قلعہ وہ کیا ہے ضرورت ہو جسے دربان کی
وہ محبت خاک جو محتاج ہو پیمان کی
شیخ صاحب لطف تو جب ہے کہ اس کے سامنے
میں خدا لگتی کہوں تم بھی کہو ایمان کی
نام لیوا تو محبت کے بہت مل جائیں گے
اس سے پوچھو یوں نثار اس پر کسی نے جان کی
حسن غارت گر سہی دل کو مگر خوش کر گیا
عشق مشکل ہے پر اس نے زندگی آسان کی
تجھ سے پہلے لٹ چکا تھا وقت کے ہاتھوں بھی میں
زندگی ہی رہ گئی تھی سو وہ اب قربان کی
آنسوؤں سے انقلابوں کی امیدیں ہیں مجھے
کچھ جھلک دیکھی ہے میں نے قطرے میں طوفان کی
پہلے تو راحیلؔ صاحب دل پہ سب چوٹیں سہیں
پھر جتا کے قدر کھوئی آپ نے احسان کی