میں نے 2003ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھا۔ 850 میں سے میرے 732 نمبر آئے تھے اور میں تحصیل میں اول آیا تھا۔ بورڈ میں پہلے نمبر پر آنے والے نے غالباً 770 یا 780 کے آس پاس نمبر حاصل کیے تھے۔ چند برس کے بعد لڑکے لڑکیاں 800 کا ہندسہ بھی عبور کرنے لگے جو ہمارے دور میں ایک ناقابلِ تصور ہدف سمجھا جاتا تھا۔ یہ پرویز مشرف کا دورِ اقتدار تھا اور اگر میں بھولتا نہیں تو ڈاکٹر عطاء الرحمن یا زبیدہ جلال وزیرِ تعلیم تھیں۔ حکومت امتیازی نمبر لینے والے بچوں پر بہت توجہ دے رہی تھی اور وہ بڑی عزت پاتے تھے۔ میں تب تک بی اے کر کے روزگار کے مسائل میں الجھ چکا تھا۔ پے در پے مشکلات سے میری عزتِ نفس خاصی مجروح ہوئی تھی اور مجھے لگنے لگا تھا کہ دنیا بہت تیز اور لوگ بہت قابل ہیں۔
میرا ماتھا تب ٹھنکا جب اسی امتحان میں سوا آٹھ سو کے قریب نمبروں کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ تھوڑی تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ ہو کیا رہا ہے۔
ایک چیز ہے جسے انگریزی میں گریڈ انفلیشن (grade inflation) کہتے ہیں۔ اردو میں نمبروں کی افراط کہہ لیجیے۔ یہ مسئلہ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔ ہمارے ہاں کافی زیادہ ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ کم قابلیت کے لوگوں کو اعلیٰ یا اوسط قابلیت کے لوگوں کو بہت اعلیٰ نمبر دے دیے جاتے ہیں۔ موجودہ امتحانی نظام طلبہ کو اتنی رعایات دے رہا ہے جتنی پہلے نہیں دی جاتی تھیں۔ معروضی پرچے اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ اس میں صحیح جواب کی نشاندہی سے آپ کو مکمل نمبر دے دیے جاتے ہیں۔ اب بظاہر آپ نے امتحان نہایت اچھے درجے میں پاس کر لیا ہے مگر یہ دراصل آپ کی سمجھ کی بجائے یادداشت کا امتحان تھا۔ روایتی موضوعی امتحانات میں حافظے کے ساتھ ساتھ آپ کے فہم کی بھی پڑتال کی جاتی تھی۔ اب یہ تکلف نہیں کیا جاتا۔
برطانیہ کا تقریباً ایک صدی پہلے کا آٹھویں جماعت کا ایک پرچہ نظر سے گزرا جس کی بابت کہا گیا تھا کہ آج بارھویں جماعت کا بچہ اسے حل نہیں کر سکتا۔ یعنی آج آٹھویں جماعت کا امتحان سو سال پہلے کی نسبت بہت آسان ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سو سال پہلے امتحان پاس کرنے والا بچہ کبھی سو فیصد نمبر نہیں لے سکتا تھا مگر آج کا بچہ پورے نمبروں سے کامیاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تعلیم بہت ترقی کر گئی ہے مگر غور کیجیے تو یہ بہت بڑا فریب ہے۔
نمبروں کی اس افراط کا ایک دلچسپ نتیجہ نکلا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے والے امیدواروں کی توقیر میں اضافہ ہوتا۔ مگر ہوا یہ کہ شبہات پیدا ہوئے اور بجا طور پر ہوئے۔ لہٰذا آج دیکھنے میں آتا ہے کہ جامعات کی عالمی درجہ بندی محض تعلیمی سرگرمیوں کی بنیاد پر نہیں کی جاتی بلکہ یہ بھی ملاحظہ کیا جاتا ہے کہ کسی جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ عملی زندگی میں کاروبار یا ملازمت میں کس طرح کی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی خارجی تصدیق ہے کہ آیا واقعی طلبہ نے کچھ سیکھا ہے یا محض رٹے کے بل بوتے پر خود کو اور دوسروں کو اپنی قابلیت کے دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے زیرِ بحث بگاڑ میں ایک نئی شدت پیدا ہوئی ہے۔ وبا کے سبب اکثر اداروں نے آن لائن تعلیم سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتائج تو آپ آنے والے ادوار میں دیکھیں گے مگر پاکستان کے حالات اس حوالے سے پہلے بھی کچھ اچھے نہیں تھے۔ میں ایک امیدوار سے واقف ہوں جس نے چند برس پہلے ایک معتبر آن لائن یونیورسٹی میں ایک پرچہ دیے بغیر ہی ڈگری لے لی تھی۔ پھر اسی ادارے نے کچھ ایسے طلبہ کو کارکردگی کی بنیاد پر وظائف بھی دیے جنھیں آج بھی اپنے مضمون میں کچھ آتا جاتا نہیں۔
کل خبر ملی کہ پاکستان میں خیبر پختونخوا کی ایک طالبہ نے انٹر میں صد فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔ میں اس بچی کی لیاقت پر کوئی تبصرہ تو نہیں کر سکتا مگر یہ ضرور چاہوں گا کہ اہلِ وطن ایسے بچوں کو یاد رکھیں۔ اور دیکھتے رہیں کہ اگلے دس پندرہ برس میں وہ اس غیر معمولی کارکردگی کا بھرم رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اصولاً انھیں کسی میدان میں کم از کم پاکستان کی سطح پر اول درجے کے ماہرین میں شمار ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور فی الحقیقت اکثر ایسا نہیں ہوتا تو اپنے بچوں کو نمبروں کی اس بے معنی دوڑ میں شریک ہونے سے روک دینا چاہیے۔ یاد رکھیے۔ آپ کے بچے سو سال بھی محنت کریں تو دس ہزار روپے کے ایک کمپیوٹر جتنی معلومات حفظ نہیں کر سکتے۔ اور دس ہزار روپے کا کمپیوٹر آج کی دنیا میں ایک بے وقعت اور از کار رفتہ شے ہے۔ تعلیمی ادارے پیسا چھاپنے کے لیے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ یادداشت کے یہ مقابلے زندگی میں بچوں کے کچھ کام نہیں آ سکتے جبکہ یاد رکھنے کی ضرورت ہی ٹیکنالوجی ختم کرتی جا رہی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ موجودہ نظامِ تعلیم کا مقاطعہ کر دینا چاہیے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ کسی کو اس سے بڑی بڑی امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں۔