ ازیں اس محدود فضا میں ایک قسم کا تعفن بھی پیدا ہو چلا تھا۔ جس سے دم گھٹنے لگا۔ لیکن زندہ رہنے کی تمنا کسی تکلیف سے پامال نہیں ہو سکتی تھی۔ انسان آخری سانس تک جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ میری کوششیں کامیاب رہیں اور مچھلی کچھ تڑپنے کے بعد بالکل مردہ ہو گئی۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ کچھ علم نہیں۔ البتہ جب ہوش آیا تو میں ساحل پر تھا۔ کیونکہ ماہی گیروں نے ایک بڑی مردہ مچھلی کو سطح پر تیرتے ہوئے دیکھا تو اسے خشکی پر کھینچ لائے اور چربی وغیرہ نکالنے کے لیے جب پیٹ چاک کیا تو ہم برآمد ہو گئے۔ روزا بھی زندہ سلامت رہی۔”
(3)
افسانے کو دوبارہ پڑھ لینے کے بعد میں نے غور کیا کہ طرزِ بیان اگرچہ دلکش ہے مگر صداقت کا فقدان صاف ظاہر تھا۔ کوئی شخص یقین نہ کرتا کہ یہ واقعہ ہو سکتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ ایک معمولی سی ترمیم سے اس مردہ ڈھانچ میں جان پڑ سکتی ہے۔ لہذا اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کرنے کے بعد اختتام سے قبل ان الفاظ کا اضافہ کر دیا:
“مچھلی کے پیٹ میں رہ کر دوبارہ زندہ نکل آنے کے باعث لوگ مجھ کو یونس ثانی کہنے لگے۔”
نتیجہ ظاہر ہے کہ اس آخری جملے کا مطالعہ کر کے قارئین کو حضرت یونسؑ کا قصہ یاد آ جاتا اور وہ اسی فرضی افسانے کو حقیقت سمجھنے لگتے۔ کیونکہ ان کے ذہن پر اچھی طرح مرتسم تھا کہ حضرت یونسؑ تین یوم تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور پھر زندہ نکل آئے۔ اس طرح اور صدہا جھوٹے واقعات کو ہم صداقت کے رنگ میں پیش کر سکتے ہیں۔
بنگالی ادب اور ایک گمنام شاعرہ
کسی ملک کی حیاتِ قومی کا مطالعہ کرنے کے لیے جن پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ان میں سے ادبیات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ادب کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں ذہنیتوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ قوم لائقِ نفرین ہے جس کے ادبیات میں ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہو۔ غائر نظر سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کم از کم عصر جدید میں خوب و زشت کی بیشتر ذمہ داری ان حاملانِ ادب پر عائد ہوتی ہے جو رسائل ادبیّہ کے مدیر یا دار التصانیف کے ناظم و ناشر ہیں۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ مُوردِ الزام یا لائقِ تحسین ان ہستیوں کو کیوں نہ ٹھہرایا جائے جن کی نگارش کاغذ پر کثیف یا لطیف نقوش پیدا کرتی ہے۔ یہ صرف اس حد تک درست ہے کہ ادب شخصی تخیلات، جذبات اور احساسات کا پرتو ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کی کاوش دماغی انھی حاملانِ ادب کی فرمائشات اور ذوق کی بلندی و پستی کے تابع ہوتی ہے۔
تخلیق ادب کے اس عمیق نکتہ پر غور کرنے سے پہلے اس امر کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہر ادب میں دو عناصر پائے جاتے ہیں، پہلا اکتسابی یا ارثی کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ایک فاتح قوم مفتوح قوم کے لیے یا ایک نسل دوسری آنے والی نسل کے لیے بطور ورثہ چھوڑ جاتی ہے۔ مثلاً یورپ میں یونان کا ادب روم کو ملا یا ہندوستان میں ایرانی اور بعد میں انگریزی ادبیات کے نقوش یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر مرتسم ہو گئے۔ ایسی صورت میں اسلوب بیان کے اندر تصنع اور آورد کو زیادہ دخل ہوتا ہے اور صداقت و سادگی کا فقدان۔ جذبات کے پیکر غیر فطری لباس میں نظر آتے ہیں۔ استعارے اور تشبیہات بھی مانگے کے ہوتے ہیں۔
دوسرا عنصر وہ ہے جسے طبعی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کہ ذاتی ماحول کے مطابق اور خالص انفرادی تاثرات کے بموجب اپنے جذبات کی ترجمانی دل سے کی جائے۔ اس کے ذریعے ہم کائنات کے پوشیدہ راز معلوم کر کے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں اور نہ مٹنے والے نقوش کی طرح ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بے شمار رسائل شائع ہو رہے ہیں اور ہر سال سینکڑوں کتابیں تصنیف ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی خالص ہندوستانی پیداوار نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اردو ہی کو لیجیے۔ ایرانی رنگ تغزل اور انگریزی طرزِ فسانہ نویسی اس درجہ حاوی ہے کہ اگر کوئی طبع زاد چیز بھی لکھی جائے تو اسے طبع زاد ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم بنگال ایک ایسا صوبہ ہے جس کو اس کلیّہ سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے اس کا خزینۂ ادب اس قدر لبریز تھا کہ بیرونی بھیک کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اور اگر کسی نے نذرانہ پیش بھی کیا تو خود دار طبیعت نے اس کی اثر آفرینی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اس وقت بھی جب کہ یہاں انگریزی معاشرت کے جراثیم بکثرت موجود ہیں، وہ اپنے شعار قومی اور روایاتِ ملکی پر قانع ہیں۔
علاوہ ازیں زبان کی نزاکت، اس کے فطری لوچ اور قدرتی فضاؤں کے لحاظ سے بھی بنگال خوش نصیب ہے۔ ہر شاعر اور ہر افسانہ نویس اپنے صحیح جذبات کو حقیقی رنگ میں بیان کرنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اسی لیے اس میں حد درجہ بے ساختہ پن پایا جاتا ہے۔ شاعری کے ضمن میں اگر کبھی محبوب کو یاد کیا گیا تو بالکل اس طرح گویا وہ سامنے موجود ہے۔ اسی طرح افسانے کے واقعات آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ مرد عورت کو یاد کرکے خون کے آنسو بہاتا ہے اور عورت مرد کے فراق میں جاں بلب نظر آتی ہے۔ اردو کی طرح نہیں کہ محبوب کی ہستی کو ہر صورت میں صنف قوی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
شاعری کے لیے آلام حیات اور آرزوؤں کی پامالی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر صحیح جذبات بیدار نہیں ہوتے۔ مرد اپنے غمگین دل کی افسردگی کو سینکڑوں ذرائع سے محو کر سکتا ہے۔ یار دوستوں کی بے تکلف محفل میں اُٹھ بیٹھ کر، مختلف تفریحات میں حصہ لے کر، اقتصادی مشاغل میں منہمک رہ کر وہ ان کلفتوں کو جلد ہی بھول جاتا ہے جو اس کی روح کے لیے بارِ گراں بنتی ہیں۔ برخلاف اس کے صنفِ نازک کے لیے جس کی ہر آزادی پر بھی سینکڑوں پابندیاں عائد ہوتی ہیں، مقسوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سینہ ہی میں پرورش کرے اور کبھی ان کی تسکین کا خیال بھی نہ کرے۔ چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت کے اعماقِ قلب سے نکلے ہوئے گیت یا اس کے قلم سے لکھے ہوئے ایک افسانے میں جتنی صداقت ہو سکتی ہے، مرد کے ہاں ممکن نہیں۔
اسی لیے میں نے ان سطور کو ایک خاتون کی شاعرانہ شخصیت کے لیے مخصوص کیا ہے۔
سُربالا دیوی، میرے وطنِ عزیز کی بے مثل شاعرہ، جس کا پاکیزہ کلام ہر ملک کے لیے ایک نمونۂ ادب بن سکتا ہے، اس قدر گمنامی کے پردہ میں زندگی بسر کر رہی ہے کہ خود بنگال کے بڑے بڑے ادب نواز طبقوں میں اس کا نام تک سننے میں نہیں آیا۔ جس زمانہ میں یہ شانتی نکیتن کے اندر موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھ سے ملاقات ہوئی۔ نہایت متین و سنجیدہ، کم سخن اور آنکھوں میں ایک وحشت سی تھی۔ پہلے تو میں اس کی فطرت سمجھ ہی نہ سکی۔ خیال ہوا کہ شاید دیوانی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اسے مطالعۂ قدرت کا بے حد شوق ہے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ موسم سرما کی بہتے ہوئے پانی کو منجمد کر دینے والی خنک راتوں میں وہ صحن چمن میں بیٹھی ماہ و انجم سے ہم کلام ہے۔ جس دن چاند پورے شباب پر ہوتا وہ اکثر قریب کے ایک چشمے کے کنارے اپنا رباب لے کر چلی جاتی اور سکوت شب کو اپنے دل نواز نغمے سنا کر بیدار کر دیتی۔ یوں دوسرے شعرا کا کلام بھی اسے یاد تھا مگر عموماً اپنی ہی غزلیں گاتی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ حقیقت نگر آنکھیں قدرت کی جمال آفرین کیفیتوں میں اس حسن کا مطالعہ کر سکتی ہیں جو ایک شاہدِ رعنا کے ظاہری خد و خال یا خود ارادی ناز و انداز میں کبھی ممکن نہیں۔
ایک رات کا منظر وہ ان الفاظ میں پیش کرتی ہے:
“میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی،
جب ٹھنڈے چشمے کی سنجیدہ روانی میں مدھم سروں کا باجا بجتا تھا۔
جب سرد ہوا کے ہلکے جھونکوں سے،
ننھی شاخوں پر سبز پتے رقص کرتے تھے۔
جب سُرمئی رنگ کی کہر کے دھندلے پردوں سے
چاند کی سنہری کرنیں چھن چھن کر آتی تھیں۔
جب بھیانک جنگل کے سکوتِ مطلق میں
وحشی درندے تھم تھم کر چلاتے تھے۔
جب خنکی و دہشت کے اس ہوش ربا عالم میں
مجھے پرمیشور آ آ کر تسکین دیتے تھے۔
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی۔”
بچپن اور بچپن کی بے فکری کا زمانہ اور اس زمانے کی معصومیت مرتے دم تک یاد آتی ہے۔ اس کھوئے ہوئے عہد زریں کا نوحہ ہر شخص کی زبان سے سن لو۔ لیکن صنف نازک جس نرالے انداز میں اس کو یاد کرتی ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار سُربالا دیوی اپنی مندرجہ ذیل نظم کو گاتے گاتے خود رونے لگی تھی ( ترجمہ میں وہ خوبی کہاں جو اصل میں ہے):
“کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا
نہ کوئی فکر، نہ غمگین جذبات کا ہجوم
میرا دل رنج و غم کا مرکز بن جاتا ہے
جب مجھے پچھلی باتیں یاد آتی ہیں۔
گھر کے کُل دھندوں سے فارغ ہو چکنے پر
سہیلیوں کی سنگت میں میں کھیلا کرتی تھی۔
ان کی شرارت سے دل جل جاتا تھا
(لیکن) اس جلن میں لذت ہوتی تھی۔
چاندنی راتوں میں ندی کے کنارے پر
ریتلی مٹی کے محل سب مل کے بناتے تھے۔
ایک رانی بنتی، چند سکھیاں، ایک داسی
پھر راجا کے بنانے میں جھگڑا ہوتا تھا۔
ایک کہتی میں بنوں، دوسری کہتی میں بنوں
کوئی منہ پُھلا کر رہ جاتی، کوئی روٹھ کر چل دیتی
لیکن روز کا کھیل بدستور ہوتا اور سب شامل ہوتیں۔
لڑ پڑنا آپس کا، پھر مل جانا آپس میں
کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا۔”
میں سمجھتی ہوں کہ اس بے مثل شاعرہ کا معصوم دل بھی ننھے کام دیو (کیوپڈ) کی کمان سے نکلے ہوئے کسی تیر سے چھلنی ہو چکا ہے۔ بسا اوقات محض چھیڑنے کی غرض سے اور کبھی کبھی سنجیدہ طور پر میں نے پوچھا بھی کہ کہیں مرضِ محبت تو تمھیں لاحق نہیں ہو گیا۔ لیکن ہر بار میرے استفسار کے جواب میں سواے مسکرا دینے کے زبان سے کوئی لفظ نہیں کہا۔ اس لیے کم از کم مجھے یقین ہے کہ اگر وہ تبسم خفی کسی روز تکلم بلیغ بن گیا تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے یہ چند اشعار اس کے ذاتی تاثرات کا نتیجہ ہیں:
“اے عشق! اے بربطِ قلب کے سب سے بلند (آہنگ) نغمے!
تو پیغامِ سروش ہے نا امید زیست کے لیے
(تجھ میں) لذتِ غیر فانی ہے بیداریِ روح کی۔
تیرا ہی ذوقِ نظر ہے دیدۂ عبرت بیں میں
تو کاشفِ فطرت ہے عقدۂ لاینحل کا۔
حسن سر بسجدہ ہے تیری بارگاہ میں
آسمانی پریاں تیرا گیت سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہیں
ہاں گا! اور گائے جا! اے عشق نغمہ نواز!”
مختلف آلامِ حیات، ہر وقت کی وحشت و بے چینی اور مسلسل اضطراب انسان کو عارضی طور پر اہلِ دنیا سے بیزار کر دیتے ہیں اور وہ مجبوراً گوشۂ تنہائی کو پسند کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر تمناؤں کی شکست کا سلسلہ جاری رہے تو وہ دل برداشتہ ہو کر قدرت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے اور لامذہبیت کے سوگوار دامن میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ سُربالا دیوی پر بھی ایک بار یہ کیفیات طاری ہوئی تھیں۔ لیکن نفسیات کے ایک دقیق پہلو کو جس سادگی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ تعریف سے مستغنی ہے۔ صرف ایک شعر کا مفہوم یاد ہے۔ کہتی ہے:
“جب دل میں آرزوؤں کا ایک طوفان برپا تھا تو دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھ جاتے تھے۔ آرزوئیں پامال ہو چکیں اس لیے اب خدا بھی یاد نہیں آتا۔”
ایک اور شعر میں کہتی ہے:
“کبھی کبھی تمناؤں کا پامال ہو جانا بھی اشد ضروری ہے ورنہ خدا کی شان قہاری کو ثابت کرنا دشوار ہو جائے گا۔”
اس قسم کے انقلاب انگیز خیالات بنگال کے مشہور شاعر نذر الاسلام کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور اسی لیے ان کو بجا طور پر باغی شاعر کا خطاب دیا گیا ہے۔ کسی آئندہ فرصت میں ان کی شاعری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی۔
ہرچند بنگالی زبان میں الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ایک ہی مفہوم کو کئی کئی لفظوں سے ادا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جذبات و احساسات کا ہیجان نا قابل بیان حد تک بڑھ جاتا ہے تو دنیا کی کسی زبان میں ان کا اظہار آسان نہیں۔ خدا جانے سُربالا دیوی پر ایک مرتبہ کس نوع کے جذبات طاری ہوئے کہ وہ ان کو الفاظ میں ظاہر کرنے سے قاصر رہ گئی۔ کہتی ہے ؎
“آج میرے سینے کے نیچے ایک نامعلوم درد پیدا ہو رہا ہے
دل میں کبھی نہ گھٹنے والا جوش زلزلہ انگیز ہے
میں کچھ کہنا چاہتی ہوں (لیکن) کہہ نہیں سکتی
آج اپنے الفاظ کی تنگ دامانی مجھ پر ظاہر ہو گئی۔
انسان مجبور محض ہے، پھر منصوبے بیکار
قدرت جو چاہتی ہے، ہو کر رہتا ہے
کاش! آج میری زبان برق گیر بن جائے۔
اس میں صاعقہ ریزی کی قوت پیدا ہو،
میرے دہنِ قلم سے آتش باری ہونے لگے
اپنے مشتعل جذبات کو تحریر میں مقیّد کر دوں
لیکن خوب سمجھتی ہوں یہ کبھی نہیں ہوگا۔
دل کی ٹیسیں رہ رہ کر بڑھتی جاتی ہیں
اج رو کر آنسو بہانے سے بھی قاصر ہوں
آہ! آنکھوں کے چشمے! تیری تنک ظرفی
نغماتِ موت کے بول تک یاد نہیں آتے
اظہار کی ساری قوتیں کس نے سلب کر دیں؟
لیکن نہیں میں خاموش رہوں گی۔ بالکل خاموش
میرا سکوتِ مطلق ہی شرحِ بسیط بن جائے گا۔”
واہ! سکوتِ مطلق کو شرح بسیط لکھنا کتنا بلند اور فلسفیانہ تخیل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعر جسے بجا طور پر لسان الغیب کا خطاب دیا گیا ہے، ان رموز کی عقدہ کشائی کر لیتا ہے جو عام انسانوں کی فہم و ادراک سے دور ہوں۔ اس موقع پر مجھے ایک اردو شعر یاد آ گیا (شاعر کا نام یاد نہیں) ؎
اسے صیاد نے کچھ، گُل نے کچھ، بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی ایک خامشی میری
سُربالا دیوی نہایت اعلیٰ خاندان کی شریف النسب خاتون ہے۔ اس کے والد نون چندر چٹر جی جن کو کلکتہ یونیورسٹی نے ڈی، او، ایل کی اعزازی ڈگری دی تھی فارسی زبان کے بہت بڑے عالم تھے۔ حتیٰ کہ اس زبان میں اپنا کچھ کلام بھی چھوڑا ہے۔ اس لیے وراثتاً باپ کا ذوق بیٹی کو ملا اور وہ بھی فارسی زبان کی لطافت اور شیرینی سے محروم نہ رہی۔ عمر خیام کا کلام اسے خاص طور پر پسند ہے اور خافظ کے بعض اشعار بھی ازبر تھے۔
ایک مرتبہ میں نے اس کو نہایت پریشان حالت میں دیکھا۔ سر کے بال الجھے ہوئے، چہرہ خاک آلود، پھٹے پرانے کپڑے، ایک راہبہ کی صورت بنائے دریا کے کنارے بیٹھی بنسی بجا رہی تھی۔ جب میں قریب پہنچی تو اس پر ایک وجد طاری تھا۔ اس لیے کچھ دیر ایک طرف خاموش کھڑی رہی۔ لیکن دلی عقیدت کے باعث زیادہ عرصہ تک تاب نہ ہو سکی اور وفورِ جوش میں اس سے لپٹ گئی۔ اس کے لبوں میں ارتعاش تھا اور آنکھیں اس قدر سرخ تھیں گویا شراب پی رکھی ہے۔ میں نے اس کے حسب و نسب کا ذکر کر کے اس کو متوجہ کیا کہ اس زدہ حالت میں رہنا زیبا نہیں۔ اس نے فوراً کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کچھ دیر بعد بولی:
“میں یہ سب کچھ جانتی ہوں کہ ؎
صوفی صومعہ عالم قدسم لیکن
حالیا دیر مغان است حوالتگاهم”
اس کی عمر تقریباً 23 سال ہے۔ ابھی تک اس نے شادی نہیں کی لیکن نہایت تقدس کی زندگی بسر کر رہی ہے اور کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی بے خودی کا اصل سبب کیا ہے۔ اس کا کلام بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جو کچھ بھی ہے عمدہ اور قابلِ وقعت ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ کسی طرح اسے حاصل کر کے کتابی صورت میں مجتمع کر دیا جائے اور اگر ممکن ہو سکے تو دوسری زبانوں میں بھی منتقل کر دیا جائے۔
سوتیلے بچے
حسنہ صرف اٹھارہ ماہ کی معصوم بچی تھی جب کہ اچانک وہ یتیم ہو گئی۔ باپ جو کچھ چھوڑ کر مرا تھا، وہ اس کے اور بیوہ کے لیے کافی تھا۔ اور غالباً اس کی ماں کو دوسری شادی کی ضرورت لاحق نہ ہوتی۔ مگر ایک اور بچے کی ولادت نے جس کی پیدائش کے آثار باپ کے انتقال سے تین ماہ قبل ہی شروع ہو گئے تھے، واقعات میں گہرا تغیر رونما کر دیا۔ لڑکی کو خانگی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے معمولی گھریلو تربیت کافی ہو سکتی تھی اور اس کے بعد وہ کسی دوسرے کی شریک حیات ہو کر اپنا بار غریب ماں کے شانوں سے ہٹا دیتی۔ لیکن جمالی لڑکا تھا، اسے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی تاکہ جوان ہو کر وہ خود کوئی ذریعۂ معاش نکالے۔ اس کی شادی ہو اور اس طرح وہ نہ صرف اپنا پیٹ پالے بلکہ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔ اثاثہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ وہ تمام اخراجات اس سے پورے ہو جاتے اور یوں بھی عورت ہزار قابل اور تربیت یافتہ ہو مگر مرد کی سرپرستی کے بغیر ایک بچے کی تعلیم کماحقہ نہیں ہو سکتی۔
یہ تھی وہ مجبوری جس نے جمیلہ کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا کر دیا۔ وہ اپنی ذات کے لیے کسی قسم کے آرام و آسائش کی متمنی نہیں تھی، اور اگر ایسا ہوتا تب بھی کوئی عیب کی بات نہیں تھی۔ اس نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا۔ ازدواجی زندگی کے صرف دو سال گذارے تھے کہ بیوہ ہو گئی۔ وہ جوان تھی اور خوبصورت بھی۔ مگر اسے اپنے سے زیادہ بچوں کا خیال تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی ایسے شخص سے رشتۂ مناکحت قائم کیا جائے جو اس وقت تک یا تو مجرد رہا ہو یا پہلی بیوی سے اس کی کوئی اولاد نہ ہو تاکہ اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔
آخر کچھ عرصہ کے بعد جمیلہ اپنے دور پرے کے ایک رشتہ دار رشید کی شریک حیات بن گئی جس کی شرافت اس کے طرز عمل سے ظاہر تھی۔ باوجود سوتیلا باپ ہونے کے وہ ان یتیم بچوں کو بالکل اس طرح پیار و محبت کے ساتھ رکھتا گویا وہ خود اس کے بچے ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ صرف انھی دو بچوں کا سرپرست رہنا اپنے لیے کافی سمجھتا اور ان کی خاطر خود اپنے سلسلۂ نسل کو منقطع کر دیتا۔ لہذا یہ جمیلہ کی غلطی تھی کہ اس نے یہ محسوس کرنے کے بعد کہ وہ ایک مزید بچے کی ماں بننے والی ہے، مغموم رہنا شروع کر دیا اور یہ احساس اس کے لیے اس قدر سوہانِ روح ثابت ہوا کہ اس کا نخلِ حیات ثمر بار ہونے سے قبل ہی خزاں رسیدہ ہو گیا۔ وہ بستر مرگ پر تھی، جانکنی کا عالم تھا کہ عین ان لمحات میں اس نے اپنے عزیز شوہر کو پاس بلا کر تاکید کی کہ تم میرے بچوں کو ہمیشہ اپنا ہی سمجھ کر اچھی طرح رکھنا۔ اگر ان کو کوئی ایذا پہنچی تو میری روح کو اطمینان نصیب نہیں ہوگا۔
اس طرح رشید کے ذمے ایک ایسے فرض کی ادائیگی ہو گئی جس کے لیے وہ کسی طرح پابند نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اسے اپنے الفاظ کا پاس تھا۔ اس نے ان بچوں کی عمدہ پرورش کا وعدہ کر لیا تھا جب کہ اس کی مرنے والی بیوی پر زندگی کے آخری لمحات گذر رہے تھے۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں اپنی باقی ماندہ زندگی تنہا رہ کر گذار دوں گا۔ لیکن یار دوستوں نے اور عزیز و اقارب نے چین نہ لینے دیا۔ ان کا مشورہ یہی تھا کہ اسے دوسرا نکاح کر لینا چاہیے۔ سب یک زبان ہو کر کہتے تھے کہ چھوٹے بچوں کی پرورش بغیر عورت کے غیر ممکن ہے۔ اول اول تو رشید نے ان باتوں پر غور ہی نہیں کیا لیکن آخر کہاں تک۔ ہفتے کے ساتوں دن تک یہی ایک موضوع اس کے سامنے زیرِ بحث رہتا۔ وہ مخالفت کرتے کرتے تھک گیا تھا مگر دوسرے لوگ اصرار کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کے دل میں بھی ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگی۔ مگر بچوں کا خیال دل سے دور نہ ہوا۔ اس نے سوچا کہ شادی کسی کنواری لڑکی سے کرنی چاہیے اور وہ بھی ایسی شریف اور نیک طینت لڑکی ہو کہ رشک و حسد کے ماتحت ان یتیم و یسیر بچوں کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچائے۔ اگر وہ چاہتا تو ان بچوں کو کسی اعلیٰ قسم کی درسگاہ میں داخل کر دیتا جہاں بچوں کی رہائش اور ہر طرح کی تربیت کا بھی انتظام ہوتا لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ تمام دنیا طعنے دے گی کہ بے ماں باپ کے بچوں کو یتیم خانے میں جھونک دیا۔ اس لیے مجبور تھا کہ انھیں گھر پر ہی رکھے۔
بہت چھان بین کے بعد آخر اس نے کلثوم کے ساتھ رشتۂ ازدواج قائم کر لیا جو اس کے ایک دوست کی بہن تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت خوش اخلاق۔ اس نے روز اوّل سے بچوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاص کا اظہار شروع کر دیا تھا اس طرح کہ گویا وہ اسی کے بچے ہیں۔
سویرے اٹھ کر وہ ان دونوں کا منہ دھلاتی۔ ناشتہ کا انتظام کرتی اور پھر ابتدائی تعلیم کے لیے سبق پڑھا کر اپنی موجودگی میں یاد کراتی رہتی۔ حسنہ کو سینے پرونے کا کام بھی سکھانا شروع کیا۔ شام کا وقت ان کے کھیل کے لیے مخصوص تھا مگر دونوں بچے اس قدر شریر اور کام چور تھے کہ پڑھنے کی طرف توجہ ہی نہ دیتے۔ ہر وقت کھیل کود میں ان کا دھیان رہتا۔ جب ذرا آنکھ بچتی پڑوس کے بچوں میں جا ملتے جن کو سواے آوارہ پھرنے کے کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ یہ بھی انھی کی طرح آزاد رہنا چاہتے تھے۔ پڑوس والے بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ دونوں بچے ان کے بچوں کے ساتھ آ کر کھیلیں کیونکہ حسنہ اور جمالی کھانے پینے کی کچھ نہ کچھ چیز چھپا کر ان کے لیے لے جاتے تھے۔ اس لیے کلثوم اگر ڈانٹ ڈپٹ کرتی تو محلے کی تمام عورتیں اس کا دم ناک میں کر دیتیں کہ لاوارث بچوں کے ساتھ زیادتی کرتی ہو۔ ان دونوں کو بھی اس طرح شہ پڑتی۔ وہ ہنستے، قہقہے لگاتے اور سوتیلی ماں کو منہ چڑا چڑا کر باہر بھاگ جاتے۔
وہ سبق دینے بیٹھتی تو دونوں چلّا چلّا کر رونے لگتے۔ محلہ کی کوئی عورت آتی اور کلثوم کو ہزار صلواتیں سنا کر بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتی۔ دن بھر خاک دھول میں کھیلنے کے باعث ان کے کپڑے کبھی صاف ستھرے نہ رہتے۔ وہ روز ان کا سر دھو کے تیل ڈال کے کنگھی کرتی مگر ہمیشہ ریت میں اٹے ہوئے نظر آتے۔
ابتدا میں کلثوم نے درگذر سے کام لیا پھر شوہر سے شکایتیں شروع کیں۔ وہ تنبیہ کر دیتا، دونوں بچے دبک کر بیٹھ جاتے۔ لیکن وہ دن بھر گھر میں نہیں رہتا تھا، اس کے جاتے ہی وہ اپنی شرارتیں شروع کر دیتے۔ گھر میں رہتے تو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچاتے۔ پتھر مار کر صراحی پھوڑ دی، صاف برتنوں میں چولہے کی راکھ ڈال انھیں خوب خراب کر دیا، کیچڑ میں بھرے ہوئے پاؤں لے جا کر اُجلے فرش کا ستیا ناس کر دیا۔ حسنہ مشین لے کر بیٹھ جاتی کہ ہم گڑیا کے کپڑے سئیں گے اور ایک دو سوئیاں توڑ کر بس کرتی۔ غریب کلثوم پریشان ہو گئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ جانتی تھی کہ شوہر سے روز کی شکایت بھی اچھی نہیں۔ کیونکہ رشید پہلے تو بچوں کو دھمکا دیا کرتا تھا مگر بعد میں بعض محلے والوں نے اس کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ سوتیلی ماں دن بھر بچوں پر ظلم کرتی ہے۔ وہ خود بھی دیکھتا کہ حسنہ اور جمالی اس کے سامنے نہ کسی قسم کی شرارت کرتے ہیں اور نہ باہر جاتے ہیں۔ اسے بھی یقین ہونے لگا کہ کلثوم کو ان بچوں سے عداوت ہو گئی ہے۔ وہ زبان سے کچھ نہ کہتا مگر بچوں کو بھی بے قصور جان کر کسی طرح کی سزا نہ دیتا۔ لیکن آخر کہاں تک۔ اسے سخت کوفت ہونے لگی۔ جب باہر نکلتا، محلے والے اس کا پیچھا نہ چھوڑتے، خوب ملامت کرتے کہ بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ سوتیلی ماں نے انھیں جینا دشوار کر دیا ہے۔ وہ کبھی سن کر خاموش ہو جاتا، کبھی وعدہ کرتا کہ آئیدہ انھیں تکلیف نہ پہنچے گی اور کبھی محض ٹالنے کے لیے بطور مذاق کہہ دیتا کہ میں بھی ان کا سوتیلا باپ ہوں۔
خانگی زندگی میں بے لطفی شروع ہو گئی۔ رشید کلثوم کی طرف سے بدظن کہ اس کی وجہ سے تمام پریشانیاں ہیں، اور اسے شوہر سے شکایت کہ وہ دوسروں کی بات میں آ کر اس کی طرف سے اعتماد کیوں کھو بیٹھا جبکہ ذمہ دار صرف وہ نالائق بچے ہیں۔
ابھی جاڑے کی ابتدا ہی تھی کہ رشید کو نزلہ و زکام کی شکایت ہوئی۔ پھر کھانسی شروع ہو گئی۔ بخار آنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل صاحب فراش ہو گیا۔ دفتر سے چھٹی لے لی۔ علاج معالجہ ہوتا رہا، مگر افاقہ نہ ہوا۔ کلثوم نہایت خلوص و محبت کے ساتھ اس کی تیمار داری میں مشغول رہتی۔ اکثر آدھی آدھی رات تک اسی خیال میں جاگتی رہتی کہ عزیز شوہر کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اب رشید کو احساس ہوا کہ وہ حقیقتاً ایک نیک بیوی ہے۔ افترا پرداز لوگوں نے خواہ مخواہ کی شکایت کر کےاسے بدظن کر دیا تھا۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ بچے بہت شریر اور بد تہذیب ہیں۔ چونکہ اب وہ دن بھر گھر میں رہنے لگا تھا اس لیے ان کی فطرت کا مطالعہ آسان ہو گیا۔ پہلے وہ اس کے سامنے دبے لُچے بیٹھے رہتے تھے اور صرف غیر موجودگی میں ادھم مچاتے تھے۔ لیکن انھوں نے دیکھا کہ اب باپ دن بھر گھر میں رہنے لگا ہے تو اس کی موجودگی کی پروا نہ رہی۔ ہر وقت لڑنا جھگڑنا، شور و غل اور ہر قسم کی بے ہودگیاں۔ وہ دل ہی دل میں جلتا اور سوچتا کہ کس جرم کی پاداش میں یہ مصیبت گلے پڑی ہے۔ ان کا وجود اس کے لیے سوہانِ روح ہو گیا۔ مگر ایک مرنے والی کے الفاظ اسے یاد آ جاتے اور وہ سختی سے کام نہ لیتا۔
مرض بڑھتا گیا اور آخر اسے اپنے بچنے کی امید نہ رہی۔ مرنے سے کچھ دیر قبل اس نے کلثوم کو پاس بٹھا کر آخری وصیت کی:
“تم خوب جانتی ہو کہ یہ بچے نہ میرے ہیں نہ خود تمھارے، بلکہ حسن اور جمیلہ کے۔ حسن کے مرنے کے بعد جمیلہ نے میرے ساتھ شادی کی محض اس غرض سے کہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہو۔ میں نے ان کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا اور جمیلہ کے مرنے کے بعد تمھارے ساتھ رشتہ قائم کیا محض اس لیے کہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہوتی رہے تاکہ جمیلہ کی روح کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے۔ اب میرا آخری وقت ہے میں تم کو ہدایت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد تم دوسری شادی کر لینا تاکہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہوتی رہے۔ اب یہ تمھارے سپرد ہیں۔ شروع سے اب تک ہر ماں اور ہر باپ، خواہ حقیقی یا سوتیلے، دونوں کے لیے وبالِ جان بنے رہے۔ جب تم شادی کر لوگی تو کچھ دنوں کے بعد تمھاری باری آئے گی اور تمھاری زندگی کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ اس وقت تم ان بچوں کو اپنے آئندہ ہونے والے شوہر کے سپرد کر دینا اور وصیت کرنا کہ وہ بھی کسی دوسری عورت سے شادی کر لے تاکہ ان بچوں کی پرورش ہوتی رہے۔ اور میرا خیال ہے کہ تمھارے وہ شوہر بھی مرتے وقت اپنی بیوی کو ہدایت کر دیں گے کہ وہ بیوہ نہ رہے۔ اور اس بیوہ کے مرنے کے بعد اس کا خاوند بھی کسی دوسری عورت سے شادی کر لے گا۔ میرا خیال ہے کہ ان منحوس بچوں کے لیے ماں باپ کا سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہے گا۔ وہ باری باری مرتے رہیں گے اور مشیّت ہمیشہ ان کی پرورش کا سامان پیدا کر دیا کرے گی۔”
رشید دم توڑ رہا تھا۔ کلثوم رو رہی تھی اور دونوں بچے پڑوس کے گھر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قہقہے لگا رہے تھے۔
بازیچۂ اطفال
سکوتِ شب پر غروب آفتاب کی سنہری کرنوں کا غازہ پھرا ہوا تھا، اس لیے کائنات کے ہر ذرے سے تبسم کی جھلک نمایاں تھی۔ اس وقت گنگا کے دلفریب مگر سنسان ساحل پر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ریتلی زمین کے اس مختصر حصے کو بازیچۂ اطفال بنائے کھیل میں مشغول تھے۔ ان کے احساسِ ہنگامی کے مطابق اس وقت دنیا اور دنیا کی تمام کائنات سمٹ کر صرف ریت کے چمکتے ہوئے ذروں اور بہتے ہوئے پانی کی موجوں میں سما گئی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ دوسرے طبقات ارض میں کیا ہو رہا ہے۔ قدرت بھی خدا کے پیدا کیے ہوئے ان دو معصوم بچوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
لڑکا کہیں سے درخت کی چھوٹی ٹہنی لے آیا تھا اور ساحل کے قریب گھٹنے ٹکائے اس سے گنگا کے پانی کو گھنگول گھنگول کر خوش ہو رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ خود پانی بھی اس بچے کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ کیونکہ اپنے اندرونی جوش کے باعث وہ بیرونِ ساحل ہو جانا چاہتا تھا۔ کچھ فاصلے پر لڑکی اپنے ایک پاؤں پر ریت جما کر اور ننھے ننھے ہاتھوں سے تھپک تھپک کر ایک بھاڑ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ وہ دونوں دھوبی کے بچے تھے، اس لیے ان کے خیالات کی پرواز اسی فضا تک محدود تھی جس میں انھوں نے سانس لے کر زندگی گذاری تھی۔
بناتے بناتے بھاڑ سے بالکا بولی:
“دیکھ! ٹھیک نہیں بنا تو میں تجھے پھوڑ دوں گی۔”
پھر بڑے پیار سے اسے تھپک تھپک کر ٹھیک کرنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی “اس کے اوپر ایک کٹی بناؤں گی۔ وہ میری کٹی ہوگی۔ اور منوہر؟ نہیں وہ کٹی میں نہیں رہے گا۔ وہ باہر ہی کھڑا کھڑا بھاڑ کے اندر آگ پر پتے اور ایندھن ڈالتا رہے گا۔ جب وہ تھک کر ہار جائے گا اور مجھ سے بہت کہے گا تب اسے اپنی کٹی کے اندر بلا لوں گی۔”
منوہر اس کے ان تمام دلی تاثرات سے بے خبر اپنے کھیل میں محو تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ سمندر کے نشیب و فراز کی طرح ایک ہی وقت میں اس کے لیے غصّہ اور پیار کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کبھی بے قصور اس پر عتاب نازل کرنے کا ارادہ ہوتا ہے اور کبھی رحم کھا کر سایۂ عاطفت میں لے لیا جاتا ہے۔
وہ پھر سوچنے لگی: “منوہر بڑا ہی اچھا اور پیارا پیارا ہے۔ مگر ہے بڑا دنگئی؛ ہر وقت شرارت کرتا ہے، ہمیں چھیڑتا ہی رہتا ہے۔ اب اس نے دنگا کیا یا ہمیں چھیڑا تو ہم اسے اپنی کٹی میں سانجھی نہیں کریں گے۔ اگر اس نے سانجھی ہونے کے لیے بہت کہا تو اس سے شرط کرا لیں گے کہ دیکھو بھئی! ہمیں چھیڑنا مت۔ یہ بات اگر وہ مان گیا تب سانجھی کر لیں گے، اور اگر پھر بھی اس نے شرارت کی تو ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ کر کُٹی کر دیں گے۔ پھر نہیں بولیں گے۔”
لڑکی سُربالا زندگی کی سات بہاریں دیکھ چکی تھی۔ منوہر اس سے صرف دو سال بڑا تھا۔ وہ دونوں رشتے کے بھائی بہن تھے۔
سُربالا ایک دم اس طرح چونک پڑی گویا کسی نے اس کے کان میں کوئی عجیب بات کہہ دی ہے۔ وہ سوچنے لگی “بھاڑ کی چھت تو گرم ہوگی، اس پر منوہر رہے گا کیسے؟ میں تو رہ جاؤں گی مگر وہ جلے گا ضرور۔” پھر سوچا “اس سے میں کہہ دوں گی بھئی! چھت بہت تپ رہی ہے، تم جل جاؤ گے۔ اندر مت جاؤ۔ پھر اگر وہ نہیں مانا؟ میرے پاس بیٹھنے کو آیا ہی تو؟ ہاں! میں کہہ دوں گی بھئی! ٹھہرو، میں بھی باہر آ جاتی ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آنے کی ضد کرے گا کیا؟ ضرور کرے گا، وہ ہے بڑا ہٹی۔ پھر میں اسے آنے نہیں دوں گی۔ بیچارہ تپے گا۔ بھلا کچھ ٹھیک ہے۔ زیادہ کہا تو میں بھی دھکا دے دوں گی۔ اور کہوں گی ارے جل جائے گا مورکھ!”
یہ سوچنے پر اسے بڑا مزا سا آیا۔ اس کا منہ سوکھ گیا۔ اسے ایسا معلوم ہوا گویا منوہر دراصل دھکا کھا کر زمین پر گر گیا ہے۔ وہ اس ہنسی دلانے والے مگر قابل رحم نظارہ کو سچ سمجھ کر مسکرا پڑی۔ اس نے دو ایک زور کے ہاتھ لگا کر بھاڑ کو دیکھا، وہ اب بالکل تیار ہو گیا تھا۔ اور جس طرح بڑی ہوشیاری کے ساتھ ماں اپنے شیر خوار بچے کو بچھونے پر لٹاتی ہے ویسے سُربالا نے بھی اپنا پاؤں آہستہ آہستہ بھاڑ کے نیچے سے کھینچ لیا۔ اس کام کو کرتے وقت وہ بھاڑ کو اس طرح چمکارتی جاتی تھی گویا وہ ایک سوتا ہوا بچہ ہے جس کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔ بھاڑ اس کے پاؤں ہی پر ٹکا ہوا تھا، اسے فکر تھی کہ کہیں پاؤں کا سہارا ہٹ جانے پر وہ ٹوٹ نہ جائے۔ جب پاؤں نکال لینے پر وہ نہ ٹوٹا اور جوں کا توں ٹکا رہا تو سُربالا ایک بار خوشی سے ناچ اٹھی۔ گویا اس نے بہت بڑی فتح کی ہے۔ وہ فوراً ہی منوہر کو بلانے کے لیے تیار ہو گئی تاکہ اپنی چترائی سے بنائے ہوئے بھاڑ کو دکھا کر اور زیادہ خوش ہو سکے۔
ڈھیٹ لڑکا پانی سے الجھ رہا تھا۔ اسے خبر بھی نہیں تھی کہ اس کی لاعلمی میں کتنی زبردست کارگزاری ہو گئی ہے۔ شاید اتنا اچھا بھاڑ اس نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔
مگر اس نے خیال کیا “ابھی نہیں، پہلے کٹی تو بنا لوں۔”
یہ سوچ کر سُربالا نے ریت کی ایک چٹکی لی اور بہت احتیاط سے بھاڑ کے اوپر ڈال دی۔ اسی طرح چار پانچ چٹکیاں اور ڈالیں۔ پھر اطمینان کا سانس لیا۔ گویا کٹی بھی تیار ہو گئی۔ اس نے خیال کیا “اب سب کام مکمل ہو چکا ہے۔ منوہر کو بلانا چاہیے۔” مگر اپنے گھر کے بھاڑ کا اس نے پورا پورا دھیان کیا تو پتہ چلا کہ ایک کمی رہ گئی ہے۔ “دھواں کہاں سے نکلے گا؟” تھوڑی دیر سوچ کر اس نے ایک تنکا بھاڑ کے سر پر گاڑ دیا، گویا وہ دھوئیں کی چمنی تھی۔ اب تو بھاڑ تیار ہو گیا۔ اس نے آخری نظر ڈالی۔ کہیں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی ہو۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سماتی تھی۔ اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ پرماتما کہاں براجتے ہیں تو وہ کہہ دیتی کہ میرے بھاڑ کے اندر۔
منوہر کو خود ہی اپنی سُربالا کا خیال آ گیا۔ اسے یاد کر کے اس نے پانی سے ناتا توڑ دیا اور ہاتھ کی لکڑی کو پوری طاقت سے گنگا کی موجوں کے سپرد کر دیا۔ وہ چپکے چپکے قریب آیا تو دیکھا کہ سُربالا اپنے بھاڑ کے طلسمات کو سمجھنے میں مشغول ہے۔
منوہر نے زور سے قہقہہ لگایا کہ تمام فضا گونج اٹھی اور سُربالا بھی چونک پڑی۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر اس زور سے لات ماری کہ بنے بنائے بھاڑ کا کام تمام ہو گیا۔ ہنستے ہنستے اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے کہا:
“سُرّو رانی!”
وہ مومی مورت کی طرح بالکل خاموش کھڑی رہ گئی۔ اس کے رخسار جو چند لمحے پیشتر مسرت و انبساط کی نورانی ضیا سے دمک رہے تھے، یکلخت ماند پڑ گئے۔ اس کے خیالات اسے دوسری ہی دنیا میں لے گئے تھے۔ اس کی نظر کے سامنے ایک عظیم الشان جنت تھی جس کو اس کی قوتِ بازو نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اس جنتِ جدید کی خوبصورتی اور فردوسی شان دکھانے کے لیے ایک شخص کو بلانا چاہتی تھی۔ لیکن افسوس کہ وہی شخص آیا اور اس نے لات مار کر اسے توڑ پھوڑ کر تباہ و برباد کر دیا۔ دل کی آرزوئیں خاک میں ملیا میٹ ہو گئیں۔ اس کی روح رنج و محن سے معمور ہو گئی۔
ہمارے لائق قارئین میں سے کوئی ہوتا تو ان ضدی بچوں کو سمجھاتا کہ یہ دنیا عارضی اور جلدی فنا ہونے والی ہے۔ اس میں دکھ کیا اور سکھ کیا۔ جو جس چیز سے بنتا ہے، اسی میں مل جاتا ہے۔ پھر افسوس اور غصے کی کیا بات ہے۔ یہ تمام نگری پانی کا بلبلہ ہے۔ پھوٹ کر کسی روز پانی ہی میں مل جائے گا اور پھوٹ جانے ہی میں بلبلے کی اصلیت کا راز پنہاں ہے۔ جو اس چیز کو نہیں سمجھتے، وہ رحم کے بھی مستحق نہیں۔ اری ضدی لڑکی! یہ تمام دنیا خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ ایک نہ ایک دن اسی ذات میں جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، گھل مل کر ختم ہو جائے گی۔ تو کس لیے رنج و غم سہ کر ملول ہو رہی ہے؟ تیرا ریت کا بنا ہوا بھاڑ جتنے جلدی بنا تھا اُتنے ہی جلدی ڈھ گیا۔ خاک سے بنا تھا خاک میں مل گیا۔ رنج کرنے سے کیا فائدہ ہے؟ اس بننے اور بگڑنے سے تو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جس ہستی نے لات مار کر بھاڑ توڑا ہے، وہ خدا کا بھیجا ہوا اور تیرے ساتھ کھیلا ہوا تیرا پریمی ہے۔ تو بھی اس سے پریم کر کیونکہ اس سارے جگت کا دوسرا پر نئے طریقے سے اپنی کرپا کرنا چاہتے ہیں۔ تو ضدی مت بن اور اپنی ہٹ کو چھوڑ دے۔ تو پرماتما کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے ساتھ دل لگا۔ پرماتما تجھ پر دیا کریں گے۔
لیکن خود بچاری سُربالا کے خواب و خیال میں بھی فلسفہ کے یہ دقیق رموز نہ آ سکتے تھے اور نہ اس کو سمجھانے کے لیے کوئی عالم فاضل گنگا کے کنارے گیا۔ اگر کوئی جاتا بھی تو شاید اس کا تمام فلسفہ بے کار رہ جاتا۔ کیونکہ وہ اس قدر غصہ میں بھری ہوئی تھی کہ کسی کی بات ہی نہ سنتی اور اگر سنتی تو باقتضاے عمر اسے مطلق نہ سمجھ سکتی۔
خیر کچھ بھی ہو وہاں صرف منوہر تھا جو فلسفہ کی اوّلیات سے بھی ناواقف تھا لیکن اس کے جذبات کی عجیب کیفیت تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر ہی اندر اس کے دل کو مسوس رہا ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے کسی قدر ضبط سے کام لے کر کہا:
“چل پگلی سُرّو! تو روٹھ گئی۔”
سُربالا ویسے ہی کھڑی رہی۔ ذرا نہ ہلی نہ کچھ کہا۔
“سُرّی! تو روٹھی کیوں ہے؟”
سُربالا پر پھر بھی کچھ اثر نہ ہوا۔
“سُرّی! سُریا! او سُرّو! بولتی نہیں مردار!”
اب تابِ ضبط نہ تھی۔ منوہر کی آواز بھرا گئی اور سُربالا منہ پھیر کر کھڑی ہو گئی۔ منوہر کی کانپتی ہوئی آواز کا مقابلہ اس سے نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ بظاہر خفا اور خاموش تھی مگر خوب پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔
“سُرّی! او سُریا! میں منوہر ہوں۔ منوہر۔ مجھے مارتی نہیں۔ دیکھ میں کھڑا ہوں۔ تو مجھے مار۔”
یہ منوہر نے اس کی پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہو کر کہا اور کچھ ایسی آواز میں گویا وہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے آنسو نہیں بہ رہے، حالانکہ وہ بہہ رہے تھے۔
“ہم نہیں بولتے جی، نہیں بولتے۔”
وہ بولنا نہیں چاہتی تھی مگر بولے بغیر رہا بھی نہ گیا۔ کیونکہ اس کا بھاڑ، اس کی ساری دنیا، بلکہ خود اس کا وجود منوہر کی بھرائی ہوئی آواز میں جذب ہو کر اپنی خودی کو مٹا چکا تھا۔ منوہر نے اپنے جوش کو دبا کر کہا:
“سُرّو! منوہر تیرے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ بڑا پاپی ہے۔ تو اس سے بول مت لیکن تو خفا ہو کر اس کے سر پر ریت کیوں نہیں ڈال دیتی۔ اس نے تیرا بھاڑ توڑا ہے۔ تو اس کے بال خراب کر دے۔ تو اسے مار کیوں نہیں دیتی۔ ایک تھپڑ لگا۔ وہ اب کبھی شرارت نہیں کرے گا۔”
سُربالا نے کڑک کر کہا:
“چپ رہو جی۔ ہم نے کہہ دیا ہم نہیں بولتے۔”
“چپ رہوں گا، لیکن کیا مجھے دیکھو گی بھی نہیں؟ بالکل روٹھ گئیں؟”
“ہاں! روٹھ گئے۔ نہیں دیکھتے۔ تمھیں کیا؟”
“اچھا مت دیکھو۔ میں اب کبھی سامنے نہیں آؤں گا۔ میں اسی لائق ہوں۔”
“کہہ دیا تم سے۔ تم چپ رہو۔ ہم نہیں بولتے۔”
ضدی لڑکی کا تمام غصہ اور رنج کبھی کا ختم ہو چکا تھا۔ وہ نرم پڑ گئی تھی۔ ظاہری باتوں کا مطلب کچھ اور ہی تھا۔ اس کی مسرت غصے کے روپ میں جلوہ گر ہوئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں بچپن کی معصومیت پر شرارت غالب آ چلی تھی۔ منوہر بولا:
“لو سُرّو! میں نہیں بولتا۔ میں بیٹھ جاتا ہوں۔ یہیں بیٹھا رہوں گا۔ تم جب تک نہیں کہو گی، نہ اٹھوں گا نہ بولوں گا۔”
منوہر چپ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہار کر سُربالا بولی:
“ہمارا بھاڑ کیوں توڑا جی؟ ہمارا بھاڑ بنا کے دو۔”
“لو ابھی لو۔”
“ہم ویسا ہی لیں گے۔”
“ویسا ہی لو۔ اس سے بھی اچھا۔”
“اس پر ہماری کٹی تھی۔ اس پر دھوئیں کا راستہ تھا۔”
“لو سب لو۔ تم بتاتی جاؤ، میں بناتا جاؤں۔”
“ہم نہیں بتائیں گے۔ تم نے کیوں توڑا؟ تم نے توڑا، تم ہی بناؤ۔”
“اچھا! پر تم ادھر دیکھو تو۔”
“ہم نہیں دیکھتے۔ پہلے بھاڑ بنا کے دو۔”
منوہر نے ایک بھاڑ بنا کے تیار کیا، پھر کہا:
“لو بھاڑ بن گیا”
“کیا بن گیا؟ بالکل ویسا ہی۔”
“ہاں! خود دیکھ لو۔”
“دھویں کا راستہ بنایا؟ کٹی بنائی؟”
“وہ کیسے بناؤں؟ تم بتاؤ تو۔”
“پہلے بناؤ، پھر بتاؤں گی۔”
منوہر نے بھاڑ کے سر پر ایک سینک گاڑ کر اور ایک پتے کی اوٹ لگا کر کہا:
“بنا دیا دھویں کا راستہ۔ دیکھ لو”
فوراً مڑ کر سُربالا نے کہا:
“سینک ٹھیک نہیں لگی جی! پتا ایسے لگے گا جی۔ اچھا اب جا کر تھوڑا پانی لاؤ۔ بھاڑ کے سر پر ڈالیں گے۔”
منوہر پانی لایا اور چلّو میں لے کر بھاڑ کی مٹی پر چھڑکنا چاہتا تھا کہ خود سُربالا نے ایک لات مار کر بھاڑ کو پہلے کی طرح چکنا چور کر دیا اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی۔
منوہر بھی خوشی سے ناچ اٹھا۔
گنگا کا پانی بچے کی ہنسی سے ملتی جلتی مدھم آواز کے ساتھ آہستہ آہستہ بہ رہا ہے۔ سورج کی آخری شعاعوں کا الوداعی تبسم صرف دو بلند درختوں کی چوٹیوں پر نظر آ رہا تھا۔ ہوا کی رفتار میں ایک عجیب لطافت محسوس ہو رہی تھی۔ گھنے درخت سر جھکائے ہوئے فلسفیوں کی طرح اپنے خیالات میں محو معلوم ہوتے تھے۔ بڑھتی ہوئی تاریکی کے اندیشے سے سُربالا اور منوہر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر گھر کی طرف چل پڑے۔ اب ان میں سے کسی ایک کے دل میں غصہ یا رنج کا نام تک نہیں تھا۔
کیا عورت ناقص العقل ہے؟
تاریخ یونان کا ایک گمشدہ ورق
سکندر، کرہ ارض کا فاتح اعظم سکندر، ممالک محروسہ سے خراج لیتا، اپنی سلطنت کے حدود کو وسیع کرتا، گرجتے ہوئے بادل اور کڑکتی ہوئی بجلی کی مانند تباہی و بربادی کا طوفان لے کر ہمت و استقلال اور عزم و ارادہ کو سینے میں لیے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ موسم گرما کے جھلستے ہوئے آفتاب کی شعاعیں، موسم سرما کی خون منجمد کر دینے والی ہوا کے تیز و تند جھونکے اس کی نظر میں کچھ وقعت نہ رکھتے تھے۔
اسی دوران میں اس کا گذر ایک ایسی سرزمین میں ہوا جس کی عنانِ حکومت صنفِ نازک کے قوی ہاتھوں میں تھی اور بیشتر آبادی بھی اسی جنس پر مشتمل تھی۔ سکندر اس سے بے خبر تھا کہ کائناتِ عالم کا نظم و نسق صرف عورت ہی کے دم سے ہے۔ اس لیے ارادہ کیا کہ حسبِ معمول فوج کشی کر کے اس ریاست کو بھی فتح کر لے۔
سمندر میں یکے بعد دیگرے بڑھنے والی موجوں کی طرح فوج کی قطاریں آراستہ کی جا رہی تھیں کہ سکندر کی بارگاہ میں ایک عورت آلاتِ حرب سجائے لوہے میں ڈوبی ہوئی حاضر ہوئی اور مودّبانہ طریقے پر ایک منقّش شمشیر نذر کرتے ہوئے اپنی ملکہ کا پیغام پیش کیا:
“اے سکندر! یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بڑی بڑی سلطنتوں پر تیرا پرچم لہرا رہا ہے اور تیرے نام کا سکّہ خشکی اور تری پر رواں ہے۔ لیکن تیرے حق میں بہتر یہی ہے کہ ہمارے مقابلہ میں نبرد آزمائی کے خیال خام کو ترک کر کے اپنی راہ لے۔ اگر اس میدانِ کارزار میں تجھ کو فتح بھی ہو گئی تو بے سود ہے۔ کیا تاریخِ عالم میں تیرے نام کے ساتھ یہ حرف نہیں لکھے جائیں گے کہ بے رحم سخت دل سکندر نے صنف نازک کے مقابلہ میں شمشیر اٹھائی اور اس کے بہادر سپاہیوں نے کمزور عورتوں کو تہ تیغ کیا؟
تصویر کے دوسرے رخ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سوچا جائے کہ اگر حُسنِ اتفاق سے ہمیں فتح ہوئی جس کا ہمیں یقین ہے۔ کیونکہ ہماری فوج کا ہر رکن فن سپہ گری میں یکتاے روزگار ہے تو کیا یہ امر تیرے لیے زبردست ذلت کا باعث نہیں ہوگا کہ سکندّر کو، سکندرِ اعظم کو، صنفِ نازک نے شکست دے دی اور اس کے بہادر سپاہیوں کو کمزور خواتین کی تیز تلواروں نے خون میں نہلا دیا۔ لہذا قبل اس کے کہ تیر اپنی کمان سے جدا ہو انجام پر نظر ڈال لینی ضروری ہے۔”
سکندّر جس کا عزم راسخ، جس کا ارادہ قوی، جس کا قانون اٹل اور جس کا فیصلہ قطعی ہوتا تھا، یہ معقول بات سن کر دنگ رہ گیا اور فوراً اپنی فوجوں کو وطن کی طرف مراجعت کا حکم دے دیا۔ نیز شہر پناہ کے صدر دروازے پر خود اپنے ہاتھ سے یہ عبارت کندہ کر دی:
“کج فہم سکندر بے شمار سلطنتوں کو مغلوب کرنے کے بعد اس زمین پر آیا اور اس نے عورت کی دانشمندی کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا۔ مرد قوتِ بازو سے فتح حاصل کرتے ہیں اور صنفِ نازک عقل و دانائی سے۔”
نصف ایکٹ کا ڈراما
افراد تمثیل
سربالا: تہذیب مغربی کی دلدادہ ایک نوجوان خاتون
منوہر: شانتی نکیتن کا ایک عاشق مزاج طالب علم
منظر
صبح کا وقت، گوشۂ چمن، چشمے کی روانی، طیور کے چہچہے، آہنی بنچ، ایک مرد، ایک عورت، ایک کتا
مقام: حدیقۂ نباتات، کلکتہ
زمانہ: عصر جدید
منوہر (مضمحل لہجہ میں): سُربالا! کس قدر حیرت انگیز امر ہے۔ میں عرصۂ دراز سے تمھاری محبت میں گرفتار ہوں، مگر تم کو ذرا بھی احساس نہیں۔
سُربالا (لبوں کو چباتے ہوئے): نہیں منوہر! تمھارا خیال ہے۔ میں محبت کا جواب محبت سے دیتی ہوں، مگر تم خود اس حقیقت کو محسوس نہیں کرتے۔
(نگاہیں جھک جاتی ہیں)
منوہر (خفیف تبسم کے ساتھ): تو پھر کیوں نا ہم ایک دوسرے کے شریکِ حیات بن جائیں؟ کیا تمھیں کچھ پس و پیش ہے؟
سُربالا (مصنوعی حیا سے): ہرگز نہیں، یہ تو میری دلی آرزو ہے۔ میں تیار ہوں، جب جی میں آئے، چاہے کل ہی سہی۔
(چار متبسم لب، ایک طویل بوسہ)
پردہ گرتا ہے