میرے طبیب کی قضا میرے سرھانے آ گئی
چارہ گرانِ عشق کی عقل ٹھکانے آ گئی
رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد آگ لگانے آ گئی
بندہ نواز کیا کروں مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی
جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی
خاک ہوا تو دیکھیے خاک پہ کیا کرم ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی
موجِ وصال کی قسم اوجِ خیال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی