انتیس اپریل کو ابو جان کی انیسویں برسی تھی۔ اور ماں جی کا جنازہ۔
کچھ دن پہلے چھوٹے بھائی نے کہا تھا کہ مجھے انتیس اپریل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں نے عقلمندوں کی طرح اسے سمجھایا کہ اس قسم کے وسوسوں کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ فلاں فلاں واقعات کو دیکھو۔ لوگوں نے کیا سوچا اور اللہ نے کیا کیا۔ لہٰذا یہ خیال اپنے دل سے نکال کر ماں جی کی خدمت پر توجہ دو۔ اور پھر جنازے سے پہلے بھائی نے کہا، آج انتیس اپریل ہے۔ میں نے کہا تھا نا، بھائی؟
اپریل ہم چار میں سے تین بہن بھائیوں کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ ۲۹ اپریل ۲۰۰۵ء کو جب میں انیس برس کا ہو گیا تھا، ابو جان کا انتقال ہو گیا۔ پھر پورے انیس برس اور گزرے اور امسال اماں رخصت ہو گئیں۔ سانسیں تو آج بھی اللہ ہی کی امانت ہیں مگر خیال آتا ہے کہ اگلے انیس برس کے بعد شاید میں خود نہ رہوں۔ ابو امی کے بعد باری تو میری ہی بنتی ہے۔
ابو جان ہمیں توڑ کر چلے گئے تھے۔ ماں جی نے ان انیس سالوں میں کرچی کرچی جوڑ کر ابو کے گھر کو واپس گھر بنایا۔ کیا زیور، کیا برتن ہر چیز بیچ ڈالی۔ اپنی اولاد کو تعلیم دلائی، شادیاں کیں، نوکریاں لگوائیں۔ پھر جب بوئی ہوئی فصل کاٹنے کا وقت آیا تو چل بسیں۔ مائیں سب کی ہیرو ہوتی ہیں۔ مجھے اپنی ماں کی فضیلت جتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مگر یہ بھی حق ہے کہ میں ان جیسی کوئی عورت کم از کم اپنے خاندان میں نہیں دیکھتا۔ وہ نمازی پرہیزی عورت تو تھیں ہی۔ مگر مصلے سے روئے بغیر نہ اٹھتی تھیں۔ ہمیں احساس نہ تھا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ معمول تھا اور معمول ہی معلوم ہوتا تھا کہ نماز پڑھیں گی تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں گی۔ پھر رندھی ہوئی آواز میں دعا کریں گی اور آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گریں گے۔ چہرہ تر ہو جائے گا۔ کتنی بار ماں کے قریب سے گزرتے ہوئے یونہی آمین کہہ دیتا تھا۔ ماں کا تر بتر چہرہ چوم لیتا تھا۔ یہ سب معمول تھا۔ مگر اب وہ چلی گئی ہیں تو سوچتا ہوں کہ ایسی نماز پڑھنے والا دوسرا پتا نہیں کہاں ملے گا؟ اور ملا بھی تو ہمارے لیے دعا تھوڑی مانگے گا؟ اور مانگی بھی تو یہ بھروسا اور حوصلہ کسے ہو گا کہ بغیر سوچے، بغیر سمجھے آمین کہہ سکے؟ ماں تو جو بھی مانگتی تھیں ٹھیک مانگتی تھیں۔ مجھ سے کبھی دعا کے لیے کہتیں تو میں کہتا تھا، آپ مانگیں۔ ہماری تو آمین ہے، بابا۔
یہی دعائیں تو تھیں کہ ایک کمزور، بے سہارا، غریب عورت نے گھر سے ایک قدم نکالے بغیر اپنے بچوں کے سب بندوبست کر دیے۔ کیسا معجزہ ہے؟ لوگ ایک سرکاری ملازمت کو ترستے ہیں۔ ہم چار بہن بھائیوں کو نو ملازمتیں ملیں۔ میں نے پہلی چھوڑنے کے سات سال بعد دوسری ملازمت چھتیس برس کی عمر میں شروع کی جب قوانین کے مطابق میں سرکاری نوکری کے لیے نااہل ہو چکا تھا۔ یہ سب وہ نحیف و نزار عورت مصلے پر بیٹھ کر کروا رہی تھی جس کے بارے میں ہم بہن بھائی مذاق کیا کرتے تھے کہ اللہ میاں کے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔
میں نے ایم اے اردو کا امتحان دیا تو نصاب میں عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں بھی شامل تھا۔ شہرت پہلے بھی سنی ہوئی تھی۔ میں نے بھائی سے کہا کہ یہ ناول لا دو۔ پڑھوں تو سہی۔ بھائی ناول لایا تو ماں جی نے کہا کہ میں بھی پڑھوں گی۔ میں نے کہا، پہلے آپ پڑھ لیں۔ ایک دو روز کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کتاب میرے سرھانے پڑی ہے۔ میں نے پوچھا، ماں جی، پڑھ بھی لی؟ کہنے لگیں، نہیں۔ پہلے پڑھی ہوئی ہے۔ ایک چٹی ان پڑھ عورت کا یہ جواب اس کے بظاہر تعلیم یافتہ بیٹے کے لیے خاصا حیران کن تھا۔
ہم نے ماں کا زیور بکتا دیکھا، برتن بکتے دیکھے، ضرورت کی چیزیں بکتی دیکھیں۔ ماں کو گھر میں اپنے جاگنے سے پہلے اور سونے کے بعد تک کام کرتے دیکھا، فاقے دیکھے، زخم اور روگ دیکھے، دوا دارو کی محتاجی دیکھی مگر نہ دیکھا تو کاغذ کا وہ ٹکڑا جو گھر میں آ گیا باہر جاتے نہ دیکھا۔ ٹکے ٹکے کی چیزیں بک گئیں، دس دس روپے کا قرض لینا پڑ گیا مگر مجال ہے کہ ایک کتاب کسی کو پیسوں کے عوض دی ہو یا دینے دی ہو۔ سولہ سترہ سال پہلے انٹرنیٹ لگوایا تو اماں کو بتایا کہ پڑھائی کے لیے ضروری ہے۔ بس پھر کھانے کو کچھ تھا یا نہ تھا، انٹرنیٹ کا بل ضرور نکلا۔
چھوٹے بھائی نے چھ ماہ سے چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی سنبھال لی تھی۔ صبح دوپہر شام امی کی خدمت میں حاضر تھا۔ آخری تین چار دن میں سونے اور کھانے پینے سے بھی بے نیاز ہو گیا۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ مالک، میرے بھائی کے لیے میری ماں کو جیتا رکھ۔ مگر مالک کی مرضی۔ مجھے اندیشہ تھا کہ بھائی پاگل ہو جائے گا۔ مگر بھائی ٹھیک ہے۔ مالک کا کرم۔
باتیں بہت ہیں۔ مگر کیا کریں؟ بس سوچتا ہوں کہ ابو امی کیا اس جہان میں خوش ہوں گے؟ ہمارے بغیر؟