عبرت کا ہر نشان خدا کا نشان ہے
حق تک پہنچ رہا ہو تو حق ہر گمان ہے
چلتی ہوئی زبان سے دعوے کی شان ہے
اس عہد کا بیانیہ زورِ بیان ہے
پہلے تو داستانِ جنوں عام ہو گئی
پھر جو ہوا وہ ایک الگ داستان ہے
نظریں جھکائیے تو ستارے ہیں پاؤں میں
سجدے میں جائیے تو زمین آسمان ہے
ماڑے پہ ہے گرفت بھی ماڑی نصیب کی
کڑیل کا امتحان کڑا امتحان ہے
سانسیں ہیں یا اجل کی کٹاریں ہیں تیز تیز
آفاق ہیں کہ تیرِ قضا کی کمان ہے
دکھ کا نہیں ہے دکھ ہمیں ڈر کا نہیں ہے ڈر
ہم کو جو مان ہے وہ نہ ہونے کا مان ہے
راحیلؔ قاتلوں کو یہاں علم ہی نہیں
مقتل کی آن بان مری آن بان ہے