بڑے اچھے بڑے سیدھے کہیں کے
ذرا دھبے تو دیکھو آستیں کے
چلو پابند ہی رہنا نہیں کے
مگر یہ بل بھی جائیں گے جبیں کے
مرے دامن میں موتی بھر دیے ہیں
سلیقے دیکھیے چشمِ حزیں کے
یہ نازِ دلربائی اللہ اللہ
زباں پر ہاں مگر تیور نہیں کے
میں پھر افسانۂ غم چھیڑتا ہوں
ذرا تم پھر کہو جھوٹے کہیں کے
خدا ناکردہ کچھ مختار ہوتے
اگر مجبور باشندے زمیں کے
جنھیں محشرؔ ہم اپنا جانتے تھے
وہ آخر بن گئے سانپ آستیں کے