بت کے ہر ناز کو میں راز خدا کا سمجھا
اس کے دشنام کو اعجازِ مسیحا سمجھا
میں نے کعبے کو بھی بت خانے کا نقشہ سمجھا
اپنے لبیک کو ناقوسِ کلیسا سمجھا
ذوقِ وحدت سے ہر اک چیز کو اعلیٰ سمجھا
چغد کو مثلِ ہما زاغ کو عنقا سمجھا
میں نے ہر قطرے کو دریا سے زیادہ سمجھا
ذرے کے نور کو خورشید سے بالا سمجھا
مے پرستی میں مرے دل کی ترقی دیکھو
خمِ گردوں کو اک ادنیٰ سا پیالہ سمجھا
شور و شر دیکھا زمانے میں زمانے کا اگر
دلِ غمگیں نے اسے عشق کا چرچا سمجھا
عشق بازی میں مرا مرتبہ ایسا ہے فریدؔ
قیسؔ بھی مجھ کو گرو آپ کو چیلا سمجھا