عرفیؔ کا ایک شعر ہے:
برو اے عقل و منہ منطق و حکمت درپیش
کہ مرا نسخۂ غم ہائے فلاں درپیش است
یعنی اے عقل،جا! میرے آگے منطقیں اور فلسفے نہ دھر کہ کسی کے دکھوں کا طومار میرے سامنے ہے۔ یہ عقلی علوم سے انسان کی شکایت کا کلاسیک اظہار ہے۔ بھوک، بےبسی، بیماری، نفرت، تذلیل، تنہائی، بےوفائی، ہجر، ظلم، وحشت، خوف، جہالت، جبر، نامرادی، موت، زمینی اور آسمانی آفات، الغرض کسی بھی دکھ کا حقیقی مداوا انسان کی عقل تلاش نہیں کر سکی۔ اس نے فقط ہمیں بہلانے کے لیے کچھ کھلونے دے دیے ہیں جو اچھل اچھل کر، مٹک مٹک کر، چمک چمک کر، مہک مہک کر، ناچ ناچ کر، گا گا کر اور لہک لہک کر ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ حالانکہ سب اچھا نہیں ہے۔ کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ دنیا رہنے کے لیے ایک کربناک جگہ ہے۔ ہمیں آج بھی مقسوم سے خوشیوں کا اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا شاید ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کو ملتا تھا۔ غریبوں کی جھونپڑیوں میں بھی سکھ کی سانسیں اتنی ہی گنی ہوئی ہیں جتنی سیلیکون ویلی (Silicon Valley) کے کاخ و کو میں۔ اس سے لگتا ہے کہ سائنس جھوٹ بولتی ہے۔ دھوکا دیتی ہے۔ یہ کوئی دکھ سچ مچ دور نہیں کر سکتی۔ بس مداری کی طرح تماشا لگا سکتی ہے۔ یا کہنا چاہیے کہ مولوی، پنڈت اور پادری کی طرح۔ وہ بھی یہی جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ان کے نظامِ حیات میں دنیا جنت بن سکتی ہے۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ انبیاؑ نے جنتیں ترکے میں نہیں چھوڑیں۔ دنیا ہمیشہ سے ایسی ہی تھی اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ گیتا سے توریت تک اور انجیل سے قرآن تک سچے مذہب کا درس یہی ہے کہ یہ دار الامتحان ہے۔ یہاں دائمی سکھ نہیں مل سکتا۔ دائمی سکھ اگلی دنیا میں ہے اور اس کے لیے ہے جو اس دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق جیتا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ دنیا کو جنت بنانے کا وعدہ کرنے والے سب دھوکے باز ہیں۔ پھر چاہے وہ سائنس دان ہوں، سیاست دان یا مذہبی علما۔