جو بھی معلوم ہوا دیر سے معلوم ہوا
دیر کا بھید سوا دیر سے معلوم ہوا
علم والوں کو ذرا دیر سے معلوم ہوا
بےخبر رہ گئے یا دیر سے معلوم ہوا
عشق کو رکھے خدا علم سے اب کام نہیں
تیرے کوچے کا پتا دیر سے معلوم ہوا
خیرہ آنکھیں تو تجلی سے بہت جلد ہوئیں
کیا رہا کیا نہ رہا دیر سے معلوم ہوا
روگ بھی پالے مسیحا سے بھی یاری گانٹھی
یوں نہیں ہوتی شفا دیر سے معلوم ہوا
ایسے بھی ہوں گے رقیب اپنے کسے تھا معلوم
خود پہ ہیں خود بھی فدا دیر سے معلوم ہوا
ہم نے جانا کہ خطا عشق سے ہو سکتی ہے
تھی یہی ایک خطا دیر سے معلوم ہوا
شوق میں بت شکنی کے رہے کافر تاعمر
تو خدا تھا بخدا دیر سے معلوم ہوا
رہ گئیں کیسی کھلی کی کھلی آنکھیں دمِ مرگ
حاصلِ عمر بھی کیا دیر سے معلوم ہوا
ہم تو سمجھا کیے راحیلؔ کو شاعر کوئی عام
آدمی کام کا تھا دیر سے معلوم ہوا