جہاں نیک نامی کی حد ہو گئی
سمجھ، تشنہ کامی کی حد ہو گئی
روا نا روا میں پھنسے رہ گئے
غلامو! غلامی کی حد ہو گئی
اُدھر ذرہ ذرہ ہوا آفتاب
اِدھر ناتمامی کی حد ہو گئی
وہی ایک خامی جنوں کی رہی
اور اس ایک خامی کی حد ہو گئی
فغاں قریہ قریہ، غزل شہر شہر
پریشاں کلامی کی حد ہو گئی
صبا ہو گئی قاصدوں میں شمار
شگفتہ پیامی کی حد ہو گئی
بہت راہ دیکھا کیے منتظر
تری خوش خرامی کی حد ہو گئی
خفا کس سے راحیلؔ صاحب نہیں؟
مزاجِ گرامی کی حد ہو گئی
پس نوشت: یہ غزل زار میں شامل تھی اور نظر ثانی کے بعد دوبارہ یہاں پیش کی گئی ہے۔