دیکھتے دیکھتے ہر آس نے دم توڑ دیا
جس نے لکھا ہے نصیب اس نے قلم توڑ دیا
اب ذرا سامنے خود آ کہ تجھے پوجوں میں
تیرے غازی نے تو پتھر کا صنم توڑ دیا
میں نے مر مر کے اسے زندہ رکھا ہے دل میں
جس نے امید کو دے دے کے جنم توڑ دیا
ہم نے رو رو کے لیا ترکِ محبت کا عہد
دل نے کھا کھا کے محبت کی قسم توڑ دیا
باعثِ حسرت و غم ترکِ تعلق ہے مجھے
تو نے کیوں سلسلۂِ حسرت و غم توڑ دیا
ضبط کے زور پہ ہستی کی کھڑی ہے دیوار
جس نے سر پھوڑ لیا اس نے بھرم توڑ دیا
کیا ہوا ٹوٹ گیا دل اگر اپنا راحیلؔ
کون سا اس نے کوئی ساغرِ جم توڑ دیا