خدا فروشی کہنے کو تو چند حروف کا چھوٹا سا ایک مجموعہ ہے جسے ہم آدھے ثانیے سے بھی کم وقت میں ادا کر کے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ مگر اپنی معنویت کے اعتبار سے یہ لفظ انسانی اعمال کے ایک ناقابلِ تصور حد تک وسیع حصے کو محیط ہے۔ معاشرہ ہماری ایک مسلمہ حیثیت یعنی خدا پرستی پر بھروسا کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اکثر اعمال کو اس حیثیت اور مقام کے اعتبار سے بجا لائیں گے۔ اس صورتِ حال میں جبکہ ہم معاشرے کو اپنے اہلِ ایمان ہونے کا بھروسا دلا چکے ہوتے ہیں، ہم سے سرزد ہونے والی ہر برائی اور نادانی خدا فروشی کے زمرے میں آنے لگتی ہے۔ لوگ ہماری بری باتوں اور کاموں کو ہمارے بظاہر خدا پرستانہ تاثر سے دھوکا کھا کر اعتبار کے لائق خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک محتسبِ اعلیٰ یعنی خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے اعمال کی اچھائی اور برائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم بددیانتی وغیرہ سے ہر ممکن اجتناب کریں گے۔ دوسری جانب ہم خدا کے پاک نام کی قیمت پر نفس کی خریداریوں میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ رفتہ رفتہ خدا فروشی ہمارے لیے عین خدا پرستی کے مترادف ہو جاتی ہے۔
کسی شخص کو فریب دینے میں ہمیں دقت کا سامنا ہے، ہم خدا کی قسمیں پھانک کر اپنی آواز میں اثر پیدا کریں گے۔ کوئی ہماری بے ایمانیوں پر معترض ہے، ہم جھٹ قرآن کو بیچ میں لا کھڑا کریں گے۔ رسول صلعم کی قسمیں کھائیں گے، پنجتن پاک کے واسطے دیں گے، اپنے نادیدہ ایمان سے سند لائیں گے۔ یہ سب صورتیں بنیادی طور پر خدا کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ گویا خدا، اس کا نازل کردہ دین اور اس کی برگزیدہ ہستیاں اس قدر بے وقعت اور جامد ہیں کہ ہم انھیں جب چاہیں، جہاں اور جس طرح چاہیں،اپنے استعمال میں ڈھال لیں۔ صاحبو، یہ وہ شرم ناک منظر ہے جس میں انسان اپنی ذات کی حقارت اور بے بضاعتی کو بھول کر اپنے خدا کو رسوا کرنے کی مذموم جدوجہد میں مصروف نظر آتا ہے۔
خدا اور ایمان سے کھیلنے کی یہ صورت تو عام ہیں، ان کے علاوہ ایک خاص صورت بھی معاشرے کے ایک نمایاں طبقے میں رنگ دکھاتی ہے۔ خدا فروشی کی یہ اختصاصی شکل بلا تکلف پیشہ ورانہ قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے صورت گروں میں آپ کو ملاؤں، پادریوں، پنڈتوں، گروؤں اور ربیوں وغیرہ کی سی تقدس مآب شخصیات سے واسطہ پڑے گا۔ یہ وہ خدا کے بندے ہیں جن کے اعمال تو ایک طرف، انداز و اطوار تک ان کے پیشہ ور ہونے کی چغلی کھاتے ہیں۔
خدا فروشوں کا یہ برگزیدہ گروہ شبانہ روز جن مساعی میں اپنی توانائیاں صرف کرتا ہے، ان کا مدعا یہ ثابت کر دکھانا ہوتا ہے کہ ان کے عقائد و نظریات کو خدا کی بنفسِ نفیس پشت پناہی اور تائید حاصل ہے اور ان کا مجوزہ طرزِ حیات ہی دراصل فوزِ عظیم کا صراطِ مستقیم ہے۔ اور یہ کہ خدا نے ان کے پیروؤں کے علاوہ دیگر تمام انسانوں کو جنت سے عاق کر دیا ہے۔ یہ مردانِ دین و دانش آپ پر واضح کر دیتے ہیں ان کے دین یا مسلک کے فلاں فلاں محاسن دوسرے مذاہب میں عنقا ہیں اور ان کے متبعین کو جن معجزات کا پے بہ پے سامنا ہے وہ کہیں اور ڈھونڈے نہیں ملتے۔ نصرانی ثابت کریں گے کہ انجیلِ مقدس کا ماورائے زبان پیغام دنیا کی ہر بولی میں خدا کی پکار ہے۔ سکھ کہیں گے کہ ہمارے گردواروں میں نہ ہندو مردود ہے، نہ مسلمان، نہ نصرانی نہ کوئی اور۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ہندو مسکرا کر آپ کی توجہ اپنی تعلیمات کی معنویت اور قدامت کی طرف منعطف کروائیں گے۔ یہود آپ کو بتائیں گے کہ آلِ اسرائیل دنیا کی متبرک ترین نوع ہے جس کا واضح نشان ان کی وحدانیت ہے۔ مسلمان آپ کو یہ بتا کر حجت تمام کر دیں گے کہ قرآن کی لغت، معانی اور طرزِ کلام معجز ہے۔
تبلیغ کے عملی پہلوؤں کے حوالے سے ایک یہودیوں کے استثنا کے ساتھ تقریباً تمام مذاہب کے اربابِ حل و عقد بیشتر اپنا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو یہ گمان تک نہیں گزرتا کہ اپنی راستی کے ثبوت میں یہ جس قسم کی آفاقیت اور معجزات کو نہایت فخر سے پیش کرتے ہیں، کم و بیش اسی قسم کے اور اسی تعداد میں امتیازات دوسروں کو بھی عطا ہوئے ہیں۔ اگر بصد اصرار توجہ دلائی جائے تو یہ ان مظاہر کو جلد از جلد طاغوت قرار دے کر دوبارہ وہیں مصروف ہونا چاہیں گے جہاں تھے۔ یہ انھیں جھوٹا کہنے میں عار نہیں کرتے، وہ ان کی راہ کی غیر معمولی ترین منازل کو سراب قرار دے دیتے ہیں۔ مکافاتِ عمل کا یہ سلسلہ مکاتبِ فکر کے درمیان بھی جاری رہتا ہے۔ ایک چوٹ لگاتا ہے، دوسرا سہتا ہے۔ پلٹ کر وار کرتا ہے، پہلے کو سہنا پڑتا ہے۔ ہر قوم کا ایک اپنا خدا ہے جس کو اس نے اپنے تئیں مسخر کر رکھا ہے۔ لیکن جو ایک خدا ہے وہ کسی قوم کا نہیں۔ اس کی ایک اپنی جماعت ہے جس کے افراد کو اس نے مسلمانوں، یہودیوں، نصرانیوں، ہندوؤں وغیرہ میں یوں بانٹ دیا ہے جیسے فرشتے عارضِ چمن پہ شبنم بکھیرتے ہیں۔ تھوڑی ناصیۂِ گل پہ، تھوڑی تھوڑی مژۂِ خار پہ بھی!
اس جماعت کے افراد آپ کو کبھی نہیں سمجھائیں گے کہ کون دوزخی اور کون پرلے درجے کا جنتی ہے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حق ادا نہیں ہو سکتا۔ مائے نی میں کنھوں آکھاں کے مصداق بیشتر اوقات آپ سچ بول ہی نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ جو ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ حق کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔ انھیں خبر ہے کہ ان پر کسی کا بوجھ نہیں۔ اور ان کا بوجھ کسی پر نہیں۔ سو وہ اپنے بار کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ جب کبھی اس بوجھ کی تکان اترتی ہے جسے پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کیا تھا، تو ہمراہیوں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ مگر اپنی رسی تھامے رہتے ہیں۔ کسی سے دست و گریباں نہیں ہوتے تا کہ ہاتھ وہیں رہیں جہاں ہونے چاہییں۔