دعا سلام بہت ہے کلام رہنے دے
جو لوگ عام ہیں ان کو تو عام رہنے دے
ارادہ باندھ غمِ انتظام رہنے دے
خدا کے ذمے بھی دو چار کام رہنے دے
جہانِ شوق کی تعمیر حسرتیں کر لیں
کچھ اور دیر انھیں ناتمام رہنے دے
ستم نہ کر تو کسی اور پر نہ کر صیاد
جو آ گئے ہیں انھیں زیرِ دام رہنے دے
عظیم ذہن کا ہے حافظہ عظیم ترین
مجال ہے کہ خدا کا بھی نام رہنے دے
تکلفات مساجد میں اچھے لگتے ہیں
سجودِ شوق کو بےاہتمام رہنے دے
مجھے خرید مجھے بیچ لیکن ایک ہی ہاتھ
غلام جس کا ہوں اس کا غلام رہنے دے
حقیقتوں کی حقیقت بھی کچھ نہیں کمبخت
خیالِ خام کو راحیلؔ خام رہنے دے