ہے تاک میں عدو کہ ترے نیمجاں گریں
گویا زمیں کی گود میں اب آسماں گریں
ہم کیوں خدا نکردہ تمھیں آئنہ دکھائیں
تم پر خدا نخواستہ کیوں بجلیاں گریں
سب اہتمام جانیے اگلی بہار کا
طوفان آئیں پھول جھڑیں آشیاں گریں
شاید تبھی بہار ہو ہستی کے باغ میں
جھولی میں جب فنا کی زمان و مکاں گریں
رستہ تمام سجدہگہِ خاص و عام ہے
ہم رہروانِ خستہ گریں تو کہاں گریں
فریاد لازمی ہے اثر گل پہ ہو نہ ہو
صیاد کے تو ہاتھ سے تیر و کماں گریں
مجھ کو تو پتھروں سے پرانا ہے واسطہ
ٹھوکر کہیں نہ کھا کے مرے مہرباں گریں
کچھ ہوش ہی نہیں ہے انھیں ورنہ ایک دم
قدموں میں اہلِ دل کے سب آتشفشاں گریں
اب اور کیا ہے دیکھنے والوں کو دیکھنا
راحیلؔ آؤ سجدے میں ہم بھی میاں گریں