دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی
شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذتِ فراغ
تکلیفِ پردہ دارئ زخمِ جگر گئی
وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذتِ خوابِ سحر گئی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی
دیکھو تو دل فریبئ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
نظارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
مارا زمانے نے اسدؔ اللہ خاں تمھیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی