کسی کے بام پہ آ کر مچل گیا سورج
کسی کی سرخئ عارض سے جل گیا سورج
دہک رہی ہے ابھی تک ستارے بن بن کر
جو مونگ رات کے سینے پہ دل گیا سورج
ترے جمال کے مانند سرخ رو ہو کر
ترے شباب کے مانند ڈھل گیا سورج
تمھاری زلف کی شب پر برس پڑیں آنکھیں
کنارِ شام میں آ کر پگھل گیا سورج
سنا ہے شہر کو دوزخ بنانے سے پہلے
ترے دریچے پہ کرنوں کے بل گیا سورج
وہ جن کے صحن کو پردہ ہے روشنی سے بہت
انھی کی چھت پہ بہت آگ اگل گیا سورج
تمام شہر میں صحرا کو پوچھتا آیا
غریب خانے پہ آ کر بہل گیا سورج
شبِ عدم ہی سے راحیلؔ دوستی کر لو
یہاں تو آج گیا ورنہ کل گیا سورج