دل کی باتوں میں ذرا سی بھی حقیقت نہیں کیا
وہ جو کہتے ہیں کہ نفرت ہے تو نفرت نہیں کیا
انھیں شکوے ہیں ہمیں کوئی شکایت نہیں کیا
ہائے یہ رنج یہی رنج محبت نہیں کیا
کیا ضروری ہے کہ صحراؤں میں دیں دادِ جنوں
ہم ترے ہجر میں زندہ ہیں یہ ہمت نہیں کیا
اب تو دنیا کی زباں پر ہے فسانہ میرا
اگر اب بھی نہ سنیں وہ تو قیامت نہیں کیا
جلنے دے عشق کی تربت پہ امیدوں کے چراغ
اے دلِ زار یہ آثار غنیمت نہیں کیا
مری فطرت تو کبھی ظلم سے چوکی ہی نہیں
رحم کر رحم الٰہی، تری سنت نہیں کیا
کچھ تو راحیلؔ سرِ کوئے بتاں نذر کرو
دل نہیں ہے نہ سہی سر بھی سلامت نہیں کیا