تیرے ہونٹوں کی طرح کھل کے گلابوں نے کہا
تو نے کیوں مان لیا تجھ سے جو خوابوں نے کہا
ایسے پرسش نہ کرو میں کوئی پیاسا بھی نہ تھا
مجھ سے پینے کے لیے آپ شرابوں نے کہا
حسن کا فلسفہ گو جانتے تم بھی ہو مگر
ہم نے چہروں سے پڑھا تم سے کتابوں نے کہا
میں خرابوں میں تری بزم سے کم خوش تو نہ تھا
میں تری بزم سے نکلا تو خرابوں نے کہا
عقل کہتی تو کہاں ماننے والے تھے ہم
دل کو سادہ ترے رنگین حجابوں نے کہا
تیری آنکھوں کی قسم لفظ بہانہ ہی تو تھے
نہ سوالوں نے سنا کچھ نہ جوابوں نے کہا
یہ کیا ہم نے کہ راحیلؔ قلم توڑ دیا
شور کو شعر کہا اور نصابوں نے کہا