ضبط مشکل میں ہے عشق اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا پھر بھی تمنا دل میں ہے
کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے
جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے غافلو
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے
انتظارِ وصل میں ہے کیا مزہ مت پوچھیے
پوچھیے مت کیا مزہ اس سعیِ لاحاصل میں ہے
خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے
نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے”