سمجھے گا کیا سمجھ کر جو دیکھ کر نہ سمجھا
ہستی کو فلسفی نے سمجھا مگر نہ سمجھا
دل نے کبھی ضروری زادِ سفر نہ سمجھا
صحرا کو کیا سمجھتا جب گھر کو گھر نہ سمجھا
سمجھا کہ کچھ نہ سمجھا کچھ بھی نہ ورنہ سمجھا
عاقل ہے عقل کو بھی جو معتبر نہ سمجھا
صورت بتا رہی ہے جو تو چھپا رہا ہے
میں سب سمجھ رہا ہوں اے نامہ بر نہ سمجھا
اکیسویں صدی ہے اور آدمی دکھی ہے
لعنت ہے اس سمجھ پر اب بھی اگر نہ سمجھا
اب کیا گلہ کہ کوئی اہلِ نظر نہیں ہے
اہلِ نظر کو تو نے اہلِ نظر نہ سمجھا
پہنچی تو تھی حدیثِ حیرت شعور تک بھی
وہ بے خبر نہ جانا وہ بے خبر نہ سمجھا
کچھ ناسمجھ تھے ہم بھی کچھ وہ بھی تھا سمجھدار
سمجھاتے رہ گئے ہم دل عمر بھر نہ سمجھا
راحیلؔ شاعری میں نشتر سی بن گئی ہیں
جن خود کلامیوں کو تم نے ہنر نہ سمجھا