غمِ کون و مکاں سے فکرِ بیش و کم سے گزرے ہیں
فقط اک جام میں ہم کتنے ہی عالم سے گزرے ہیں
گزر گاہِ تمنا میں گلستاں ہو کہ زنداں ہو
جدھر گزرے ہیں دیوانے اسی دم خم سے گزرے ہیں
زمانہ آشنا ہے صرف اشکوں کے تلاطم سے
وہ طوفاں اور ہیں جو دیدۂ بے نم سے گزرے ہیں
گزرنا خاکِ دل سے شاید ان کو بار گزرا ہے
نشانِ پا بتاتے ہیں کہ کچھ برہم سے گزرے ہیں
ہمیں اے گردشِ دوراں گیا گزرا نہ جان اتنا
گزرنے پر جب آئے ہیں تو ہر عالم سے گزرے ہیں
کسے کہتے ہیں وقتوں کی نزاکت آپ کیا جانیں
ہمی واقف ہیں ہم کس کس مقامِ غم سے گزرے ہیں
بہاروں کی تمنا میں لٹی تھی زندگی جن کی
بہار آئی تو رقص شعلہ و شبنم سے گزرے ہیں
نظر کو روشنی کیا شوقؔ دیں گے ڈوبتے تارے
کئی سورج ہمارے سامنے مدھم سے گزرے ہیں