ٹھہر گئے مگر آوارگی نہیں چھوڑی
زمانہ چھوڑ دیا وہ گلی نہیں چھوڑی
تمھارے بعد تمھاری کمی نہیں چھوڑی
فلک نے طرزِ ستم ایک بھی نہیں چھوڑی
زمانے والے اسے بےخودی سمجھتے ہیں
وہ اک نماز جو ہم نے کبھی نہیں چھوڑی
ترے حضور نے دیوانہ کر دیا ایسا
ترے غیاب میں بھی بندگی نہیں چھوڑی
چڑھا وہ دن کہ خمار اور میکشوں کو چڑھا
شراب رات کی چھوڑی ہوئی نہیں چھوڑی
ترے کرم نے جسے رشکِ دو جہان کیا
ترے غضب نے بھی بستی وہی نہیں چھوڑی
زبان گنگ ہوئی تو دل اور بھی دھڑکا
غزل کہی نہ کہی عاشقی نہیں چھوڑی
سناؤ حال اگر کوئی حال ہے راحیلؔ
سنا ہے عشق نے حسرت کوئی نہیں چھوڑی