غالبؔ کی دلی
غالب نے دلی کے تین زمانے دیکھے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ دلی کا سہاگ تھا اور اس کا تاجدار خاندان تیموریہ کا آخری چراغ اپنی ناز و نعم میں پلی ہوئی دلی کی رعایا کو آغوش پدری میں لیے تمام آفات دہر سے بچائے تخت خلافت پر جلوہ افروز تھا۔ شہر مالامال اور اہل شہر خوشحال تھے۔ دن عید تھا اور رات شب برات تھی۔ ہر تہوار خوشی کا ایک بہانہ ہوتا تھا۔ شب و روز میلے رہتے تھے۔ بیاہ شادی، رسم رسوم کی دھوم دھام، دولت و حشمت کے اظہار کا اور روپیہ خرچ کرنے کا ذریعہ تھا۔ علم و ہنر کی قدر تھی۔ شعر و شاعری کے چرچے تھے۔ فن سپہ گری کا زور تھا۔ بزرگان دین کی دلوں میں عظمت تھی۔ خدا کا خوف تھا اور مذہب کی پابندی۔ خود حضرت ظل سبحانی صوم و صلوۃ کے پابند تھے اور زبدۃ الواصلین قدوۃ السالکین حضرت شاہ غلام نصیر الدین عرف میاں کالے صاحب کے مرید تھے اور بارہا حضور پر نور قطب الاقطاب کے مزار کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ غرض یہ کہ اس زمانے کی دلی میں امن و سکون اس درجہ میسر تھا کہ اس کا ردِّ عمل اس ہنگامہ جہاں سوز میں رونما ہوا جس کو آنریبل جان کمپنی نے غدر کے نام سے مشہور کیا ہے۔ یہ وہ دوسرا زمانہ تھا جو غالبؔ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب دلی کا سہاگ لٹا اور یہ بیوہ دشمن کے آتش غیظ و غضب کی چتا پر بیٹھ کر ستی ہو گئی اور ایک راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی اور دلی والے پروانہ وار اپنے تاجدار پر نثار ہو گئے اور داد مردانگی دے کر ہمیشہ کے لیے گنج شہیداں میں جا سوئے۔ غالب نے دلی کا تیسرا دور وہ دیکھا جب مسلمانوں کے بادشاہت کا خاتمہ ہو کر ہندوستان پر مشرقی حکومت کی جگہ مغربی حکومت کا تسلط ہوا اور مشرقی تہذیب و تمدن کی تخریب کا بیج بویا گیا۔
جب تک بہادر شاہ کی بادشاہت رہی، دلی اُس تہذیب و تمدن اور علم و کمال کی حامل رہی جس کو مغلوں، ترکوں، ایرانیوں اور ہندیوں کے باہمی میل جول اور محبت و آشتی کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ دلی کا شہر نہ صرف دار الحکومت ہونے کی وجہ سے بلکہ اپنی عمارات کی خوبصورتی، بازاروں کی فراخی اور وسعت اور باغات کی کثرت کی وجہ سے تمام ہندوستان میں کیا بلکہ کسی زمانہ میں تمام دنیا میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ بہادر شاہ کے زمانہ میں بھی چاندنی چوک کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ بازار کے بیچوں بیچ ایک نہر رواں تھی اور جس جگہ اب گھنٹہ گھر ہے یہاں ایک حوض تھا۔ اس حوض کے سامنے جہاں اب کپڑے والوں کی دکانیں اور نئی سڑک ہے ایک بہت بڑی سرائے تھی۔ اسی طرح قلعہ کے سامنے جہاں اب گھاس کے میدان اور پریڈ گراؤنڈ ہیں یہاں تمام آبادی تھی۔ اور تمام امرا و وزرا اور قلعہ کے متوسلین کے یہاں محلات و حویلیاں اور مکان تھے اور اسی جگہ خانم کا بازار، خاص بازار اور اردو بازار تھے۔ ان میں سے خانم کا بازار دلّی کے سب بازاروں سے زیادہ رونق کا بازار تھا۔ خاص بازار، فیض بازار اور قلعہ کے درمیان تھا اور اردو بازار قلعہ اور خونی دروازے کے درمیان تھا۔ جس طرح فیض بازار میں پہلے ایک پتلی سی نہر تھی اسی طرح چاوڑی بازار میں سے گزر کر قاضی کے حوض تک اور وہاں سے لال کنوئیں ہوتی ہوئی فتح پوری تک وہ نہر گشت کرتی تھی۔ مغل بادشاہوں نے ہندوستان کے گرم شہروں کی تمازت کو دور کرنے کے لیے نہ صرف اپنے محلات اور قلعہ میں بلکہ شہر کے بازاروں اور باغوں میں بھی نہروں کا انتظام کیا تھا اور جا بجا کثرت سے باغات لگائے تھے۔ دلی کے ترپولیے دروازے تک اور اس کے باہر کوسوں تک باغ ہی باغ تھے۔ جن میں سے صرف روشن آرا باغ باقی ہے اور سب دست بُرد زمانہ کے ہاتھوں غارت ہوگئے۔ محلدار خاں کا دروازہ ابھی تک باقی ہے۔ شورے کی کوٹھی والا باغ عمارات کی نذر ہو گیا۔ شہر میں بڑے بڑے عالیشان محل اور حویلیاں تھیں جن میں اب ایک ایک محلہ آباد ہے اور اب اس محل کے نام پر محلے کا نام ہے۔ جیسے رنگ محل، نواب وزیر کی حویلی، حویلی علی قلی خاں وغیرہ وغیرہ۔ ان حویلیوں میں دالان در دالان، صحن چبوترہ ہوتا تھا۔ چبوترے پر شہ نشین اور بعض حویلیوں میں اندر کے دالان کے پیچھے ہی شہ نشین یا غلام گردش ہوتی تھی۔ صحن میں چھوٹا سا چمن اور اس کے بیچ میں ایک مستطیل حوض ہوتا تھا جس میں فوارے چلتے رہتے تھے۔ اب بھی بعض ساہوکاروں کے قبضے میں ایسی حویلیاں ہیں جو انھوں نے نیلام میں لیں یا قرض کے عوض میں حاصل کیں۔
غالب کا اپنا لباس تو ان کی تصویر سے ظاہر ہوتا ہے جس کی خصوصیت ان کی کلاہِ پا پاخ ہے۔ لیکن عام طور پر مسلمانوں کے لباس میں چوگوشیہ ٹوپی تھی جسے کلاہ تتری بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے چار پہل یا آٹھ پہل ہوتے تھے اور اس کی شکل کمرک کی سی ہوتی تھی۔ اب بھی بعض خاندانوں میں اس کا رواج ہے اور بچوں کے لیے تو عام طور پر استعمال ہوتی ہے، اس کے نیچے کی گوٹ میں پتلی لیس اور گوشوں کے کنارے پر قیطون لگایا جاتا تھا۔ شوقین لوگ سلمے ستارے کے کام بھی کراتے تھے اور بادشاہ سلامت کی ٹوپی میں موتی اور جواہرات بھی ٹکے ہوئے ہوتے تھے۔ دلی کی آبادی دو قسم کی تھی، قلعے والے اور شہر والے۔ قلعہ والے ٹوپی کے پاکھوں کو کھڑا رکھتے تھے، شہر والے دبا لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ٹوپی پچ گوشیہ کہلاتی تھی۔ چندوے پرسے یہ ٹوپی گنبد کی شکل ہوتی تھی اور اس کے گوشے فصیل کے کناروں کی طرح کھڑے رہتے تھے۔ ان کی ٹوپی عرق چیں کہلاتی تھی جس کے چندوے میں چنّٹ دے کر گول گتا لگا لیا جاتا ہے۔ یہ ٹوپی بھی بعض خاندانوں میں اب تک استعمال ہوتی رہی ہے۔ عوام میں دو پلڑی اور گول چندوے کی ٹوپی كا بہت رواج تھا اور اب تک بھی ہے۔ دلی والے دو پلڑی ٹوپی کو سر پر منڈھ لیتے ہیں۔ لکھنو والے اَدہر رکھتے ہیں۔ گول چندوے کی ٹوپی سادی اور سوزنی کے یا فیتے کے کام کی ہوتی ہے، جس کا استعمال اب بھی عام ہے۔
لباس میں کرتے پاجامے کے اوپر انگرکھا استعمال ہوتا تھا۔ یہ پرانا ہندی لباس ہے۔ ہندی اونچا انگرکھا جو پیٹ سے ذرا نیچے تک آئے پہنتے تھے۔ بعد کے لوگوں نے اسے نیچا کر کے ٹخنے یا آدھی پنڈلی تک پہنچا دیا۔ قلعے والے اس پر خفتان پہنتے تھے جو جامے دار یا مخمل کی ہوتی تھی۔ زیادہ سردی میں حاشیے پر سمور، ویسے پتی لیس لگا لیتے تھے۔ سینے کے قریب گھنڈی تکمے ہوتے تھے جس کو عاشق معشوق یا چشمے بھی کہتے تھے۔ عام لوگ اسے نیم آستین کہتے ہیں اور گاوں والے کمری کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کی آستینیں کہنی سے اونچی ہوتی تھیں تاکہ وضو میں سہولت رہے اور اس کی لمبائی کمر تک ہوتی تھی اس لیے اس کا نام کمری پڑ گیا۔ بعض لوگ سینہ کھلا رکھتے تھے اور اسے شیروانی کہا جاتا تھا۔ چپکن یا اچکن کا رواج بعد میں ہوا۔ عمر رسیده اور کمزور لوگ زیادہ سردی میں انگرکھے کے اوپر چوکور شالی رومال کو سموسہ کر کے سر پر اور پیٹھ پر ڈال لیتے تھے۔ اس رومال کا نام بھی عرق چیں تھا۔ اسی طرح کمر میں بتّی کر کے رومال لپیٹنے کا بھی رواج تھا۔ پاجامہ ہمیشہ قیمتی کپڑے کا ہوتا تھا جیسے گلبدن، غلطہ، مشروع، موٹرا، اطلس یا گورنٹ۔ پرانی وضع کے لوگ عام طور پر ایک برا یعنی ڈھیلا پاجامہ پہنتے تھے۔ شوقین لوگوں نے تنگ موری کا پاجامہ پہننا شروع کردیا تھا مگر ثقہ لوگ اسے پسند نہ کرتے تھے۔ چوبدار سبز کھڑکی دار پگڑیاں جو مرہٹوں کا لباس ہے، پہنتے تھے۔ نیچی نیچی بانات کی چپکن یا اچکنیں پہنتے تھے۔ کمر میں سرخ شالی رومال لپیٹتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں گنگا جمنی عصا اور مورچھل ہوتے تھے۔ پاؤں میں شرفا زیادہ گھیتلی جوتی استعمال کر تے تھے جو آج کل کے سلیپر کی طرح ہوتی تھی مگر اس کی چونچ نہیں ہوتی تھی، وہ ذرا اوپر کو مڑی ہوئی ہوتی تھی۔ گزشتہ بیس سال تک گھیتلی جوتی دلہنوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ سلیم شاہی جوتی یعنی پتلی چوبچ والی جوتی کا فیشن شروع ہو گیا تھا مگر کم استعمال ہوتی تھی۔ ہاتھ میں بانس کی لکڑی رکھنے کا بہت فیشن تھا۔ اور کندھے پر گز بھر لٹھے کا چوکور رومال پڑا ہوتا تھا۔ ان بانس کی لکڑیوں کی خصوصیت یہ تھی کہ لمبی پور کا ٹھوس پتلا مگر بھاری بانس لیا جاتا تھا، اسے تیل پلا کر مہندی لگا کر دھوئیں میں لٹکا دیتے تھے تاکہ رنگ سیاہی مائل ہو جائے۔ ہر گانٹھ پر تار باندھتے تھے۔ اگر بانس کھوکھلا ہو تو اسے سیسہ پلاتے تھے۔ یہ سب محنت اس لیے کی جاتی تھی کہ جس طرح آج کل لوگ ٹینس کرکٹ کھیلتے ہیں اور ان کے بلے احتیاط سے رکھتے ہیں، اسی طرح اس زمانے میں بانک، بنوٹ وغیرہ لکڑی کے کرتب کا فیشن تھا اور اسے ورزش اور اپنی حفاظت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔
رومتہ الکبریٰ کے باشندوں کی طرح دلی والے بھی سیر تماشے اور میلے ٹھیلے کے بہت شوقین تھے۔ زندگی کی ضروریات بہ آسانی مہیا ہو جاتی تھیں۔ ہر چیز سستی تھی حتی کہ گرانی اور قحط کے زمانے میں جو اشیاء خوردنی کا بھاؤ تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آج کل کے سستے سمے میں نہیں ہے۔ چنانچہ گرانی کی شکایت کرتے ہوئے غالب لکھتے ہیں: “غلہ گراں ہے، موت ارزاں ہے۔ ماش کی دال آٹھ سیر، باجرہ بارہ سیر، گیہوں تیرہ سیر، چنے سولہ سیر، گھی ڈیڑھ سر”۔ اس وقت ہر چیز اس سے زیادہ گراں ہے اور ہم گرانی کو محسوس نہیں کرتے کیونکہ اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس زمانے میں ہر چیز سستی ہونے کی وجہ سے اور دولت کی افراط کے باعث سوائے دل بہلانے کے لوگوں کو اور کوئی کام نہ تھا۔ چنانچہ مہینے میں تیس دن اور تیس میلے ہوتے تھے۔ پھول والوں کی سیر، تیراکی کا میلہ، درگاہوں پر عرس، مدار کی چھڑیوں کا میلہ، قدم شریف کا میلہ، بسنت وغیرہ وغیرہ۔ ان گنت میلے تھے جو موسم کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ اس کے علاوہ قلعہ، چاندنی چوک، جامع مسجد اور جمنا کے پل پر ہر روز اس قدر مجمع رہتا تھا کہ میلہ ہی لگا رہتا تھا۔ غرض یہ کہ جس خوشحالی اور فارغ البالی سے بہادر شاہ کی بادشاہت میں لوگ رہتے تھے آج کل کے لوگ اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کیونکہ اس فارغ البالی کے نشان تک مٹ گئے۔ موجودہ نسل غلامی اور مفلسی میں پیدا ہوئی۔ اسے کیا معلوم کہ آزادی، خودمختاری اور خوشحالی کسے کہتے ہیں۔
غالب بادشاہ کے مصاحب تھے۔ قلعہ میں ان کی آمدورفت تھی۔ قلعہ کی حالت اب ایسی تو تھی نہیں جیسی شاہجہاں کے زمانہ میں تھی۔ نہ تحت طاؤس تھا نہ ہیرے جواہرات کی وہ جگمگاہٹ۔ تحت طاؤس نادر کی نذر ہوا تو دیوان خاص کے جواہرات اور دیوان عام کی چھت کا سونا غلام قادر روہیلے اور اسی قسم کے لٹیروں نے لوٹ لیا۔ بادشاہ کمپنی بہادر کا پنشن خوار تھا۔ اخراجات شاہانہ تھے پنشن سے گزارا نہ ہوتا تھا، اس لیے قلعے کی عمارات کی مرمت تک نہ ہو سکتی تھی۔ سڑکوں کی درستی کا تو کیا ذکر ہے۔ اس لیے بارش میں جابجا کیچڑ ہو جاتی تھی۔ شہر کے مقابلہ میں قلعے کی حالت اچھی نہ تھی مگر بادشاہ اور رعایا کے تعلقات بہت اچھے تھے جس کا اندازہ منشی کریم الدین صاحب کے بیان سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ایک مشاعرہ کرانا چاہا تو گو منشی جی ایک مطبع کے مالک اور متوسط الحال طبقے سے تعلق رکھتے تھے تاہم ان کی رسائی اس سلسلہ میں حکیم احسن اللہ خان صاحب کے توسط سے قلعہ تک ہو گئی اور خلاف توقع بارگاہ جہاں پناہی میں پیشی بھی ہوگئی۔ اب اس پیشی کا حال منشی کریم الدین کی زبانی سنیے جس سے کچھ بادشاہ کی سادہ طرز معاشرت کا حال معلوم ہوگا اور کچھ یہ معلوم ہو گا کہ بادشاہ کس بے تکلفی سے ایک معمولی درجے کے غیر معروف شخص سے بات چیت کر لیتے تھے۔ منشی کریم الدین لکھتے ہیں: “چوبدار نے دیوان خاص کی سیڑھیوں کے پاس لے جا کر کھڑا کر دیا۔ حضرت جہاں پناہ اس وقت حمام میں رونق افروز تھے۔۔۔۔ یہ حمام کیا ہے ایک عالیشان عمارت ہے۔جمنا کے رخ پر جو حمام کا حصہ ہے وہ سرد ہے۔ ریتی کے رخ خس کے پردے ڈال کر خسخانہ بنا لیا جاتا ہے۔ اندر نہر بہتی ہے۔ بیچ میں کئی حوض ہیں، ان میں فوارے چلتے ہیں۔ حمام کیا ہے ایک بہشت کا ٹکڑا ہے”۔ چوبدار نے جب اندر داخل ہونے کے لیے کہا اس کے بعد کا حال سنیے: “چوبدار نے آواز دی: ادب سے، نگاہ روبرو، حضرت جہاں پناہ سلامت، آداب بجا لاؤ۔ میں۔۔۔ دہرا ہو کر سات تسلیمات بجا لایا اور نذر گزرانی۔ نذر دیتے وقت ذرا آنکھ اونچی ہوئی تو وہاں کا رنگ دیکھا۔ حضرت پیر و مرشد ایک چاندی کی پلنگڑی پر لیٹے تھے۔ پائنتی مرزا فخرو بیٹھے پاؤں دبا رہے تھے۔ دہلی میں وہ کون ہے جس نے ظل اللہ کو نہیں دیکھا۔ میانہ قد، بہت نحیف جسم، کسی قدر لمبا چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں۔ آنکھوں کے نیچے کی ہڈیاں بہت ابھری ہوئی، لمبی گردن، چوکہ ذرا اونچا، پتلی ستواں ناک، بڑا دہانہ، گہری سانولی رنگت، سر منڈا ہوا، چھدری ڈاڑھی، ٹھوڑی کلوں پر بال، لبیں کتری ہوئی، ستر برس سے اونچی عمر تھی۔۔۔۔ سر کمخواب کا ایک برکا پاجامہ اور سفید ڈھاکے کی ململ کا کرتہ زیب بدن تھا۔ سامنے ایک چوکی پر جامہ دار کی خفتان اور کار چوبی چوگوشیہ ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ بادشاه سلامت نے فرمایا: امیاں تمھارا ہی نام کریم الدین ہے ۔ امیاں ابھی تمھارا ہی ذکر مرزا فخرو کر رہے تھے۔۔۔ تم مشاعرہ کر تو رہے ہو مگر ہاتھیوں کی ٹکڑ کون سنبھالے گا۔۔۔۔۔ میں اور مرزا شبو تو آ نہیں سکتے، ہاں مرزا فخرو کو اپنی جگہ بھیج دوں گا۔ اور انشاءاللہ اپنی غزل بھی بھیجوں گا۔۔۔۔۔ میں نے عرض کی: پیر و مرشد تاریخ، فرمایا: 14؍ رجب مقرر کر دو، دن بھی اچھا ہے۔ چاندنی رات بھی ہو گی اتنے دنوں میں بہت کچھ انتظام ہو سکتا ہے۔ نو دن باقی ہیں۔ موسم میں ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اچھا اب خداحافظ۔” اس طرح دلی کا آخری بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ گھل مل کر رہتا ہے۔ حفظ مراتب کریم الدین کی طرف سے تھا مگر بہادر شاہ بالکل اس طرح باتیں کر رہے تھے،جس طرح کوئی اپنے برابر والے سے کرتا ہے۔ کسی ملک کے تہذیب و تمدن کا اندازہ اس ملک کے امرا کی زندگی سے کیا جاتا ہے جن میں بادشاہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اب ذرا دلی کے آخری بادشاہ کے کھانے کا جسے خاصہ کہتے تھے، حال سنیے:
“کہاریاں، کشمیرنیں ہنڈ کلیا، چھوٹے خاصے بڑے خاصے کے خوان سر پر لیے ایک قطارمیں چلی آ رہی ہیں۔ خاصے والیوں نے پہلے ایک سات گز لمبا، تین گز چکلا چمڑا بچھایا، اوپر سفید دستر خوان بچھایا۔ بیچوں بیچ میں دو گز لمبی ڈیڑھ گز چکلی چوکی لگا اس پر بھی پہلے چمڑا پھر دسترخوان بچھایا۔ خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر لگا خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔ اس چوکی پر بادشاہ خاصہ کھائیں گے، باقی دسترخوان پر بیگماتیں شاہزادے، شاہزادیاں کھانا کھائیں گے”۔
کھانے میں فقط روٹیوں کے نام سن لیجیے: “چپاتیاں، پھلکے، پرانٹھے، روغنی روٹی، بری روٹی، بیسنی روٹی، خمیری روٹی، نان، شیرمال، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، باقرخانی، غوصی روٹی، بادام کی اور پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان پنبہ یعنی بنولوں کی روٹی، نان گلزار، نان قماش، نان تنکی، نان خطائی بادام کی، پستے کی اور چھوارے کی”۔
پلاؤں کے نام بھی سنیے: “یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نورمحلی پلاؤ، نکتی پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، سارے بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ”۔ سب کھانے قرینے سےچنے گئے۔ بیچ میں سفلدان رکھ دیے، اوپر نعمت خانہ کھڑا کر دیا گیا کہ مکھیاں دسترخوان پر نہ آویں۔ مشک زعفران کیوڑے کی خوشبو کی لپٹیں آرہی ہیں، چاندی کے ورقوں سے دسترخوان جگمگا رہا ہے۔ چلمچی آفتابہ بیسن ادبی چنبیلی کی کھلی۔ صندل کی ٹکیوں کی ڈبیاں ایک طرف زیر انداز پر لگی۔ رومال زانو پوش، دست پوش، بینی پاک لیے رومال والیاں کھڑی ہیں۔ بادشاہ اپنی تپک پر چوکی کے سامنے آن بیٹھے۔ دائیں طرف ملکہ دوراں اور بیگماتیں، بائیں طرف شہزادے شہزادیاں بیٹھیں۔ رومال خانے والیوں نے زانو پوش گھٹنوں پر ڈالے۔ دست پاک آگے رکھ دیے۔ بادشاہ نے خاصہ شروع کیا۔ جس کو بادشاہ اپنے ہاتھ سے اُلش مرحمت فرماتے ہیں وہ سر و قد کھڑے ہو کر آداب بجا لاتا ہے۔ بیسن کھلی اور صندل کی ٹکیوں سے ہاتھ دھوئے۔ بھنڈا نوش کیا۔ گھنٹہ بھر بعد آب حیات مانگا۔ آبدار خانے کی داروغہ نے گنگا کا پانی جو صراحیوں میں بھرا برف میں لگا ہوا ہے جھٹ توڑ کے صراحی نکالی، مہر لگا گیلی صافی لپیٹ خوجے کے حوالے کیا۔ اس نے بادشاہ کے سامنے مہر توڑ چاندی کے ظروف میں نکال بادشاہ کو پلایا۔ پیتے وقت حاضرین ادب سے کھڑے ہو گئے، جب پی چکے تو سب نے مزید حیات کہا، مجرا کیا اور رخصت ہوئے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے بادشاہ کی خانگی زندگی کے ایک حصے کی ذرا سی جھلک نظر آتی ہے جس سے اس زمانہ کی تمدنی حالت کا کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے انواع و اقسام کے کھانے تیار ہوتے تھے۔ دسترخوان پر کس طرح ہر قسم کی صفائی کا انتظام تھا اور کیا ادب و آداب تھے۔ اور یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ بادشاہ کے نقل امیر امرا کرتے ہیں اور ان کی نقل حسب حیثیت نیچے کے طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ چنانچہ کچھ کمی کے ساتھ مگر اسی قسم کے کھانے امرا کے دسترخوان پر بھی ہوتے ہوں گے اور غالب نے جن کا تعلق سرکار لوہارو سے تھا اور جو شاہی مصاحب بھی تھے اس تمدن و معاشرت کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور اس کے غارت ہونے پر وہ جب تک جیے، مرثیہ خوانی کرتے رہے۔
(۲)
دلی کئی دفعہ آباد ہوئی اور کئی دفعہ اجڑی اور پھر آباد ہوئی اور پھر برباد ہوئی۔ تیمور نے حملہ کیا، دلی کو لوٹا کھسونٹا، چلا گیا۔ تیمور کی اولاد نے دلی کو ازسر نو آباد کیا۔ سارے ہندوستان کی دولت اس شہر میں لا کر جمع کر دی اور عیش و طرب کے دروازے کھول دیے۔ محمد شاہ رنگیلے غرقِ مئے ناب اولی تھے کہ نادر شاہ نے حملہ کردیا، قتل عام کا حکم دے دیا اور دلی کی پشتوں کی کمائی لوٹ لاٹ چلتا بنا، حتیٰ کہ تخت طاؤس کو بھی نہ چھوڑا۔ مگر دلی ہندوستان کی رانی ہی رہی۔ رفتہ رفتہ پھر حالت درست ہو گئی کہ غلام قادر روہیلہ قلعہ میں گھس آیا۔ شاہ عالم بادشاہ کو اندھا کردیا اور قلعہ کی ساری دولت لوٹ کر چلا گیا اور یہاں تک کہ دیوان خاص کی دیواروں میں جو جواہرات لگے ہوئے تھے وہ بھی نکال کر لے گیا۔ مگر دلّی کی بادشاہت پھر بھی قائم رہی اور دلی والوں کے عیش و طرب میں بہت کمی نہ آئی۔ بہادر شاہ بچارا تو نام کا بادشاہ بھی نہ تھا البتہ پنشن خوار بادشاہ ضرور تھا اور اس کی حکومت قلعہ سے باہر نہ تھی۔ پھر بھی دلی والے سمجھتے تھے کہ ہمارے سر پر ہمارا بادشاہ ہے اور بہت عزت و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اب ہمارے پاس کیا رہا ہے جو کوئی ہم سے چھینے گا۔ مگر خدا ان کالوں کا بھلا کرے کہ انھوں نے دلی کی بادشاہت نام کی بھی نہ رہنے دی اور جو تھوڑی بہت دولت دلی والوں نے جمع کی تھی اس کو بھی گوروں اور خاکیوں کے ہاتھ لٹوا دیا۔
اس زمانے کا حال غالب نے اپنے قلم سے اپنے روزنامچے میں لکھا ہے، یعنی 57ء کے جانکاہ واقعہ کا دردناک حال چشم دید تحریر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلی کو کیا کیا ظلم سہنے پڑے، کس طرح غریب بے گناہوں نے پھانسیاں پائیں، کس طرح امیروں کی جائدادیں ضبط ہوئیں اور کس طرح شہر کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ غالب لکھتے ہیں: “ہندوستان کا قلمر و بے چراغ ہو گیا۔ لاکھوں مر گئے، جو زندہ ہیں ان میں سینکڑوں گرفتار بند و بلا ہیں۔ جو زندہ ہے اس میں مقدور زندگی نہیں”۔ “امرائے اسلام میں سے اموات گنو، میر ناصرالدین باپ کی طرف سے پیرزادہ، نانا اور نانی کی طرف سے امیر زادہ، مظلوم مارا گیا۔ آغا سلطان بخشی محمد علی خان کا بیٹا جو خود بھی بخشی ہو چکا ہے، بیمار پڑا، نہ دوا، نہ غذا، انجام کار مر گیا۔ ناظر حسین مرزا جس کا بڑا بھائی مقتولوں میں آگیا ہے، اس کے پاس ایک پیسہ نہیں، ٹکے کی آمد نہیں، ضیاءالدین کی پانچ سو کی املاک واگزاشت ہو کر پھر ضبط ہو گئی۔۔۔۔۔ قصہ کوتاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڈھ اور بلب گڈھ اور فرخ نگر کم و بیش تیس لاکھ روپے کی ریاستیں مٹ گئیں”۔ بے گناہوں کو گولی اور پھانسی سے مار دیے جانے کی تفصیل دیتے ہوئے چند احبا کا ذکر کرتے ہیں: “حبیب رضی الدین خاں کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی۔ احمد حسین خاں ان کے چھوٹے بھائی اسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کر آئے تھے، بعد فتح دہلی دونوں بےگناہوں کو پھانسی ملی۔ میر چھوٹم نے بھی پھانسی پائی”۔
صاحبزادہ شاہ قطب الدین ابن مولانا فخر الدین بادشاہ کے پیر تھے۔ ان کے بیٹے صاحبزادہ میاں نصیر الدین کی بہادر شاہ اور سارا شہر بہت عزت کرتا تھا اور یہ کالے صاحب کہلاتے تھے۔ ان کے نواسے میاں عبد الصمد صاحب کا جو کوچہ پنڈت میں رہتے تھے، حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ قاسم جان کی گلی میں ان کی حویلی اب ایک محلہ ہو گئی ہے، اب فقط اس کا دروازہ ہی رہ گیا ہے۔ اس کے متعلق غالب لکھتے ہیں: “روشن الدولہ کا مدرسہ جو عقب کو توالی چبوترہ ہے وہ اور خواجہ قاسم کی حویلی جس میں مغل علی خاں مرحوم رہتے تھے وہ، اور خواجہ صاحب کی حویلی، یہ املاک خاص میاں کالے صاحب کی قرار پا کر ضبط ہوئی اور نیلام ہو کر روپیہ سرکار میں داخل ہوگیا۔ ہاں قاسم جان کی حویلی میاں نظام الدین (میاں کالے صاحب کے بیٹے) کی والدہ کو مل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاسم جان کی گلی میر خیراتی کے پھاٹک تک بے چراغ ہے، ہاں اگر آباد ہے تو یہ ہے کہ غلام حسن خاں کی حویلی ہسپتال ہے۔ ضیاء الدین خاں (نواب لوہارو) کے کمرہ میں ایک ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں اور کالے صاحب کے مکانوں میں ایک اور صاحب عالیشان انگلستان رہتے ہیں۔ لال کنویں کے محلہ میں خاک اڑتی ہے، آدمی کا نام نہیں، خود میاں کالے صاحب کا گھر اس طرح تباہ ہوا کہ جیسے جھاڑو دے دی ہو۔ کاغذ کا پرزہ، سونے کا تار، پشمینے کا بال باقی نہیں رہا”۔
شہر کی ایک اور معزز ہستی یعنی مفتی اعظم مولوی صدر الدین صاحب کی نسبت لکھتے ہیں: “جناب مولوی صدر الدین صاحب بہت دن حوالات میں رہے، کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا، صاحبان کورٹ نے جان بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف، جائداد ضبط، پھر نصف جائداد و اگزاشت ہوئی۔ اپنی حویلی میں رہتے ہیں، کرائے پر معاش کا مدار ہے۔ اگرچہ یہ امداد ان کے گزارہ کو کافی ہے۔ ایک آپ ،ایک بی بی، تیس چالیس روپے کی آمد۔ لیکن چونکہ امام بخش چپراسی کی اولاد ان کی عترت ہے اور وہ دس بارہ آدمی ہیں، لہٰذا فراغبالی سے نہیں گزرتی”۔ مفتی صاحب موصوف کے عزیز نواب ابو الحسن خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ اور ان کے بھتیجے نواب ممتاز حسن خاں صاحب اب تک مفتی صاحب موصوف کی حویلی کے مالک ہیں۔ یہ حویلی نزد جامع مسجد مٹیا محل کے سامنے واقع ہے۔ اس حویلی ہی میں مفتی صاحب درس دیتے تھے۔ شمس العلماء منشی ذکاء اللہ صاحب مرحوم، ڈاکٹر مولوی ضیاء الدین صاحب ایل ایل ڈی مرحوم، اور حافظ عزیز الدین صاحب وکیل مرحوم سب مفتی صاحب کے شاگرد تھے۔ اب نہ استاد رہے، نہ شاگرد رہے، بس رہے نام سائیں کا۔
شہر کے کنوؤں اور محلوں اور سڑکوں کی تباہی کے متعلق لکھتے ہیں: “مصیبت عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال ڈگی کے کنویں یکقلم کھاری ہوگئے۔ پرسوں مَیں سوار ہو کر کنوؤں کا حال پوچھنے گیا تھا۔ مسجد جامع سے داجگھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے (یہ وہ علاقہ ہے جو قلعہ اور جامع مسجد کے بیچ میں واقع ہے اور فیض بازار سے ریل کی سڑک تک، جہاں کلکتی دروازہ تھا، چلا جاتا ہے اور اب جہاں گھاس لگا دی گئی ہے)۔ مرزا گوہر کے باغیچے کی اس جانب کو کئی بانس نشیب تھا، اب وہ باغیچے کے صحن کے برابر ہوگیا ہے۔ آہنی سڑک کے واسطے کلکتے دروازے سے کابلی دروازے تک میدان ہو گیا۔ پنجابی کٹرہ، دھوبی دروازہ، رامجی گنج، سعادت خاں کا کٹرہ، جرنیل کی بیوی کی حویلی، رامجیداس گودام والے کے مکانات، صاحب رام کا باغ حویلی، ان سب کا پتا تک نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلی کہاں، اللہ اب شہر نہیں کمپ ہے، چھاؤنی ہے، نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر”۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: “شہر ڈھے رہا ہے۔ بڑے بڑے نامی بازار، خاص بازار، اردو بازار اور خانم کا بازار کہ ہر ایک بجائے خود قصبہ تھا، نہیں بتا سکتے صاحبان امکنہ و دکاکین کہ ہمارا مکان کہاں تھا اور دکان کہاں تھی۔ کشمیری کٹرہ گر گیا۔ وہ اونچے اونچے در اور بڑی بڑی کوٹھریاں دو رویہ نظر نہیں آتیں کہ کہاں ہیں”۔
مندرجہ بالا واقعات سے جہاں دلی کی تباہی اور بربادی کا حال معلوم ہوتا ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غالب کی دلی بہت وسیع اور آباد دلی تھی۔ لیکن 57ء کے قہر الٰہی میں بازار کے بازار اور محلے کے محلے صاف ہو گئے۔ جن علاقوں کا ذکر اوپر آیا ہے یہ سب قلعہ کے نیچے واقع تھے اور دیکھا جائے تو ایک طرف دلی دروازے سے کشمیری دروازے اور راج گھاٹ تک، اور دوسری طرف قلعہ سے کابلی دروازے تک جس قدر گنجان آبادی تھی اور جتنے محلے، بازار اور مکانات تھے، سب مسمار کر دیے گئے یعنی شہر کا بہترین اور سب سے زیادہ مالدار اور آباد حصہ تباہ و برباد ہو گیا۔ صرف ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا۔
جب شہر کی یہ حالت تھی تو شہر والوں کی حالت ظاہر ہے۔ شہر پر قبضہ ہونے کے بعد صرف ان لوگوں کو جو انگریزوں کے ساتھی تھے، رہنے کی اجازت تھی، باقی فوج کا قبضہ تھا۔ اس مارشل لا کو غالب نے یوں بیان کیا ہے: “رہنا شہر میں بے حصول اجازتِ حاکم احتمال ضرر رکھتا ہے۔ اگر خبر نہ ہو تو نہ ہو، اگر خبر ہو جائے تو قباحت ہے۔ یہ پنجاب احاطے میں شامل ہے۔ نہ قانون نہ آئین۔ جس حاکم کی جو رائے میں ہو وہ ویسا ہی کرے”۔ شہر والے جو غدر میں بھاگ گئے تھے، امن ہونے پر اگر واپس آنا چاہتے تھے تو صرف ان لوگوں کو اجازت تھی جن کو پاس ملتے تھے۔ غالب نے اس “پاس” کو ٹکٹ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں: “گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے، لاہوری دروازے کا تھانیدار مونڈھا بچھا کر سڑک پر بیٹھتا ہے، جو باہر کے گورے کی آنکھ بچا کر آتا، اس کو پکڑ کر حوالات میں بھیج دیتا ہے۔ حاکم کے ہاں پانچ پانچ بید لگتے ہیں یا دو دو روپے جرمانہ لیا جاتا ہے۔ آٹھ دن قید رہتا ہے، حکم ہے کہ دریافت کرو کون کون بے ٹکٹ مقیم ہے اور کون ٹکٹ رکھتا ہے”۔
امن و امان کے بعد معاوضے کے متعلق لکھتے ہیں: “حکم یہ ہے کہ جو رعیت کا مال کالوں نے لوٹا اس کا معاوضہ سرکار سے ہوگا، یعنی ہزار روپے کے مانگنے والے کو سو روپے ملیں گے اور جو گوروں کے وقت کی غارت گری ہے وہ معاف اور ناقابلِ گرفت ہے۔ اس کا معاوضہ نہ ہوگا”۔ اسی سلسلے میں لکھتے ہیں: “ایک لطیفہ پرسوں خوب ہوا، حافظ ممّوں بے گناہ ثابت ہوچکے، رہائی پا چکے، املاک اپنی مانگتے ہیں، مسل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا کہ حافظ محمد بخش کون ہے، عرض کیا کہ میں، پھر پوچھا کہ حافظ مموں کون ہے، عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے، مموں مموں مشہور ہوں۔ فرمایا کچھ بات نہیں، حافظ محمد بخش بھی تم اور حافظ مموں بھی تم اور سارا جہاں بھی تم، جو دنیا میں ہے وہ بھی تم، ہم مکان کس کو دیں۔ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں مموں اپنے گھر چلے آئے”۔ ایک اور جگہ اسی سلسلے میں لکھتے ہیں: “نہ قانون ہے نہ قاعدہ ہے، نہ نظیر کام آئے، نہ تقریر پیش جائے۔ ارتضیٰ خاں کی پوری دو سو روپے کی پنشن کی منظوری ان کی دو بہنیں، سو سو روپے مہینہ پانے والیوں کو حکم ہوا کہ چونکہ تمھارے بھائی مجرم تھے، تمھاری پنشن ضبط۔ بطریق ترحّم دس دس روپیہ مہینہ تم کو ملے گا۔ ترحم یہ ہے تو تغافل کیا قہر ہوگا”۔ دلی کی تباہی میں غالب جابجا کالے، گورے اور خاکی فوج کی شکایت کرتے ہیں۔ کالوں نے تو غدر مچوا کر شہر کو تباہ کرایا۔ گوروں اور خاکیوں نے شہر کو لوٹا اور لوگوں کو پھانسیاں دیں۔ خاکی سے مراد وہ دیسی سپاہی ہیں، جن کی فوجیں پنجاب اور پنجاب کی ریاستوں سے انگریزوں کی کمک کو آئی تھیں۔ بادشاہی دلی کے امرا کی املاک و جائدادیں جب نیلام ہوئیں تو چند سیٹھ ساہوکاروں نے کوڑیوں کے مول لے لیں۔ کیونکہ اول تو کوئی اور خریدار نہ تھا، دوسرے سرکار کو تو سزا دینی تھی۔ ان کا مال فروخت کر کے کوئی دولت جمع کرنی تو نہ تھی۔ اس لیے بقول غالب اس زمانے کی دلی میں کوئی شخص سوائے پنجابی افسروں، فوج والوں اور ساہوکاروں کے موجود نہ تھا۔ دلی کے اس دردناک زمانے کا مرثیہ غالب نے خوب لکھا ہے، آنکھوں کے سامنے تصویر کھچ جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:
بسکہ فعالِ ما یرید ہے
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا
وہی رونا دل و تن و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزش داغہائے پنہاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے غالبؔ
کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا
(٣)
کہتے ہیں کہ دلی سلطنتوں کا قبرستان ہے۔ جہاں اور سلطنتیں اس شہر میں دفن ہیں، وہاں مغلوں کی سلطنت کا بھی اضافہ ہوگیا اور خدا جانے کس کس کو یہاں جگہ ملنی ہے۔ سلطنت مغلیہ کے ساتھ ہندی مسلمانوں کی تہذیب اور ان کا تمدن بھی ختم ہوا۔ غالب نے جہاں خاندان تیموریہ کا آخری چراغ گل ہوتے دیکھا وہاں مشرق کی بجائے مغرب سے ایک نئی روشنی بھی طلوع ہوتے دیکھی یعنی مشرق کا دور ختم ہوتے اور مغرب کا شروع ہوتے دیکھا۔ غالب کے دادا ماوراء النہر سے شاہ عالم کے وقت میں ہندوستان آئے اور انھوں نے ایک پر گنہ سیر حاصل ذات کی تنخواہ اور رسالے کی تنخواہ میں پایا مگر طوائف الملوکی میں وہ سب کچھ چھن گیا۔ ان کے والد عبداللہ بیگ خاں بہادر اول لکھنؤ میں نواب آصف الدولہ کے اور پھر حیدرآباد میں نواب نظام علی خاں کے ہاں ملازم ہوئے۔ وہاں سے علاحدہ ہو کر راؤ راجا بختاور سنگھ کے ہاں چلے آئے اور لڑائی میں مارے گئے۔ ان کے چچا نصراللہ خاں مرہٹوں کی طرف سے اکبرآباد کے گورنر تھے۔ جب مرہٹوں کو جرنیل لیک نے 1806ء میں آگرے سے نکال دیا تو گورنر تو انگریز ہو گیا مگر نصراللہ خاں کو چار سو سواروں کا بریگیڈیر کر دیا۔ ایک ہزار روپے ذات اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے کی جاگیر حین حیات مقرر ہوئی۔ وہ بھی مر گئے۔ غالب اس وقت آٹھ برس کے تھے۔ جاگیر کے بدلے پنشن ہوگئی۔ جب ہوش سنبھالا تو 1830ء میں کلکتہ میں گورنر جنرل سے ملے۔ وہاں سے سات پارچے اور جیغہ، سر پیچ، مالائے مروارید یعنی تین رقم کا خلعت ملا۔ یہ خلعت ہر دربار پر دلی میں بھی ملتا رہا۔ بعد غدر بجُرم مصاحبت بہادر شاہ دربار و خلعت دونوں بند ہو گئے۔ بریّت کی درخواستوں پر تین برس بعد معافی ملی اور معمولی سا خلعت ملا۔ غرض یہ کہ غالب انگریزوں کے خیر خواہوں کی اولاد میں سے تھے اور خود انگریزوں کے درباری تھے۔ چنانچہ غالب نے 11؍ مئی1٨57ء سے یکم جولائی 1858ء تک کی روداد شہر اور اپنی سرگذشت ایک کتاب میں درج کی تھی جس کا نام “دستنبو” رکھا تھا۔ اس میں اکثر انگریزوں سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ دلی کالج کے پرنسپل انگریز تھے۔ ان سے بھی غالب کے مراسم تھے، یہ پرنسپل صاحب غالب کو ان کی پالکی تک لینے آتے تھے اور ان کی لیاقت کے اتنے قائل تھے کہ اپنے کالج میں غالب کو ملازمت دلوا دی، لیکن جب غالب شکریہ ادا کرنے گئے تو پرنسپل صاحب استقبال کو نہ آئے اور کہا کہ اب آپ ملازم ہیں۔ غالب نے کہا کہ حضرت میں سمجھتا تھا کہ اس ملازمت سے میرے اعزاز میں اضافہ ہوگا، اس لیے اس کو قبول کرنا چاہتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ جو پہلے عزت تھی اس میں بھی کمی آگئی ہے اس لیے افسوس کہ میں اس کے قبول کرنے سے معذور ہوں۔ غالب کی وضع داری اور پاس غیرت مسلمانوں کی تہذیب کا نمونہ ہے اور پرنسپل کا برتاؤ مغربی تہذیب پر مبنی تھا۔ اس مثال سے جانے والی اور آنے والی تہذیب کا موازنہ ہو سکتا ہے اور اس کسوٹی پر اگر آج کل کے لوگوں کو کساجائے تو اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا کہ اب پرانی تہذیب کا نام نشان بھی باقی نہیں رہا۔
جب انگریزوں نے دلی پر قبضہ کر لیا اور رفتہ رفتہ تمام علاقوں میں امن امان ہو گیا تو 1858ء میں انگلستان کی ملکہ معظمہ نے اعلان کر دیا کہ آنریبل جان کمپنی کی حکومت ختم ہوئی اور ہماری حکومت شروع ہوئی۔ یوں تو 1٧57ء یعنی پلاسی کی جنگ کے بعد سے انگریزوں کا ہندوستان پر عمل دخل ہو گیا تھا اور مغربی تہذیب کی داغ بیل پڑ چکی تھی لیکن جیسا بیان کیا جا چکا ہے، دلی میں ابھی تک مغربی تہذیب کا اثر نہیں ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے تخت پر ہندوستانی بادشاہ بیٹھا ہوا پرانی تہذیب کی محافظت کر رہا تھا۔ انگریز ہندوستانیوں کو اور ان کی تہذیب کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور شہزادوں اور امرا کی نقل کرتے تھے اور گھر میں ہندوستان کے نہایت مکلف کھانے اور لباس استعمال کرتے تھے۔بہت سے انگریزوں نے ہندوستانی عورتوں سے شادی کر لی تھی اور بالکل ان کا طرز معاشرت اختیار کرلیا تھا۔ بعض یورپینوں نے دیسی بیویاں تو کر لیں تھیں مگر اپنی طرز معاشرت میں تھوڑا ہی فرق ہونے دیا تھا۔ چنانچہ سمرو صاحب بڑے مشہور فوجی افسر گزرے ہیں، انھوں نے میرٹھ کی ایک عرب خاندان کی خاتون سے شادی کرلی۔ یہ خاتون مدت تک اپنے مذہب اور تمدن پر چلتی رہیں اور بیگم سمرو کہلائیں۔ سردھنے میں آج تک ان کی کوٹھی ہے۔ تیس سال ہوئے کہ دلی میں بھی بیگم سمرو کی کوٹھی ایک وسیع باغ میں واقع تھی۔ باغ اب بک گیا مگر کوٹھی ابھی تک سلامت ہے۔ اب سے کچھ ماہ قبل لائڈز بنک اسی کوٹھی میں تھا لیکن یہ سب باتیں اس وقت تک رہیں جب تک غیر ملک والے ہندوستان پر باقاعدہ قابض نہ ہو گئے۔ ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کے بعد سے دنیا پلٹ گئی۔ دلی میں امن و امان ہو گیا مگر دلی شہر وہ شہر نہ رہا، دلی والے وہ دلی والے نہ رہے۔ دلی اہل کمال کا گہوارہ تھی جن میں بہت سے قتل ہوئے، کچھ ایسے شہر چھوڑ کر گئے کہ واپس نہ آئے۔ غرض یہ کہ امن و امان کے بعد کچھ کام پیشہ لوگ اور کچھ بنیے بقال آ کر آباد ہوگئے۔ امیر امرا اور شرفا کے خاندان برباد ہو گئے۔ ان کی املاک جائداد پر دوسرے لوگ قابض ہو کر نئے نواب بن گئے۔ جیسے نئے نواب ویسی نئی تہذیب، عجز و انکسار، حلم و تحمل، فراخدلی و چشم پوشی، قناعت و استغنا جو پرانی تہذیب کا جزوِ اعظم تھے، نئی تہذیب میں عیب شمار کیے جانے لگے۔ نخوت و تکبر، تنگدلی و عیب جوئی، بےصبری و لالچ خوبیاں تصور ہونے لگیں۔ غرض یہ کہ مغربی تہذیب کی بدترین خرابیاں مروج ہو کر بام ترقی پر پہنچنے کا زینہ ہونے کی وجہ سے خوبیاں بن گئیں۔
غالب نے یہ دلی بھی دیکھی مگر وہ زندگی سے بیزار تھے۔غالب کے انگریزوں کے ساتھ جو خاندانی تعلقات چلے آتے تھے اور جن کا ذکر قبل ازیں ہو چکا ہے، ان تعلقات کے سلسلہ میں غالب لکھتے ہیں: “ان روسیاہ کالوں کے ہاتھوں انگریزی قوم میں سے جو قتل ہوئے اس میں کوئی میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہائے اتنے یار مرے کہ جو اب میں مروں گا تو کوئی رونے والا بھی نہ ہو گا”۔ ایک اور جگہ فتح کی خوشی میں جو انگریزوں نے چراغاں کیا اس کے سلسلے میں لکھتے ہیں: “حکم ہوا ہے کہ پہلی نومبر کو رات کے وقت سب انگریز اور ان کے خیر خواہ اپنے اپنے گھروں اور بازاروں میں روشنی کریں۔ صاحب کمشنر بہادر کی کوٹھی پر بھی روشنی ہو گی۔ فقیر بھی اس تہی دستی میں کہ اٹھارہ ماہ سے پنشن مقررہ نہیں پاتا اپنے مکان پر روشنی کرے گا”۔ القصہ دلی کا تیسرا دور جو غالب نے دیکھا وہ، وہ تھاجس کو انگریز اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ بادشاہ فوت ہوگئے، خدا بادشاہ کو سلامت رکھے یعنی پرانی تہذیب کو دفن کر کے لوگ نئی تہذیب کو لبیک کہہ رہے تھے۔ جو دلی قدیم زمانہ سے ہندوستان کا پایہ تخت رہ چکی ہو، انگریزی حکومت میں جانے کے بعد فوراً پنجاب سے ملحق کر دی گئی جو ایک غیر آئین صوبہ تھا۔ جس سے نہ صرف دلی کی عزت بلکہ رہی سہی تہذیب بھی خاک میں مل گئی۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا مگر جو آئندہ ہونے والا تھا، نہ اس کی اس زمانے والوں کو خبر تھی اور جو کچھ آئندہ ہوگا نہ اس کی ہم کو خبر ہے۔ واللہ اعلم بالغیب۔
دردؔ کی دلی
آج ہم دردؔ کی کہانی سن رہے ہیں۔ درد نے اپنی رباعی میں سچ کہا تھا:
پیری چلی اور جوانی اپنی!
اے درد کہاں ہے زندگانی اپنی
اب اور کوئی بیان کرے گا اس کو
کہتے ہیں اب آپ ہم کہانی اپنی
لیکن اس کہانی کی تکمیل کے لیے اس ماحول کا بھی حال معلوم کرنا ضروری ہے جس میں درد نے اپنی زندگی گزاری۔
درد دلی ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں جاں بحق ہوئے۔ اس لیے اس زمانے کی دلی کی زندگی ہی ان کا ماحول تھا۔ درد ٦٨ برس کی عمر میں ١١٩٩ھ میں فوت ہوئے، اس حساب سے ان کی پیدائش کا سنہ ١١٣٢ھ ہوا۔ اس ٦٨ برس کے عرصہ میں دلی نے بڑے بڑے تماشے دیکھے اور طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں۔ درد کا سال پیدائش فرخ سیر بادشاہ کے اپنے وزیر سید عبداللہ و سید حسین علی کے ہاتھوں ختم ہونے کا سال تھا۔ اب ایک طوائف الملوکی کا دور شروع ہوتا ہے جس میں میں وزیر بادشاہ گر بھی ہیں اور بادشاہ کش بھی!
فرخ سیر کے بعد رفیع الدرجات و رفیع الدولہ یکے بعد دیگرے تخت پر بٹھائے جاتے ہیں، مگر دونوں کی زندگی وفا نہیں کرتی۔ پھر جہاں دار شاہ کے بیٹے روشن اختر کو قید سے نکال کر تخت پر بٹھایا جاتا ہے۔ یہ بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کے نام سے آج تک مشہور ہے۔ اس نے دونوں بادشاہ گر بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور آپ خود مختار ہو کر بادۂ شبانہ کی سرمستیوں کی دھن میں ؏:
ایں دفتر بے معنی غرقِ مئے ناب اولی
کے راگ الاپنے لگا۔ بادشاہ کی رنگ رلیوں کا دلی والوں پر ایسا اثر پڑا کہ ان کو بھی رات دن عیش و عشرت کے سوا کچھ کام ہی نہ تھا۔ آخر دلی پر قہر الٰہی نازل ہوا، نادر شاہ نے ذرا سی بات پر قتل عام ک حکم دے دیا۔ شہر میں خون کے دریا بہہ گئے اور جب تک ایک بزرگ سفید ریش نے نادر کو یہ یاد نہ دلایا کہ :
کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغ ناز کشی!
مگر کہ زندہ کنی خلق را و باز کشی
تلوار میان میں نہ گئی، آخر خدا خدا کر کے یہ بلائے ناگہانی ہزاروں جانیں اور ٥٢ کروڑ زر و نقد کی بھینٹ لے کر دلی سے ٹلی اور شہر والوں نے ؏
رسیدہ بود بلائے ولے بہ خیر گزشت
کہہ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
محمد شاہ نے شراب سے توبہ کی، مگر پیغام اجل آ پہنچا تھا۔ خیر عاقبت درست ہو گئی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا احمد شاہ اس کا جانشین ہوا۔ ادھر نادر شاہ کی جگہ اس کے ایک سردار احمد شاہ ابدالی نے سنبھالی اور ہندوستان پر حملے شروع کر دیے۔ یہاں یہ عالم تھا کہ وزیر کی بادشاہ سے نہ بنتی تھی۔ عماد الملک غازی الدین خاں نے جن کا مزار([1]) اسی عمارت میں ہے جہاں ہم آج جمع ہیں، احمد شاہ کو قید کر کے عزیز الدین عالمگیر ثانی کو بادشاہ بنایا، ١١٧٣ھ میں اسے بھی تخت سے اتارا اور کام بخش کے بیٹے کو شاہجہاں ثانی کے لقب سے تخت پر بٹھایا۔ اس بادشاہ کو احمد شاہ ابدالی نے دلی پر قبضہ کر کے بے تاج کیا اور اس کے بیٹے شاہ عالم ثانی کو بادشاہ بنایا اور ایک روہیلے سردار نجیب خاں کو نواب نجیب الدولہ کا خطاب دے کر اس کا وزیر کیا۔ شاہ عالم کا زمانہ پورا نہ ہونے پایا تھا کہ درد کا انتقال ہو گیا۔
غرضکہ درد کا شباب محمد شاہ رنگیلے کی بادشاہت میں گذرا اور عالم پیری شاہ عالم ثانی کے عہد میں اور انھیں دو بادشاہوں نے کچھ بادشاہت کی اور انھی کے عہد میں خاص کر محمد شاہ کے زمانہ میں دلی عیش و نشاط کا گہوارہ بھی بنی اور تباہ و برباد بھی ہوئی۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا سو ہوا، مگر اس وقت کی دلی اِس وقت کی دلی سے کہیں افضل و اعلی تھی۔ وہ دلی شاہجہاں آباد تھی۔ شاہجہاں کا تخت طاؤس محمد شاہ کے زمانے تک قلعہ کی زیب و زینت میں اضافہ کر رہا تھا۔ نادر گردی سے پہلے دلی میں کئی پشتوں کا خزانہ موجود تھا۔ نادر کو جو ٥٢ کروڑ کی رقم نذرانے میں دی گئی تھی، اس میں بادشاہ کے علاوہ امرا نے بھی چار چار کروڑ کی رقم ادا کی تھی۔ معمولی سے معمولی بادشاہی افسر نے بھی دو لاکھ سے کم رقم نہ دی تھی اور اس چندے میں ہندوستان کے راجا، مہاراجا شریک نہ تھے۔ یہ رقم صرف دلی کے امرا سے جمع کی گئی تھی، جو ان کے ہاتھ کا میل تھا۔ ان حالات سے شہر دلی کی دولت مندی کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس زمانے میں یہ مثل مشہور تھی کہ ایک مجمع میں اگر تھالی اچھالی جائے تو کسی امیر یا وزیر کے سر پر پڑے گی۔ شہر کا چپہ چپہ ان امرا کے محلات اور حویلیوں سے بھرا پڑا تھا جن میں سے بعض محلات اور حویلیوں کے کھنڈر اب بھی باقی ہیں۔
امیر الامرا اور خان دوران خاں وزیر اعظم کا خطاب ہوتا تھا۔ بلیماروں میں اب بھی ایک محلہ حویلی خان دوران خاں کے نام سے مشہور ہے۔ یہ خان دوران خاں نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے کرنال کی جنگ میں مارے گئے۔ اس زمانے کے مشہور امرا و وزرا میں سے جنھوں نے سلطنت کی بقا کے لیے بڑے بڑے کارنامے کیے یا جنھوں نے ملک کو زیر و زبر کیا، محمد شاہ کے عہد میں برہان الملک سعادت خاں نواب وزیر اودھ تھے، جن کے جانشیں منصور علی خاں صفدر جنگ ہوئے۔ برہان الملک کے مد مقابل نواب نظام الملک آصف جاہ اول تھے جن کا نام میر قمر الدین تھا۔ نواب حیدر قلی خاں میر آتش اس لیے مشہور ہوئے کہ انھوں نے حسین علی خاں قطب الملک بادشاہ گر کو قتل کیا تھا۔ ان کی حویلی کا بھی ایک محلہ بن گیا ہے جس کا دروازہ چاندنی چوک میں کھلتا ہے اور ابھی تک شکستہ حالت میں موجود ہے۔ نواب وزیر اودھ کی حویلی کا ایک دروازہ نہر سعادت خاں پر کھلتا ہے ایک حبش خاں کے پھاٹک میں، اس حویلی میں بھی ایک محلہ آباد ہے۔
محمد شاہ کے عہد میں ارباب نشاط کا بہت زور تھا۔ رحیم سین اور تان سین مشہور گویے تھے۔ حسن خاں، بابی، گھاسی رام پکھاوچی، باقر طنبورچی، شاہ درویش مسبوچہ نواز، متقی بھگت باز، شاہ دانیال عرف سرخی نقال اور معین الدین قوال بہت مقبول تھے۔ طوائفوں میں سرس روپ، خوشحالی، رام جئی، کالی کنکا، کمال بائی، اوما بائی بہت مشہور تھیں۔ نور بائی ڈومنی ہاتھی پرسوار ہوتی تھی، بڑی حاضر جواب مشہور تھی۔ چنانچہ جب نادر شاہ کے حضور میں پیش ہوئی اور نادر شاہ نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو اس نے فی البدیہہ یہ رباعی سنائی:
من شمع جاں گدازم تو صبح دل کشائی
گریم گرت نہ بینم میرم چو رخ نمائی
تردیکت، ایں چنیں ام دوراں چناں کہ گفتم
نے تاب وصل دارم نے طاقت جدائی
اُو بیگم ایک طوائف تھی جس کے متعلق ایک روایت ہے کہ وہ برہنہ رہتی تھی مگر اپنے جسم پر ایسا رنگ کرتی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ لباس پہنے ہوئے ہے اور وہ پینٹ اس کے ستر کا کام دیتا تھا۔
یہ سب حالات محمد شاہ کی رنگ رلیوں کے وقت کے ہیں، مگر دلی کے قتل عام اور تباہی کے بعد سب نشے ہرن ہو گئے۔ مثل مشہور ہے کہ ؏
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا!
چنانچہ خلقت دنیا کی بے ثباتی سے گھبرا کر اپنے خالق کی طرف رجوع ہوئی اور ارباب صدق و صفا، سالکین طریقت اور عارفین حقیقت کی تلاش شروع ہوئی۔ جویندہ یا بندہ!
چنانچہ اس زمانے میں دلی میں بڑے بڑے عارفین کامل قیام پذیر تھے، جن کے روحانی فیض سے دنیا متمتع ہوتی تھی۔ حضرت شاہ فرہاد نے جو خلیفہ حضرت دوست محمد قدس سرہ کے تھے، ١١٤٥ھ میں انتقال فرمایا، بادشاہ وقت اکثر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنے حق میں دعائے خیر کے طالب ہوتے۔ آپ کے ممتاز خلیفہ حضرت مولانا برہان الدین خدا نما تھے جن کا مزار قرول باغ کے قریب پہاڑی پر ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی اسی عہد میں تھے۔ ان کا انتقال ١١٨٥ھ میں ہوا۔
ایک صاحب محمد شاہ کے زمانے میں مجنون نانک شاہی کہلاتے تھے۔ نہایت نازک مزاج اور مخیر تھے۔ لب دریا ان کا مکان تھا۔ سیر کے لیے مکان کے نیچے کشتیاں بندھی رہتی تھیں۔ دن رات غریب لوگوں کو مٹھائی، میوے تقسیم کرتے رہتے تھے۔ نہایت نحیف الجثہ اور نازک تھے۔ نفیس فقیرانہ لباس پہنتے تھے۔ جب چلتے تھے تو لوگ مورچھل جھلتے رہتے تھے۔ غرضکہ یہ فقیر صاحب ایک امیرانہ طرز کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اکثر ہنود بھی ان کے معتقد تھے اور ان کو نانک وقت سمجھتے تھے۔ عاشورہ کے روز ان کے ہاں بہت ازدحام ہوتا تھا اور لنگر لگتا تھا۔ جو مقام اب مجنوں کا ٹیلہ کہلاتا ہے، شاید آپ ہی کے مکان کا کھنڈر ہے۔
بزرگان دین کے بعد شعرا کی اس زمانے میں قدر ہوتی تھی اور اکثر بزرگ و ولی اللہ بھی زمرۂ شعرا میں شامل ہو جاتے تھے۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں اور حضرت خواجہ میر درد بڑے پائے کے لوگ تھے۔ شاہ ولی اللہ بھی اشتیاقؔ تخلص کرتے تھے، جن کی نسبت میر تقی فرماتے ہیں:
“مردے([2]) بود ذی علم از اولاد شیخ الف ثانی ست، مولد اوسر ہند ست، در کوٹلۂ فیروز شاہ سکونت داشت۔ درویش متوکل گاہے فکر یختہ می کرد ۔”
یہ بزرگ بڑی آن کے لوگ ہوتے تھے۔ بادشاہ تک کی پروا نہ کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت خواجہ میر درد کی نسبت آزاد لکھتے ہیں:
“شاہ عالم([3]) بادشاہ نے خود خواجہ صاحب کے ہاں آنا چاہا، مگر انھوں نے قبول نہ کیا اور جب ان کے ہاں ایک اہل تصوف کے جلسہ میں بادشاہ بے اطلاع آ گئے اور بیٹھنے میں ذرا درد کی وجہ سے پاؤں پھیلا دیے تو خواجہ صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ امر فقیر کے آداب محفل کے خلاف ہے اور جب بادشاہ نے پاؤں میں درد کا عذر کیا تو جواب ملا کہ عارضہ تھا تو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
یہ تو خیر صوفیائے کرام کا ذکر ہے، مگر اس وقت کے شعرا بھی اپنی خود داری اور استغنا میں بادشاہ یا حاکم وقت کی پروا نہ کرتے تھے۔ چنانچہ سودا کا قصہ مشہور ہے کہ نواب شجاع الدولہ نوابِ اودھ نے برادر من مشفق و مہربان من لکھ کر دلی سے بلایا اور سفر خرچ بھیجا، تو یہ جواب میں لکھ بھیجا:
سودا پئے دنیا توبہ ہر سو کب تک
آوارہ ازیں کوچہ بہ آں کو کب تک
حاصل یہی اس سے نا کہ دنیا ہووے
بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر کب تک
میر تقی میر کی نواب آصف الدولہ نے پرورش کے طور پر دو سو ماہوار تنخواہ کر دی۔ میر صاحب دوسرے، تیسرے دن جاتے تو نواب غزل کی فرمائش کرتے۔ آخر ایک دن جواب دے ہی دیا کہ جناب عالی مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج حاضر کر دوں اور پھر جو غزل لے کر گئے تو نواب سنتے جاتے تھے اور حوض کے کنارے بیٹھے چھڑی سے لال سبز مچھلیوں کو چھیڑتے جاتے تھے۔ میر صاحب ایک شعر پڑھتے اور ٹھہر جاتے کہ ادھر توجہ ہو تو آگے چلوں، نواب صاحب کہے جاتے کہ ہاں آگے پڑھیے۔ چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے پڑھوں کیا؟ آپ تو مچھلیوں سے کھیل رہے ہیں۔ نواب نے کہا: جو شعر ہو گا، آپ متوجہ کر لے گا۔ میر صاحب غزل جیب میں ڈال کر گھر چلے گئے، پھر نہ آئے۔ ایک دن بازار میں نواب کی سواری سے مٹھ بھیڑ ہو گئی۔ نواب نے کہا: آپ نے ہمیں بالکل چھوڑ دیا، کبھی تشریف نہیں لاتے۔ میر صاحب نے جواب دیا، بازار میں گفتگو کرنا آداب شرفا نہیں۔ بدستور گھر میں بیٹھے رہے اور نواب صاحب کے ہاں نہ گئے۔([4]) نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں جب ان کی بحالی ہوئی اور نواب نے ہزار روپے اور خلعت چوب دار کے ہاتھ بھجوایا تو کہلا بھیجا کہ مسجد([5]) میں بھجوائیے یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔ ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ ایک معمولی دس روپے کے چوب دار کے ہاتھ خلعت کیوں بھیجا؟ میری حیثیت کے موافق کسی بڑے عہدے دار کو بھیجنا چاہیے تھا۔ اب اس کو بد دماغی کہیے یا احساس خود داری، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں شرافت کا معیار دولت کو نہیں سمجھا جاتا تھا اور شرافت ہمیشہ اپنی ٹانگ دولت کے اوپر ہی رکھنا چاہتی تھی۔ نواب اور رئیس خود شریف ہوتے تھے، شریفوں کی قدر کرتے تھے اور ان کی ناز برداری کرنا اپنی شرافت کی شان سمجھتے تھے۔ شاعری بھی اس زمانے کا ایک شریفانہ شغل تھا۔ کر قسم کے صاحب فن اور اہل کمال اس میں پائے جاتے تھے۔ تذکرۂ شعرا کو پڑھیے تو معلوم ہو گا کہ کوئی سپاہی([6]) عمدہ روزگار ہے، کوئی “در شمشیر([7]) شناسی دستے تمام دارد ودر علم تاریخ مہارتے خوب پیدا کردہ”۔ کسی امیر زادے کی تعریف لکھی ہے کہ “نکتہ پرداز([8])، بذلہ سنج، یار باش، خوش اختلاط، خنداں و شگفتہ، حریف([9]) ظریف، ہشاش بشاش، ہنگامہ گرم کن مجلس ہا”۔ رائ پریم([10]) ناتھ خطاط بے نظیر بہ وسیلہ([11]) قصہ خوانی بسری برد”۔ میر شیر علی افسوس داروغہ تونچانہ عالیجاہ تھے۔ مہربان([12]) خاں رند نواب غالب جنگ بہادر والیٔ فرخ آباد کے وزیر اہل سخن اور ہر فن کے اہل کمال سے ربط رکھتے تھے۔ موسیقی، ہندی شاعری میں مشاق تھے۔ مرتبۂ امارت اتنا بلند تھا کہ خود امرا ان کی صحبت میں رہتے۔ بہت سے راگ ان کی ایجاد تھے۔ فن تیر اندازی میں میر سوزؔ کے شاگرد تھے۔ شمشیر شناسی، ادب شناسی اور مردم شناسی میں امیر موصوف کے صحبت یافتہ([13]) تھے۔
“شوق مدتے در سرکار نواب عماد الملک غازی الدین خاں بہ وسیلۂ سپہ گری بسر بردہ، در فنونِ سخن ماہر از وزرائے ہندوستان بود۔ نول رائے([14]) بہ زیور علم و عمل آراستہ برادرِ خوردش راجا غلام رائے دیوان مدار المہام امیر الدولہ نواب نجیب خاں مرحوم بود ایں عزیز مصروف اکتساب و غریق مطالعہ کتاب، طلب ہر کمال دامن گیر حال۔”
ان شعرا کی اس تعریف سے اس زمانے کے لوگوں کی عموماً اور دلی والوں کی خصوصاً وہ مخصوص خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں جن کے فقدان سے کوئی شخص شریف کہلانے کا حق نہ رکھتا تھا۔ بادشاہ و نواب، امیر و وزیر، درویش و فقیر، شمشیر زن، شمشیر شناس، اہل سخن و اہل کمال سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک برادری کے رکن سمجھے جاتے تھے۔ بڑے چھوٹے کا مطلقاً امتیاز نہ رہتا تھا اور ایک دوسرے کو صحیح معنوں میں بھائی بھائی سمجھتے تھے۔ یہ تھے وہ لوگ جن سے درد کی دلی بسی ہوئی تھی۔ یہ تھی وہ دلی جس کے لال قلعے میں ابھی تک اپنا راج تھا۔ جس میں پھلوں سے بھرے ہوئے باغ اور پھولوں سے لدے ہوئے چمن تھے، جس میں نہریں بہتی تھیں اور فوارے چلتے تھے۔ اگر فردوس بروئے زمیں ست الخ۔ وہ دلی جس کا کشادہ دل کشا چاندنی چوک بہ قول بر نیر رشک لندن و پیرس تھا۔ وہ چاندنی چوک جس میں ہر دیار و امصار کے تاجر انواع و اقسام کا مال فروخت کرتے تھے۔ جوہریوں کی دکانیں دیکھو تو ان میں کہیں لعل بدخشاں و یاقوت درخشاں ہے تو کہیں دُرّ عمان و لولوئے لالہ ہے۔ بزاز ہٹے کو دیکھو تو اطلس و کمخواب، و دیبائے روم و مخمل کاشانی و دیگر پارچہ جات بیش قیمت سے پر ہے۔ کہیں اشیائے اغذیہ و اشربہ و میوہ خشک و تر بک رہے ہیں، تو کہیں فیلان نام دار و اسپان باد رفتار و شتران بار بردار کا سودا ہو رہا ہے۔ ہر ملک و ہر قوم کے لوگ پھرتے نظر آتے ہیں۔ رومی و شامی، زنگی و فرنگی، انگریز و ولندیز، ہندی و سندھی، کابلی و نرابلستانی، اہل چین و اہل ختن، اہل کاشغر و اہل قلماقستان سب خرید و فروخت کے سلسلے میں منسلک ہیں۔ اور ایک چاندنی چوک ہی پر کیا منحصر ہے، بیگم کا بازار، اردو بازار و خاص بازار سب میں ایسی ہی رونق ہے۔ خریداروں سے پٹے پڑے ہیں۔ کوئی ہوادار پر سوار ہے، تو کوئی تام جھام میں چلا آتا ہے۔ کوئی پالکی میں ہے، تو کوئی میانے میں۔ کوئی عراقی پر سوار ہے، تو کوئی ہاتھی پر۔ کوئی بہلی میں نکل رہا ہے، تو کوئی رتھ میں۔ غرضکہ ہر بازار میں چہل پہل ہے، رونق ہے، زندگی ہے۔ ایک ایرانی شاعر نے اس تصویر کو یوں پیش کیا ہے:
عراقی و خراسانی زحد بیش
نہادہ پیش خود سرمایۂ خویش
فرنگی از فرنگستاں رسیدہ
نوادر از بنا در پیش چیدہ
نشتہ ہر طرف لعل درخشاں
بود در ہر دکاں لال بدخشاں
بر آمد از برائے امتحانے
متاع ہفت کشور از دکانے
یہ تھی وہ دلی جس میں درد نے اپنى زندگی کے ٦٨ سال گزارے اور یہ تھی وہ سوسائٹی جس کے وہ ایک رکن تھے۔ درد کی دلی، کناٹ پیلس، وکٹری گیٹ کی دلی نہ تھی کہ جس کے پہلو میں ہر بادشاہ کا پیر لاشہ پڑا دیکھ رہا ہے کہ ملکش با دگراں ست۔
درد کی دلی اپنی دلی تھی، اپنا شہر تھا، اپنا بادشاہ، اپنے وزیر و امیر، اپنا تمدن، اپنی تہذیب، اپنے لوگ، اپنا وطن، ہر طرف اپنے ہی اپنے نظر آتے تھے۔ دوست بھی اپنے اور دشمن بھی اپنے تھے۔ آج یہ بادشاہ کل وہ بادشاہ، آج میں وزیر کل تو وزیر، غیر کا ابھی تک دلی میں عمل دخل نہیں ہوا تھا۔ دلی میں “ملک خدا کا، حکم بادشاہ کا” ڈھنڈورہ پٹتا تھا۔ دلی خود مختار و آزاد تھی۔ ہر دلی والا اس گئے گزرے وقت میں بھی اپنے کو دوسروں سے بالا تر سمجھتا تھا۔ اغیار کو تحقیراً فرنگی کے نام سے پکارتا تھا اور اس کے لباس کو کافر کرتی کہتا تھا۔ یہ جذبۂ فضیلت اپنی حکومت کا نتیجہ تھا نہ کہ پند و نصیحت کا، ہائے کیسے لوگ تھے اور کیا تہذیب تھی۔ ایک طرف خودداری و استغنا کی بے نیازی ہے تو دوسری طرف فِروتنی و دریا دلی کی جادوگری، جس شاہ جم جاہ کے دربار میں “بادشاہ سلامت نگاہ رو برو” کے نعروں کی گونج سے کوئی آنکھ نہیں اٹھا سکتا، جو صاحب تخت و تاج ظل اللہ کے لقب سے خطاب کیا جاتا ہے، وہی بادشاہ انسانی برادری کا ایک فرد ہو کر اپنی رعایا کے جلسوں میں شریک ہوتا ہے۔ بازار میں ملتا ہے تو اپنی رعایا سے شفقت و محبت سے بات چیت کرتا ہے اور وقت پڑے پر اپنی نوازش ہائے شاہانہ سے ان کو مالا مال کرتا ہے۔ امیر غریبوں کا دل لطف و عنایت سے موہتے ہیں تو غریب امیروں پر اپنی جاں نثار کرتے ہیں۔ اس زمانے میں شرفا کی خصوصیات یہ تھیں: خوبئ اخلاق، محبت اور محبت کا نباہ، خود داری، استغنا، وضع داری، زندہ دلی، سپہ گری، علم و فن کا ذوق، خدمت خلق، عجز و انکسار اور خوف خدا؛ لوگ گناہ کرتے تھے مگر خدا سے بھی ڈرتے تھے اور گناہ کو ثواب نہیں سمجھتے تھے۔
غرض کہ وہ سوسائٹی آج کل کی سوسائٹی کی طرح بے دین نہ تھی، اس کی بنا دینی اخلاق پر تھی۔ جا بجا دینی تعلیم کے لیے درس گاہیں موجود تھیں۔ بڑے بڑے بزرگ اور صاحب علم امیر و وزیر مفت درس دیتے تھے۔ ادبی مجالس میں اہل کمال اپنے جوہر دکھلاتے تھے۔ مذہبی جلسوں اور سیر و تماشا کے موقع پر اہل فن کا مجمع ہوتا تھا۔ عام طور پر لوگ بشاش، خنداں و شگفتہ رہتے تھے۔ فکر معاش سے ایک حد تک آزاد تھے کہ کوڑیوں میں گزارہ ہوتا تھا۔ مزید برآں امرا کی سخاوت اور دریا دلی، غرضکہ باوجود ان مصائب دہر کے، جن کے اٹھانے کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ اپنی زندگی موجودہ زمانے والوں کی طرح رو کر نہیں گزارتے تھے بلکہ ہنس کر گزارتے تھے اور تنگیٔ روزی کو قناعت اور توکل کی ڈھال سے روکتے تھے۔
بہرحال اب نہ وہ لوگ ہیں، نہ وہ تہذیب ہے، نہ وہ دلی ہے۔ وہ لوگ مرکھپ گئے، وہ تہذیب مٹ گئی اور وہ شاہ جہاں کی دلی نیست و نابود ہو گئی۔ اب تو فقط کتابوں میں مرحوم کے مرثیے رہ گئے ہیں جن کو پڑھنا، زخم دل کو تازہ کرنا ہے۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے:
داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے بلبل
ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز
صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دل چسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہِ خاک
دفن ہو گا کہیں اتنا نہ خزانا ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے سے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمھارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز
بزم ماتم تو نہیں، بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز
حواشی
[1]۔ عربک کالج اجمیری دروازہ دہلی کی عمارت مراد ہے، یہیں سب سے پہلے اردو کالج دہلی کے زیر اہتمام یوم درد منایا گیا تھا۔
[2]۔ نکات الشعرا ص۷۹٦
[3]۔ آب حیات ص ۱۸٦
[4]۔ آب حیات ص ۲۰۷
[5]۔ آب حيات ص ٢٢٠
[6]۔ نکات الشعرا ص ٧٦
[7]۔ نکات الشعرا ص ۱۲٦
[8]۔ نکات الشعرا ص ۷
[9]۔ نکات الشعرا ص ۱٦
[10]۔ تذکرہ شعرائے اردو میر حسن ص ۵۱
[11]۔ تذکرہ شعرائے اردو میر حسن ص ۵۵
[12]۔ تذکرہ شعرائے اردو ص ۵۷
[13]۔ تذکرہ شعرائے اردو ص ۱۰٦
[14]۔ تذکرہ شعرائے اردو ص ٢٠٧